Express News:
2025-07-08@01:43:24 GMT

خط: خوشبو، شاعری اور ایک کھویا ہوا زمانہ

اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT

ترقی نے ہمیں ای میل، میسیج اور فوری رسائی تو دی، مگر وہ خامشی چرا لی جو کسی سادہ سے لفافے میں لپٹی ہوتی تھی۔ خط صرف پیغام نہیں ہوتا تھا، وہ تہذیب تھا، خوشبو تھا، اور محبت کی ایک مکمل زبان۔

صرف ایک خط لکھنے میں کئی دن، کئی سوچیں اور کئی دھڑکنیں صرف ہوتی تھیں۔

ہم خط لکھنے سے پہلے قلم کو سنوارتے، کاغذ کا انتخاب کرتے، اور کئی بار جملے مٹاتے، نئے لکھتے کہ کہیں دل کی بات غلط نہ اتر جائے۔ لفافے کو چومنا، اسے سونگھنا، بار بار پڑھنا، اور کسی خاص لفظ پر رک جانا.

.. یہ سب خط پڑھنے کے وہ تجربے تھے جو صرف محسوس کیے جا سکتے تھے، بیان نہیں۔

پہلے خط کے اوپر شاعری ہوا کرتی تھی، کسی کونے میں دل بنا ہوتا، کہیں دو پھول، کہیں محبوب کا نام۔ اور کہیں بس ایک خاموشی جو بہت کچھ کہہ جاتی۔ اور وہ لمحے جب ہم لفافے کو سونگھتے تھے... اس میں صرف الفاظ نہیں، دعائیں، جذبات اور محبت کی خوشبو ہوتی تھی۔ خط ایک پیغام نہیں، ایک مکمل تہذیب تھا۔ ایک ایسا تعلق جو صرف تحریر سے نہیں، احساسات سے بندھا ہوتا تھا۔

جب میں گیارہویں جماعت میں تھا، نانی کے گھر کے قریب ایک چھت پر ایک لڑکی نظر آتی تھی۔ اس کا گھر کچھ فاصلے پر تھا، اور وہ مجھے کبھی دیکھتی نہیں تھی، یا شاید میں ہی یہ سمجھتا رہا۔ اس بے خبری نے دل کو بے چین کردیا۔ تنگ آکر میں نے زندگی کا پہلا خط لکھا۔ اپنا نام نہیں لکھا، ہمت ہی نہ ہوئی۔ بس اتنا لکھا کہ میں فلاں ماموں کا بھانجا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ مجھے پہچان لیں، صرف دیکھ لیں۔ اس خط کو میں نے احتیاط سے ایک چھوٹے پتھر میں لپیٹا، اور اس کے گھر کی عقبی گلی میں جا کر چھت کی طرف اچھال دیا۔ دل دھڑک رہا تھا جیسے کسی جرم کا ارتکاب کررہا ہوں۔ اور جب تک اس نے چھت سے کوئی اشارہ نہیں کیا، میرا دل جیسے مٹھی میں بند رہا۔ اور پھر جب وہ اشارہ آیا ... شاید ایک پل کےلیے ... دل نے جیسے سکون کا سانس لیا، اور میں خود کو کائنات کا سب سے خوش نصیب انسان سمجھ بیٹھا۔

کئی دن بعد اس کا جواب آیا ... اسی طرح، خاموشی سے، چھت کے راستے۔ اور جب میں نے وہ خط پڑھا، تو میری دنیا ایک لمحے کو تھم گئی۔ اس خط کو میں نے سینے سے لگایا، بار بار پڑھا، اور تکیے کے نیچے رکھ کر سویا۔ شاید وہ پہلی رات تھی جب نیند اتنی میٹھی آئی، جیسے کوئی خواب پورا ہوگیا ہو۔

آج کا دور بدل چکا ہے۔ ای میل، واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام، اور اب تو اے آئی چیٹ بوٹس بھی آگئے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ: کیا ان سب میں وہی جذبہ، وہی تڑپ، وہی تھرتھراہٹ ہے جو خط لکھنے یا پڑھنے میں ہوا کرتی تھی؟

آج کوئی کسی کو میسیج کرتا ہے، ’ٹِک بلیو‘ ہوجاتی ہے، ’سین‘ ہوجاتا ہے، اور جواب بھی آجاتا ہے ... لیکن اس میں نہ وہ انتظار ہے، نہ دل کی دھڑکن کا اتار چڑھاؤ۔

