خط: خوشبو، شاعری اور ایک کھویا ہوا زمانہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
ترقی نے ہمیں ای میل، میسیج اور فوری رسائی تو دی، مگر وہ خامشی چرا لی جو کسی سادہ سے لفافے میں لپٹی ہوتی تھی۔ خط صرف پیغام نہیں ہوتا تھا، وہ تہذیب تھا، خوشبو تھا، اور محبت کی ایک مکمل زبان۔
صرف ایک خط لکھنے میں کئی دن، کئی سوچیں اور کئی دھڑکنیں صرف ہوتی تھیں۔
ہم خط لکھنے سے پہلے قلم کو سنوارتے، کاغذ کا انتخاب کرتے، اور کئی بار جملے مٹاتے، نئے لکھتے کہ کہیں دل کی بات غلط نہ اتر جائے۔ لفافے کو چومنا، اسے سونگھنا، بار بار پڑھنا، اور کسی خاص لفظ پر رک جانا.
پہلے خط کے اوپر شاعری ہوا کرتی تھی، کسی کونے میں دل بنا ہوتا، کہیں دو پھول، کہیں محبوب کا نام۔ اور کہیں بس ایک خاموشی جو بہت کچھ کہہ جاتی۔ اور وہ لمحے جب ہم لفافے کو سونگھتے تھے... اس میں صرف الفاظ نہیں، دعائیں، جذبات اور محبت کی خوشبو ہوتی تھی۔ خط ایک پیغام نہیں، ایک مکمل تہذیب تھا۔ ایک ایسا تعلق جو صرف تحریر سے نہیں، احساسات سے بندھا ہوتا تھا۔
جب میں گیارہویں جماعت میں تھا، نانی کے گھر کے قریب ایک چھت پر ایک لڑکی نظر آتی تھی۔ اس کا گھر کچھ فاصلے پر تھا، اور وہ مجھے کبھی دیکھتی نہیں تھی، یا شاید میں ہی یہ سمجھتا رہا۔ اس بے خبری نے دل کو بے چین کردیا۔ تنگ آکر میں نے زندگی کا پہلا خط لکھا۔ اپنا نام نہیں لکھا، ہمت ہی نہ ہوئی۔ بس اتنا لکھا کہ میں فلاں ماموں کا بھانجا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ مجھے پہچان لیں، صرف دیکھ لیں۔ اس خط کو میں نے احتیاط سے ایک چھوٹے پتھر میں لپیٹا، اور اس کے گھر کی عقبی گلی میں جا کر چھت کی طرف اچھال دیا۔ دل دھڑک رہا تھا جیسے کسی جرم کا ارتکاب کررہا ہوں۔ اور جب تک اس نے چھت سے کوئی اشارہ نہیں کیا، میرا دل جیسے مٹھی میں بند رہا۔ اور پھر جب وہ اشارہ آیا ... شاید ایک پل کےلیے ... دل نے جیسے سکون کا سانس لیا، اور میں خود کو کائنات کا سب سے خوش نصیب انسان سمجھ بیٹھا۔
کئی دن بعد اس کا جواب آیا ... اسی طرح، خاموشی سے، چھت کے راستے۔ اور جب میں نے وہ خط پڑھا، تو میری دنیا ایک لمحے کو تھم گئی۔ اس خط کو میں نے سینے سے لگایا، بار بار پڑھا، اور تکیے کے نیچے رکھ کر سویا۔ شاید وہ پہلی رات تھی جب نیند اتنی میٹھی آئی، جیسے کوئی خواب پورا ہوگیا ہو۔
آج کا دور بدل چکا ہے۔ ای میل، واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام، اور اب تو اے آئی چیٹ بوٹس بھی آگئے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ: کیا ان سب میں وہی جذبہ، وہی تڑپ، وہی تھرتھراہٹ ہے جو خط لکھنے یا پڑھنے میں ہوا کرتی تھی؟
آج کوئی کسی کو میسیج کرتا ہے، ’ٹِک بلیو‘ ہوجاتی ہے، ’سین‘ ہوجاتا ہے، اور جواب بھی آجاتا ہے ... لیکن اس میں نہ وہ انتظار ہے، نہ دل کی دھڑکن کا اتار چڑھاؤ۔
’پوسٹ مین آیا‘ کہنے کی خوشی، گلی میں دوڑنے کی چاہت، وہ ’جلدی سے لفافہ کھولو‘ کا لمحہ ... یہ سب کہاں چلا گیا؟
ہمیں بتایا جارہا ہے کہ اگلی نسل واٹس ایپ کو یاد کرے گی جیسے ہم خط کو کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایسا ہو، لیکن وہ خوشبو؟ وہ تہذیب؟ کیا اسے ڈیجیٹل دنیا کبھی لوٹا سکے گی؟
