بزنس کانفڈینس انڈیکس سروے کے نتائج جاری، کاروباری اداروں کے اعتماد میں نمایاں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
اوورسیز انوسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (OICCI)نے مارچ اور اپریل 2025کے دوران اپنے جامع بزنس کانفیڈنس انڈیکس سروے ویو27کا نتائج کا اعلان کردیا ہے۔
سروے کے نتائج کا اعلان وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب سے او آئی سی سی آئی کے وفد کی ملاقات کے بعد کیا گیا۔
سروے کے نتائج کے مطابق کاروباری اعتماد میں 16فیصد کی نمایاں بہتری آئی ہے۔ بزنس کانفیڈنس انڈیکس اکتوبر،نومبرمیں کیے گئے سروےWave 26کے منفی5فیصد کے مقابلے میں 11فیصد مثبت ہے۔
معیشت کے مختلف شعبوں میں مثبت تبدیلی کی بڑی وجہ میکرو اکنامک استحکام، کم ہوتی ہوئی افراطِ زر اور اگلے 6ماہ کے دوارن کاروباری حالات میں متوقع بہتری کاروباری اعتماد کی بحالی کی اہم وجوہات ہیں۔
سروے نتائج کے مطابق مجموعی کاروباری اعتماد میں بہتری کی قیادت مینوفیکچرنگ سیکٹر نے کی ہے اور مینو فیکچرنگ سیکٹر کا اعتماد گزشتہ سروے کے منفی3فیصد کے مقابلے میں مثبت 15فیصد ہوگیا ہے جبکہ ریٹیل/ہولسیل سیکٹرز کا اعتماد ویو26کے سروے کے منفی 18کے مقابلے میں مثبت 2فیصد ہوگیا ہے۔
اسی طرح خدمات کے شعبے میں کاروباری اعتماد میں استحکام رہا اورکاروباری اعتماد گزشتہ سروے کے 2فیصد سے بڑھ کر مثبت 10فیصد ہوگیا ہے۔
اس موقع پر وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہاکہ کاروباری اعتماد میں اضافہ اس بات کی عکاسی ہے کہ معیشت درست سمت میں جارہی ہے، ہم سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول بنانے، نجی شعبے کی ترقی میں معاونت اور طویل المدّتی معاشی استحکام یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں اور کاروباری اداروں کا اعتماد ہماری کوششوں کی توثیق ہے۔
بزنس کانفیڈنس انڈیکس سروے ویو27کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے او آئی سی سی آئی کے صدر یوسف حسین نے کہاکہ گزشتہ 2سالوں کے دوران کاروباری اداروں کے مجموعی اعتماد میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
موجودہ سروے میں کاروباری اعتماد میں نمایاں اضافہ پاکستان کے کاروباری شعبے کی صلاحیت اورترقی کے مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کی تیاری کی عکاسی ہے۔ اہم شعبوں میں مثبت رجحان خوش آئند ہے تاہم اس مثبت رجحان کو برقرار رکھنے کیلئے پالیسیوں میں مستقل مزاجی، شفافیت اور او آئی سی سی آئی کے ممبران سمیت کلیدی اسٹیک ہولڈرز سے موئثر روابط ضروری ہیں۔
سروے کے نتائج کے مطابق آئندہ 6ماہ کیلئے 45فیصد شرکاء نے 6ماہ کیلئے مثبت توقعات کا اظہار کیاہے۔مثبت رجحان کی بڑی وجوہات میں معاشی نمو، بہتر حکومتی پالیسیاں، سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول اور سیکیوریٹی کی بہتر صورتحال شامل ہیں۔
مثبت رجحان کے باوجود 53فیصد جواب دہندگان نے گزشتہ 6ماہ کے دوران کاروباری حالات پر منفی نقطہ نظر کا اظہار کیا ہے تاہم یہ اعدادو شمار Wave 26میں منفی66فیصدکے مقابلے میں نمایاں بہتری کی نشاندہی کرتے ہیں۔ موجودہ چیلنجز میں، سیاسی عدم استحکام،روپے کی قدر اور توانائی اور تجارتی پالیسیاں اہم خدشات ہیں۔
سروے میں شامل او آئی سی سی آئی کے ممبران غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد گزشتہ سروے کے مثبت6فیصد کے مقابلے میں غیر معمولی اضافے کے ساتھ مثبت 17فیصد ہوگیا ہے۔ کاروباری اعتماد میں اضافہ گزشتہ 6ما میں عالمی کاروباری صورتحال،پاکستان میں صنعتی ماحول میں بہتری اور آنے والے 6ماہ میں سرمایہ کاری میں متوقع اضافہ بنیادی وجوہات ہیں۔
اس موقع پر او آئی سی سی آئی کے چیف ایگزیکٹو/سیکریٹری جنرل ایم عبدالعلیم نے سروے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ BCI Wave 27کے نتائج توقع سے زیادہ بہتر ہیں اور تمام بڑے شعبوں میں مثبت توقعات کی عکاسی ہیں۔روزگارکے امکانات، توسیعی منصوبے اور سرمایہ کاری کے امکانات نے خاص طورپر مینوفیکچرنگ اور ریٹیل کے شعبوں میں قابلِ ذکر بہتری نظر آئی ہے۔
انہوں نے کہاکہ اگرچہ مجموعی طورپر قابلِ ذکر بہتری کے باوجودنئی سرمایہ کاری کے منصوبوں میں صرف 19فیصد بہتری آئی ہے اور یہ ابھی بھی منفی ہے جوکہ باعثِ تشویش ہے اور اقتصادی ترقی کو مزید تیز کرنے، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ، تجارت اور برآمدات کو بڑھانے کیلئے اقدامات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