’پوسٹ مین آیا‘ کہنے کی خوشی، گلی میں دوڑنے کی چاہت، وہ ’جلدی سے لفافہ کھولو‘ کا لمحہ ... یہ سب کہاں چلا گیا؟

ہمیں بتایا جارہا ہے کہ اگلی نسل واٹس ایپ کو یاد کرے گی جیسے ہم خط کو کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایسا ہو، لیکن وہ خوشبو؟ وہ تہذیب؟ کیا اسے ڈیجیٹل دنیا کبھی لوٹا سکے گی؟

خط میں احساس لکھا جاتا تھا، آج کل جذبات forward کیے جاتے ہیں۔ خط کو چھو کر محسوس کیا جاتا تھا، آج اسکرین چھوئی جاتی ہے۔ لفظ دل سے نکلتے تھے، آج کی بورڈ سے ٹپکتے ہیں۔ آج نہ وہ انتظار کی لذت ہے، نہ وہ صفحے پر مچلتے لفظ، نہ وہ پگھلتے دل کی روانی۔ اب تو نہ وہ چاندنی رات ہے، نہ تکیے کے نیچے رکھے خط کی خوشی، نہ ہی محبوب کی تحریر کو بار بار پڑھنے والا وقت۔

کبھی خط صرف پڑھا نہیں جاتا تھا، سنا جاتا تھا۔ آنکھیں لفظوں میں ڈوب جاتی تھیں، دل تحریر کے ساتھ دھڑکنے لگتا تھا۔ شاعری صرف اشعار میں نہیں، خط کے ایک ایک لفظ میں موجود ہوتی تھی۔ آج خط نہیں آتے، اور اگر آتے بھی ہیں تو ان میں نہ شاعری ہوتی ہے، نہ خوشبو، نہ وہ دل۔

اب جب کہ خط کا زمانہ نہیں رہا، تو نہ خط پر گانے بنتے ہیں، نہ ہی شاعری لکھی جاتی ہے۔ موبائل، ای میل اور چیٹ نے وہ جذبات چھین لیے ہیں جو کسی سادہ سے لفافے میں بند ہوتے تھے۔ کتنے ہی نغمے اور فلمی گانے آج بھی سماعت پر دستک دیتے ہیں جن میں ’’خط‘‘ ہی محبت کا وسیلہ ہے۔ ذیل میں ہم ان مشہور گانوں کی فہرست پیش کر رہے ہیں جو ’’خط‘‘ کے گرد گھومتے ہیں۔ آپ پڑھیں اور سر دھنیں کہ کیسے کیسے نایاب شاہکار ہمارے شاعروں نے تخلیق کیے تھے:

’’یہ میرا پریم پتر پڑھ کر‘‘ (فلم: سنگم 1964)
’’لکھے جو خط تجھے‘‘ (فلم: کنیادان 1968)
’’پھول تمہیں بھیجا ہے خط میں‘‘ (فلم: سرسوتی چندرا 1968)
’’چھٹی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے‘‘ (فلم: دوستی 1971)
’’تمہارے خط میں لکھا وہ سلام کس کا تھا‘‘ (پرائیوٹ البم غلام علی 1977)
’’تیرے خوشبو میں بسے خط میں جلاتا کیسے‘‘ (فلم: ارتھ 1982)
’’ہم نے صنم کو خط لکھا‘‘ (فلم: شکتی 1982)
’’چھٹی آئی ہے، آئی ہے‘‘ (فلم: نام 1986)
’’کبوتر جا جا کبوتر جا جا‘‘ (فلم: میں نے پیار کیا 1989)
’’خط لکھنا ہے پر سوچتی ہوں‘‘ (فلم :کھیل 1992)
’’پیار کے کاغذ پہ‘‘ (فلم: جگر 1992)
’’خط میں نے تیرے نام لکھا‘‘ (فلم: بے خودی 1992)
’’سندیسے آتے ہیں، ہمیں تڑپاتے ہیں‘‘ (فلم: بارڈر 1997)
’’پھول میں بھیجوں‘‘ (فلم: سلمیٰ پہ دل آگیا 1997)
’’قصہ ہم لکھیں گے دل بے قرار کا‘‘ (فلم: ڈولی سجا کے رکھنا 1998)
’’چٹھی نہ کوئی سندیس‘‘ (فلم: دشمن 1998)
’’وہ خط کے پرزے جلا رہا تھا‘‘ (جگجیت سنگھ: 1999)
’’پہلی پہلی بار محبت کی ہے‘‘ (فلم: صرف تم 1999)
’’میرے محبوب کا آ یا ہے محبت نامہ‘‘ (ناہید اختر)
’’اس خط کو میری آخری تحریر سمجھنا‘‘ (نورجہاں)

