Islam Times:
2025-07-06@17:04:13 GMT

میدان جنگ سے میدان سیاست تک کامیابی و کامرانی

اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT

میدان جنگ سے میدان سیاست تک کامیابی و کامرانی

اسلام ٹائمز: لبنان مختلف اقوام، مذاہب اور سیاسی گروہوں کا پیچیدہ مرکب ہے اور مغربی ایشیا کا ایسا ملک ہے کہاں سب سے زیادہ ثقافتی تنوع پایا جاتا ہے۔ لبنان میں شیعہ، سنی، مارونی مسیحی، دروزی اور دیگر مذہبی اقلیتیں پائی جاتی ہیں جن میں سے ہر ایک خاص تشخص کی حامل ہے۔ ایسے حالات میں حزب اللہ لبنان نے اس سماجی حقیقت کو اچھی طرح درک کرتے ہوئے نہ صرف اہل تشیع مسلمانوں بلکہ تمام لبنانی شہریوں اور قومی سالمیت کے دفاع کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا ہے۔ حزب اللہ نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلامی مزاحمت ایک قومی ادارہ ہے اور تمام تر مذہبی، سیاسی اور قومی تقسیم بندیوں سے بالاتر ہے۔ حزب اللہ لبنان نے مزاحمتی نظریے اور سیاسی افادیت میں امتزاج کے ذریعے ملک کے تمام گروہوں سے رابطہ برقرار کر رکھا ہے اور ان کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے میں مصروف ہے۔ تحریر: علی احمدی
 
لبنان کی وزارت داخلہ نے حال ہی میں منعقدہ لوکل الیکشن کے نتائج کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے بیانیے میں کہا گیا ہے: اس الیکشن میں ٹرن آوٹ یوں رہا: بیروت 20 فیصد، بقاع 43 فیصد، ہرمل 90 فیصد اور بعلبک 47 فیصد۔ العہد نیوز ویب سائٹ نے بھی لبنان کے لوکل الیکشن کے ابتدائی نتائج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بقاع صوبے کے تمام حلقوں میں حزب اللہ لبنان سے وابستہ "ترقی اور وفاداری" اتحاد کی فتح کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح صوبہ ہرمل اور زحلہ علاقے کے دیہاتوں میں بھی ترقی اور وفاداری اتحاد کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ اس اتحاد میں امل تحریک اور مائیکل عون کی قومی آزاد تحریک بھی شامل ہیں۔ ان علاقوں میں سمیر جعجع کی پارٹی کے امیدواروں کو حزب اللہ لبنان کے مقابلے میں شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
 
لبنانی اخبار الاخبار کے مطابق حزب اللہ لبنان اور امل تحریک نے بعلبک اور اس کے مضافات میں اسلامی مزاحمت کے دشمنوں کو الیکشن میں شدید شکست دی ہے۔ بقاع میں حزب اللہ لبنان کے مسئول حسین النمر نے اس بارے میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ترقی اور وفاداری اتحاد کی لسٹ میں شامل تمام امیدوار کامیاب ہو گئے ہیں۔ المنار چینل کی رپورٹ کے مطابق اس لسٹ میں شامل امیدواروں نے 6 ہزار ووٹوں کی لیڈ سے تمام نشستیں اپنے نام کر لی ہیں۔
دشمنوں کی سازشیں ناکام ہو گئیں
لبنان کے حالیہ لوکل الیکشن میں حزب اللہ لبنان اور اس کے اتحادیوں نے ایک بار پھر دشمنوں کی سازشوں اور منصوبوں کو ناکام بنا دیا ہے اور شاندار فتح حاصل کر لی ہے۔ اسلامی مزاحمت کے دشمن بعض غیر ملکی قوتوں کی حمایت سے لبنانی عوام میں اختلاف اور تفرقہ ڈال کر حزب اللہ لبنان کو شکست دینے کے درپے تھے لیکن انہیں منہ کی کھانی پڑی ہے۔
 
