Daily Ausaf:
2025-11-03@14:26:30 GMT

حماس کے ترجمان ابو عبیدہ کا پیغام کیجئے عام

اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT

اللہ کی سلامتی رحمتیں اور برکتیں آپ پر ہوں،میں غزہ سے آپ سے مخاطب ہوں،اسی غزہ سے جو ناقابل شکست ہے، جان نثار ہے، ثابت قدم ہے، صبر و ثبات کا استعارہ ہے، اللہ کا خصوصی انعام ہے جو اس پر اللہ کی سکینت نازل ہو رہی ہے۔ ہم یہ پیغام سب مسلمانوں کو پہنچا رہے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ جلد یا بدیر ہم پیغام دینے کے لئے موجود رہیں گے بھی یا نہیں۔ تو اللہ سے دعا کے ساتھ اپنی بات کا آغاز کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے ان لفظوں کو ہمارے حق میں حجت بنا دیجئے گا۔ یہ ہمارے خلاف گواہی نہ دیں۔ آمین
پہلا پیغام یہ ہے ہم سب مسلمانوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم فقط اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ ہم اپنے رب کی تقسیم سے راضی ہیں۔ ہم اپنے رب کی مدد سے قطعاً مایوس نہیں ہیں۔ ہمیں اپنے رب کی مدد جلد آنے پر یقین ہے اور ایسی جگہ سے مدد آنے پر جہاں سے ہمیں توقع بھی نہیں ہو۔ جہاں ہمارا خیال بھی نہ گیا ہو۔
ترجمہ : کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ جنت میں داخل ہوجائو گے حالانکہ ابھی تم پرپہلے لوگوں جیسی حالت نہ آئی۔ انہیں سختی اور شدت پہنچی اور انہیں زور سے ہلا ڈالا گیا یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے کہہ اٹھے، اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن لو! بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔(214)
اللہ کی قسم! ہم ایسی سختی اور شدت سے اس زور سے جھنجھوڑ، ہلا دئیے گئے ہیں کہ ہماری جانیں ہمارے کلیجے تک لرزاں دئیے گئے ہیں۔ لیکن ہم اپنے رب کی رحمت سے قطعاً مایوس نہیں ہیں۔ جو اپنے رب کو جا ملے ہیں ہم انہیں شہید گمان کرتے ہیں اور جو باقی بچ گئے ہیں وہ فتح نصرت کی امید کرتے ہیں اور یہ اللہ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے اور دوسرا پیغام یہ ہے کہ جو کوئی ہمیں سن رہا ہے وہ ہماری مدد کرسکتا ہے ۔ اپنی دعائوں سے،اپنی التجائوں سے،یہ مومن کا ہتھیار ہے۔ اس کی طاقت کو ہلکا نہ سمجھیں ۔ اگر آپ ہمارے معاملے کچھ بھی کرنے کی قدرت نہیں رکھتے تو اللہ کے پاس آپ کا یہ عذر آپ کو اس کے حساب کتاب سے بچالے گا۔ لیکن دعا تو آپ پھر بھی کرسکتے ہیں۔اپنے بچوں کو، اپنے اہل وعیال کو لے کے بیٹھیں اور ہمارے لئے دعا کیجیے۔ نمازوں میں ،سجدوں میں ہمارے لئے خلوص دل سے گریہ وزاری کیجئے۔ ہمیں آپ کی دعائوں کی اشد ضرورت ہے۔
ہمارے نبی محمد ﷺ نے فرمایا کہ تکلیف میں اپنے ہاتھ اللہ کے حضور پھیلا لو اور پختہ یقین سے ، متوجہ دل کے ساتھ دعا مانگو ۔ایسی دعا کا ضرور جواب دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ ،تیسرا پیغام یہ ہے جو مسلمان بھی یہ ویڈیو سن رہے ہیں یا پیغام پڑھ رے ہیں وہ ہمارے یہ پیغامات اوروں تک پہچانے کا سبب بنیں ۔کیونکہ اب بھی ایسے لوگ ہیں جو غفلت کی چادر تانے سوئے پڑے ہیں کہ جیسے انہیں ہمارے حال کی کوئی خبر نہیں پہنچی ہے ۔شائد وہ ابابیلوں کی آمد میں منتظر بیٹھے ہیں جو آ کے اصحاب فیل کو تباہ کرنے کے لیے بھیجی گئی تھیں۔اللہ کے سوا کوئی طاقت نہیں ۔ ہمارے پیغام کو پھیلائیں ۔ہماری خبروں کو آگے بڑھائیں۔ ہمارے بچوں کی تصویریں دوسروں کو بھی دکھائیں ۔ ہر جگہ ملبہ کے ڈھیر ہیں ۔ غزہ اب رہنے کے لئے بالکل محفوظ نہیں ہے۔ ہم نے ایسی شدید تباہی پہلے کبھی پہلے نہیں دیکھی۔ ہمارے لوگ، ہمارے بھائی، ہمارے پیارے، اب شہداء میں لکھے جاچکے ہیں ۔۔ایک ایک خاندان کے 40 کہیں 50 کہیں 100 افراد اکھٹے اموات کے شمارے میں درج کئے جاچکے ہیں اور جو باقی بچ گئے ہیں وہ اپنے رب کی طرف اچھے پلٹنے کے انتظار میں ہیں۔