خط میں احساس لکھا جاتا تھا، آج کل جذبات forward کیے جاتے ہیں۔ خط کو چھو کر محسوس کیا جاتا تھا، آج اسکرین چھوئی جاتی ہے۔ لفظ دل سے نکلتے تھے، آج کی بورڈ سے ٹپکتے ہیں۔ آج نہ وہ انتظار کی لذت ہے، نہ وہ صفحے پر مچلتے لفظ، نہ وہ پگھلتے دل کی روانی۔ اب تو نہ وہ چاندنی رات ہے، نہ تکیے کے نیچے رکھے خط کی خوشی، نہ ہی محبوب کی تحریر کو بار بار پڑھنے والا وقت۔
کبھی خط صرف پڑھا نہیں جاتا تھا، سنا جاتا تھا۔ آنکھیں لفظوں میں ڈوب جاتی تھیں، دل تحریر کے ساتھ دھڑکنے لگتا تھا۔ شاعری صرف اشعار میں نہیں، خط کے ایک ایک لفظ میں موجود ہوتی تھی۔ آج خط نہیں آتے، اور اگر آتے بھی ہیں تو ان میں نہ شاعری ہوتی ہے، نہ خوشبو، نہ وہ دل۔
اب جب کہ خط کا زمانہ نہیں رہا، تو نہ خط پر گانے بنتے ہیں، نہ ہی شاعری لکھی جاتی ہے۔ موبائل، ای میل اور چیٹ نے وہ جذبات چھین لیے ہیں جو کسی سادہ سے لفافے میں بند ہوتے تھے۔ کتنے ہی نغمے اور فلمی گانے آج بھی سماعت پر دستک دیتے ہیں جن میں ’’خط‘‘ ہی محبت کا وسیلہ ہے۔ ذیل میں ہم ان مشہور گانوں کی فہرست پیش کر رہے ہیں جو ’’خط‘‘ کے گرد گھومتے ہیں۔ آپ پڑھیں اور سر دھنیں کہ کیسے کیسے نایاب شاہکار ہمارے شاعروں نے تخلیق کیے تھے:
’’یہ میرا پریم پتر پڑھ کر‘‘ (فلم: سنگم 1964)
’’لکھے جو خط تجھے‘‘ (فلم: کنیادان 1968)
’’پھول تمہیں بھیجا ہے خط میں‘‘ (فلم: سرسوتی چندرا 1968)
’’چھٹی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے‘‘ (فلم: دوستی 1971)
’’تمہارے خط میں لکھا وہ سلام کس کا تھا‘‘ (پرائیوٹ البم غلام علی 1977)
’’تیرے خوشبو میں بسے خط میں جلاتا کیسے‘‘ (فلم: ارتھ 1982)
’’ہم نے صنم کو خط لکھا‘‘ (فلم: شکتی 1982)
’’چھٹی آئی ہے، آئی ہے‘‘ (فلم: نام 1986)
’’کبوتر جا جا کبوتر جا جا‘‘ (فلم: میں نے پیار کیا 1989)
’’خط لکھنا ہے پر سوچتی ہوں‘‘ (فلم :کھیل 1992)
’’پیار کے کاغذ پہ‘‘ (فلم: جگر 1992)
’’خط میں نے تیرے نام لکھا‘‘ (فلم: بے خودی 1992)
’’سندیسے آتے ہیں، ہمیں تڑپاتے ہیں‘‘ (فلم: بارڈر 1997)
’’پھول میں بھیجوں‘‘ (فلم: سلمیٰ پہ دل آگیا 1997)
’’قصہ ہم لکھیں گے دل بے قرار کا‘‘ (فلم: ڈولی سجا کے رکھنا 1998)
’’چٹھی نہ کوئی سندیس‘‘ (فلم: دشمن 1998)
’’وہ خط کے پرزے جلا رہا تھا‘‘ (جگجیت سنگھ: 1999)
’’پہلی پہلی بار محبت کی ہے‘‘ (فلم: صرف تم 1999)
’’میرے محبوب کا آ یا ہے محبت نامہ‘‘ (ناہید اختر)
’’اس خط کو میری آخری تحریر سمجھنا‘‘ (نورجہاں)
اور درجنوں نایاب شاہکار جن میں خط جذبات کا مرکزی استعارہ بن جاتا تھا۔ آج کل لوگ کہتے ہیں ’’میسیج کردیا ہے‘‘، ’’ڈی ایم کردیا ہے‘‘۔ لیکن اس میں وہ خوشبو، وہ تڑپ، وہ شاعری کہاں جو ایک خط میں ہوا کرتی تھی؟ شاید اسی لیے اب نہ کوئی خط لکھتا ہے، نہ ہی کوئی ایسا گانا بنتا ہے جس پر زمانہ سر دھن سکے۔
آج کے بچے شاید حیران ہوں کہ محبت کبھی لفافے میں آتی تھی، اور اس پر ڈاک کا ٹکٹ لگتا تھا۔ لیکن ہمارے جیسے لوگ جانتے ہیں کہ وہ ڈاک کا ٹکٹ دل کا یقین ہوا کرتا تھا۔ خط ایک زمانہ تھا، جو اب صرف یادوں میں ہے۔ اور یہ تحریر صرف ’’خط‘‘ کا نوحہ نہیں، ایک مکمل تہذیب، ایک مکمل دور کے بچھڑنے کا نوحہ ہے۔ اور اب...