عوام کی جانب سے الیکشن میں بڑی تعداد میں شرکت اور حزب اللہ لبنان کو ووٹ دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیرونی اور اندرونی سازشیں اسلامی مزاحمت پر عوام کا اعتماد ختم کرنے میں ناکامی کا شکار ہوئی ہیں۔ اس الیکشن میں دشمن کی حکمت عملی مذہبی اور سیاسی اختلافات کو ہوا دے کر اور حزب اللہ لبنان کے خلاف بڑے پیمانے پر منفی پروپیگنڈہ انجام دے کر عوام میں حزب اللہ کی حمایت کم کرنے پر استوار تھی۔ دوسری طرف لبنانی عوام نے اعلی درجہ بصیرت کا مظاہرہ کیا اور ان تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ اس الیکشن کے نتائج نہ صرف حزب اللہ لبنان اور اس کے اتحادیوں کے لیے سیاسی فتح ہیں بلکہ خطے میں امریکی صیہونی منصوبے پر کاری ضرب بھی ہیں۔ اس کامیابی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ لبنان میں اسلامی مزاحمت کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اور دشمن کی سازشیں اسے کمزور نہیں کر سکتیں۔
 
حزب اللہ لبنان کا ناقابل تزلزل چہرہ
جنوبی لبنان اور بقاع کے علاقے میں حزب اللہ لبنان کی مقبولیت کے گہرے تاریخی، سماجی اور سیکورٹی اسباب پائے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ حزب اللہ نے جنوبی لبنان پر صیہونی رژیم کے فوجی قبضے کے بعد 1980ء اور 1990ء کے عشروں میں بے مثال مزاحمت کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں اسرائیل وہاں سے نکل جانے پر مجبور ہو گیا۔ لہذا جنوبی لبنان کے شہریوں کی اکثریت اپنی آزادی اور خودمختاری کو حزب اللہ لبنان کا تحفہ سمجھتے ہیں۔ اس تاریخی کردار نے حزب اللہ لبنان کو قومی سلامتی اور ملکی سالمیت کی علامت بنا دیا ہے۔ مزید برآں، حزب اللہ لبنان نے جنوبی لبنان کے محروم علاقوں میں وسیع سماجی اور فلاحی نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے جن کے ذریعے ضرورت مند شہریوں کی مدد اور دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ حزب اللہ لبنان سے وابستہ اداروں جیسے شہید فاونڈیشن اور جہاد البناء فاونڈیشن عوام کے حقیقی معنوں میں مددگار ہیں۔
 
خون شہداء سے مزاحمت کے درخت کی آبیاری
حزب اللہ لبنان کے اعلی سطحی کمانڈرز جیسے عماد مغنیہ، مصطفی بدرالدین اور دیگر معروف شخصیات کی شہادت نے نہ صرف اس تحریک کو کمزور نہیں کیا بلکہ اسے جہاد اور مزاحمت کا راستہ جاری رکھنے کی زندہ علامت میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان شہداء کے خون نے مقدس آگ کی مانند نئی نسل میں انقلابی جذبہ بھر دیا ہے۔ اسی طرح سید حسن نصراللہ اور شیخ نعیم قاسم کی حکمت آمیز قیادت نیز شہادت پسندانہ مکتب اس بات کا باعث بنی ہے کہ ہر شہید کے خون سے دسیوں نئے مجاہد سامنے آ جائیں۔ آج ہم ایسے مجاہد لبنانی جوانوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو زیادہ مضبوط ارادے اور جذبے سے اسلامی مزاحمت کی صف میں حاضر ہیں۔ شیخ صفی الدین اور دیگر شہداء کمانڈرز نے ایسا ورثہ چھوڑا ہے جو قبرستان میں نہیں بلکہ میدان جنگ اور انقلابی جوانوں کے دلوں میں زندہ ہے۔
 
لبنان میں وحدت کا راز
لبنان مختلف اقوام، مذاہب اور سیاسی گروہوں کا پیچیدہ مرکب ہے اور مغربی ایشیا کا ایسا ملک ہے کہاں سب سے زیادہ ثقافتی تنوع پایا جاتا ہے۔ لبنان میں شیعہ، سنی، مارونی مسیحی، دروزی اور دیگر مذہبی اقلیتیں پائی جاتی ہیں جن میں سے ہر ایک خاص تشخص کی حامل ہے۔ ایسے حالات میں حزب اللہ لبنان نے اس سماجی حقیقت کو اچھی طرح درک کرتے ہوئے نہ صرف اہل تشیع مسلمانوں بلکہ تمام لبنانی شہریوں اور قومی سالمیت کے دفاع کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا ہے۔ حزب اللہ نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلامی مزاحمت ایک قومی ادارہ ہے اور تمام تر مذہبی، سیاسی اور قومی تقسیم بندیوں سے بالاتر ہے۔ حزب اللہ لبنان نے مزاحمتی نظریے اور سیاسی افادیت میں امتزاج کے ذریعے ملک کے تمام گروہوں سے رابطہ برقرار کر رکھا ہے اور ان کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے میں مصروف ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: میں حزب اللہ لبنان حزب اللہ لبنان نے حزب اللہ لبنان کے اسلامی مزاحمت الیکشن میں کرتے ہوئے اور سیاسی لبنان اور اور دیگر اور قومی اور ان دیا ہے ہے اور

پڑھیں:

مزاحمت سے مفاہمت تک

پاکستان کے سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل حمید گل مرحوم کا کسی اخبار کے لیے آخری انٹرویو میں نے کیا تھا۔ صحافتی زندگی میں جن شخصیات نے ذہن پر گہرا نقش چھوڑا ان میں جنرل حمید گل بھی شامل ہیں۔ اس انٹرویو کے دوران انھوں نے بتایا کہ افغان جہاد کا آغاز سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔

یہ بات یقیناً ہمارے لیے کچھ حیرت کا باعث تھی۔ اُن کا کہنا تھا ریاستوں کی بنیادی پالیسیاں شخصیات کی باہمی چپقلش کی نذر نہیں ہوا کرتیں۔ حالانکہ بھٹو صاحب سیاسی اعتبار سے بائیں بازو کے نظریات کی جانب جھکاؤ رکھتے تھے اور بعد میں بائیں بازو سے نظریاتی مطابقت رکھنے والی ملکی سیاسی جماعتوں نے اس جنگ میں افغانستان کے مذہبی عناصر کے خلاف روس نواز طبقوں کی حمایت کی، لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ بھٹو صاحب اور ہمارے ادارے اس بات کو بھانپ چکے تھے کہ افغانستان میں بائیں بازو کی سیاسی قوتوں ’خلق اور پرچم‘ ( پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کے دو دھڑے )کی جانب سے انقلاب ثور کے ذریعے صدر محمد داؤد کا تختہ اُلٹ دیے جانے کے بعد اب پاکستان کی مغربی سرحد پر حالات موافق نہیں رہیں گے۔

سو ہوا بھی یہی، 1979 میں روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوگئیں اور اُس طویل جنگ کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں ہمارا یہ خطہ دہائیوں تک غیر معمولی مشکلات کا شکار رہا۔ جنرل صاحب کا کہنا تھا کہ ہم نے اُسی وقت سے انقلاب مخالف قوتوں کی مدد کا آغاز کر دیا تھا۔ طویل عرصہ تک خانہ جنگی اور بیرونی عسکری مداخلت کا شکار رہنے والے علاقوں میں ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ مار دھاڑ کرنے والے عسکری گروہ ایک دائمی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں، حالانکہ ان کی ضرورت وقتی ہوتی ہے۔ یہی کچھ افغانستان میں بھی ہوا۔

افغانستان میں اُترنے والی عسکری قوتوں نے افغانستان کے ساتھ پاکستان کو بھی اس لیے نشانے پر رکھا کیونکہ ان کے پاکستان کے ساتھ قریبی نسلی تعلق کی بنا پر افغانستان میں جاری تصادم میں پاکستان کا کردار ہمیشہ کلیدی رہا۔ پاکستان کے اثر کو کمزور کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہوئے ریاست مخالف سیاسی اور عسکری سرگرمیوں کو منظم کیا گیا۔ دہشت گردی کے جس طوفان کا پاکستان نے سامنا کیا ہے اور ابھی تک کر رہا ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اس صورتحال کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جب ہم اس جنگ میں اُلجھ گئے تو ہمارے سب دشمن اس میں کود پڑے۔

انھیں یہ نظر آرہا تھا کہ مشکل کے اس دور میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا مقصد زیادہ آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے لہٰذا بھارت نے پہلے سے موجود غیر ریاستی عسکری قوتوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی روش کو نہ صرف یہ کہ جاری رکھا ہوا ہے بلکہ اسے ایک نئی سطح پر پہنچا دیا۔ بھارت نے پوری قوت کے ساتھ صوبائیت اور نسلی منافرت کو ہوا دی۔ پاکستان کے اندر ریاست مخالف تحاریک اور عسکری گروہوں کو منظم کیا اور پوری شدت کے ساتھ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش جاری رکھی۔

