Express News:
2025-05-23@20:34:33 GMT

خط: خوشبو، شاعری اور ایک کھویا ہوا زمانہ

اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT

ترقی نے ہمیں ای میل، میسیج اور فوری رسائی تو دی، مگر وہ خامشی چرا لی جو کسی سادہ سے لفافے میں لپٹی ہوتی تھی۔ خط صرف پیغام نہیں ہوتا تھا، وہ تہذیب تھا، خوشبو تھا، اور محبت کی ایک مکمل زبان۔

صرف ایک خط لکھنے میں کئی دن، کئی سوچیں اور کئی دھڑکنیں صرف ہوتی تھیں۔

ہم خط لکھنے سے پہلے قلم کو سنوارتے، کاغذ کا انتخاب کرتے، اور کئی بار جملے مٹاتے، نئے لکھتے کہ کہیں دل کی بات غلط نہ اتر جائے۔ لفافے کو چومنا، اسے سونگھنا، بار بار پڑھنا، اور کسی خاص لفظ پر رک جانا.

.. یہ سب خط پڑھنے کے وہ تجربے تھے جو صرف محسوس کیے جا سکتے تھے، بیان نہیں۔

پہلے خط کے اوپر شاعری ہوا کرتی تھی، کسی کونے میں دل بنا ہوتا، کہیں دو پھول، کہیں محبوب کا نام۔ اور کہیں بس ایک خاموشی جو بہت کچھ کہہ جاتی۔ اور وہ لمحے جب ہم لفافے کو سونگھتے تھے... اس میں صرف الفاظ نہیں، دعائیں، جذبات اور محبت کی خوشبو ہوتی تھی۔ خط ایک پیغام نہیں، ایک مکمل تہذیب تھا۔ ایک ایسا تعلق جو صرف تحریر سے نہیں، احساسات سے بندھا ہوتا تھا۔

جب میں گیارہویں جماعت میں تھا، نانی کے گھر کے قریب ایک چھت پر ایک لڑکی نظر آتی تھی۔ اس کا گھر کچھ فاصلے پر تھا، اور وہ مجھے کبھی دیکھتی نہیں تھی، یا شاید میں ہی یہ سمجھتا رہا۔ اس بے خبری نے دل کو بے چین کردیا۔ تنگ آکر میں نے زندگی کا پہلا خط لکھا۔ اپنا نام نہیں لکھا، ہمت ہی نہ ہوئی۔ بس اتنا لکھا کہ میں فلاں ماموں کا بھانجا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ مجھے پہچان لیں، صرف دیکھ لیں۔ اس خط کو میں نے احتیاط سے ایک چھوٹے پتھر میں لپیٹا، اور اس کے گھر کی عقبی گلی میں جا کر چھت کی طرف اچھال دیا۔ دل دھڑک رہا تھا جیسے کسی جرم کا ارتکاب کررہا ہوں۔ اور جب تک اس نے چھت سے کوئی اشارہ نہیں کیا، میرا دل جیسے مٹھی میں بند رہا۔ اور پھر جب وہ اشارہ آیا ... شاید ایک پل کےلیے ... دل نے جیسے سکون کا سانس لیا، اور میں خود کو کائنات کا سب سے خوش نصیب انسان سمجھ بیٹھا۔

کئی دن بعد اس کا جواب آیا ... اسی طرح، خاموشی سے، چھت کے راستے۔ اور جب میں نے وہ خط پڑھا، تو میری دنیا ایک لمحے کو تھم گئی۔ اس خط کو میں نے سینے سے لگایا، بار بار پڑھا، اور تکیے کے نیچے رکھ کر سویا۔ شاید وہ پہلی رات تھی جب نیند اتنی میٹھی آئی، جیسے کوئی خواب پورا ہوگیا ہو۔

آج کا دور بدل چکا ہے۔ ای میل، واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام، اور اب تو اے آئی چیٹ بوٹس بھی آگئے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ: کیا ان سب میں وہی جذبہ، وہی تڑپ، وہی تھرتھراہٹ ہے جو خط لکھنے یا پڑھنے میں ہوا کرتی تھی؟

آج کوئی کسی کو میسیج کرتا ہے، ’ٹِک بلیو‘ ہوجاتی ہے، ’سین‘ ہوجاتا ہے، اور جواب بھی آجاتا ہے ... لیکن اس میں نہ وہ انتظار ہے، نہ دل کی دھڑکن کا اتار چڑھاؤ۔

’پوسٹ مین آیا‘ کہنے کی خوشی، گلی میں دوڑنے کی چاہت، وہ ’جلدی سے لفافہ کھولو‘ کا لمحہ ... یہ سب کہاں چلا گیا؟

ہمیں بتایا جارہا ہے کہ اگلی نسل واٹس ایپ کو یاد کرے گی جیسے ہم خط کو کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایسا ہو، لیکن وہ خوشبو؟ وہ تہذیب؟ کیا اسے ڈیجیٹل دنیا کبھی لوٹا سکے گی؟

خط میں احساس لکھا جاتا تھا، آج کل جذبات forward کیے جاتے ہیں۔ خط کو چھو کر محسوس کیا جاتا تھا، آج اسکرین چھوئی جاتی ہے۔ لفظ دل سے نکلتے تھے، آج کی بورڈ سے ٹپکتے ہیں۔ آج نہ وہ انتظار کی لذت ہے، نہ وہ صفحے پر مچلتے لفظ، نہ وہ پگھلتے دل کی روانی۔ اب تو نہ وہ چاندنی رات ہے، نہ تکیے کے نیچے رکھے خط کی خوشی، نہ ہی محبوب کی تحریر کو بار بار پڑھنے والا وقت۔

کبھی خط صرف پڑھا نہیں جاتا تھا، سنا جاتا تھا۔ آنکھیں لفظوں میں ڈوب جاتی تھیں، دل تحریر کے ساتھ دھڑکنے لگتا تھا۔ شاعری صرف اشعار میں نہیں، خط کے ایک ایک لفظ میں موجود ہوتی تھی۔ آج خط نہیں آتے، اور اگر آتے بھی ہیں تو ان میں نہ شاعری ہوتی ہے، نہ خوشبو، نہ وہ دل۔

اب جب کہ خط کا زمانہ نہیں رہا، تو نہ خط پر گانے بنتے ہیں، نہ ہی شاعری لکھی جاتی ہے۔ موبائل، ای میل اور چیٹ نے وہ جذبات چھین لیے ہیں جو کسی سادہ سے لفافے میں بند ہوتے تھے۔ کتنے ہی نغمے اور فلمی گانے آج بھی سماعت پر دستک دیتے ہیں جن میں ’’خط‘‘ ہی محبت کا وسیلہ ہے۔ ذیل میں ہم ان مشہور گانوں کی فہرست پیش کر رہے ہیں جو ’’خط‘‘ کے گرد گھومتے ہیں۔ آپ پڑھیں اور سر دھنیں کہ کیسے کیسے نایاب شاہکار ہمارے شاعروں نے تخلیق کیے تھے:

’’یہ میرا پریم پتر پڑھ کر‘‘ (فلم: سنگم 1964)
’’لکھے جو خط تجھے‘‘ (فلم: کنیادان 1968)
’’پھول تمہیں بھیجا ہے خط میں‘‘ (فلم: سرسوتی چندرا 1968)
’’چھٹی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے‘‘ (فلم: دوستی 1971)
’’تمہارے خط میں لکھا وہ سلام کس کا تھا‘‘ (پرائیوٹ البم غلام علی 1977)
’’تیرے خوشبو میں بسے خط میں جلاتا کیسے‘‘ (فلم: ارتھ 1982)
’’ہم نے صنم کو خط لکھا‘‘ (فلم: شکتی 1982)
’’چھٹی آئی ہے، آئی ہے‘‘ (فلم: نام 1986)
’’کبوتر جا جا کبوتر جا جا‘‘ (فلم: میں نے پیار کیا 1989)
’’خط لکھنا ہے پر سوچتی ہوں‘‘ (فلم :کھیل 1992)
’’پیار کے کاغذ پہ‘‘ (فلم: جگر 1992)
’’خط میں نے تیرے نام لکھا‘‘ (فلم: بے خودی 1992)
’’سندیسے آتے ہیں، ہمیں تڑپاتے ہیں‘‘ (فلم: بارڈر 1997)
’’پھول میں بھیجوں‘‘ (فلم: سلمیٰ پہ دل آگیا 1997)
’’قصہ ہم لکھیں گے دل بے قرار کا‘‘ (فلم: ڈولی سجا کے رکھنا 1998)
’’چٹھی نہ کوئی سندیس‘‘ (فلم: دشمن 1998)
’’وہ خط کے پرزے جلا رہا تھا‘‘ (جگجیت سنگھ: 1999)
’’پہلی پہلی بار محبت کی ہے‘‘ (فلم: صرف تم 1999)
’’میرے محبوب کا آ یا ہے محبت نامہ‘‘ (ناہید اختر)
’’اس خط کو میری آخری تحریر سمجھنا‘‘ (نورجہاں)

اور درجنوں نایاب شاہکار جن میں خط جذبات کا مرکزی استعارہ بن جاتا تھا۔ آج کل لوگ کہتے ہیں ’’میسیج کردیا ہے‘‘، ’’ڈی ایم کردیا ہے‘‘۔ لیکن اس میں وہ خوشبو، وہ تڑپ، وہ شاعری کہاں جو ایک خط میں ہوا کرتی تھی؟ شاید اسی لیے اب نہ کوئی خط لکھتا ہے، نہ ہی کوئی ایسا گانا بنتا ہے جس پر زمانہ سر دھن سکے۔

آج کے بچے شاید حیران ہوں کہ محبت کبھی لفافے میں آتی تھی، اور اس پر ڈاک کا ٹکٹ لگتا تھا۔ لیکن ہمارے جیسے لوگ جانتے ہیں کہ وہ ڈاک کا ٹکٹ دل کا یقین ہوا کرتا تھا۔ خط ایک زمانہ تھا، جو اب صرف یادوں میں ہے۔ اور یہ تحریر صرف ’’خط‘‘ کا نوحہ نہیں، ایک مکمل تہذیب، ایک مکمل دور کے بچھڑنے کا نوحہ ہے۔ اور اب...

جب کبھی دل بے وجہ اداس ہوتا ہے، تو جی چاہتا ہے کوئی پرانا صندوق کھولا جائے، جس میں برسوں پرانے لفافے، ذرا مڑے تڑے کاغذ، اور مدھم ہوچکی روشنائی میں لپٹے کچھ جذبے نکلیں۔ کوئی پرانا خط ہاتھ میں ہو، جس پر کسی اپنے کے لمس کی پرچھائیں ہو۔ ایسا خط جسے پڑھتے ہوئے آنکھیں بند کر کے ہم اُس وقت میں واپس چلے جائیں جب لفظوں میں محبت تھی، دعاؤں میں خوشبو تھی، اور خاموشی بھی گفتگو کرتی تھی۔

شاید اب کوئی خط نہ آئے،
شاید ہم خود بھی کبھی خط نہ لکھیں،
لیکن یادوں کی پوٹلی میں،
کسی پرانی رات کی تنہائی میں،
لفظوں کا ایک خط ضرور ہوتا ہے
جو ہم دل میں بار بار پڑھتے ہیں...
بے آواز، بے توقیر، مگر بے حد عزیز۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کرتی تھی ایک مکمل ہوتی تھی جاتا تھا

پڑھیں:

ایک سبق آموز روداد

سہیل خان پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں۔ وہ پی پی 240 بہاولنگر سے آزاد امیدوار کے طور پر منتخب ہوئے ہیں۔ تاہم یہ ذہن میں رکھیئے کہ وہ سنی اتحاد کونسل یا تحریک انصاف والے آزاد امیدوار نہیں تھے۔

وہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کو ہرا کر منتخب ہوئے ہیں۔اس لیے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ حقیقی آزاد رکن پنجاب اسمبلی ہیں۔بعد میں انھوں نے مسلم لیگ (ن) کو جوائن کیا تھا۔ وہ ایک صحافی بھی ہیں۔ بہاولنگر میں وہ صحافت بھی کرتے رہے ہیں۔ لیکن اپنے خدمت خلق کی وجہ سے وہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی جیسی بڑی سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کو ہرانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

سہیل خان کی کہانی بھی عجیب ہے۔ وہ آجکل اپنی خدمت خلق کے جذبہ کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ میں نے ان کی کہانی سنی ہے، سوچا آپ کے ساتھ بھی شیئر کروں۔ پانچ جنوری کی بات ہے۔ ان کے حلقے میں مسافر بس اور کوسٹر کا حادثہ ہوا، چار لوگوں موقع پر ہی جان سے چلے گئے جب کہ کئی زخمی ہوئے۔ یہ ایک المناک حادثہ تھا۔میں نے اس حادثے کی رپورٹ دیکھی ہے،اس میں لکھا ہے کہ یہ المناک حادثہ بس ڈرائیور کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔

بہر حال جب اس ایکسیڈنٹ کی خبر علاقے کے ایم پی اے سہیل خان کو ملی تو وہ حلقے میں موجود تھے۔ وہ فوری موقع پر پہنچے، زخمیوں کو اسپتال پہنچانے کا بندو بست کیا۔ اپنی گاڑیوں کو بھی زخمیوں کو استعمال کیا۔ اس کاوش کی وجہ سے کچھ جانیں بچ بھی گئیں۔

زخمیوں کو علاج کی سہولت یقینی بنانے کے بعد ایم پی اے صاحب حادثے میں جاں بحق ہوجانے والوں کی تدفین میں لگ گئے۔ وہ درد دل رکھنے والے انسان ہیں ورنہ جائے وقوعہ کے دورے کے بعد وہ گھر جا سکتے تھے اور چند روز کے بعد پروٹوکول کے ساتھ مرحومین کے لواحقین سے تعزیت کے لیے ان کے گھروں میں جا سکتے تھے۔ لیکن سہیل خان ایسا نہیںکیا۔ وہ اس ایکسیڈنٹ سے کافی رنجیدہ تھے۔ انھیں لوگوں کے مرنے کا بہت دکھ تھا۔

اس ایکسیڈنٹ کے بعد سہیل خان نے پولیس کے اعلیٰ عہدیدارن سے کہا کہ علاقہ میں بہت ایکسیڈنٹ ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ڈرائیورز کی غیر ذمے دارانہ ڈرائیونگ ہے ۔ لیکن ایک وجہ یہ بھی ہے کہ غیر معیاری بسیں بھی علاقہ میں چل رہی ہیں۔ ان بسوں کا فٹنس سرٹفکیٹ نہیں ہے۔

انھوں نے پولیس سے کہا کہ سڑکوں پر بغیر فٹنس سرٹیفکیٹ کے چلنے والوں بسوں کو بند کیا جائے۔ سہیل خان کا یہ موقف ہے کہ عالمی معیار یہی ہے کہ بس کے ڈرائیور کی سیٹ نیچی ہوتی ہے تاکہ وہ سڑک کے برابر ہوں۔ یہ جو بسوں کے ڈھانچے پاکستان میں بنتے ہیں ان میں ڈرائیور کی سیٹ اونچی بنا دی جاتی ہے۔ جو خلاف قانون ہے۔ سہیل خان کا موقف ہے کہ ایسی بسیں جن کے ڈرائیور کی سیٹ اونچی ہے، انھیں سڑک پر چلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

سہیل خان نے اس ضمن میں پنجاب اسمبلی میں ایک دھواں دھار تقریر کی بھی کی ۔ انھوں نے ایکسیڈنٹس کی تفصیل بھی پنجاب اسمبلی میں پیش کی۔ ان کی تقریر بس مالکان کو پسند نہیں آئی ، انھیں ہاتھ ہلکا رکھنے کے لیے سفارشیں آئیں۔

ان کے ساتھی ان کو سفارشیں کرنے لگے۔ لیکن جس تواتر سے ٹریفک حادثے ہورہے ہیں اور جتنی بڑی تعداد میں مسافروں کی اموات ہورہی ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے عوام کے منتخب نمایندوں کو بھی تو کچھ نہ کچھ احساس ہونا چاہیے اور جتنا ہو سکے ، وہ حکومت کو آگاہ کریں کہ ٹریفک حادثات کس طرح ہوتے ہیں؟ کیوں ہوتے ہیں ؟ ذمے دارکون ہے؟ اور ان حادثات کی روک تھام کیسے ہوسکتی ہے؟ ایم پی اے سہیل خان کے خیال میں وہ حق بات کررہے ہیں کیونکہ یہ لوگوں کی جانوں معاملہ ہے۔ اس لیے کوئی لچک نہیں ہونی چاہیے۔

 اب آگے سنیئے!11مئی کو ایم پی اے سہیل خان کا بیٹا اپنی گاڑی میں جا رہا تھا کہ ایک بس نے گاڑی کو بری طرح ٹکر مار دی، ایم پی اے سہیل خان کا بیٹا شدید زخمی ہوا۔ سہیل خان کی رائے میں جب وہ ٹریفک حادثاث کے حوالے سے اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹ رہے تو انھیں سخت پیغام دینے کے لیے یہ ایکسیڈنٹ کرا دیا گیا ہے۔

یہ ان کے لیے پیغام ہے کہ خاموش ہو جاؤ ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔ سہیل خان رکن پنجاب اسمبلی ہیں۔ انھوں نے آزاد جیت کر حکومتی جماعت جوائن کی ہے، میرا خیال ہے کہ ایسی صورتحال میں تو ان کو انصاف ملنا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن مسلہ یہ ہوا ہے کہ ایم پی اے موصوف جس قسم کا پرچہ کرانا چاہتے ہیں، پولیس نے ویسا درج نہیں کیا۔ وہ سمجھتے ہیں ان کے بیٹے کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے اوروہ نامزد قتل کرنے کی سازش کا پرچہ درج کرانا چاہتے تھے۔ لیکن مقامی پولیس نے ایکسیڈنٹ کی ہی ایف آئی آر درج کی ہے۔

اس کے بعد سہیل خان نے پنجاب اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس جمع کروایا۔ اس توجہ دلاؤ نوٹس میں انھوں نے اپنے خاندان پر حملہ کا ذکر کیا۔ لیکن اس توجہ دلاؤ نوٹس سے بھی کچھ نہیں ہوسکا ۔ پھر کیا ہوسکتا ہے، وہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس طرح کے کاموں کیا ہوتا ہے۔ رکن پنجاب اسمبلی نے صلح کرنے میں ہی عافیت جانی۔ یہ رودار بیان کرنے کا مقصد کسی کو درست یا غلط ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بیان کرنا ہے کہ ہمارا نظام اتنا گیا گزرا ہے کہ ایک ایم پی اے اپنے لیے بھی کچھ نہیں کرسکتا ، یہ ایک واقعہ نہیں ہے۔

ایسا ہمارے معاشرے میں روز ہوتا ہے۔ ٹرانسپورٹرز پاکستان کا ایک بڑا طاقتور طبقہ ہے۔ اگر نظارہ کرنا ہو تو ٹرک اور بس اڈوں پر جاکر دیکھ لیں، آپ کو لگے کا کہ ان سے طاقتور کوئی نہیں ہے۔ ایک ایم پی اے ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ لیکن پنجاب حکومت کو تو کوئی پالیسی بنانی چاہیے۔ ایک ایم پی اے تو ہوسکتا ہے ، کمزور ہو لیکن حکومت تو کمزور نہیں ہوتی ، ریاست کے سامنے کوئی کچھ نہیں ہوتا۔

پاکستان میں ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد دہشت گردی کی وارداتوں میں مارے جانے والوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ کراچی میں تو ڈمپرز کی ٹکروں سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہوئی ہے کہ وہاں ایم کیو ایم باقاعدہ احتجاج کے لیے باہر نکلی‘ جماعت اسلامی بھی احتجاج کرتی ہے حتی کہ پیپلز پارٹی جس کی حکومت ہے وہ بھی حادثات پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ ایسے میں پنجاب میں بسوں اور دیگر موٹر وہیکلز حادثات کی شرح مزید بڑھی تو یہ عوامی احتجا ج کی بھی شکل اختیار کر سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نیم کے سائے، تلسی کی خوشبو
  • غزہ، ظلم کی انتہا اور انسانیت کا امتحان
  • فلسفۂ قربانی اور عصرِ جدید
  • بھارت آگ سے کھیل رہا ہے، اگر جنگ چاہیے تو جنگ سہی،ڈی جی آئی ایس پی آر
  • پاکستان اور بھارت میں زمانہ امن کی پوزیشن پر واپس آنے پر اتفاق رائے ہوگیا، وزیراعظم
  • پاکستان اور بھارت زمانہ امن کی پوزیشن میں واپس آ گئے ہیں: وزیراعظم
  • پاکستان اور بھارت زمانہ امن کی پوزیشن پر واپس آگئے، وزیراعظم شہباز شریف
  • کشش بلوچ، مہر گڑھ کی وارث
  • ایک سبق آموز روداد