حماس کے ترجمان ابو عبیدہ کا پیغام کیجئے عام
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
اللہ کی سلامتی رحمتیں اور برکتیں آپ پر ہوں،میں غزہ سے آپ سے مخاطب ہوں،اسی غزہ سے جو ناقابل شکست ہے، جان نثار ہے، ثابت قدم ہے، صبر و ثبات کا استعارہ ہے، اللہ کا خصوصی انعام ہے جو اس پر اللہ کی سکینت نازل ہو رہی ہے۔ ہم یہ پیغام سب مسلمانوں کو پہنچا رہے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ جلد یا بدیر ہم پیغام دینے کے لئے موجود رہیں گے بھی یا نہیں۔ تو اللہ سے دعا کے ساتھ اپنی بات کا آغاز کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے ان لفظوں کو ہمارے حق میں حجت بنا دیجئے گا۔ یہ ہمارے خلاف گواہی نہ دیں۔ آمین
پہلا پیغام یہ ہے ہم سب مسلمانوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم فقط اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ ہم اپنے رب کی تقسیم سے راضی ہیں۔ ہم اپنے رب کی مدد سے قطعاً مایوس نہیں ہیں۔ ہمیں اپنے رب کی مدد جلد آنے پر یقین ہے اور ایسی جگہ سے مدد آنے پر جہاں سے ہمیں توقع بھی نہیں ہو۔ جہاں ہمارا خیال بھی نہ گیا ہو۔
ترجمہ : کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ جنت میں داخل ہوجائو گے حالانکہ ابھی تم پرپہلے لوگوں جیسی حالت نہ آئی۔ انہیں سختی اور شدت پہنچی اور انہیں زور سے ہلا ڈالا گیا یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے کہہ اٹھے، اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن لو! بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔(214)
اللہ کی قسم! ہم ایسی سختی اور شدت سے اس زور سے جھنجھوڑ، ہلا دئیے گئے ہیں کہ ہماری جانیں ہمارے کلیجے تک لرزاں دئیے گئے ہیں۔ لیکن ہم اپنے رب کی رحمت سے قطعاً مایوس نہیں ہیں۔ جو اپنے رب کو جا ملے ہیں ہم انہیں شہید گمان کرتے ہیں اور جو باقی بچ گئے ہیں وہ فتح نصرت کی امید کرتے ہیں اور یہ اللہ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے اور دوسرا پیغام یہ ہے کہ جو کوئی ہمیں سن رہا ہے وہ ہماری مدد کرسکتا ہے ۔ اپنی دعائوں سے،اپنی التجائوں سے،یہ مومن کا ہتھیار ہے۔ اس کی طاقت کو ہلکا نہ سمجھیں ۔ اگر آپ ہمارے معاملے کچھ بھی کرنے کی قدرت نہیں رکھتے تو اللہ کے پاس آپ کا یہ عذر آپ کو اس کے حساب کتاب سے بچالے گا۔ لیکن دعا تو آپ پھر بھی کرسکتے ہیں۔اپنے بچوں کو، اپنے اہل وعیال کو لے کے بیٹھیں اور ہمارے لئے دعا کیجیے۔ نمازوں میں ،سجدوں میں ہمارے لئے خلوص دل سے گریہ وزاری کیجئے۔ ہمیں آپ کی دعائوں کی اشد ضرورت ہے۔
ہمارے نبی محمد ﷺ نے فرمایا کہ تکلیف میں اپنے ہاتھ اللہ کے حضور پھیلا لو اور پختہ یقین سے ، متوجہ دل کے ساتھ دعا مانگو ۔ایسی دعا کا ضرور جواب دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ ،تیسرا پیغام یہ ہے جو مسلمان بھی یہ ویڈیو سن رہے ہیں یا پیغام پڑھ رے ہیں وہ ہمارے یہ پیغامات اوروں تک پہچانے کا سبب بنیں ۔کیونکہ اب بھی ایسے لوگ ہیں جو غفلت کی چادر تانے سوئے پڑے ہیں کہ جیسے انہیں ہمارے حال کی کوئی خبر نہیں پہنچی ہے ۔شائد وہ ابابیلوں کی آمد میں منتظر بیٹھے ہیں جو آ کے اصحاب فیل کو تباہ کرنے کے لیے بھیجی گئی تھیں۔اللہ کے سوا کوئی طاقت نہیں ۔ ہمارے پیغام کو پھیلائیں ۔ہماری خبروں کو آگے بڑھائیں۔ ہمارے بچوں کی تصویریں دوسروں کو بھی دکھائیں ۔ ہر جگہ ملبہ کے ڈھیر ہیں ۔ غزہ اب رہنے کے لئے بالکل محفوظ نہیں ہے۔ ہم نے ایسی شدید تباہی پہلے کبھی پہلے نہیں دیکھی۔ ہمارے لوگ، ہمارے بھائی، ہمارے پیارے، اب شہداء میں لکھے جاچکے ہیں ۔۔ایک ایک خاندان کے 40 کہیں 50 کہیں 100 افراد اکھٹے اموات کے شمارے میں درج کئے جاچکے ہیں اور جو باقی بچ گئے ہیں وہ اپنے رب کی طرف اچھے پلٹنے کے انتظار میں ہیں۔
