نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: اسرائیل یتیم ہوگیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
اب جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے اہم ترین ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کا کامیاب اور غیر معمولی اور اسرائیل سے غیر مربوط دورہ مکمل کرچکے ہیں، تو ایک بات اب زیادہ وضاحت سے کہی جاسکتی ہے کہ غیرقانونی صہیونی ریاست اسرائیل کی موجودہ حکومت، جس کی قیادت نیتن یاہو کررہے ہیں، اب امریکا کی اتحادی نہیں رہی۔
ٹرمپ کے اس دورے میں ایک بات نمایاں طور پر غیر حاضر رہی جس میں اسرائیل کا ذکر، نیتن یاہو سے ملاقات، یا کوئی علامتی خیرسگالی کا پیغام۔ یہ خاموشی محض سفارتی چال نہیں تھی، بلکہ یہ صہیونی ریاست کو ایک اہم پیغام تھا، واشنگٹن اب اس حقیقت کو تسلیم کررہا ہے کہ نیتن یاہو نہ صرف امریکی مفادات کو نظرانداز کر رہے ہیں بلکہ ان کے خلاف سرگرم ہوچکے ہیں۔
امریکی معروف اخبار نیویارک ٹائمز میں توماس فریڈمین نے ایک مضمون لکھا جس میں انھوں نے کہا کہ ’’اب میں پہلے سے زیادہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خلیجی ریاستوں کے دورے کے دوران صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کا نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی صدر نے ایک بنیادی حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ موجودہ صہیونی حکومت ایسے انداز میں عمل کر رہی ہے جو مشرق وسطیٰ میں امریکا کے بنیادی مفادات کےلیے خطرہ بن چکی ہے۔ نیتن یاہو اب ہمارا دوست نہیں ہے۔‘‘
یہ کہنا شاید سخت لگے، مگر حقیقت یہی ہے۔ نیتن یاہو کی حکومت نے شدت پسند مذہبی گروہوں اور نسل پرست عناصر سے سمجھوتے کیے، وہ دو ریاستی حل کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے، اور اس نے بارہا ایسی پالیسیاں اپنائی ہیں جو خطے میں امریکی مفاہمتی کوششوں کو سبوتاژ کرتی ہیں۔
انھوں نے اپنے مضمون میں لکھا کہ صدر ٹرمپ نے اپنی سیاسی سرگرمیوں سے نیتن یاہو کو یہ پیغام دیا ہے کہ خطے کے مستقبل کے فیصلے اب اسرائیل کے رحم و کرم پر نہیں ہوں گے اور یہ صرف پیغام نہیں ہے بلکہ ٹرمپ کے حالیہ فیصلے اس بات کا ثبوت ہیں جس میں ایران کے جوہری پروگرام کے ساتھ مذاکرات کی منظوری، یمن میں حوثیوں کے ساتھ جنگ بندی پر اتفاق، اور سعودی عرب کے ساتھ سول نیوکلیئر پروگرام پر بات چیت شامل ہے۔ یہ فیصلے اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ امریکا اب اپنے علاقائی تعلقات کو صرف اسرائیل کے تناظر میں نہیں دیکھ رہا۔
امریکا کے خلیجی ریاستوں سے براہ راست اور دو طرفہ تعلقات، قطر اور سعودی عرب جیسے ممالک کو نئے شراکت داروں کے طور پر تسلیم کرنا، اور غیرقانونی صہیونی ریاست کو اس صف سے وقتی طور پر باہر رکھنا یہ سب دراصل واشنگٹن کے بدلتے ہوئے مزاج کی عکاسی کرتے ہیں۔
امریکا اور صہیونی ریاست کے درمیان دوریوں کی بہت ساری وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی اسرائیل کی جانب سے غزہ میں نہتے شہریوں پر مسلسل وحشیانہ بمباری، انسانی حقوق کی سنگین پامالی، اور امن مذاکرات کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا ایسے عوامل ہیں جنہوں نے واشنگٹن کے کئی فیصلہ سازوں کو نیتن یاہو حکومت سے دور ہونے پر مجبور کیا ہے۔
امریکا کی نئی خارجہ پالیسی کا زاویہ اب یہ اشارہ دے رہا ہے کہ ’’ہم صہیونی ریاست اسرائیل کی بقا کے حامی ہیں، لیکن ہم نیتن یاہو کی امریکا سمیت انسان دشمن پالیسیوں کے وکیل نہیں۔‘‘ ٹرمپ کے دورے نے یہ پیغام دو ٹوک انداز میں ظاہر کردیا ہے کہ امریکا کی خطے میں قیادت اب اسرائیل کے ذریعے نہیں، بلکہ اپنے مفادات کے مطابق ہوگی۔ نیتن یاہو اب امریکا کا وہ ’’قریبی اتحادی‘‘ نہیں رہا جس پر وہ آنکھ بند کرکے بھروسہ کرے۔
فریڈمین نے لکھا کہ وقت آگیا ہے کہ ہم امریکا میں پالیسی ساز، تجزیہ کار، اور عام شہری یہ تلخ حقیقت تسلیم کریں کہ نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل کی حکومت نہ صرف خطے میں امن کے خلاف کام کر رہی ہے بلکہ ہمارے قومی مفادات سے بھی متصادم ہے۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ یہ رائے صرف امریکی دانشوروں اور پالیسی سازوں ہی کی نہیں ہے بلکہ صہیونی ریاست کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے متعدد تجزیاتی اور رائے پر مبنی مضامین میں بھی یہ موضوع زیر بحث رہا کہ وزیراعظم نیتن یاہو اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان جو قریبی تعلقات پہلے دیکھنے کو ملتے تھے، وہ اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔
ان اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی حالیہ پالیسیوں میں کئی حیران کن اقدامات شامل ہیں جن پر اسرائیلی حکومت کو اعتماد میں لینا تو دور کی بات خبر بھی نہیں ہونے دی گئی۔
ان تحریروں کا مشترکہ تاثر یہ ہے کہ اسرائیل کی موجودہ حیثیت، خصوصاً امریکی انتظامیہ کے تناظر میں، نمایاں طور پر کمزور ہوگئی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکا کی توجہ اب سعودی عرب اور قطر جیسے ممالک پر مرکوز ہوچکی ہے، جو نہ صرف خطے میں اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں بلکہ واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کے نئے محور بھی بن چکے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کی اکثریت اس صورت حال کا ذمے دار براہ راست نیتن یاہو کو قرار دیتی ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ انہوں نے حماس کے ساتھ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کی کوششوں کو سبوتاژ کیا اور یہ سب انہوں نے اپنے دائیں بازو کے اتحادیوں، بالخصوص وزیر خزانہ سموتریچ اور قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر، کی انتہاپسند شرائط کی بنیاد پر کیا۔
معروف اخبار ہیرٹس کے معروف عسکری تجزیہ کار عاموس ہرئیل نے لکھا کہ امریکا اب اپنی مشرق وسطیٰ کی حکمت عملی کو ازسرنو ترتیب دے رہا ہے، اور یہ تبدیلی عسکری بالادستی سے ہٹ کر معاشی تعاون اور تنازعات کے سیاسی حل کی جانب منتقل ہو رہی ہے۔ ہرئیل کے مطابق، ٹرمپ کی موجودہ پالیسی ایک عملی، تجارتی سوچ اور طویل المدتی جنگوں سے گریز کی مظہر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ علاقائی قوتوں، جن میں اسرائیل بھی شامل ہے، پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ غزہ پر جاری جنگ ختم کرنے کی کسی نہ کسی شکل کو قبول کریں، لیکن اسرائیل اس کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا۔ ان کے بقول، اسرائیل کا موجودہ کردار ان تمام علاقائی تبدیلیوں میں محض ایک ضمنی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