اس صورت حال میں ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کے پاس یوم جزا اپنی جان کو چھڑا لانے جتنا قابل کوئی عذر ہوگا ۔ اللہ ضرور پوچھے گا کہ جب مسلمانوں پر مصیبت کی یہ گھڑی آئی تو آپ نے کیا کیا؟ کیا دعائوں کو بھی محدود کیا جاسکتا ہے۔ یا ان دعائوں کی کوئی حد بھی ہے ۔آپ کے سڑکوں پر ہمارے لئے مظاہرے ، احتجاجاً نکلنا،آپ کا لوگوں کو ہمارے لئے پکارنا، آپ کی آواز کا ہمارے لئے بلند ہونا، جو غافلوں کو ، بے حسوں کو ہمارے لئے بیدار کردے۔ شائد یہ کاوشیں آپ کے حق میں قابل قبول عذر بن جائیں۔ اللہ کی حمدوثنا بیان کرتا ہوں ۔یہ آزمائش دوسری آزمائشوں کا پیش خیمہ ہے اور ان سب کے نتیجے میں ہم آخرت میں اجر کے امیدوار ہیں۔ غاصبوں کے تسلط کی یہ اندھیری رات طویل اور شدید ہوچکی ہے۔ اب ان ہی ظلم کے اندھیروں سے روشن صبح چمکنے کو ہے ۔ اللہ نے اپنے بندوں سے اپنی مدد کا وعدہ کررکھا ہے ۔ بھلے کچھ وقت اور لگے گا لیکن فتح ونصرت اسی کے بندوں کو حاصل ہوکے رہے گی۔
میں قسم کھاکے کہتا ہوں کہ ان حالات میں ہمارے بہترین نفوس جام شہادت نوش کر رہے ہیں۔ ہر خاندان کا بہترین شخص شہید ہوچلا ہے اور کائنات کے رب کی بڑائی کے لئے ہی یہ سب شہادتیں،یہ سب گواہیاں، بے شک ،سب تعریفیں تمام شکرانے، تمام جہانوں کے رب کے لئے ہیں۔ میں اپنی بات زیادہ طویل نہیں کرنا چاہتا۔ بس یہ جتلانے آیا تھا کہ میں اللہ کی خاطر آپ سب سے محبت کرتا ہوں۔ آپ ہمارا یہ پیغام عام کردیجیے۔ ہماری آواز بن جائیے ۔ ہمارا خون زمین کو رنگ رہا ہے۔ ہم آپ سے اس کے لئے پرزور تحریک چلانے کا تقاضا کرتے ہیں تو اپنے حصے کا کام کرنے کے لئے جی جان لڑا دیجئے۔ اے اللہ ہمیں ثابت قدم رکھیے، ہمیں مضبوط کردیجئے، ہمارے لئے حسن خاتمہ لکھ،آمین، دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیم ’’یورومیڈیٹریرین ہیومن رائٹس واچ ‘‘کے سربراہ رامی عبدہ نے انکشاف کیا ہے کہ پیر کے روز غزہ میں داخل ہونے والی پانچ امدادی گاڑیوں میں سے دو ایسی تھیں جو کھانے پینے یا دوا کے بجائے کفن سے لدی ہوئی تھیں۔ یہ کفن ایک عرب ملک نے اقوام متحدہ کے ذریعے بھیجے، جو اس تلخ حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ غزہ کے لوگوں کو زندہ رکھنے کے بجائے دفنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ رامی عبدہ نے کہا کہ کفن کوئی انسانی امداد نہیں بلکہ اجتماعی موت کی پیشگی تیاری ہے۔ یہ غزہ کے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو خوراک پہنچانے کی نہیں، قبریں کھودنے کی مہم ہے۔ انہوں نے برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کے حالیہ مشترکہ بیان کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان مغربی ممالک کی جانب سے قابض اسرائیل کی جنگی جرائم پر مذمت ان عرب ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت اور واضح ہے جنہوں نے برسوں سے فلسطینی عوام کی پشت پناہی کا دعویٰ کیا۔
عبدہ کا کہنا تھا کہ اس بیان نے عرب دنیا کی مایوس کن خاموشی اور مجرمانہ چشم پوشی کو برہنہ کر دیا ہے۔ جب مغرب کے 25 سے زائد ممالک ایک زبان ہو کر قابض اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے غزہ کو بھوکا مارنے کی نئی سازش کو مسترد کرتے ہیں تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ عرب ضمیر آخر کب جاگے گا؟ انہوں نے مزید بتایا کہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کل قابض اسرائیل کے ساتھ شراکت داری معاہدہ معطل کرنے پر غور کریں گے۔ یہ وہ اقدام ہے جس سے قابض ریاست کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کی مہم کو تقویت مل سکتی ہے۔امریکی پشت پناہی میں، قابض اسرائیلی فوج 7 اکتوبر 2023 ء سے غزہ میں جو ظلم و جور کا سلسلہ جاری ہے، اس کے نتیجے میں اب تک 1 لاکھ 72 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ مزید یہ کہ 14 ہزار سے زائد افراد لاپتا ہیں، جن کا کوئی سراغ تک نہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اپنے رب کی کرتے ہیں کے ساتھ اللہ کی گئے ہیں اللہ کے کی مدد ہے اور ہیں کہ کے لئے

پڑھیں:

معاملات بہتر کیسے ہونگے؟

دنیا کا کاروبارِ زندگی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ کرہ ارض‘ حقیقت کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ عرض کرنے کا مدعا ہے کہ یہ تمام دنیا Physical laws پر مبنی ہے۔ عمل اور رد عمل کا قانون ہر طریقہ سے لاگو ہے۔ یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور سائنسی انقلاب کے بعد‘ دنیا میں پہلی مرتبہ Nation Statesکی شروعات ہوئیں۔ اس سے قبل مملکتیں ‘ کسی بھی مخصوص سرحد کے بغیر چل رہی تھیں اور آنے جانے کے معاملات یکسر مختلف تھے۔

ویزہ یا پاسپورٹ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ فرانس ‘ جرمنی اور یوکے کے چند فلسفیوں کی سوچ نے دنیا کی تشکیل نو کر دی۔ بدقسمتی سے‘ اس جوہری تبدیلی میں مسلمانوں کا کسی قسم کا حصہ نہیں تھا۔ ویسے یہ المیہ‘ صدیاں گزرنے کے باوجود‘ آج بھی اپنی ہیئت میں بالکل قائم ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد کی دنیا میں‘ مسلمان‘ بالکل اجنبی سے تھے۔ فکری طور پر متحد اور ترقی کرنے کے لیے‘ کسی قسم کا کوئی سہارا موجود نہیں تھا۔ جدید تعلیم اور سائنس سے ویسے ہی ہمیں کوئی غرض نہیں تھی۔