اس صورت حال میں ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کے پاس یوم جزا اپنی جان کو چھڑا لانے جتنا قابل کوئی عذر ہوگا ۔ اللہ ضرور پوچھے گا کہ جب مسلمانوں پر مصیبت کی یہ گھڑی آئی تو آپ نے کیا کیا؟ کیا دعائوں کو بھی محدود کیا جاسکتا ہے۔ یا ان دعائوں کی کوئی حد بھی ہے ۔آپ کے سڑکوں پر ہمارے لئے مظاہرے ، احتجاجاً نکلنا،آپ کا لوگوں کو ہمارے لئے پکارنا، آپ کی آواز کا ہمارے لئے بلند ہونا، جو غافلوں کو ، بے حسوں کو ہمارے لئے بیدار کردے۔ شائد یہ کاوشیں آپ کے حق میں قابل قبول عذر بن جائیں۔ اللہ کی حمدوثنا بیان کرتا ہوں ۔یہ آزمائش دوسری آزمائشوں کا پیش خیمہ ہے اور ان سب کے نتیجے میں ہم آخرت میں اجر کے امیدوار ہیں۔ غاصبوں کے تسلط کی یہ اندھیری رات طویل اور شدید ہوچکی ہے۔ اب ان ہی ظلم کے اندھیروں سے روشن صبح چمکنے کو ہے ۔ اللہ نے اپنے بندوں سے اپنی مدد کا وعدہ کررکھا ہے ۔ بھلے کچھ وقت اور لگے گا لیکن فتح ونصرت اسی کے بندوں کو حاصل ہوکے رہے گی۔
میں قسم کھاکے کہتا ہوں کہ ان حالات میں ہمارے بہترین نفوس جام شہادت نوش کر رہے ہیں۔ ہر خاندان کا بہترین شخص شہید ہوچلا ہے اور کائنات کے رب کی بڑائی کے لئے ہی یہ سب شہادتیں،یہ سب گواہیاں، بے شک ،سب تعریفیں تمام شکرانے، تمام جہانوں کے رب کے لئے ہیں۔ میں اپنی بات زیادہ طویل نہیں کرنا چاہتا۔ بس یہ جتلانے آیا تھا کہ میں اللہ کی خاطر آپ سب سے محبت کرتا ہوں۔ آپ ہمارا یہ پیغام عام کردیجیے۔ ہماری آواز بن جائیے ۔ ہمارا خون زمین کو رنگ رہا ہے۔ ہم آپ سے اس کے لئے پرزور تحریک چلانے کا تقاضا کرتے ہیں تو اپنے حصے کا کام کرنے کے لئے جی جان لڑا دیجئے۔ اے اللہ ہمیں ثابت قدم رکھیے، ہمیں مضبوط کردیجئے، ہمارے لئے حسن خاتمہ لکھ،آمین، دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیم ’’یورومیڈیٹریرین ہیومن رائٹس واچ ‘‘کے سربراہ رامی عبدہ نے انکشاف کیا ہے کہ پیر کے روز غزہ میں داخل ہونے والی پانچ امدادی گاڑیوں میں سے دو ایسی تھیں جو کھانے پینے یا دوا کے بجائے کفن سے لدی ہوئی تھیں۔ یہ کفن ایک عرب ملک نے اقوام متحدہ کے ذریعے بھیجے، جو اس تلخ حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ غزہ کے لوگوں کو زندہ رکھنے کے بجائے دفنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ رامی عبدہ نے کہا کہ کفن کوئی انسانی امداد نہیں بلکہ اجتماعی موت کی پیشگی تیاری ہے۔ یہ غزہ کے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو خوراک پہنچانے کی نہیں، قبریں کھودنے کی مہم ہے۔ انہوں نے برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کے حالیہ مشترکہ بیان کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان مغربی ممالک کی جانب سے قابض اسرائیل کی جنگی جرائم پر مذمت ان عرب ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت اور واضح ہے جنہوں نے برسوں سے فلسطینی عوام کی پشت پناہی کا دعویٰ کیا۔
عبدہ کا کہنا تھا کہ اس بیان نے عرب دنیا کی مایوس کن خاموشی اور مجرمانہ چشم پوشی کو برہنہ کر دیا ہے۔ جب مغرب کے 25 سے زائد ممالک ایک زبان ہو کر قابض اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے غزہ کو بھوکا مارنے کی نئی سازش کو مسترد کرتے ہیں تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ عرب ضمیر آخر کب جاگے گا؟ انہوں نے مزید بتایا کہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کل قابض اسرائیل کے ساتھ شراکت داری معاہدہ معطل کرنے پر غور کریں گے۔ یہ وہ اقدام ہے جس سے قابض ریاست کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کی مہم کو تقویت مل سکتی ہے۔امریکی پشت پناہی میں، قابض اسرائیلی فوج 7 اکتوبر 2023 ء سے غزہ میں جو ظلم و جور کا سلسلہ جاری ہے، اس کے نتیجے میں اب تک 1 لاکھ 72 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ مزید یہ کہ 14 ہزار سے زائد افراد لاپتا ہیں، جن کا کوئی سراغ تک نہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اپنے رب کی کرتے ہیں کے ساتھ اللہ کی گئے ہیں اللہ کے کی مدد ہے اور ہیں کہ کے لئے
پڑھیں:
قومی وقار: 28 مئی کی میراث جوہری بازدارندگی اور
قومی وقار: 28 مئی کی میراث جوہری بازدارندگی اور WhatsAppFacebookTwitter 0 27 May, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
28 مئی 1998 کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک سنجیدہ مگر قابلِ فخر سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے—یہ وہ دن تھا جب قوم نے اپنے مشرقی ہمسایہ کی جانب سے کیے گئے علاقائی اشتعال انگیزی اور جارحیت کے مظاہرے کے جواب میں، خود کو دفاعی صلاحیت سے لیس ثابت کرتے ہوئے اپنے خودمختار حق کا اعلان کیا۔ چاغی کے پہاڑوں میں صرف ایٹمی دھماکوں کی گونج نہ تھی بلکہ ایک ایسی قوم کے عزم کی آواز تھی جو کبھی مغلوب ہونے پر آمادہ نہ تھی۔ یہ اعلان تھا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں تزویراتی توازن برقرار رکھے گا، اپنی سرزمین کی سالمیت کا دفاع کرے گا اور امن کو طاقت کے منصب سے حاصل کرے گا۔ دنیا نے ایک ایسی قوم کو دیکھا جو بار بار آزمائشوں سے گزری، اور اب وزیرِ اعظم نواز شریف کی پختہ قیادت میں اور ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسے عظیم سائنسدانوں اور ان گنت گمنام محسنوں کی قربانیوں سے ایٹمی طاقتوں کی صف میں باوقار انداز میں شامل ہو چکی تھی۔
11 اور 13 مئی 1998 کو بھارت کے پوکھران میں کیے گئے پانچ ایٹمی تجربات نہ صرف بین الاقوامی توقعات کی کھلی خلاف ورزی تھے، بلکہ پاکستان کی سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ بھی تھے۔ یہ کوئی عام دشمن نہ تھا بلکہ ایک ایسا تاریخی حریف تھا جس نے 1947، 1965 اور 1971 میں جنگیں مسلط کیں اور قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک عناد کو زندہ رکھا۔ پاکستان ایک ایسے فیصلہ کن موڑ پر کھڑا تھا جہاں اسے یا تو بین الاقوامی دباؤ کے سامنے جھکنا تھا یا اپنے دفاع کے خودمختار حق کا دعویٰ کرنا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے دوسرا راستہ اپنایا — دانشمندی، جرأت اور عزم کے ساتھ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اور ان کے مقابلے کے لیے جس قدر ہو سکے طاقت مہیا رکھو اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو، تاکہ اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں کو ڈرا سکو… (سورۃ الانفال، 8:60)
یہ خدائی حکم ہر مسلم ریاست پر لازم کرتا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے مقابلے کے لیے مناسب طاقت رکھے۔ پاکستان کی قیادت نے اس ذمے داری کو نہایت حکمت اور صبر کے ساتھ، عالمی دباؤ کے باوجود، مکمل کیا۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی راہ راتوں رات ہموار نہ ہوئی۔ اس کی بنیاد 1974 میں بھارت کے “پرامن ایٹمی تجربے” کے بعد رکھ دی گئی تھی۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس موقع پر تاریخی الفاظ ادا کیے:
“ہم گھاس کھا لیں گے، بھوکے رہیں گے، مگر اپنا ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔”
