اسلام آباد:

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ درخواست گزاران کے وکلاء کے دلائل میں اختلاف ہے، آپ نے دلائل میں کہا ٹرانسفر ہونے والے جج کو نیا حلف لینا پڑے گا اور دوسری طرف کہا جا رہا ہے ٹرانسفر مستقل نہیں ہو سکتی۔

جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے ججز ٹرانسفر اور سینارٹی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ آئینی بینچ نے سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔

کیس کی سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار کے وکیل فیصل صدیقی نے بھارت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں ججز سے ٹرانسفر پر رضامندی نہیں پوچھی جاتی، اس لیے ججز سنیارٹی کے ساتھ ٹرانسفر ہوتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے لیے ججز کی تقرری لازمی ہے، صدر پاکستان کے لیے جج کا تبادلہ کرنا لازمی نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت کے تبادلہ کا آئینی اختیار ہے، صدر مملکت کو تبادلہ کے لیے کوئی کیسے انفورس کر سکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ دلائل ججز کے ٹرانسفر تک محدود رکھیں۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ آپ نے دلائل کے آغاز میں کہا تھا کہ ججز ٹرانسفر پر صدر کے اختیار کو نفی نہیں کرتے۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ آپ کا کہنا تھا دلائل میں سنیارٹی کے ایشو کو فوکس کروں گا۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میرا نقطہ ہے جج کا تبادلہ ٹائم باونڈ ہے، فیڈرل شریعت کورٹ میں ہائیکورٹس سے ججز تعینات ہوتے ہیں۔ ان ججز کی تعیناتی تین سال کے لیے ہوتی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فیڈرل شریعت کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے تبادلہ کے ایشو سے کیا تعلق ہے۔ ہائیکورٹ سے جج کی شریعت کورٹ میں تعیناتی کا درجہ اوپر ہے، ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں جج کا تبادلہ کا اسٹیٹس برابر ہوتا ہے۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ جسٹس آصف ایڈیںشنل جج تھے، ایڈیںشنل جج کی تبادلہ پر اسلام آباد ہائیکورٹ کیسے تقرری ہو سکتی ہے، کیا جوڈیشل کمیشن جسٹس آصف کو اسلام آباد ہائیکورٹ کی کارکردگی کی بنا پر مستقل کرنے کا فیصلہ کرے گا، ججز کی مستقل ٹرانسفر نہیں ہو سکتی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ کہتے ہیں ان ججز کی ٹرانسفر ٹائم باونڈ نہیں ہے، فرض کریں اگر انہی ججز کو دوبارہ سے ٹرانسفر کیا جاتا ہے تو انکی پھر وہاں پر کیا سنیارٹی ہوگی، جب ججز دوبارہ سے اپنی ہائیکورٹ میں جائیں گے تو پھر یہ سنیارٹی کا مسئلہ ہو جائے گا، انڈیا میں ٹرانسفر ججز کی سنیارٹی طے ہے لیکن ہمارے پاس مسئلہ ہے۔ جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ بھارت میں سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ انڈیا میں ٹرانسفر ججز حلف لیتے ہیں، شریعت کورٹ اور ہائیکورٹ میں جب قائم مقام چیف جسٹس بنتے ہیں تو حلف لیا جاتا ہے، ٹرانسفر جج کے واپس جانے پر ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ دوبارہ سے انکی سنیارٹی نیچے سے شروع ہوں۔

وکیل نے کہا کہ اگر کوئی جج ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ ایکٹنگ جج کے طور پر آتا ہے تو ہائیکورٹ میں اس کی سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی، اس طرح ہائیکورٹ سے ٹرانسفر جج واپس پرنسپل سیٹ پر جائے گا تو سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی، ٹرانسفر جج کے دوبارہ سے حلف لینے سے پرانی والی سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی، اگر جج جہاں پر ٹرانسفر ہوا ہے تو وہاں کا حلف لینے سے فرق نہیں پڑتا، تعیناتی اور ٹرانسفر میں فرق ہونا چاہیے۔

جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا ہوا ٹرانسفر محدود وقت کے لیے ہوگی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ بھارت میں تو جج ٹرانسفر سے انکار کرے اسے گھر جانا پڑتا ہے، پاکستان میں ٹرانسفر ہونے والے جج سے اسکی رضامندی پوچھی جاتی ہے، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مثال موجود ہے، انھوں نے سپریم کورٹ آنے سے انکار کیا، پھر بھی وہ بطور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ فرائض سرانجام دیتے رہے۔

دوران سماعت، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کسی گزشتہ قانون سازی کی ہسٹری کی بنیاد پر کیسے فیصلہ کر سکتی ہے، بنیادی سوال ہی یہی ہے ٹرانسفر ہوکر آنے والا جج نیا حلف لے گا یا نہیں۔ آپ درخواست گزاران کے وکلاء کے دلائل میں اختلاف ہے، آپ نے دلائل میں کہا ٹرانسفر ہونے والے جج کو نیا حلف لینا پڑے گا اور دوسری طرف کہا جا رہا ہے ٹرانسفر مستقل نہیں ہوسکتی۔

سربراہ آئینی بینچ نے ریمارکس دیے کہ ایک جج پہلے ایک حلف اٹھائے گا، پھر ٹرانسفر ہوکر نئی ہائیکورٹ میں حلف اٹھائے گا، پھر محدود وقت کے بعد وہی جج واپس اپنی ہائیکورٹ جاکر دوبارہ حلف اٹھائے گا، ایک جج ایک ہی وقت میں دو یا تین تین حلف کیسے لے سکتا ہے؟ ایک جج ٹرانسفر ہوکر آئے، پھر واپس جاکر دوبارہ حلف اٹھائے تو اسکی پہلی سروس تو ساری ختم ہوگئی۔

جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ سوال یہ بھی اٹھے گا سینارٹی کہاں سے شمار ہوگی؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ دو سینارٹی لسٹیں ہوں گی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کیا ایک جج محدود وقت کے لیے ٹرانسفر ہوکر واپس اپنی ہائی کورٹ جاکر نیا حلف اٹھائے گا، فرض کریں جسٹس ڈوگر صاحب ٹرانسفر پر حلف اٹھائیں، پھر دوبارہ اپنی پرانی ہائی کورٹ کا حلف اٹھاتے ہیں، وہاں تو انکی سینارٹی سب سے نیچے ہو جائے گی اور ایسے میں تو سینارٹی کا نیا تنازع کھڑا ہو جائے گا۔

آئینی چین کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ اگر بھارت کی طرح پاکستان میں بھی تمام ہائیکورٹس میں اکھٹی طے شدہ سینارٹی لسٹ ہوتی تو الگ بات تھی، پاکستان میں ہائیکورٹس کے ججز کی سینارٹی لسٹ الگ الگ ہے، ایک جج کے ایک وقت میں دو یا تین حلف کیسے ہو سکتے ہیں۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ اگر آرٹیکل 200 کے تحت مستقل جج تعینات ہو سکتا ہے تو پھر ایسے میں تو جوڈیشل کمیشن غیر موثر ہو جائے گا، جو تین ججز ٹرانسفر ہوکر آئے انھوں نے اپنی اپنی ہائیکورٹس میں الگ الگ حلف اٹھایا، ایک جج حلف میں کہتا ہے اس نے آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں، بغیر حلف لیے تو کوئی جج فیصلے ہی نہیں کر سکتا اور نہ ہی کیس سن سکتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اگر ایک جج نیا حلف لے گا تو پرانا حلف تو ختم ہو جائے گا، سپریم کورٹ میں ایکٹنگ جج اور ٹرانسفر جج میں فرق ہے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ایسی انہونی ہوئی ہے جس کے سبب سوالات اٹھ رہے ہیں، آئین کا آرٹیکل 200 پہلے آیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ بعد میں بنی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایکٹ میں لکھا ہوا ہے اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس اور 12 دیگر ججز پر مشتمل ہوگی، اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز تعیناتی کا ذکر ہے لیکن ٹرانسفر کا ذکر نہیں ہے۔ ایکٹ میں لکھا ہوا ہے ججز چاروں صوبوں سے لیے جائیں گے، ہائیکورٹس کا ذکر نہیں ہے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے مزید ریمارکس دیے کہ اگر ٹرانسفر کیا جانا ہوتا تو قانون میں ایسا لکھ دیا جاتا، جسٹس سرفراز ڈوگر کی تعیناتی سے 10 دس پہلے جوڈیشل کمیشن کا ایک اجلاس ہوا، جس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک سیشن جج راجہ جواد عباس کے نام پر غور ہوا، اگر بلوچستان سے مستقل جج لانا تھا تو سیشن جج راجا جواد عباس کا نام کیوں ڈراپ کیا گیا، یہ سوال اٹارنی جنرل سے بھی ہے، وہ آئندہ سماعت پر جواب دیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جسٹس نعیم اختر افغان نے اسلام آباد ہائی کورٹ ہائیکورٹ میں جوڈیشل کمیشن ٹرانسفر ہوکر ہائیکورٹ سے شریعت کورٹ سپریم کورٹ ہو جائے گا دلائل میں اپنی ہائی کورٹ میں چیف جسٹس سکتا ہے کورٹ سے نیا حلف ججز کی ایک جج کے لیے

پڑھیں:

سپریم کورٹ نے کراچی میں 8 سالہ بچے کے قتل کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا 

سپریم کورٹ نے کراچی میں سات سے آٹھ سالہ بچے کے قتل کے کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا 

رپورٹ کے مطابق فیصلہ جسٹس اطہر من اللہ نے تحریر کیا جس میں کہا گیا کہ  کسی ملزم کے پولیس کی حراست میں صحافی کو دیے گئے انٹرویو یا پولیس کے سامنے اقراری بیان سے جرم ثابت نہیں ہو جاتا، قانون شہادت کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے آزادانہ اور بغیر کسی دباؤ کے دیا گیا بیان کی ہی اہمیت ہوتی ہے۔
 
اس میں کہا گیا کہ اس مقدمے میں متعلقہ تھانے کے انچارج اور تفتیشی افسر کے طرزِ عمل پر اپنی آبزرویشنز ریکارڈ پر لائیں، ایک صحافی کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ جسمانی ریمانڈ کے دوران پولیس کی تحویل میں موجود ملزم کا انٹرویو کرے اور کیمرے پر اس کا بیان ریکارڈ کرے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس بیان کا ترمیم شدہ حصہ بعد میں ایک نجی ٹی وی چینل پر نشر کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ ایسے بیان کی قانونی حیثیت کا ذکر ہم پہلے ہی کر چکے ہیں، لیکن یہ پہلا کیس نہیں ہے جس میں زیرِ حراست ملزم کے ساتھ اس طرح کا رویہ اپنایا گیا ہو،ایسا رویہ عام ہوتا جا رہا ہے اور بغیر کسی روک ٹوک کے جاری ہے، جو کہ نہ صرف ملزم بلکہ متاثرین کے حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔

فیصلے کے مطابق میڈیا، چاہے وہ پرنٹ ہو یا کسی اور شکل میں معاشرے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس کے پاس بے پناہ طاقت ہے، آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت ہر شہری کو عوامی اہمیت کے معاملات میں معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے، لیکن یہ حق قانون کے تحت ضابطوں اور معقول پابندیوں سے مشروط ہے۔

عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ پولیس کی تحویل میں دیا گیا بیان صرف اس وقت قابلِ قبول ہوتا ہے جب وہ کسی مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا ہو، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ رپورٹر کو ملزم کا انٹرویو کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور پھر وہ بیان پبلک میں نشر کر دیا جاتا ہے۔

فیصلے کے مطابق جرم سے متعلق خبروں میں عوامی دلچسپی عام بات ہے، خاص طور پر جب کیس ہائی پروفائل ہو یا جرم کی نوعیت عام لوگوں کی توجہ کا مرکز ہو، اس میں میڈیا ٹرائل کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے جو کہ صرف ملزم ہی نہیں بلکہ متاثرین کے لیے بھی ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ اس طرح کے معاملات میں اصل مجرم بچ نکلتے ہیں جبکہ بے گناہ افراد کو سزا دی جاتی ہے، یہ معاملہ اور اس کے مضر اثرات اس وقت اور زیادہ سنگین ہو جاتے ہیں جب جرم کے واقعہ کا کوئی عینی شاہد نہ ہو اور متاثرہ فریق کوئی بچہ ہو، میڈیا بیانیے بنا سکتا ہے جو سچے بھی ہو سکتے ہیں اور جھوٹے بھی، جو کہ ملزم اور اس کے خاندان کی زندگی تباہ کر سکتے ہیں، انھیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ 