سروے میں مستقبل کیلئے مہنگائی، ٹیکسیشن،حکومتی پالیسیوں میں عدم تسلسل،روپے کی قدر میں کمی جیسے نمایاں خدشات کو اجاگرکیاگیاہے۔ مہنگائی اور ٹیکسیشن گزشتہ سروے میں بھی اہم خدشات تھے جو ان شعبوں میں موجود چیلنجز کی نشاندہی کرتے ہیں۔
او آئی سی سی آئی سال میں 2مرتبہ بزنس کانفیڈنس انڈیکس سروے کا انعقاد کرتی ہے جس میں پاکستان کے تقریباً80فیصد جی ڈی پی کی نمائندگی کرنے والے بڑے کاروباری اسٹیک ہولڈرز کی آرا شامل ہوتی ہے۔
سروے میں مینوفیکچرنگ، خدمات اور ریٹیل/ہولسیل سمیت مختلف شعبوں کی رائے کو شامل کیا گیا ہے اور علاقائی، قومی اور کاروباری اداروں کے تاثرات کا جائزہ لیاگیاہے۔یہ سروے کراچی، لاہور، روالپنڈی/اسلام آباد، پشاور اور فیصل آباد سمیت ملک کے بڑے کاروباری شہروں میں کیا جاتاہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کاروباری اعتماد میں او آئی سی سی آئی کے کاروباری اداروں کے مقابلے میں سروے کے نتائج سرمایہ کاری گزشتہ سروے میں نمایاں کا اعتماد ہوگیا ہے سروے میں ہے اور آئی ہے
پڑھیں:
پاکستان کے قرضوں میں نمایاں اضافہ، ہر پاکستانی کتنا مقروض؟
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ملکی قرضوں کا مجموعی حجم 77 ہزار 8 سو 88 ارب روپے کی سطح پر پہنچ چکا ہے اور س حساب سے ہر پاکستانی کم و بیش 4 لاکھ روپے کا مقروض ہوگیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ نے پاور سیکٹر میں مالیاتی استحکام کے لیے بڑی اسکیم کی منظوری دے دی
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق اخراجات اور بے قابو مالیاتی نظم و ضبط نے ملکی معیشت کو قرضوں کے جال میں جکڑلیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جون 2024 سے جون 2025 تک صرف ایک سال میں مجموعی قرضوں میں 8 ہزار 974 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے۔
گزشتہ برس یہ قرضہ 68 ہزار 914 ارب روپے تھا جو اب بڑھ کر 77 ہزار 888 ارب روپے ہوچکا ہے یہ اضافہ سالانہ 13 فیصد اور صرف ایک ماہ میں 2.4 فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔
حکومت ملکی قرضوں کا بڑا حصہ اندرونی ذرائع سے لے رہی ہے اور ایک سال میں مقامی قرضوں کا حجم 47 ہزار 160 ارب روپے سے بڑھ کر 54 ہزار 471 ارب روپے ہوگیا ہے یوں ایک سال میں مقامی قرضوں میں 7 ہزار 311 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔
مزید پڑھیے: شبر زیدی نے سرکاری اراضی بیچ کر ملکی قرضہ اتارنے کی تجویز دے دی
جون 2025 کے صرف ایک مہینے میں مقامی قرضہ 1.9 فیصد بڑھ کر 53 ہزار 460 ارب سے بڑھ کر 54 ہزار 471 ارب روپے ہوگیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق بیرونی قرضے بھی بڑھتے جارہے ہیں گزشتہ سال بیرونی قرضے 21 ہزار 754 ارب روپے تھےجو اب 23 ہزار 417 ارب روپے ہوگئے ہیں جس میں سالانہ 7.6 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ایک ہی مہینے میں بیرونی قرضےبھی 3.7 فیصد بڑھ گئے ہیں ان قرضوں پر سود کی ادائیگی بھی ملکی خزانے پر بوجھ بنتا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی قرضوں پر سود کی مجموعی ادائیگیاں 9 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہوگئی ہیں جبکہ قرضوں اور سرکاری ضمانتوں سمیت ادائیگیوں کے بوجھ کا کُل حجم 94 ہزار ارب روپے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ چکا ہے۔
اس حوالے سے ملکی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے ماہرمحمد عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ مقامی قرضوں میں خطرناک اضافہ حکومت کےغیر ضروری اور بے تحاشہ اخراجات کا نتیجہ ہےان کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو آنے والے برسوں میں قرضوں کی ادائیگیاں ملکی آمدنی کو نگل جائیں گی۔
مزید پڑھیں: ہر شہری 3 لاکھ روپے کا مقروض، کس دور حکومت میں کتنا قرضہ لیا گیا؟
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے ترقی تو دور کی بات ہے مالیاتی استحکام بھی ناممکن ہوجائے گا اس وقت حکومت بیرونی اور مقامی قرضوں کی ادائیگی کے لیے اہل نہیں اور اس صورتحال کو معیشت میں ٹیکنیکل ڈیفالٹ کہا جاتا ہے جو کہ پاکستان ہوچکا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستانی کی معیشت پاکستانیوں پر قرضہ ہر پاکستانی کتنا مقروض