مشہد مقدس، ایم ڈبلیو ایم کے زیراہتمام شہید آیت اللہ رئیسی اور اُنکے رفقاء کی پہلی برسی کا انعقاد
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
شہدائے خدمت کی پہلی برسی سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ سید حسن ظفر نقوی نے کہا کہ شہید نے اپنے کردار اور ملک کے لیے کی جانے والی خدمات کے صلے میں ایک بلند مقام پایا ہے، انقلاب اسلامی کی تاریخ شہید ابراہیم رئیسی جیسے پاکباز، نڈر، جری اور شجاع مجاہدوں سے بھری پڑی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شہید خدمت آیت اللہ ابراہیم رئیسی اور ان کے رفقاء کی پہلی برسی کی مناسبت سے دفتر مجلس وحدت مسلمین مشہد مقدس میں مجلس عزا کا اہتمام کیا گیا، جس سے معروف خطیب اور ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ سید حسن ظفر نقوی نے خطاب کیا۔ مجلس عزا کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا، جس کی سعادت قاری کاظم علی نے حاصل کی جبکہ محمد علی نقوی نے رسول و آل رسول کی شان میں منقبت پیش کی۔ مجلس عزا میں علمائے کرام، طلاب اور زائرین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ علامہ سید حسن ظفر نقوی نے اپنے خطاب میں شہید آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شہید رئیسی کی بطور صدر مملکت مخلصانہ خدمات نے ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، جنہیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔
علامہ سید حسن ظفر نقوی نے حوزہ علمیہ مشہد مقدس کے طلاب کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اپنے آپ کو معاشرے میں مثبت اثر گزاری کے لئے تیار کریں، کیونکہ امام خمینی، شہید حسینی، شہید مطہری اور شہید رئیسی جیسی شخصیات حوزہ علمیہ میں ہی تیار ہوئی ہیں، جنہوں نے اپنے کردار و عمل سے ایسے اثرات چھوڑے ہیں، جنہیں تاریخ بھلا نہیں سکتی۔ شہید نے اپنے کردار اور ملک کے لیے کی جانے والی خدمات کے صلے میں ایک بلند مقام پایا ہے۔ انقلاب اسلامی کی تاریخ شہید ابراہیم رئیسی جیسے پاکباز، نڈر، جری اور شجاع مجاہدوں سے بھری پڑی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علامہ سید حسن ظفر نقوی نے ابراہیم رئیسی نے اپنے
پڑھیں:
پاکستانی وزرا کے بیانات صورتحال بگاڑ رہے ہیں، پروفیسر ابراہیم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور(اے اے سید) جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے جسارت کے اجتماع عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی، تاہم اگر ہم اپنے بیانیے کو ان کے ساتھ ہم آہنگ کریں تو اس سے ضرور فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کا پہلا دور 1996ء سے 2001ء تک اور دوسرا دور 2021ء سے جاری ہے۔ پہلے دور میں طالبان کی جماعت اسلامی کی سخت مخالفت تھی، مگر اب ان کے رویّے میں واضح تبدیلی آئی ہے اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ‘‘پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے، لیکن اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔پروفیسر ابراہیم کے مطابق امیرالمؤمنین ملا ہبۃ اللہ اور ان کے قریب ترین حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں باقی ہیں، جس کی ایک مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی 2 روزہ بندش کو قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ستمبر کے آخر میں پورے افغانستان میں انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا گیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہے، لیکن دو دن بعد طالبان حکومت نے خود اس فیصلے کو واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت بہرحال ایک بڑی تبدیلی ہے اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے گہرے منفی اثرات ہوئے ہیں۔ ‘‘آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں۔پروفیسر ابراہیم نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘‘ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی۔ وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ ‘اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی’ بے وقوفی کی انتہا ہے۔انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف پہلے یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ افغانستان ہمارا دشمن ہے، اور ماضی میں انہوں نے محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دے کر تاریخ اور دین دونوں سے ناواقفیت ظاہر کی۔انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اس بیان پر بھی سخت ردعمل دیا کہ ‘‘ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے۔پروفیسر ابراہیم نے کہا یہ ناسمجھ نہیں جانتا کہ تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا جس نے خود امریکا کو شکست دی۔ طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ حکومت میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، نادانی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت، احترام اور باہمی اعتماد کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا، کیونکہ یہی خطے کے امن اور استحکام کی واحد ضمانت ہے۔