خط: خوشبو، شاعری اور ایک کھویا ہوا زمانہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
ترقی نے ہمیں ای میل، میسیج اور فوری رسائی تو دی، مگر وہ خامشی چرا لی جو کسی سادہ سے لفافے میں لپٹی ہوتی تھی۔ خط صرف پیغام نہیں ہوتا تھا، وہ تہذیب تھا، خوشبو تھا، اور محبت کی ایک مکمل زبان۔
صرف ایک خط لکھنے میں کئی دن، کئی سوچیں اور کئی دھڑکنیں صرف ہوتی تھیں۔
ہم خط لکھنے سے پہلے قلم کو سنوارتے، کاغذ کا انتخاب کرتے، اور کئی بار جملے مٹاتے، نئے لکھتے کہ کہیں دل کی بات غلط نہ اتر جائے۔ لفافے کو چومنا، اسے سونگھنا، بار بار پڑھنا، اور کسی خاص لفظ پر رک جانا.
پہلے خط کے اوپر شاعری ہوا کرتی تھی، کسی کونے میں دل بنا ہوتا، کہیں دو پھول، کہیں محبوب کا نام۔ اور کہیں بس ایک خاموشی جو بہت کچھ کہہ جاتی۔ اور وہ لمحے جب ہم لفافے کو سونگھتے تھے... اس میں صرف الفاظ نہیں، دعائیں، جذبات اور محبت کی خوشبو ہوتی تھی۔ خط ایک پیغام نہیں، ایک مکمل تہذیب تھا۔ ایک ایسا تعلق جو صرف تحریر سے نہیں، احساسات سے بندھا ہوتا تھا۔
جب میں گیارہویں جماعت میں تھا، نانی کے گھر کے قریب ایک چھت پر ایک لڑکی نظر آتی تھی۔ اس کا گھر کچھ فاصلے پر تھا، اور وہ مجھے کبھی دیکھتی نہیں تھی، یا شاید میں ہی یہ سمجھتا رہا۔ اس بے خبری نے دل کو بے چین کردیا۔ تنگ آکر میں نے زندگی کا پہلا خط لکھا۔ اپنا نام نہیں لکھا، ہمت ہی نہ ہوئی۔ بس اتنا لکھا کہ میں فلاں ماموں کا بھانجا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ مجھے پہچان لیں، صرف دیکھ لیں۔ اس خط کو میں نے احتیاط سے ایک چھوٹے پتھر میں لپیٹا، اور اس کے گھر کی عقبی گلی میں جا کر چھت کی طرف اچھال دیا۔ دل دھڑک رہا تھا جیسے کسی جرم کا ارتکاب کررہا ہوں۔ اور جب تک اس نے چھت سے کوئی اشارہ نہیں کیا، میرا دل جیسے مٹھی میں بند رہا۔ اور پھر جب وہ اشارہ آیا ... شاید ایک پل کےلیے ... دل نے جیسے سکون کا سانس لیا، اور میں خود کو کائنات کا سب سے خوش نصیب انسان سمجھ بیٹھا۔
کئی دن بعد اس کا جواب آیا ... اسی طرح، خاموشی سے، چھت کے راستے۔ اور جب میں نے وہ خط پڑھا، تو میری دنیا ایک لمحے کو تھم گئی۔ اس خط کو میں نے سینے سے لگایا، بار بار پڑھا، اور تکیے کے نیچے رکھ کر سویا۔ شاید وہ پہلی رات تھی جب نیند اتنی میٹھی آئی، جیسے کوئی خواب پورا ہوگیا ہو۔
آج کا دور بدل چکا ہے۔ ای میل، واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام، اور اب تو اے آئی چیٹ بوٹس بھی آگئے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ: کیا ان سب میں وہی جذبہ، وہی تڑپ، وہی تھرتھراہٹ ہے جو خط لکھنے یا پڑھنے میں ہوا کرتی تھی؟
آج کوئی کسی کو میسیج کرتا ہے، ’ٹِک بلیو‘ ہوجاتی ہے، ’سین‘ ہوجاتا ہے، اور جواب بھی آجاتا ہے ... لیکن اس میں نہ وہ انتظار ہے، نہ دل کی دھڑکن کا اتار چڑھاؤ۔