اور درجنوں نایاب شاہکار جن میں خط جذبات کا مرکزی استعارہ بن جاتا تھا۔ آج کل لوگ کہتے ہیں ’’میسیج کردیا ہے‘‘، ’’ڈی ایم کردیا ہے‘‘۔ لیکن اس میں وہ خوشبو، وہ تڑپ، وہ شاعری کہاں جو ایک خط میں ہوا کرتی تھی؟ شاید اسی لیے اب نہ کوئی خط لکھتا ہے، نہ ہی کوئی ایسا گانا بنتا ہے جس پر زمانہ سر دھن سکے۔

آج کے بچے شاید حیران ہوں کہ محبت کبھی لفافے میں آتی تھی، اور اس پر ڈاک کا ٹکٹ لگتا تھا۔ لیکن ہمارے جیسے لوگ جانتے ہیں کہ وہ ڈاک کا ٹکٹ دل کا یقین ہوا کرتا تھا۔ خط ایک زمانہ تھا، جو اب صرف یادوں میں ہے۔ اور یہ تحریر صرف ’’خط‘‘ کا نوحہ نہیں، ایک مکمل تہذیب، ایک مکمل دور کے بچھڑنے کا نوحہ ہے۔ اور اب...

جب کبھی دل بے وجہ اداس ہوتا ہے، تو جی چاہتا ہے کوئی پرانا صندوق کھولا جائے، جس میں برسوں پرانے لفافے، ذرا مڑے تڑے کاغذ، اور مدھم ہوچکی روشنائی میں لپٹے کچھ جذبے نکلیں۔ کوئی پرانا خط ہاتھ میں ہو، جس پر کسی اپنے کے لمس کی پرچھائیں ہو۔ ایسا خط جسے پڑھتے ہوئے آنکھیں بند کر کے ہم اُس وقت میں واپس چلے جائیں جب لفظوں میں محبت تھی، دعاؤں میں خوشبو تھی، اور خاموشی بھی گفتگو کرتی تھی۔

شاید اب کوئی خط نہ آئے،
شاید ہم خود بھی کبھی خط نہ لکھیں،
لیکن یادوں کی پوٹلی میں،
کسی پرانی رات کی تنہائی میں،
لفظوں کا ایک خط ضرور ہوتا ہے
جو ہم دل میں بار بار پڑھتے ہیں...
بے آواز، بے توقیر، مگر بے حد عزیز۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کرتی تھی ایک مکمل ہوتی تھی جاتا تھا

پڑھیں:

سوال کیسے پوچھیں؟

کہا جاتا ہے کہ ’’جو سوال کرنا نہیں جانتا، وہ سیکھنا بھی نہیں جانتا۔‘‘ لیکن سوال محض زبان سے نکلا ایک جملہ نہیں، یہ درحقیقت اک سوچ، اک تجسس اور اک حُسنِ طرزِ بیاں ہے۔ سوال وہی کامیاب ہوتا ہے جو موقع، سیاق، لہجے اور مقصد کے ساتھ پوچھا جائے۔

تعلیم و تربیت میں ’سوال پوچھنے‘ کو اکثر صرف طالبِ علم کی فطری جستجو سمجھا جاتا ہے، لیکن جدید تحقیق کے مطابق یہ ایک ایسی مہارت ہے جسے سیکھا، سکھایا اور بہتر بنایا جاسکتا ہے۔


سوال صرف پوچھا نہیں جاتا، تراشا جاتا ہے

دنیا کے عظیم سائنس دان، مفکر اور مصلحین سب سے پہلے سوال کرنا جانتے تھے۔ نیوٹن نے سیب کو گرتے دیکھ کر خود سے سوال کیا  کہ ’’یہ نیچے ہی کیوں گرتا ہے؟‘‘

مارٹن لوتھر کنگ نے پچھلی صدی کی چھٹی دہائی میں امریکی معاشرے میں نسلی امتیاز، معاشرتی عدم مساوات اور شہری حقوق کی پامالی دیکھ کر سوال کیا : ’’ہم کب تک برابر نہیں سمجھے جائیں گے؟‘‘

یعنی سوال محض جواب تک پہنچنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ کسی گتھی کو سلجھانے کا آغاز ہوتا ہے۔