اس دوران حالات اس قدر بگڑ چکے تھے کہ پاکستان کے کئی علاقوں میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کے ذریعے ریاستی عملداری کو بحال کرنا پڑا۔ یہ مسلح افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مُنہ بولتا ثبوت ہے کہ مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال کو انتہائی کامیابی کے ساتھ سنبھال لیا گیا۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں دشمن کا ایک اہم ہدف بلوچستان بھی رہا ہے۔ اپنی غیر معمولی جغرافیائی اہمیت کے اعتبار سے یہ صوبہ تمام عالمی طاقتوں کی نظروں میں ہے۔ چین کے ون بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں کلیدی حیثیت کے باعث بین الاقوامی سیاسی کشمکش میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے، لہٰذا اسی تناسب سے یہاں غیر ملکی مداخلت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو بلوچستان میں تخریب کاری پر ہی مامور تھا جو اب پاکستان کی قید میں ہے۔

 اس طرح کی صورتحال میں جہاں عسکری ذرایع استعمال کرکے مقاصد حاصل کرنے پڑتے ہیں وہیں یہ بھی نہایت ضروری ہو جاتا ہے کہ اُن مسائل کا سد باب ہو جن کے باعث ریاست مخالف سرگرمیوں کے لیے افرادی قوت میسر آ رہی ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا عسکری آپریشنز کے ذریعے آپ دشمن کی ایما پر ریاست کے خلاف برسر پیکار جنگجوؤں کا زور تو توڑ سکتے ہیں، ان کے ذہن نہیں بدل سکتے۔ آپریشن ایک فوری خطرے کے تدارک کی سبیل ہے جب کہ قوم کی ذہن سازی ایک ایسا عمل ہے جس کے اثرات اگلی نسلوں تک چلتے ہیں۔ اس عمل کا ہراول دستہ قوم کے دانشور ہوتے ہیں اور ان کے قلم کی تاثیر سے ایسی جوہری تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے جو ’کارواں کے دل میں احساس زباں پیدا کر دے‘۔

گزشتہ دنوں ایک ایسی ہی موثر کوشش میری نظر سے گزری جسے پڑھنے کے بعد شدت سے یہ احساس ہوا کہ اس کتاب کا ذکر جس قدر ہونا چاہیے وہ نہیں ہوسکا۔ یہ کتاب بلوچستان کے ایک ایسے سرکردہ جنگجو کی داستان حیات ہے جس نے ریاست کے خلاف طویل عرصہ تک جنگ لڑی اور پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ اپنے لوگوں کے حالات بدلنے کے لیے دلیل بندوق سے کہیں زیادہ موثر اور کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ کہانی ہے ’میر ہزار خان مری، کی، جن کی زندگی کا بڑا حصہ ریاست کے خلاف لڑتے ہوئے گزرا۔ یہ کہانی اس لیے نہایت اہم ہے کیونکہ اس کے ذریعے اس حقیقت کو ایک ایسے شخص کی نظر سے دیکھا جاسکتا ہے جو خود اس کا حصہ رہا کہ کس طرح عالمی طاقتیں اپنے مقاصد کے لیے لوگوں کو اپنی ہی ریاست کے خلاف استعمال کرتی ہیں۔

دہشت گردی کے اس پیچیدہ منظر نامے میں فرقہ واریت کو بھی استعمال کیا جاتا ہے اور سیاسی وابستگیوں کو بھی۔ بلوچستان میں جس ابتری کا ہمیں سامنا ہے اس میں ریاست کی غلطیاں اور عدم توجہ اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ کتاب ’میر ہزار خان مری: مزاحمت سے مفاہمت تک‘ ، گوکہ بظاہر ایک شخصیت کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے لیکن درحقیقت اس شخصیت کے ذریعے ہم بلوچستان کے اصل مسئلے اور اس کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔

کتاب کے مصنف عمار مسعود کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ یوں تو صحافت سے منسلک ہیں لیکن افسانہ نگاری کا ہُنر اِن کی تحریر کا امتیازی وصف ہے۔ اُن کے تعارف میں ٹیلی ویژن بھی شامل ہے۔ افسانہ نگاری کے علاوہ مضامین بھی لکھتے ہیں اور مضامین کا مجموعہ شایع ہوچکا ہے۔ سیاست پر بھی لکھتے، بولتے ہیں۔ اس کتاب کو تکمیل تک پہنچانے میں ایک اور اہم نام خالد فرید کا ہے جو بلوچستان کے معاملات کی غیر معمولی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ اپنی اہم سرکاری ذمے داریوں کی ادائیگی کے لیے طویل عرصہ بلوچستان میں رہے۔ اس کے علاوہ افغانستان اور ایران میں بھی وقت گزرا۔ ان خدمات کے اعتراف میں اعزازات سے نوازے گئے۔ میر ہزار خان سے ان کا تعلق دوستانہ تھا۔

اس کہانی کی بہت سی خفیہ تفصیلات خالد فرید کی میر ہزار خان مری سے طویل ملاقاتوں کے دوران ہونے والی بات چیت کے توسط سے ہم تک پہنچی ہیں، جب کہ کہانی کے مرکزی کردار کی زندگی کے تمام ادوار سے متعلق تصاویر بھی خالد فرید ہی نے فراہم کی ہیں۔ کتاب میں شامل اہم تفصیلات کو ہم تک پہنچانے میں بیورغ مری نے بھی ہاتھ بٹایا۔ بیورغ، میر ہزار خان کے پوتے ہیں جو تمام عمر اپنے دادا کے ساتھ رہے۔ انھوں نے اس عرصہ میں جو دیکھا اس کو بیان کیا ہے۔

عمار مسود نے اس کتاب کا آغاز ’اعتراف‘ سے کیا ہے۔ اعتراف اس بات کا کہ ملک کے دیگر حصوں کے بسنے والوں نے بلوچستان کو ’یہاں کے لوگوں کو اور ان معاملات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ کتاب کا پہلا باب میر ہزار خان کی وفات کے حالات کا احاطہ کرتا ہے یوں کتاب کا بیانیہ اختتام سے آغاز کی جانب سفر کرتا ہے اور حقیقت ہے بھی یہی کہ بھٹکے ہوؤں کا لوٹ آنا ہی درحقیقت آغاز ہوتا ہے۔

کتاب کا پیش لفظ صدر مملکت آصف علی زرداری جب کہ دیباچہ وزیر اعظم شہباز شریف نے لکھا ہے۔ : وہ کہتے ہیں ’’میری نظر میں میر ہزار خان کی یہ کہانی لائبریریوں کی زینت بننے کے لیے نہیں بلکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر نصاب میں متعارف کرانے کے لیے ہے۔ اس لیے کہ اس میں نوجوانوں کے لیے وہ رہنما اصول موجود ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ملک دشمنوں کی سازشوں کو بروقت سمجھا اور ان کا سدباب کیا جا سکتا ہے‘‘۔ بلوچستان میں جاری بد امنی کو سمجھنے کے لیے اس سے بہتر مواد میری نظر سے نہیں گذرا۔

متعلقہ مضامین

  • ایلون مسک کی سیاست میں باضابطہ انٹری، الیکشن کمیشن میں کاغذات جمع کرادیے
  • اسرائیل کی دھمکیاں قابلِ قبول نہیں، ہتھیار نہیں ڈالیں گے، سربراہ حزب اللہ
  • تمام قیاس آرائیاں ختم، ایران کے سپریم لیڈر جنگ کے بعد منظر عام پر آ گئے
  • میدانِ کربلا کے عظیم شہسوارسیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ
  • مزاحمت سے مفاہمت تک
  • جو بھی اسرائیل کیساتھ تعلقات چاہتا ہے لبنان چھوڑ دے، حزب اللہ
  • خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات کا شیڈول جاری، 21 جولائی کو پولنگ ہوگی
  • سیز فائر، ایران کی نظر آنے والی کامیابی میں وزیراعظم کا اہم کردار، پیچھے وردی بھی ہے: محسن نقوی
  • سیاسی میدان میں نئی انٹری، الیکشن کمیشن نے نئی جماعت رجسٹر کرلی
  • حزب اللہ کے خلاف بحران سازی کی ایک اور کوشش