اسی موضوع پر یدیعوت احرونوت کے ممتاز سیاسی تجزیہ نگار ناحوم برنیع نے اپنی تحریر میں لکھا کہ ٹرمپ کی خلیجی ریاستوں میں حالیہ سفارت کاری نے یہ حقیقت بے نقاب کردی ہے کہ امریکی پالیسی میں مرکزِ ثقل اسرائیل سے ہٹ کر دوسری جگہوں پر منتقل ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’اسرائیل اب اس بچے کی مانند ہے جسے گھر پر چھوڑ دیا گیا ہو۔ وہ ریاست جسے کبھی واشنگٹن میں دونوں سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی، اب اپنی مستحکم جمہوری حیثیت تک کھو چکی ہے۔‘‘
دوسری جانب، اخبار اسرائیل ہیوم کے دفاعی تجزیہ کار یوآف لیمور نے لکھا کہ اسرائیل - امریکا کی شراکت داری، جو برسوں سے واشنگٹن کی علاقائی پالیسی کی بنیاد سمجھی جاتی تھی، اب اس ہفتے کے واقعات کے بعد پس منظر میں چلی گئی ہے۔ ان کے مطابق: ’’اگرچہ اس شراکت داری کو سرکاری طور پر ختم نہیں کیا گیا، لیکن واشنگٹن نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اب صرف اپنی قومی ترجیحات کے مطابق آگے بڑھے گا۔‘‘
انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل کا عالمی سطح پر امیج بگڑ چکا ہے، اور کچھ مغربی دارالحکومتوں خصوصاً فرانس، اسپین، برطانیہ سمیت اٹلی ناروے اور آئرلینڈ میں اسے ایک ’’تنہا ریاست‘‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جہاں ماضی میں سفارتی بات چیت ہوا کرتی تھی، وہاں اب اسرائیل پر سیاسی حملے کیے جارہے ہیں۔
اسرائیلی صحافت میں ابھرنے والی یہ آوازیں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ تل ابیب کی روایتی حیثیت کو واشنگٹن میں چیلنج کیا جارہا ہے، اور مشرق وسطیٰ میں نئے اتحاد ابھر رہے ہیں، جن کی بنیاد مفاہمت، معاشی تعاون، اور اسٹرٹیجک توازن پر رکھی جا رہی ہے، نہ کہ صرف فوجی برتری اور غیر مشروط حمایت پر۔ ان تبدیلیوں کا بظاہر سب سے بڑا نقصان اسرائیل کو ہو رہا ہے، جسے اب نئے علاقائی اور بین الاقوامی منظرنامے میں اپنی جگہ دوبارہ تلاش کرنا ہو گی۔
اگرچہ یہ تجزیے اور آرا کسی حد تک خطے کی بدلتی سیاسی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں لیکن اس میں صہیونی ریاست کی جانب سے مبالغہ آرائی، خود فریبی اور برتری کے جذبے کی جھلک نمایاں ہے۔ ان تمام آرا کا مرکزی نکتہ یہی ہے کہ امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات پر صرف اسرائیل کا حق ہے اور کوئی اور ملک، خاص طور پر عرب دنیا، اس رشتے میں حصہ دار نہیں ہو سکتا۔
ان خیالات میں یہ تصور موجود ہے کہ امریکا کی خطے میں موجودگی اور مفادات کو صرف اسرائیل کی خاطر بروئے کار لایا جانا چاہیے تاکہ اس کی عسکری اور سیاسی بالادستی برقرار رہے۔ ان تجزیہ نگاروں کے نزدیک موجودہ بحران کا بنیادی سبب نیتن یاہو کی سیاسی حکمت عملی ہے گویا کہ اگر نیتن یاہو جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے کسی معاہدے پر رضامند ہو جائیں، تو اسرائیل دوبارہ امریکا کی مرکزی ترجیح بن جائے گا، اور ’’اپنی فطری حیثیت‘‘ حاصل کرلے گا۔
یہ تجزیے دراصل اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کی اس سوچ کی عکاسی کرتے ہیں کہ بس صرف وزیرِاعظم کی پالیسی میں معمولی تبدیلی ہی کافی ہے، باقی اسرائیل کے تمام اقدامات ناقابل تنقید اور جائز ہیں۔