سوال کیسے پوچھا جائے؟ کیا ہر سوال مؤثر ہوتا ہے؟ کیا ہر وقت سوال کرنا مناسب ہے؟ کیا سوال کا انداز اثر ڈالتا ہے؟ آئیے! اس فن کی تہہ میں اترتے ہیں۔


واضح مقصد کے ساتھ سوال کیجیے

سوال کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اسے کسی مقصد کے تحت پوچھا جائے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹیچنگ اور لرننگ لیبارٹری کی تحقیق (Brookfield, 2012) کے مطابق جو سوال مقصد کے بغیر ہوتا ہے وہ اکثر کلاس میں الجھن یا مزاحمت پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا سوال کرنے سے پہلے خود سے یہ ضرور پوچھیے:

·       کیا میں معلومات لینا چاہتا ہوں؟

·       کیا مجھے کسی وضاحت کی تلاش ہے؟

·       کیا میں دوسروں کو سوچنے پر مجبور کرنا چاہتا ہوں؟

·       کیا میں محض  کسی کو چیلنج کرنا چاہتا ہوں؟

یہ سب مقاصد سوال کے اسلوب، وقت اور زبان پر اثر ڈالتے ہیں۔

 

سوال کا وقت اور موقع پہچانیے

کب سوال کیا جائے؟ یہ سوال کا سب سے نازک پہلو ہے۔

اگر استاد کسی اہم بات کی وضاحت کر رہے ہوں یا کسی پیچیدہ نکتہ پر گفتگو کر رہے ہوں یا کسی طالب علم کی جذباتی کیفیت غیر متوازن ہو تو اس دوران سوال کرنا نہ صرف خلل ڈال سکتا ہے بلکہ دیگر طلبا کےلیے بھی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ نے پورا دھیان دیا ہو، سوال سوچ کر تیار کیا ہو اور موزوں وقت کا انتظار کیا ہو تو یہی سوال پوری کلاس کےلیے فائدہ بن جاتا ہے۔ لہٰذا جیسے ہی مناسب وقفہ آئے، فوراً سوال کرکے فائدہ اٹھائیے۔


سوال میں احترام، تجسس اور عاجزی ہو

سوال کا لہجہ بہت کچھ طے کرتا ہے۔

(1) آپ کو پتا بھی ہے؟

(2) کیا آپ وضاحت فرما سکتے ہیں؟

ان دونوں سوالوں کا مفہوم شاید قریب قریب ایک ہی ہو، لیکن اثر زمین و آسمان کے فرق سا ہے۔

Deborah Tannen کہتی ہیں:

"Language isn't neutral; it's relational. A question can open a door—or slam it shut."
(Tannen, 2001)

یعنی: زبان غیرجانب دار نہیں ہوتی بلکہ تعلقات پر اثر ڈالتی ہے۔ ایک سوال کسی کے لیے دروازہ کھول بھی سکتا ہے اور بند بھی کر سکتا ہے۔

سوال اگر تکبر، چیلنج یا بدگمانی سے کیا جائے تو علم کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر وہی سوال ادب اور عاجزی سے ہو تو نہ صرف جواب ملتا ہے بلکہ دل بھی جیتا جاتا ہے۔

 

کھلا سوال (Open-ended) زیادہ سیکھنے کا موقع دیتا ہے

سوال دو قسم کے ہوتے ہیں:

بند سوال (Closed-ended): جن کا جواب ’ہاں‘ یا ’نہ‘ میں ہوتا ہے۔

کیا نیوٹن نے کشش ثقل دریافت کی؟
کھلے سوال (Open-ended): جن کا جواب تفصیل طلب ہوتا ہے۔

نیوٹن نے کشش ثقل کے نظریے تک کیسے رسائی حاصل کی؟

Chin (2006) کے مطابق، کھلے سوالات (جیسے ’کیوں؟‘ اور ’کیسے؟‘) طلبا کی تنقیدی اور تجزیاتی سوچ میں اضافہ کرتے ہیں۔

 

سوال کے بعد سننے کا حوصلہ رکھنا

سوال پوچھنے کے بعد اکثر طلبا یا لوگ ’اپنی پسند کا جواب‘ سننا چاہتے ہیں نہ کہ ’درست جواب‘۔ اصل ہنر یہ ہے کہ سوال پوچھ کر خاموشی سے سننے کی برداشت رکھی جائے اور اگر جواب الجھا ہوا ہو تو اسے مزید سوال کے ذریعے واضح کیا جائے۔

سوال پوچھنا اک طرز ہے، لیکن جواب سننا اور سمجھنا ایک الگ رویہ اور مہارت ہے۔ بعض اوقات ہم صرف اپنی بات ثابت کرنے کے لیے سوال کرتے ہیں اور جب جواب آتا ہے تو سننا گوارا نہیں کرتے۔ ایک اچھا طالبِ علم کھلے ذہن کے ساتھ جواب کو قبول کرتا ہے چاہے وہ اس کی سوچ سے مختلف ہی کیوں نہ ہو۔


سوال پوچھنے کا فائدہ صرف جواب نہیں، رشتہ بھی ہوتا ہے

جب ایک طالبِ علم سوال کرتا ہے تو وہ استاد سے نہ صرف علم مانگتا ہے بلکہ اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اُس سے رشتہ بھی استوار کرتا ہے۔ یہ عمل کمرۂ جماعت میں احترام، شراکت اور مکالمے کو فروغ دیتا ہے اور تدریس محض یک طرفہ عمل نہیں رہتی۔

اب سوال یہ ہے کہ ’اگر سوال پوچھنا واقعی ایک فن ہے تو کیا ہم اسے سیکھ سکتے ہیں؟‘
جواب ہے: ’جی ہاں! ضرور!‘

نیچے دیے گئے نکات نہ صرف تحقیق پر مبنی ہیں بلکہ عملی زندگی سے آزمودہ بھی ہیں۔ یہ نکات خاص طور پر طلبا اور اساتذہ کےلیے سودمند ہیں جو سیکھنے، سکھانے اور سوچنے کے ماحول کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔

 

مطالعہ کی عادت اپنائیے

سوال اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب کچھ معلومات پہلے سے ذہن میں ہو اور کچھ جاننے کے بعد کچھ نہ جاننے کا احساس ہو۔ روزانہ مطالعہ آپ کے ذہن میں نئے خیالات، تضادات اور خلا پیدا کرتا ہے اور انھی خلاؤں کو پُر کرنے کے لیے سوالات جنم لیتے ہیں۔

مثال: اگر آپ نے قائداعظم کی تقریروں کا مطالعہ کیا ہے، تو آپ یہ سوال کر سکتے ہیں:

قائداعظم کا تصورِ پاکستان مذہبی بنیاد پر تھا یا سیاسی؟ یہ سوال صرف مطالعے کے بعد ہی ذہن میں آئے گا۔

تجویز: روزانہ کم از کم 10–15 منٹ غیر نصابی، معلوماتی یا تجزیاتی مطالعہ ضرور کیجیے۔

 

سوالات کےلیے نوٹ بک رکھیے

ایک چھوٹی کاپی یا ڈیجیٹل آلہ رکھیے جس میں روزانہ کے مشاہدات، کلاس کے مواد یا کسی گفتگو سے جنم لینے والے سوالات لکھیے، چاہے وہ کتاب سے ہوں، زندگی یا خبروں سے۔ وقت کے ساتھ آپ کو سوال تراشنا آ جائے گا۔

مثال: خبروں میں اگر آپ نے پڑھا کہ مصنوعی ذہانت تعلیمی میدان میں انقلاب لا رہی ہے، تو سوال نوٹ کیجیے:

’مصنوعی ذہانت سے استاد کا کردار کیسے بدلے گا؟‘

عادت بنائیے: روز کا کم از کم ایک سوال ، خواہ کتنا ہی سادہ کیوں نہ ہو، ضرور لکھیے۔ یہ ایک ذہنی ورزش ہے۔

 

TED Talks یا مکالماتی پروگرام سنیے

جب آپ بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مکالمات، مباحثوں یا سوال و جواب کے پروگرام سنیں گے تو سوال کرنے کا انداز، ترتیب اور وقار سمجھنے میں مدد ملے گی ۔

مثال:
TED Talk: "Do Schools Kill Creativity?" by Sir Ken Robinson

یہ لیکچر نہ صرف سوال کی اہمیت اجاگر کرتا ہے بلکہ اس میں کیے گئے سوالات خود ایک مثال ہیں کہ اچھے سوال کیسے سننے والے کو چونکا دیتے ہیں۔

عملی مشورہ: ہر ہفتے ایک ویڈیو دیکھ کر اس سے دو سوالات نوٹ کیجیے۔

 