یہ اعلان ایک قومی عزم میں تبدیل ہوا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے محبِ وطن سائنسدانوں، اور پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن جیسے اداروں نے بین الاقوامی پابندیوں اور جاسوسی کی رکاوٹوں کے باوجود مسلسل محنت جاری رکھی۔
1998 تک پاکستان ایٹمی دفاع کی مکمل صلاحیت حاصل کر چکا تھا۔ جب بھارت نے ایٹمی تجربے کیے تو پاکستان نے 28 مئی کو چاغی
اول اور 30 مئی کو چاغی دوم کے ذریعے بھرپور جواب دیا۔ یہ تجربے جارحیت نہیں بلکہ حکمت و ذمہ داری کا مظہر تھے تاکہ خطے میں توازنِ طاقت بحال ہو۔
قریب تین دہائیوں بعد، 7 مئی 2025 کو، پاکستان ایک بار پھر ایک وجودی بحران کا شکار ہوا۔ جسے ایک روزہ خطرناک جنگ کہا جا رہا ہے، اس میں پاکستان کے عوام اور افواج نے یکجہتی، شجاعت اور بے مثال قربانی کا مظاہرہ کیا۔ جس طرح 1998 کے ایٹمی تجربات نے بیرونی خطرات کے خلاف ڈھال کا کام کیا، ویسے ہی 2025 کے واقعات نے پاکستان کے اندرونی اتحاد اور عملی تیاری کو ثابت کیا۔ عالمی سازشوں کے سائے میں جھونکنے کے باوجود، پاکستان سرخرو نکلا، زخموں کو فخر سے سہا، اور شہداء کو سلامِ عقیدت پیش کیا۔ چاغی کی روح صرف یورینیم اور پلوٹونیم میں نہیں، بلکہ اُن دلوں میں زندہ رہی جنہوں نے وطنِ عزیز کے لیے خون اور عزم سے قربانی دی۔ یوں یہ دونوں تاریخیں پاکستان کی اجتماعی یادداشت میں مزاحمت، قربانی اور قومی وقار کے طور پر ثبت ہو گئیں۔
مضبوط دفاع کی اہمیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں بھی واضح ہے:
(ترمذی)”اونٹ کو باندھو اور پھر اللہ پر بھروسا کرو۔”
یہ حدیث اس فہم کو اجاگر کرتی ہے کہ اگرچہ کامل بھروسا اللہ پر ہونا چاہیے، لیکن دنیاوی اسباب اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ پاکستان نے یہی کیا — اپنی دفاعی صلاحیت کو مضبوط بنایا۔
تاہم پاکستان کو اس خوش فہمی میں بھی نہیں رہنا چاہیے کہ ایٹمی ہتھیار ہر خطرے کا حل ہیں۔ آج کے دور کی جنگیں ہائبرڈ وار، سائبر حملے، معاشی سبوتاژ اور اندرونی خلفشار کی صورت میں ہوتی ہیں۔ جیسا کہ قرآن پاک فرماتا ہے:
(سورۃ الرعد، آیت 11)”بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدلیں۔”
ایک مضبوط میزائل یا طاقتور بم اُس وقت بے کار ہو جاتا ہے جب قوم اندرونی طور پر منقسم ہو یا معیشت تباہ حال ہو۔
ہر سال 28 مئی کو ہم اپنے سائنسدانوں، فوجیوں، سیاستدانوں اور اُن سب گمنام ہاتھوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے خاموشی سے، خلوص سے، اور قربانی کے جذبے سے وطن کی خدمت کی۔ یہ دن صرف دھماکوں کی خوشی کا نہیں بلکہ عزم کی تجدید کا دن ہے—یاددہانی کہ پاکستان، اگر متحد اور پرعزم ہو، تو کسی بھی عالمی دباؤ یا سازش کے سامنے ڈٹ سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اس کے رہنماؤں کو عدل، حکمت اور اللہ کے خوف کے ساتھ فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
“اے ایمان والو! اللہ کے لیے عدل پر قائم رہنے والے بنو، گواہی دیتے ہوئے، اگرچہ اپنے خلاف ہی ہو…”
(سورۃ النساء، آیت 135)
آئیے اس عزم کو اپنے ماضی کی طرح مستقبل کی تعمیر کا بھی سنگِ بنیاد بنائیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین اور افریقہ نے مشترکہ طور پر افریقہ ڈے منایا، چین کی وزارت خارجہ سات مئی : جنوبی ایشیا کے لیے سچائی کی گھڑی پی۔ٹی۔آئی اور ‘معمولِ نو ‘ (NEW NORMAL) معصومیت کا قتل: پاکستان میں بھارت کی پراکسی جنگ گرمی کی لہر فطرت کا انتقام یا انسانوں کی لاپروائی؟ جوائنٹ فیملی سسٹم میں پھنسی لڑکیاں: جدید سوچ، پرانے بندھن ایک پُرامن قوم، ایک زوردار انتباہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم