پاکستان میں سرگرم بھارتی حمایت یافتہ دہشتگردوں کو ’فتنہ الہندوستان‘قرار دینے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
حکومت نے تمام وزارتوں اور سرکاری محکموں کو احکامات جاری کیے ہیں کہ بلوچستان میں فعال کالعدم اور دہشت گرد تنظیموں کے لیے ’فتنۃ الہندوستان‘ استعمال کیا جائے، یہ فیصلہ مذکورہ تنظیموں کے بھارت کے ساتھ ناقابل تردید تعلق کے شواہد سامنے آنے پر کیا گیا ہے۔
پاکستان میں جاری دہشتگردی خصوصاً بلوچستان میں ہونے والے حملوں کے پیچھے بھارت کی ریاستی سرپرستی کا پردہ پہلے چاک کیا جاچکا ہے، سیکیورٹی ذرائع اور حکومتی بیانات کے مطابق بھارت نہ صرف کالعدم تنظیموں کو مالی معاونت فراہم کر رہا ہے بلکہ ان کے سرغنہ بھارت کا باقاعدگی سے دورہ کرتے رہے ہیں جہاں انہیں لاجسٹک اور آپریشنل معاونت کے ساتھ ساتھ طبی سہولیات بھی فراہم کی جاتی رہی ہیں۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے سابق سرغنہ اسلم اچھو نے 2016 میں افغان پاسپورٹ اور جعلی نام سے بھارت کا سفر کیا، جہاں اس نے نہ صرف بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے اہلکاروں سے ملاقاتیں کیں بلکہ دہلی کے ایک اسپتال میں زیر علاج بھی رہا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت خوارج اور بلوچستان میں سرگرم دہشتگردوں کا سرپرست ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
اسلم اچھو 2018 میں کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا جبکہ اس کا بیٹا دالبندین میں چینی انجینئروں پر خودکش حملے میں ملوث رہا۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق بی ایل اے کے موجودہ سرغنہ بشیر زیب نے بھی 2017 میں بھارت کا دورہ کیا اور جعلی شناخت ’گل آغا‘ کے تحت افغان پاسپورٹ پر سفر کرتا رہا۔ بشیر زیب بلوچستان اور کراچی میں ہونے والے متعدد دہشتگرد حملوں میں ملوث رہا ہے، جن میں جعفر ایکسپریس پر حملہ اور چینی اہلکاروں پر حملہ شامل ہیں۔
واضح رہے کہ بلوچ نیشنل آرمی کے سرغنہ گلزار امام عرف شمبے نے بھی بھارت میں زیر علاج رہنے اور وہاں سے سہولت کاری حاصل کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق بھارت پاکستان میں دہشتگردی کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کررہا ہے اور بھارتی فوج کے حاضر سروس افسران اس عمل میں ملوث ہیں۔
مزید پڑھیں: کیا پاک بھارت تنازع کے بعد بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات میں تیزی ہوئی ہے؟
سیکیورٹی اداروں کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ بھارت میں 21 سے زائد دہشتگردوں کے بیس کیمپس چلا رہی ہے، جنہیں پاکستان میں تخریب کاری کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔ ان کیمپوں کا مرکزی مرکز بھارتی ریاست راجستھان میں بتایا جاتا ہے، جہاں سے سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے خصوصی سیل کام کررہا ہے۔
حالیہ برسوں میں بلوچستان میں ہونے والے بڑے حملوں کے بعد بھی بھارتی مداخلت کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ اگست 2024 میں مستونگ، قلات، بولان، موسی خیل اور لسبیلہ میں عسکری تنصیبات اور شہریوں پر حملے ہوئے، جن کے پیچھے حکومت نے بھارتی سرپرستی کی نشاندہی کی تھی۔
اسی طرح مارچ 2025 میں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ اور ستمبر 2023 میں مستونگ میں 12 ربیع الاول کے جلوس پر ہونے والے دھماکے کی تحقیقات میں بھی بھارتی خفیہ ایجنسی را کے کردار کے شواہد سامنے آئے۔
مزید پڑھیں: امن ہماری کمزوری نہیں، اراکین بلوچستان اسمبلی کی بھارتی جارحیت کی شدید مذمت
وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور وزیر دفاع خواجہ آصف بھی اس بات کی تصدیق کرچکے ہیں کہ بھارت بلوچستان میں دہشتگردی کی سرپرستی کررہا ہے اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان یعنی فتنہ الخوارج سمیت بی ایل اے یعنی فتنۃالہندوستان کو اسلحہ اور مالی وسائل فراہم کر رہا ہے تاکہ ملک بھر میں عدم استحکام پیدا کیا جا سکے۔
دفاعی تجزیہ کار راشد قریشی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ایک طویل عرصے سے پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں دہشتگردی کررہا ہے جس کے ٹھوس شواہد پاکستان متعدد بار عالمی اداروں اور دنیا کے سامنے رکھ چکا ہے، اور بھارتی ایجنسی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کی پاکستان سے گرفتاری اس بات کی واضح دلیل ہے۔
’دراصل بھارت یہ تمام اقدامات اس لیے کررہا ہے کیونکہ وہ دنیا کو الجھانا چاہ رہا ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کی سرپرستی کرنے والا ملک ہے حالانکہ بھارت بلوچستان میں مداخلت کرتے ہوئے دہشتگرد تنظمیوں کی حمایت کررہا ہے، جو لوگوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘
مزید پڑھیں: بلوچستان میں دہشتگردی کی بھارتی سرپرستی کے ٹھوس شواہد سامنے آگئے
راشد قریشی نے بتایا کہ معرکہ حق میں پاکستان نے بھارت کو ایسا سبق سکھایا ہے کہ ان کی آئندہ آنے والی نسلیں اسے یاد رکھیں گی البتہ اس امر کی ضرورت ہے کہ اب پاکستان عالمی فورمز اور دنیا بھر کو یہ باور کروائے کہ بھارت خود ایک دہشتگرد ریاست ہے جس کے لیے ہمیں سفارتی طور پر اپنا مضبوط مقدمہ لڑنے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ کے ترجمان بابر یوسف زئی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ہمیشہ سے بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں ملوث رہا ہے اور وہ اپنی پراکسیز کے ذریعے بلوچستان میں ہمیشہ مداخلت کرتا رہا ہے۔
’ماضی میں بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ہو یا حالیہ دِنوں میں بھارتی ایجنٹ اشوک چترویدی کی گرفتاری جو خود اس بات کے اعتراف کرچکے ہیں کہ بھارت اپنی پراکسی کے ذریعے بلوچستان میں دہشتگردی کرواتا ہے۔‘
مزید پڑھیں:پہلگام فالس فلیگ میں ناکامی کے بعد بھارت کا بلوچستان میں بڑی دہشتگردی کا منصوبہ بے نقاب
بابر یوسف زئی نے کہا کہ بلوچستان میں موجود بھارتی پراکسیز بی ایل اے اور بی ایل ایف کی شکل میں بلوچستان میں معصوم شہریوں کا قتل عام کرتی ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بھارت ایک سفاک اور دہشتگرد ملک ہے۔
’جب سے پاکستان آزاد ہوا ہے تب سے بھارت کی یہ کوشش رہی ہے کہ بلوچستان کو غیر مستحکم کرے۔ بلوچستان میں جتنی بھی دہشتگردی کی کاروائیاں ہوتی ہیں ان کے پس پردہ بھارتی شواہد ملتے ہیں۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان بھارت پاکستان فتنۃ الہندوستان ناقابل تردید.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان بھارت پاکستان فتنۃ الہندوستان بلوچستان میں دہشتگردی پاکستان میں شواہد سامنے مزید پڑھیں ہونے والے بی ایل اے کررہا ہے کہ بھارت کے مطابق میں ملوث بھارت کا رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
بھارت دہشتگردی میں ملوث، افغانستان دہشتگردوں کا گڑھ بن چکا:پاکستان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ بھارت دہشتگردی کے واقعات میں ملوث ہے اور افغانستان دہشتگردوں کا گڑھ بن چکا ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے ہفتہ وار بریفنگ میں ایک بار پھر زور دیا ہے کہ افغانستان سے تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی دہشت گردی ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔
پاکستان نے ایک بار پھر عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے اور یہ دہشتگرد عناصر افغانستان کی سرزمین کو استعمال کر رہے ہیں۔
دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بارہا افغان حکام سے اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا ہے اور شواہد کے ساتھ یہ بات واضح کی ہے کہ دہشتگرد گروہ، جن کی پشت پناہی بھارت کر رہا ہے، افغانستان کے اندر موجود ہیں۔ یہ عناصر پاکستان کے مختلف علاقوں میں تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں اور ان کی پشت پر بھارت کی منصوبہ بندی اور معاونت شامل ہے۔
ترجمان نے اس موقع پر بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر بھی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عالمی ثالثی عدالت کے حالیہ ضمنی فیصلے نے بھارت کی غیر ذمہ دارانہ اور یکطرفہ پالیسیوں کو مسترد کر دیا ہے۔ عدالت نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سندھ طاس معاہدہ اب بھی مکمل طور پر مؤثر ہے اور بھارت کو اس میں کسی بھی قسم کی یکطرفہ تبدیلی کا حق نہیں۔
ترجمان کے مطابق یہ فیصلہ پاکستان کے دیرینہ مؤقف کی تصدیق کرتا ہے کہ بھارت معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور خطے میں پانی کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی معاہدے کی پاسداری کرے اور سندھ طاس معاہدے کو معمول کے مطابق جاری رکھے، کیونکہ یہ دونوں ممالک کے درمیان طویل المدتی امن اور ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے۔
دفتر خارجہ نے بریفنگ میں بتایا کہ یکم جولائی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان قیدیوں کی سالانہ فہرستوں کا تبادلہ عمل میں آیا۔ پاکستان نے 246 بھارتی قیدیوں کی تفصیلات نئی دہلی میں بھارتی ہائی کمیشن کے حوالے کیں، جب کہ بھارت نے بھی پاکستانی قیدیوں کی فہرست اسلام آباد میں پاکستانی حکام کو فراہم کی۔ دفتر خارجہ نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستانی قیدیوں کی حفاظت اور انسانی حقوق کو یقینی بنائے۔
اس کے ساتھ ساتھ ترجمان نے اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے 17ویں سربراہی اجلاس کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ اہم اجلاس آذربائیجان کے تاریخی شہر میں منعقد ہوا، جس میں وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستانی وفد کی قیادت کی اور علاقائی تعاون، موسمیاتی تبدیلی اور توانائی جیسے اہم معاملات پر پاکستان کا مؤقف بھرپور انداز میں پیش کیا۔ اجلاس کی سائیڈ لائنز پر وزیراعظم کی دیگر علاقائی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی شیڈول ہیں۔
ترجمان نے مزید بتایا کہ پاکستان کے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے حال ہی میں ترکی کے نائب وزیراعظم سے بھی رابطہ کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کے سفارتی رابطوں میں تیزی آ رہی ہے اور ترکی کے وزیر خارجہ کا جلد پاکستان کے دورے کا امکان ہے، جس کی تفصیلات دفتر خارجہ جلد جاری کرے گا۔
آخر میں ترجمان دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے، مگر دہشتگردی جیسے بنیادی مسئلے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر افغان حکومت واقعی خطے میں امن چاہتی ہے تو اسے اپنی سرزمین سے دہشتگرد عناصر کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے، کیونکہ یہی عناصر پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