اس سیاسی تبدیلی کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بیشتر اسرائیلی تجزیے سعودی عرب اور امریکا کے درمیان عشروں پر محیط اسٹرٹیجک تعلقات کو مکمل طور پر نظر انداز کر رہے ہیں۔ جیسا کہ معروف فلسطینی مؤرخ رشید الخالدی نے اپنی کتاب ’’وسطاء الخداع‘‘ (کیسے امریکا نے مشرق وسطیٰ میں امن کو نقصان پہنچایا) میں وضاحت کی ہے، امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات محض وقتی یا جذباتی نہیں، بلکہ گہرے اسٹرٹیجک مفادات پر قائم ہیں۔
ان میں سب سے اہم مفاد مغربی دنیا کو توانائی کی بلا تعطل فراہمی اور خلیجی حکومتوں کی علاقائی خطرات کے خلاف حمایت شامل ہے۔ یعنی امریکا اور سعودی عرب کا تعلق ہمیشہ سے ہی دو طرفہ مفادات کا حامل رہا ہے، اور اس میں کسی تیسرے ملک، حتیٰ کہ اسرائیل کےلیے خاص مراعات کی کوئی گنجائش نہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اب مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن تبدیل ہورہا ہے، اور غیرقانونی صہیونی ریاست اسرائیل اب امریکا کے زیر سایہ نہیں رہا ہے اور نہ ہی اس کو اب وہ حمایت حاصل ہے جو اس کی ناجائز پیدائش کے بعد سے حاصل رہی تھی۔ امریکا کی توجہ اب اُن ممالک کی جانب بڑھ رہی ہے جو خطے میں استحکام، اقتصادی شراکت داری اور مفاہمت کےلیے آمادہ ہیں اور جو اپنے رویے سے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ علاقائی امن کےلیے سنجیدہ ہیں۔
یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ غیر قانونی صہیونی ریاست واقعی خطے میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اسے نہ صرف داخلی سیاسی رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی، بلکہ فلسطینی عوام کے حقوق کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قانون کا احترام بھی کرنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر، اسرائیل کی ’’تنہائی‘‘ صرف ایک سفارتی اصطلاح نہیں بلکہ ایک نئی حقیقت بن سکتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اور سعودی عرب تجزیہ نگاروں صہیونی ریاست نیتن یاہو کی کہ اسرائیل اسرائیل کے اسرائیل کا اسرائیل کی کہ امریکا امریکا کے امریکا کی انہوں نے کرتے ہیں کے مطابق لکھا کہ رہے ہیں کی جانب ٹرمپ کے کے ساتھ اور غیر رہا ہے اس بات ہیں کہ اور اس رہی ہے
پڑھیں:
اسرائیل ایران کے جوہری تنصیبات پر حملے کی تیاری کر رہا ہے ، امریکا کا دعویٰ
امریکی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔
امریکی ٹی وی نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا کہ امریکا کو حاصل انٹیلی جنس معلومات کے مطابق اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔
امریکی حکام کے مطابق اسرائیلی حملے کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا امریکا اور ایران کے درمیان جوہری پروگرام پر کیا مذاکرات ہوتے ہیں۔
دوسری جانب امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل اورامریکا میں موجود اسرائیلی سفارتخانے اور اسرائیلی وزیر اعظم آفس نے اس معاملے پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
اس سے قبل منگل کو ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای نے خدشہ ظاہر کیا کہ امریکا سے جوہری مذاکرات کا کوئی نتیجہ نکلنے کا امکان نہیں۔
واضح رہے کہ ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان یورینیم افزودگی کے معاملے پر تنازع جاری ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے معاہدے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
موٹروے پر خوفناک حادثہ، بس کی ٹکر سے 4 افراد جاں بحق،20 زخمی