جب کبھی دل بے وجہ اداس ہوتا ہے، تو جی چاہتا ہے کوئی پرانا صندوق کھولا جائے، جس میں برسوں پرانے لفافے، ذرا مڑے تڑے کاغذ، اور مدھم ہوچکی روشنائی میں لپٹے کچھ جذبے نکلیں۔ کوئی پرانا خط ہاتھ میں ہو، جس پر کسی اپنے کے لمس کی پرچھائیں ہو۔ ایسا خط جسے پڑھتے ہوئے آنکھیں بند کر کے ہم اُس وقت میں واپس چلے جائیں جب لفظوں میں محبت تھی، دعاؤں میں خوشبو تھی، اور خاموشی بھی گفتگو کرتی تھی۔
شاید اب کوئی خط نہ آئے،
شاید ہم خود بھی کبھی خط نہ لکھیں،
لیکن یادوں کی پوٹلی میں،
کسی پرانی رات کی تنہائی میں،
لفظوں کا ایک خط ضرور ہوتا ہے
جو ہم دل میں بار بار پڑھتے ہیں...
بے آواز، بے توقیر، مگر بے حد عزیز۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرتی تھی ایک مکمل ہوتی تھی جاتا تھا
پڑھیں:
خطے کے استحکام کا سوال
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے طورخم سرحد کو صرف افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے دوبارہ کھولا ہے، جب تک صورتحال میں بہتری نہیں آتی، سرحدی مقامات کارگو ٹرکوں اور عام مسافروں کے لیے بند رہیں گے۔
اس وقت سیکڑوں افغان پناہ گزیں طورخم امیگریشن سینٹر پہنچ گئے ہیں اور امیگریشن عملہ ضروری کارروائی کے بعد انھیں افغانستان جانے کی اجازت دے رہا ہے۔ دوسری جانب وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان کے ترجمان کے گمراہ کن اور بدنیتی پر مبنی بیانات پر شدید ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخوا کے عوام افغان طالبان کی سرپرستی میں جاری بھارتی پراکسیوں کی دہشت گردی سے بخوبی واقف ہیں اور اس بارے میں کوئی ابہام نہیں۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات بار بار ناکام ہو رہے ہیں۔ جنگ کے حالات اور بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے درمیان، پاکستان کی وزارت خارجہ نے 6 نومبرکو جنگ بندی کے مذاکرات کے لیے اپنی توقعات کا اظہارکیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان چند روز قبل ترکیہ میں امن مذاکرات ہوئے تھے، تاہم یہ مذاکرات طالبان کی ہٹ دھرمی کے باعث بری طرح ناکام رہے تھے۔ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں استنبول میں چار روزہ مذاکرات ہوئے لیکن وہ بے نتیجہ رہے۔
بھارت کے بعد افغانستان نے جس طرح پاکستانی سرحدوں کو پامال کیا اور پاکستانی افواج نے جوابی حملہ کر کے طالبان اور فتنہ الخوارج اور ان کی سرحدی چوکیوں کو جس طرح تباہ کیا۔ اس سے انھیں حقیقت کا خاصا ادراک ہوگیا ہے لیکن بھارتی آشیر باد، فنڈنگ، سہولت کاری صورتحال کو نارمل ہونے میں حائل ہو رہی ہے۔ افغان انڈیا گٹھ جوڑ خطے میں امن کی بجائے بدامنی کا باعث بن رہا ہے، افغان ایک سیاہ تاریخ رقم کر رہے ہیں اور یہ تاریخ اوراقوام عالم میں احسان فراموش محسن کش کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
پاکستان نے 40 سالوں تک افغان مہاجرین کو پناہ دے کر کاروبار تعلیم صحت کے مواقعے فراہم کر کے انھیں اپنے شہریوں کے برابر حقوق و سہولیات مہیا کیں اور وطن عزیز میں بطور مہمان رکھا مگر ہماری مہمان نوازی کے جواب میں یہ لوگ واپس جاتے جاتے، اپنے گھروں خیموں یہاں تک مساجد کو بھی شہید کرکے جا رہے ہیں جو کہ اسلام دشمنی اور احسان فراموشی کی بد ترین مثال ہے۔