استاد سے فیڈبیک (تأثرات) لیجیے

آپ جو سوال پوچھتے ہیں، اس پر استاد یا کسی فکری دوست سے رائے اور تبصرہ طلب کیجیے: ’سر! کیا یہ سوال موضوع سے متعلق اور مناسب تھا؟‘

’ کیا اسے بہتر انداز میں پوچھا جا سکتا تھا؟‘

یہ عمل نہ صرف آپ کو نکھارے گا بلکہ استاد کے ساتھ ایک علمی تعلق بھی پیدا کرے گا۔

سیکھنے کا زاویہ: اچھا سوال صرف زبان سے نہیں، دل سے سیکھا جاتا ہے اور اس میں رہنمائی بہت اہم ہوتی ہے۔

 

سہ جہتی سوالیہ مشق کیجیے (کیا؟ کیوں؟ کیسے؟)

یہ ایک آسان لیکن گہری مشق ہے۔ ہر نئے موضوع سے متعلق یا کسی بھی نکتے، مسئلے یا خیال پر تین سوال خود سے کیجیے۔ یہ مشق ذہنی تجزیے کی بہترین تربیت ہے۔

یہ کیا ہے؟

یہ کیوں ہوتا ہے؟

یہ کیسے کام کرتا ہے؟

ایسے سوالات آپ کی تنقیدی (critical) اور تجزیاتی (analytical) سوچ کو پروان چڑھاتے ہیں۔

 

سوال لکھ کر تیار کیجیے

بعض اوقات سوال ذہن میں ہوتا ہے، لیکن کہتے یا پوچھتے ہوئے ذہن الجھ جاتا ہے اور یوں بغیر تیاری کے سوال اکثر مبہم یا بے وقعت ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ سوال کو پہلےاچھی طرح سوچ اور ناپ تول کر کاغذ پر لکھ لیں تو وہ واضح، مربوط اور بااثر ہوگا ۔

مثال: بجائے اس کے کہ آپ کہیں: ’سر! وہ جو۔۔۔ مطلب۔۔۔ وہ DNA والا سوال۔۔۔‘

لکھ کر پوچھیے: ’سر! کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں کہ DNA replication کے دوران polymerase enzyme کا کیا کردار ہوتا ہے؟‘

نتیجہ: استاد بھی متأثر ہوں گے اور آپ کی بات بھی مؤثر ہوگی۔

 

ادب، ضبط اور لہجے پر کام کیجیے

یاد رکھیے: ایک ہی بات اگر خوش اسلوبی سے کہی جائے تو سیکھنے کے دریچے کھلتے ہیں اور اس کا اثر کئی گنا بڑھ جاتا ہے  اور اگر بدسلیقی سے کہی جائے تو سیکھنے کے دریچے بند ہوتے ہیں۔

مثال: ’آپ کو پتا ہے ناں کہ یہ غلط ہے‘! کے بجائے کہیے: ’کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اس نکتے کو کسی اور زاویے سے بھی دیکھ سکیں؟‘

مشورہ: آئینے کے سامنے سوال کی مشق کیجیے آواز اور تأثرات پر نظر رکھیے۔

سوال صرف علم حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں، شخصیت کی تعمیر کا بھی ذریعہ ہے۔ اس لیے اسے بے دلی، جلد بازی یا تکبر سے نہ برتیے بلکہ سوچ سمجھ کر، سلیقے سے اور مقصد کے ساتھ استعمال کیجیے۔

سوال پوچھنا ایک مشق، ایک عمل اور سلیقے سے بھرپُور فن ہے۔ اسے سیکھنے کی ضرورت ہے، اپنانے کی ہمت چاہیے اور نکھارنے کا عزم۔ اگر ہم اپنے طلبہ کو سوال کرنے کا سلیقہ سکھا دیں تو یقین جانیے وہ نہ صرف بہتر طالب علم بنیں گے بلکہ آنے والے کل کے قائد، دانش ور اور سائنس دان بھی بنیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • ساڑھے چار سیکنڈ
  • سوال کیسے پوچھیں؟
  • دنیائے فلم کے مقبولِ زمانہ افسانوی کردار
  • درختوں کا قتل
  • کوٹ لکھ پت سے آنے والا خط
  • کوئی نہ آیا
  • میرا ملک میری عزت
  • ’’ اردو شاعرات کا مزاحمتی لحن‘‘ ایک جائزہ
  • عمران خان کسی ڈیل کے چکر میں نہیں ہیں ، حامد میر
  • بس اب بہت ہوگئی