اس جھول کا فائدہ‘ سب سے زیادہ ہمارے مذہبی طبقے نے اٹھایا۔ برصغیر کی حد تک معاملات کو دیکھیے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ عام لوگوں سے کوئی سنجیدہ انتقامی بدلہ لے رہے ہیں۔ جدید علوم کوحرام قرار دے دیا گیا۔انگریزی تعلیم کو کافر کی زبان بتایا گیا۔ ضعیف العتقادی اور جہالت کو اوڑھنا بچھونا بنا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مجموعی طور پر مسلمان اور بالخصوص برصغیرکے مسلمان ‘ سائنسی انقلاب اور جدت پسندی سے دور ہوتے گئے۔ اور ایک مخصوص دائرہ میں زندگی گزارنے لگے۔ باورکروایا گیا کہ ہمارا دین خطرے میں ہے۔

دنیا ہمارے خلاف ہے۔ لہٰذا ہر قسم کی تبدیلی لانے والی سوچ کفر کے نزدیک لے جاتی ہے۔ یہ بیانیہ‘ ہمارے ڈی این اے کا حصہ بنا دیا گیا۔ مغرب کی اعلیٰ ترین درس گاہوں سے تعلیم یافتہ‘ چند بلند پایہ لوگ‘ اس معاملہ کو بھانپ گئے اور ان کی حد درجہ محنت بلکہ ریاضت کی بدولت‘ پاکستان وجود میں آیا۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک کے حصول اور ہمارے سیاسی اکابرین کے خلاف ‘ سب سے مہلک محاذ‘ مذہبی طبقے نے ہی قائم کیا۔ آپ ہمارے کسی لیڈر کی سیاسی زندگی کا جائزہ لیجیے۔ مذہبی طبقے نے ان کی ذاتی زندگی سے لے کر سیاسی سوچ‘ سب میں کیڑے نکالے۔ انھیں ملحد‘کافر اور مسلمانوں کا دشمن قرار دیا گیا۔ سرسید احمد خان‘ علامہ اقبال اور قائداعظم سب تختہ مشق بنے۔

پاکستان تو بن گیا مگر وہ لبرل سوچ‘ جس کا ذکر بار بار اس ملک کو بنانے والوں نے کیا تھا اسے پنپنے نہیں دیا گیا۔ کمال یہ ہے کہ ان مذہبی جماعتوں کے قائدین‘ جو پاکستان بنانے کے خلاف تھے، نیا ملک بنتے ہی‘ بڑے اطمینان سے ہندوستان چھوڑ کر نئے ملک میں بس گئے۔ یہاں آ کر انھوں نے ماضی کا چلن نہیں بدلا۔ فرقہ پرستی‘ جذباتیت ‘ حقیقت پسندی سے اجتناب اور بے یقینی کی فضا کو اتنی ہوا دی کہ بحیثیت قوم‘ ہمیں پختہ یقین ہو گیا کہ ہمارے خلاف ایک بین الاقوامی سازش ہو رہی ہے۔

پوری قوم کی فطرت میں یہ نکتہ منجمد کر دیا گیا کہ ہمارے بچنے کا بھی ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم قدامت پسندی کو اپنا وطیرہ بنا لیں۔ ملکی سیاست دان اتنی سنجیدہ سوچ کے مالک تھے ہی نہیں کہ اس باریک عمل کو سمجھ پاتے جس کو عقیدت کا لبادہ بھی پہنا دیا گیا ۔ پاکستان میں ایک ایسا عمل پیہم ہوا جو پوری دنیا میں تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ریاستی اداروں نے چند مذہبی حلقوں کو ساتھ ملا کر‘ عام لوگوں کی مزید منفی ذہن سازی کر ڈالی اور اس چلن سے اقتدار پر دائم قبضہ کر لیا۔ جو قیام پاکستان سے لے کر آج تک مسلسل جاری ہے۔ اس کا ادراک ہمارے ملک میں بہت کم لوگوں کو ہے۔