افغانوں کے انخلاء کے بعد حکومت پاکستان کو اس بات پر بھی خاص نظر رکھنی ہوگی یہ لوگ دوبارہ پاکستان واپس نہ آجائیں تو اس کے لیے ان کا ڈیجٹیل ریکارڈ بھی رکھنا ضروری ہے۔ اب افغانستان کا چترال سے نکلنے والے دریائے کنہڑکے مقام پر ڈیم بنانے کا اعلان کرنا، بھارت کا کابل میں سفارتخانہ کھولنا، ہندو بنیے سے پیسے لے کر پاکستان کے خلاف اقدامات کرنا اور بھارت کے پیسوں سے پاکستان میں من پسند شریعت کے نفاذ کے دعوے، دین اسلام ،قرآن و سنت اور اللہ کے فرمان کے منافی سرگرمیاں ہیں۔
آج افغانوں کو اپنی منفی سرگرمیوں اور شرپسندی کے بھرپور جواب کے لیے تیار رہنا ہوگا اور اسی میں پاکستان کی بقا ہے۔ گو نئی کشمکش میں پاکستان کو فوجی برتری حاصل ہے۔ پاکستان کے پاس دنیا کی نویں بڑی فوج ہے، جو جدید فضائیہ اور جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے، وہ افغانستان کے اندر گہرائی تک حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، حتیٰ کہ اعلیٰ طالبان رہنماؤں کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے۔
سوویت افغان جنگ 1979سے لے کر 1989تک جاری رہی اور اس جنگ میں پاکستان نے افغان فوج کا مکمل ساتھ دیا اور تعاون جاری رکھا جب کہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی پسپائی میں بھی پاکستان نے اہم کردار ادا کیا مگر اس کے بعد پاکستان پر دہشت گردانہ حملے اور دراندازیوں کا آغاز ہو گیا جو آج تک جاری ہے جب کہ پاکستان نے سفارتی احتجاج کیے، دہشت گردی اور دراندازی کے ثبوت بھی فراہم کیے، وفود کی ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں، مگر افغانستان کی طرف سے ہمیشہ منفی رویہ اپنایا گیا۔
پاک افغان جنگ بندی اچھا عمل ہے مگر تاریخ کے مطابق افغان حکومت پر اعتبار کرنا کسی طور پر بھی خوشگوار نتائج کا حامل نہیں ہوگا۔بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کی ابھرتی معیشتوں میں دوسرے نمبر پر ہے، اس کی وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت2.41 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان اس وقت سی پیک کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لیے کوشاں ہے جب کہ یہی سی پیک دنیا کو 85.9 فیصد تجارتی راستوں سے جوڑتا ہے جو براہ راست چین، وسطی ایشیاء، مشرقی وسطی اور افریقہ تک پھیل سکتا ہے، یہ بات بہت یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان دنیا کے طاقت کے توازن کو بدل رہا ہے، ایسے میں ہمیں دشمنوں کے بچھائے جال میں الجھنے اور پھنسنے کی بجائے اپنی اسٹرٹیجک صورتحال اور میلوں پر پھیلے قیمتی معدنی ذخائر سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں نئے دروازے کھولنے چاہیں اور پیچھے مڑ کر ماضی کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے، ماضی کے بوجھ تلے دبے رہ کر دونوں برادر ہمسایہ ممالک کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا دونوں کو بداعتمادی کی فضا ختم کرنا ہوگی۔ دانش مندانہ اور پائیدار حکمت عملی سے نئے، خود مختار اور محفوظ مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
بھارت جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا وہ دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں اور ماضی کی رنجشوں کو ابھارے گا، جب کہ وہ افغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ قونصل خانے بھی کھولنے جا رہا ہے، دہلی اور کابل کے درمیان بڑھتی قربت پاکستان کے لیے نقصان دہ ہیں، پاکستان کے افغانستان پر سب سے زیادہ احسانات ہیں ،اس لیے اسے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں جذباتیت کی بجائے توازن کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا تاکہ برادر ہمسایہ ملک جس کی غذائی ضروریات کا بڑا انحصار پاکستان پر ہے، اسے دشمن کی صفوں میں شامل ہونے سے ممکنہ حد تک روکا جا سکے تاکہ ملک کو جس دہشت گردی اور بدامنی کی لہر کا سامنا ہے اس میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکے۔
پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں ملکوں کے فوجی اور انٹیلی جنس نمائندے ایک مشترکہ نظام کے تحت کارروائیوں کی نگرانی کریں تاکہ کسی حملے کی صورت میں فوری ردعمل ممکن ہو، مگر افغان فریق نے اسے ’’ غیر ملکی مداخلت‘‘ قرار دے کر رد کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں تو پھر تصدیق کے نظام سے خوف کیوں؟ دراصل طالبان حکومت داخلی طور پر منقسم ہے۔ ایک طرف وہ بین الاقوامی شناخت چاہتی ہے، دوسری طرف ٹی ٹی پی اور القاعدہ سے روابط توڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ترکیہ اور قطر نے ثالثی کے طور پر ایک سمجھوتے کی صورت تجویز کیا کہ پہلے تکنیکی سطح پر رابطے بحال کیے جائیں، بعد میں سیاسی معاملات طے کیے جائیں۔ یہ ایک قابل عمل تجویز تھی مگر کابل کے رویے نے اس کی راہ میں بھی رکاوٹ ڈال دی۔
مذاکرات کا ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ دونوں فریقوں نے ’’تکنیکی سطح‘‘ پر رابطے برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔ یعنی دروازہ مکمل طور پر بند نہیں ہوا۔ مگر اعتماد کا فقدان اتنا گہرا ہے کہ کوئی پیش رفت تبھی ممکن ہے جب کابل اپنے وعدوں کو تحریری شکل دے۔ زبانی یقین دہانیوں اور مذہبی حوالوں سے اب کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ افغانستان کو سمجھنا ہوگا کہ خود مختاری صرف ایک ملک کا حق نہیں، ایک ذمے داری بھی ہے۔ جب اس کے علاقوں سے پاکستان پر حملے ہوں تو وہ خودمختاری نہیں، لاپرواہی کہلاتی ہے۔
پاکستان نے اپنے عوام، فوج اور سفارت کاروں کی قربانیوں سے جو امن حاصل کیا ہے، اسے کسی دوسرے ملک کی کمزوریوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ اس تنازع میں ترکیہ اور قطرکا کردار امید کی کرن ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف اسلامی برادری میں معتبر حیثیت رکھتے ہیں بلکہ ان کے پاس ثالثی کا عملی تجربہ بھی ہے، اگر وہ ایک مشترکہ مانیٹرنگ کمیشن کے قیام میں کامیاب ہو گئے تو شاید مستقبل قریب میں کوئی پیش رفت ممکن ہو۔ آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ استنبول مذاکرات مشکلات کا شکار ضرور ہوئے مگر انھوں نے پاکستان کے اصولی اور حقیقت پسندانہ موقف کو بین الاقوامی سطح پر واضح کر دیا۔ اسلام آباد نے ثابت کیا کہ وہ جنگ نہیں، امن چاہتا ہے۔
مگر ایسا امن جو احترامِ خود مختاری، تصدیق شدہ عمل اور دہشت گردی سے پاک ہمسائیگی پر مبنی ہو۔ افغانستان کے حکمرانوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ماضی کے خول میں بند رہنا چاہتے ہیں یا ایک ذمے دار ریاست کے طور پر اپنے ہمسایوں کے ساتھ نئے باب کا آغاز چاہتے ہیں۔
پاکستان کا دروازہ اب بھی کھلا ہے، مگر شرط وہی ہے ’’امن کے بدلے امن۔‘‘ جنگ کبھی مسائل کا حل نہیں ہوا کرتی، پاک افغان جنگ بندی معاہدہ اچھی پیشرفت ہے، یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اگر اس معاہدے پر من و عن عملدرآمد ہوجاتا ہے تو پھر دونوں ملکوں کے عوام کو دہشت گردی سے چھٹکارا حاصل ہوگا اور امن و امان کے عوض سکھ کا سانس نصیب ہوگا اور خطے میں سیاسی و معاشی استحکام بھی آئے گا۔