’پوسٹ مین آیا‘ کہنے کی خوشی، گلی میں دوڑنے کی چاہت، وہ ’جلدی سے لفافہ کھولو‘ کا لمحہ ... یہ سب کہاں چلا گیا؟
ہمیں بتایا جارہا ہے کہ اگلی نسل واٹس ایپ کو یاد کرے گی جیسے ہم خط کو کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایسا ہو، لیکن وہ خوشبو؟ وہ تہذیب؟ کیا اسے ڈیجیٹل دنیا کبھی لوٹا سکے گی؟
خط میں احساس لکھا جاتا تھا، آج کل جذبات forward کیے جاتے ہیں۔ خط کو چھو کر محسوس کیا جاتا تھا، آج اسکرین چھوئی جاتی ہے۔ لفظ دل سے نکلتے تھے، آج کی بورڈ سے ٹپکتے ہیں۔ آج نہ وہ انتظار کی لذت ہے، نہ وہ صفحے پر مچلتے لفظ، نہ وہ پگھلتے دل کی روانی۔ اب تو نہ وہ چاندنی رات ہے، نہ تکیے کے نیچے رکھے خط کی خوشی، نہ ہی محبوب کی تحریر کو بار بار پڑھنے والا وقت۔
کبھی خط صرف پڑھا نہیں جاتا تھا، سنا جاتا تھا۔ آنکھیں لفظوں میں ڈوب جاتی تھیں، دل تحریر کے ساتھ دھڑکنے لگتا تھا۔ شاعری صرف اشعار میں نہیں، خط کے ایک ایک لفظ میں موجود ہوتی تھی۔ آج خط نہیں آتے، اور اگر آتے بھی ہیں تو ان میں نہ شاعری ہوتی ہے، نہ خوشبو، نہ وہ دل۔
اب جب کہ خط کا زمانہ نہیں رہا، تو نہ خط پر گانے بنتے ہیں، نہ ہی شاعری لکھی جاتی ہے۔ موبائل، ای میل اور چیٹ نے وہ جذبات چھین لیے ہیں جو کسی سادہ سے لفافے میں بند ہوتے تھے۔ کتنے ہی نغمے اور فلمی گانے آج بھی سماعت پر دستک دیتے ہیں جن میں ’’خط‘‘ ہی محبت کا وسیلہ ہے۔ ذیل میں ہم ان مشہور گانوں کی فہرست پیش کر رہے ہیں جو ’’خط‘‘ کے گرد گھومتے ہیں۔ آپ پڑھیں اور سر دھنیں کہ کیسے کیسے نایاب شاہکار ہمارے شاعروں نے تخلیق کیے تھے:
’’یہ میرا پریم پتر پڑھ کر‘‘ (فلم: سنگم 1964)
’’لکھے جو خط تجھے‘‘ (فلم: کنیادان 1968)
’’پھول تمہیں بھیجا ہے خط میں‘‘ (فلم: سرسوتی چندرا 1968)
’’چھٹی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے‘‘ (فلم: دوستی 1971)
’’تمہارے خط میں لکھا وہ سلام کس کا تھا‘‘ (پرائیوٹ البم غلام علی 1977)
’’تیرے خوشبو میں بسے خط میں جلاتا کیسے‘‘ (فلم: ارتھ 1982)
’’ہم نے صنم کو خط لکھا‘‘ (فلم: شکتی 1982)
’’چھٹی آئی ہے، آئی ہے‘‘ (فلم: نام 1986)
’’کبوتر جا جا کبوتر جا جا‘‘ (فلم: میں نے پیار کیا 1989)
’’خط لکھنا ہے پر سوچتی ہوں‘‘ (فلم :کھیل 1992)
’’پیار کے کاغذ پہ‘‘ (فلم: جگر 1992)
’’خط میں نے تیرے نام لکھا‘‘ (فلم: بے خودی 1992)
’’سندیسے آتے ہیں، ہمیں تڑپاتے ہیں‘‘ (فلم: بارڈر 1997)
’’پھول میں بھیجوں‘‘ (فلم: سلمیٰ پہ دل آگیا 1997)
’’قصہ ہم لکھیں گے دل بے قرار کا‘‘ (فلم: ڈولی سجا کے رکھنا 1998)
’’چٹھی نہ کوئی سندیس‘‘ (فلم: دشمن 1998)
’’وہ خط کے پرزے جلا رہا تھا‘‘ (جگجیت سنگھ: 1999)
’’پہلی پہلی بار محبت کی ہے‘‘ (فلم: صرف تم 1999)
’’میرے محبوب کا آ یا ہے محبت نامہ‘‘ (ناہید اختر)
’’اس خط کو میری آخری تحریر سمجھنا‘‘ (نورجہاں)
اور درجنوں نایاب شاہکار جن میں خط جذبات کا مرکزی استعارہ بن جاتا تھا۔ آج کل لوگ کہتے ہیں ’’میسیج کردیا ہے‘‘، ’’ڈی ایم کردیا ہے‘‘۔ لیکن اس میں وہ خوشبو، وہ تڑپ، وہ شاعری کہاں جو ایک خط میں ہوا کرتی تھی؟ شاید اسی لیے اب نہ کوئی خط لکھتا ہے، نہ ہی کوئی ایسا گانا بنتا ہے جس پر زمانہ سر دھن سکے۔
آج کے بچے شاید حیران ہوں کہ محبت کبھی لفافے میں آتی تھی، اور اس پر ڈاک کا ٹکٹ لگتا تھا۔ لیکن ہمارے جیسے لوگ جانتے ہیں کہ وہ ڈاک کا ٹکٹ دل کا یقین ہوا کرتا تھا۔ خط ایک زمانہ تھا، جو اب صرف یادوں میں ہے۔ اور یہ تحریر صرف ’’خط‘‘ کا نوحہ نہیں، ایک مکمل تہذیب، ایک مکمل دور کے بچھڑنے کا نوحہ ہے۔ اور اب...
جب کبھی دل بے وجہ اداس ہوتا ہے، تو جی چاہتا ہے کوئی پرانا صندوق کھولا جائے، جس میں برسوں پرانے لفافے، ذرا مڑے تڑے کاغذ، اور مدھم ہوچکی روشنائی میں لپٹے کچھ جذبے نکلیں۔ کوئی پرانا خط ہاتھ میں ہو، جس پر کسی اپنے کے لمس کی پرچھائیں ہو۔ ایسا خط جسے پڑھتے ہوئے آنکھیں بند کر کے ہم اُس وقت میں واپس چلے جائیں جب لفظوں میں محبت تھی، دعاؤں میں خوشبو تھی، اور خاموشی بھی گفتگو کرتی تھی۔
شاید اب کوئی خط نہ آئے،
شاید ہم خود بھی کبھی خط نہ لکھیں،
لیکن یادوں کی پوٹلی میں،
کسی پرانی رات کی تنہائی میں،
لفظوں کا ایک خط ضرور ہوتا ہے
جو ہم دل میں بار بار پڑھتے ہیں...
بے آواز، بے توقیر، مگر بے حد عزیز۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرتی تھی ایک مکمل ہوتی تھی جاتا تھا
پڑھیں:
انسان بیج ہوتے ہیں
بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا تھا‘ یہ دونوں بھارت کی بڑی آٹو موبائل کمپنی مہندرا اینڈ مہندرا میں ملازم تھے‘ یہ کمپنی 1945 میں ممبئی کے تاجر جگدیش مہندرا اور مشہور سول سرونٹ غلام محمد نے بنائی تھی اور اس کا نام شروع میں مہندرا اینڈ محمد تھا‘ ملک غلام محمد علی گڑھ یونیورسٹی کے گریجوایٹ تھے۔
آئی سی ایس کیا اور ریلوے اکاؤنٹس سروس میں شامل ہو گئے‘ ریلوے اس زمانے میں بھارت کی سب سے بڑی آرگنائزیشن تھی‘ اس کا ریونیو انڈیا کے ٹوٹل ریونیو کا اکاون فیصد ہوتا تھا‘ غلام محمد اور جگدیش مہندرا دوست تھے چناں چہ دونوں نے مل کر انڈیا کی پہلی آٹو موبائل کمپنی مہندرا اینڈ محمد بنا لی۔
یہ عرف عام میں ایم اینڈ ایم کہلاتی تھی‘ اس کا مقصد بھارت میں گاڑیاں بنانا تھا‘ 1947میں ہندوستان تقسیم ہو گیا‘ ملک غلام محمد پاکستان آ گئے اور وزیراعظم لیاقت علی خان کی کابینہ میں ملک کے پہلے وزیر خزانہ بن گئے۔
پاکستان میں ترقی کا پہلا پانچ سالہ منصوبہ بھی ملک غلام محمد نے بنایا تھا‘ بہرحال یہ 1951 میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد گورنر جنرل بن گئے اور باقی سب تاریخ ہے‘ ملک غلام محمد کے پاکستان آنے کے بعد جگدیش مہندرا نے اپنے بھائی کیلاش مہندرا کوساتھ شامل کر لیا اور یوں مہندرا اینڈ محمدتبدیل ہو کر مہندرا اینڈ مہندرا ہو گئی۔
یہ کمپنی اب گروپ آف کمپنیز ہے اور انڈیا کی ٹاپ کمپنیوں میں شامل ہے‘ ان کی ایم اینڈ ایم جیپ (ایس یو وی) بھارت میں بہت مشہور ہے‘ مہندرا ٹریکٹر دنیا میں سب سے زیادہ ٹریکٹر بنانے والی کمپنی ہے‘ 2024 میں اس نے 19 بلین ڈالر کا کاروبار کیا۔
اس کا ہیڈکوارٹر ممبئی میں ہے‘ آنند مہندرا اس وقت اس کے چیئرمین اور انش شاہ سی ای او ہیں‘ یہ آج بھی ملک میں لگژری ایس یو وی‘ کمرشل گاڑیاں‘ ٹریکٹر اور موٹر سائیکل بنانے والا سب سے بڑا برینڈ ہے۔
میں ستمش اور جیتو کی طرف واپس آتا ہوں‘ یہ دونوں چیئرمین آنند مہندرا کے آفس میں ٹی بوائے تھے‘ یہ چیئرمین اور اس کے مہمانوں کو چائے پیش کرتے تھے‘ دونوں صاف ستھرے اور ڈسپلنڈ تھے‘ چھٹی نہیں کرتے تھے‘ ذاتی‘ برتنوں اور ٹرے کی صفائی کا خاص خیال رکھتے تھے۔
چیئرمین اور ان کے مہمانوں کے مزاج بھی سمجھتے تھے‘ ان لوگوں کو کس وقت کیا چاہیے یہ جانتے تھے‘ آنند ان سے بہت خوش تھا‘ ایک دن اس نے چلتے چلتے ان سے پوچھ لیا ’’تمہاری تعلیم کتنی ہے؟‘‘ دونوں ایف اے پاس تھے‘ آنند مہندرا نے ان سے تعلیم جاری نہ رکھنے کی وجہ پوچھی تو دونوں کا جواب تھا ’’غربت‘‘ یہ سن کر آنند کے ذہن میں ایک عجیب آئیڈیا آیا۔
اس نے ممبئی کے بڑے بزنس اسکول کے پرنسپل کو بلایا اور اسے کہا‘ تم اور میں دونوں مل کر ایک تجربہ کرتے ہیں‘ میرے پاس دو ٹی بوائے ہیں‘ دونوں کی تعلیم واجبی ہے اور یہ پانچ ہزار روپے ماہانہ کے ملازم ہیں‘ تم ان دونوں لڑکوں کو کالج میں داخلہ دے دو‘ یہ میرٹ پر نہیں ہیں‘ یہ عام حالات میں کالج میں داخل نہیں ہو سکتے لیکن اگر تم ان کے داخلے کو پروجیکٹ ڈکلیئر کر دو تو یہ ممکن ہے‘ ہم یہ دیکھتے ہیں کیا اس تجربے سے عام سے لڑکے زندگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔
پرنسپل کے پاس انکار کی گنجائش نہیں تھی کیوں کہ مہندرا گروپ کالج کا ڈونر تھا اور آنند بورڈ آف گورنرز کا حصہ چناں چہ اس نے ہاں کر دی‘ آنند نے اگلے دن ستمش اور جیتو کو کالج بھجوا دیا‘ کمپنی نے دونوں کی تنخواہ کو لون ڈکلیئر کر دیا اور کالج نے پروجیکٹ کی وجہ سے ان کی فیس معاف کر دی۔
پرنسپل نے ان دونوں کو ایم بی اے کے 14 طالب علموں کے حوالے کر دیا‘ یہ دونوں ان 14 طالب علموں کا پروجیکٹ تھے‘ ایم بی اے میں 14مضامین اور سکلز تھیں‘ 14 اسٹوڈنٹس نے انھیں 14 مضامین اور سکلز سکھانی تھیں اور ان کے پاس دو سال کا وقت تھا۔