یہ معاملہ عام آدمی کو اس طرح معلوم پڑا جس مذہبی طبقہ کو ہم نے ریاست کی سوچ کے مطابق‘ کشت و خون کرنے کے لیے استعمال کیا تھا،وہ اپنا بنیادی کام کرنے کے بعد ہمارے ملک پر ہی پل پڑے۔ دہشت گردی کا جن‘ پاکستان کے ہر کونے میں برہنہ ہو کر رقص کرنے لگا۔ جب یہ سمجھ آئی کہ ریاست کا اپنا وجود خطرے میں پڑ چکا ہے۔تو دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی گئی جو آج بھی جاری وساری ہے۔ مگر اسی اثناء میں ‘ بین الاقوامی صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی۔ اسرائیل اور حماس کی جنگ نے مسلمان دنیا کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔ حماس‘ جو کہ الفتح کے مقابلہ میں اسرائیل ہی کے چند اداروں نے کھڑی کی تھی۔

جس کے متعلق مسلسل لکھتا چلا آ رہا ہوں کہ ان کا غزہ کو برباد کرنے میں کلیدی کردار ہے۔ اس نے اسرائیل کے شہریوں پر حملہ کر کے اس ملک کو وہ جواز مہیا کیا‘ جو یکسر‘ ان کے حق میں تھا۔ ذرا سوچئے کہ حماس کے بے ربط حملوں سے غزہ کو کتنی بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ پورا شہر‘ مٹی اور لاشوں کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ حماس کے اس ناپختہ قدم سے غزہ کو حد درجہ نقصان پہنچا۔ مگر ہمارے جیسے ملک میں‘ اس باریک نقطہ پر بات کرنے کو مشکل تر بنا دیا گیا۔ بلکہ یہاں اس معاملہ پر کھل کر غیر متعصب سوال کرنے کو ہی پیچیدہ تر بنا ڈالا گیا۔ اب ہوا کیا۔

ہمارا ملک‘ ایک تو دہشت گردوں کے نرغہ میںسانس لینے پر مجبور ہو گیا اور دوسرا ہم حماس اور اسرائیل کی جنگ میں ایک ایسے فریق کے ساتھ کھڑے ہونے کی کوشش کرنے لگے جن کا قصور بھی زیادہ تھا اور وہ اپنے ہی مسلمان شہریوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئے تھے۔ ہمیں ذہنی دھچکا اس وقت لگا جب ہمارے سب سے قریبی دوست مسلم ممالک نے ‘ اسرائیل کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ فلسطین کے مسئلہ سے مونہہ پھیر چکے تھے۔

وہ سمجھ چکے تھے کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے زمینی حقائق کے مطابق قدم اٹھانے پڑیں گے۔متحدہ عرب امارات اور متعدد‘ مشرق وسطیٰ کے ممالک‘ اسرائیل کو تسلیم کرنے لگے۔ دنیا کی واحد سوپر پاور نے Abrahamic Accords کاڈول ڈالا ۔ اور پھر معاملات جوہری طور پر تبدیل ہو گئے۔ امریکا کے موجودہ صدر‘ اسرائیل کے حد درجہ ثابت قدم دوست ثابت ہوئے۔

پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کا سب سے زیادہ فائدہ ہندوستان نے اٹھایا اور وہ اسرائیل کے ساتھ مثالی تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ پاکستان اور ہندوستان کی باہمی حالیہ جنگ میں اسرائیلی ماہرین‘ ہندوستان میں موجود تھے اور انھوں نے اپنے ڈرون ‘ ہمارے ہر علاقے میں کامیابی سے بھجوائے ۔ ریاستی ادارے‘ موجودہ حالات کو بھانپ چکے ہیں۔ انھوںنے اپنا طرز عمل‘ ایک سو اسی ڈگری کے زاویہ سے تبدیل کر لیا ہے۔ ابراہیمک معاہدے کا کیا کرنا ہے؟ دشت گردی کے ناسور کو کیسے جسم سے کاٹنا ہے؟ ملک کے اندر جاری و ساری شدت پسندی کو کس طرح اعتدال پر لے کر آنا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جنھیں حل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔

دلیل کی بنیاد پر عرض کرتا چلوں کہ ملک کے وجود کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ مگر جو سوچ ہم نے خود پروان چڑھائی تھی‘ اس کو تبدیل کیسے کرنا ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس موجود نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں‘ ایک مذہبی جماعت کے جلوس کے ساتھ ‘ جو سلوک روا رکھا گیا اس سے یہ عنصر عیاں ہوتا ہے کہ ریاستی ادارے‘ اب مذہبی شدت پسندی سے اپنے آپ کو دور کر رہے ہیں۔ سیاست دان‘ اتنے کمزور ہیں کہ وہ معاملات کو صرف ریاستی اداروں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔ بلکہ ان کے اندر خوف بھی ہے کہ کہیں تشدد پسند حلقے ‘ ان کا وجود ہی ختم نہ کر دیں۔ یہ خدشہ بہرحال موجود ضرور ہے۔

موجودہ صوت حال نازک ضرور ہے‘ مگر ان تمام معاملات کا حل موجود ہے۔ دفاعی ادارے بالکل درست سمت میں کام کر رہے ہیں۔ مگر ان کے مثبت اقدامات کو موجودہ سیاسی ڈھانچہ کی معاونت حاصل ہونا ضروری ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے پاؤں نمک کے ہیں اور وہ مسائل کے پانی میں کھڑے نہیں ہو سکتے۔ حل کیا ہے؟ کیا ہونا چاہیے ؟ یہ مسئلہ بھی ہے کہ صرف طاقت کے بل بوتے پر حتمی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ موجودہ سیاسی نظام ‘ مسائل کو بڑھا تو سکتا ہے کم نہیں کر سکتا۔ اور پھر یہ موجودہ لوگ اتنے کائیاں ہیں کہ اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے‘ دفاعی اداروں کو عوام کے ساتھ متصادم راہ پر دھکیلنا چاہتے ہیں۔

دانشمندی یہی ہے کہ اندرونی سیاسی خلفشار کو ختم کیا جائے۔ جس سیاست دان کو عوامی پذیرائی حاصل ہو‘ اسے ‘ نظام کا حصہ بنایا جائے۔ پھر بغیر کسی تردد کے اپنے ملک کے قومی مفاد میں انقلابی اور دور رس فیصلے کیے جائیں‘ جن سے ہمارے ملک کے دشمنوں کی تعداد میں کمی ہو سکے۔حکمت یہی ہے کہ سب فریقین کو اپنے ساتھ لے کر چلیں۔ اس خطرناک شدت پسند سوچ کا خاتمہ کرنے کی کوشش کریں‘ جو ہمارے ملک کو یرغمال بنا چکی ہے۔ یہ وقت‘ کسی انتقام کا نہیں‘ بلکہ دانش مندی اور حکیمانہ فیصلوں کا ہے! مگر اس وقت تو مجھے سنجیدہ سوچ کا فقدان نظر آ رہا ہے۔ دیکھیے ۔ آگے معاملات کیا رخ اختیار کرتے ہیں؟

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • تجدید وتجدّْ
  • غزہ میں ہمارے زیرِ قبضہ علاقوں میں حماس اب بھی موجود ہے: نیتن یاہو
  • صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر وزیراعظم کا پیغام
  • صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر  وزیراعظم کا پیغام
  • خیبرپختونخوا کابینہ ممبران کے محکموں کا باضابطہ اعلامیہ جاری،شفیع اللہ جان معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر
  • جب کوئی پیچھے سے دھمکی دے تو مذاکرات پر برا اثر پڑتا ہے: طالبان حکومت کے ترجمان
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • امن کے نام پر نیا کھیل!ح-ماس کو دھمکیاں اسرائیل کو نظرانداز
  • معاملات بہتر کیسے ہونگے؟