فیصلے کے مطابق میڈیا کے پاس وہ طاقت ہے کہ وہ کسی کو ہیرو یا ولن بنا دے اور یہ طاقت اکثر ایسے معاشروں میں غلط استعمال ہو سکتی ہے جہاں ریاست آزادی اظہارِ رائے کو دباتی ہو یا میڈیا کو کنٹرول کرتی ہو، اس لیے میڈیا پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر عمل کرے تاکہ فریقین کے حقوق اور عوامی مفاد کے درمیان توازن قائم رہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ فوجداری نظام انصاف کی بنیاد یہ ہے کہ ہر کیس میں منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنایا جائے،اس کا سب سے بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر ملزم کو بے گناہ سمجھا جائے گا جب تک کہ جرم ثابت نہ ہو جائے، میڈیا کا بھی فرض ہے کہ وہ ایسی رپورٹنگ کرتے ہوئے خاص طور پر زیرِ تفتیش مقدمات میں، ملزم اور متاثرہ فریقین دونوں کے حقوق کا احترام کرے۔

فیصلے کے مطابق حد سے زیادہ توجہ اور یک طرفہ میڈیا کوریج عوام اور فوجداری عدالتی عمل سے وابستہ افراد کو متاثر کر سکتی ہے، حتیٰ کہ عدالتی افسران بھی انسان ہوتے ہیں اور اس ڈیجیٹل دور میں وہ بھی میڈیا کے زیرِ اثر آ سکتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ ملزم پولیس کی حراست میں تھا اور عدالت نے صرف تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ دیا تھا،وہ بے گناہ تصور کیا جا رہا تھا، مگر تھانے کے انچارج اور تفتیشی افسر نے ایک صحافی کو انٹرویو کی اجازت دی اور اس بیان کو میڈیا پر نشر کیا گیا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ جس سے نہ صرف ملزم بلکہ متاثرہ خاندان بھی متاثر ہوا،یہ اقدام قانون کی صریح خلاف ورزی تھا کیونکہ پولیس کے علم میں ہونا چاہیے کہ ان کا کام صرف تفتیش کرنا اور بعد ازاں عدالت کے سامنے رپورٹ پیش کرنا ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ میڈیا پر نشر کیا گیا ملزم کا بیان قابلِ قبول نہ تھا کیونکہ یہ نہ تو کسی مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا تھا اور نہ ہی قانونی تقاضے پورے کیے گئے تھے، اکثر دیکھا گیا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا زیرِ حراست افراد کو کیمروں کے سامنے لاتا ہے یا رپورٹر ان سے جارحانہ انداز میں سوالات کرتے ہیں،یہ روش قابلِ مذمت ہے کیونکہ یہ منصفانہ ٹرائل کو متاثر کرتی ہے۔

عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ غیر متعلقہ افراد کو تفتیشی عمل میں مداخلت کی اجازت دینا یا اس میں سہولت دینا ایک سنگین قانونی خلاف ورزی ہے اور کسی بھی پولیس افسر یا تفتیشی افسر کی جانب سے ایسا کرنا پیشہ وارانہ مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ میڈیا، خواہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک لازم ہے کہ وہ اپنی رپورٹنگ اور پروگرامز نشر کرنے سے پہلے خود احتسابی اور بین الاقوامی بہترین اصولوں پر مبنی طریقہ کار اپنائے۔

عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ سپریم کورٹ آفس کو  ہدایت کی جاتی ہے کہ اس فیصلے کی کاپی سیکریٹری وزارت داخلہ،سیکریٹری وزارت اطلاعات و نشریات،چیئرمین پیمرا،صوبائی چیف سیکرٹریز کو بجھوائی جائے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ تاکہ اس فیصلے میں دی گئی آبزرویشنز کی روشنی میں وہ مناسب اور فوری اقدامات کر سکیں جو کہ فوجداری کیسز کے فریقین کے حقوق اور تفتیش و مقدمے کی شفافیت کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • زیر حراست ملزم کا انٹرویو قابل قبول شہادت نہیں، سپریم کورٹ
  • جسٹس اعجاز اسحاق اور احسن بھون کے درمیان عدالت میں دلچسپ جملوں کا تبادلہ
  • سپریم کورٹ نے کراچی میں 8 سالہ بچے کے قتل کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا 
  • متنازع پیکا ایکٹ کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت
  • سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے نئے ضوابط 2025 کا اجرا
  • سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی جانب سے نیا پروسیجر جاری
  • سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے نئے ضوابط 2025ء کا اجرا
  • سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا نیا ضابطہ جاری، اجلاس کیلئے دو ارکان کی موجودگی لازمی قرار
  • سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا نیا پروسیجر 2025 جاری کر دیا گیا
  • سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا، اگرتحریک انصاف کا مخصوص نشستوں کا حق نہیں تودیگر جماعتوںکو بھی نہیں لینی چاہیں: حامد میر