بہرحال قصہ مختصر یہ دونوں دو سال کالج جاتے رہے اور 14 طالب علم انھیں پڑھاتے اور سکھاتے رہے‘ میں یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں یہ دونوں سرکاری اسکول سے پڑھے تھے‘ ان کی تعلیم واجبی تھی اور یہ کمپیوٹر اور انگریزی نہیں جانتے تھے لیکن 14 طالب علموں نے ان پر محنت کی‘ ان دونوں نے بھی دن رات ایک کر دیا اور یوں دو سال بعد جب نتیجہ نکلا تو ٹی بوائز میں سے ایک کلاس میں نویں نمبر پر تھا اور دوسرا گیارہویں نمبر پر گویا دونوں نے اپنے پڑھانے والوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
یہ دونوں ایم بی اے کے بعد کمپنی میں واپس آئے تو آنند مہندرا نے انھیں ایچ آر میں بھجوا دیا‘ ایچ آر نے ان کا سی وی دیکھا‘ ان کی سکل چیک کی اور انھیں چھ لاکھ روپے ماہانہ پر ملازم رکھ لیا‘ اس وقت تک کمپنی کے ایک لاکھ بیس ہزار روپے ان کے ذمے تھے۔
ان دونوں نے پہلی تنخواہ پر یہ رقم کٹوائی اور یہ ٹی بوائے سے کمپنی میں بوائے بن گئے‘ یہ دو سال پہلے تک آنند مہندرا کو چائے پلاتے تھے اور یہ اب ان کے ساتھ چائے پیتے تھے‘ دو سال کے اس چھوٹے سے تجربے نے صرف دو لڑکوں کی زندگی نہیں بدلی اس نے دو خاندانوں کا مقدر بھی بدل دیا۔
یہ دونوں آج بھی مہندرا اینڈ مہندرا میں کام کرتے ہیں‘ ان کی تنخواہیں دس دس لاکھ سے زیادہ ہیں اور مراعات اس کے علاوہ ہیں‘ یہ اب خود بھی اپنے جیسے لڑکوں کو تعلیم کے لیے فنانس کرتے ہیں۔
مہندرا اینڈ مہندرا کی دیکھا دیکھی بھارت کی دوسری کمپنیوں نے بھی یہ پروجیکٹ شروع کر دیا‘ یہ بھی اپنے اداروں میں ٹیلنٹڈ لڑکوں کو لیتے ہیں‘ انھیں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل کراتے ہیں اور پھر انھیں بہتر پوزیشن پر دوبارہ ملازم رکھ لیتے ہیں‘ اس سے کمپنیوں کی گروتھ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور سیکڑوں خاندانوں کا مقدر بھی بدل رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے یہ کام ہم کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے دائیں بائیں سیکڑوں ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جو غربت کی وجہ سے تعلیم چھوڑ کر محنت مزدوری کر رہے ہیں‘ ہم اگر ان پر ذرا سی توجہ دے دیں تو یہ بچے کمال کر سکتے ہیں مگر شاید ہمارے پاس وقت نہیں ہے یا پھر ہم یہ کرنا نہیں چاہتے۔
مجھے چند برس قبل انگریزی زبان کے ایک صحافی نے اپنی داستان سنائی ‘ یہ میٹرک کے بعد قصائی کی دکان پر ملازم ہو گئے تھے‘ یہ روزانہ گوشت کاٹتے تھے‘ ان کی دکان پر اکثر ایک عیسائی لڑکا گوشت خریدنے آتا تھا‘ وہ کسی ایمبیسی میں ملازم تھا‘ اس کی ان کے ساتھ گپ شپ شروع ہو گئی۔
اس لڑکے نے محسوس کیا ان میں ٹیلنٹ ہے اور یہ قصائی سے بہتر کام کر سکتے ہیں‘ لڑکے کی منگیتر بھی ایمبیسی میں کام کرتی تھی‘ لڑکے نے منگیتر کو ان کے ساتھ متعارف کرا دیااور لڑکی نے انھیں انگریزی پڑھانا شروع کر دی۔
وہ ایمبیسی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی تھی‘ وہ اپنے ساتھ انگریزی کے اخبارات اور رسائل لے آتی تھی‘ ان کے مختلف فقرے اور الفاظ انڈر لائین کر دیتی تھی اور یہ سارا دن گوشت کاٹتے ہوئے یہ الفاظ اور فقرے دہراتے رہتے تھے‘ یہ چھٹی کے بعد انھیں لکھتے بھی رہتے تھے۔
اس زمانے میں ٹائپ رائیٹر ہوتا تھا‘ لڑکی کے زور دینے پر انھوں نے شام کے وقت ٹائپنگ کلاس میں داخلہ لے لیا اور سیکھنا شروع کر دی‘ اس نے بھی ان کی گروتھ میں اہم کردار ادا کیا‘ ان دنوں اسلام آباد میں مسلم اخبار نکلا۔
اسے انگریزی میں ٹائپ کرنے والے چاہیے تھے‘ لڑکی نے سفارش کی اور مسلم اخبار نے انھیں بطور ٹائپسٹ بھرتی کر لیا‘ یہ اب قصائی سے اپنے وقت کے مشہور اخبار میں ٹائپسٹ بن گئے‘ انھیں محنت کرنے کی عادت ہو چکی تھی اور اخبار میں اس زمانے میں مشاہد حسین سید جیسے لوگ موجود تھے‘ یہ ان سے سیکھنے لگے۔
یہ اب صرف ٹائپنگ نہیں کرتے تھے بلکہ ڈائریاں بھی لکھتے تھے اور رپورٹرز کے کہنے پر ان کے نوٹس دیکھ کر خبر بھی بنا دیتے تھے‘ سال بعد رپورٹنگ سیکشن میں جونیئر رپورٹر کی پوسٹ خالی ہوئی‘ اخبار کے پاس زیادہ بجٹ نہیں تھا۔
انھیں پتا چلا تو یہ ایڈیٹر کے پاس چلے گئے‘ ایڈیٹر نے ایک شرط رکھ دی‘ ہم تمہیں تنخواہ ٹائپسٹ ہی کی دیں گے‘ انھوں نے یہ آفر قبول کر لی اور یوں آگے سے آگے بڑھتے چلے گئے‘ ان کی اس گروتھ سے قبل وہ دونوں میاں بیوی ملک سے باہر چلے گئے تھے لیکن وہ اپنے پیچھے ایک خوب صورت اور پھل دار درخت لگا گئے تھے۔
آپ اب دوسری کہانی بھی سنیے‘ ڈاکٹر غلام جیلانی برق ملک کے مشہور دانشور اور پروفیسر تھے‘ مجھے ان کی کہانی ان کے ایک پرانے ساتھی سے سننے کا اتفاق ہوا‘ یہ کہانی کسی کتاب میں نہیں لکھی تھی‘ ان کے بقول پروفیسر صاحب نے انھیں یہ خود سنائی تھی۔
ان کے بقول غلام جیلانی صاحب بچپن میں صرف محمد غلام تھے اور یہ پہاڑی علاقے میں بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے‘ تعلیم کا ان کی زندگی میں دور دور تک کوئی عمل دخل نہیں تھا لیکن پھر ایک دن کوئی بزرگ آئے‘ یہ اس وقت ویرانے میں بکریاں چرا رہے تھے۔
بزرگ نے انھیں درخت کے نیچے بٹھایا‘ درخت کی ٹہنی لی‘ زمین پر الف لکھا اور منہ سے الف کی آواز نکال کر کہا‘ بیٹا اسے الف کہتے ہیں‘ پھر ب لکھا اور بتایا اسے ب کہتے ہیں‘ پروفیسر صاحب کے بقول وہ بزرگ کئی دنوں تک آتے رہے اور مجھے حروف تہجی سکھاتے رہے‘ میں جب زمین پر حرف بنانا سیکھ گیا تو وہ واپس نہیں آئے لیکن میرے کچے دودھ کو جاگ لگ چکی تھی اور یوں میں زمین پر خشک ٹہنیوں سے حرف بناتے بناتے یہاں تک پہنچ گیا۔
آپ یقین کریں ہمارے دائیں بائیں ایسے ہزاروں پروفیسر غلام جیلانی برق‘ جیتو اور ستمش جیسے لوگ موجود ہیں‘ انھیں صرف ہماری ایک نظر چاہیے جس دن یہ نظر پڑ جائے گی اس دن یہ بھی بدل جائیں گے اور ہم بھی‘ آپ یہ بھی یاد رکھیں انسان بیج ہوتے ہیں‘ انھیں اگر اچھی زمین اور پانی مل جائے تو یہ کمال کر دیتے ہیں‘ یقین نہ آئے تو تجربہ کر کے دیکھ لیں۔