UrduPoint:
2025-09-18@00:08:12 GMT

خواتین سیاسی کارکنان اور جنسی تشدد کی دھمکی

اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT

خواتین سیاسی کارکنان اور جنسی تشدد کی دھمکی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 مئی 2025ء) بلوچ یکجہتی کمیٹی سے تعلق رکھنے والی مہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ کی گرفتاری کے بعد ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کے کارکن سوشل میڈیا پر یہ بحث کرنے لگے کہ ان کے کن اعضاء کے بال کس سے اتروائے جائیں گے۔ ایسے کمنٹس پڑھنا اس قدر کراہت آمیز ہے تو سوچیں جنہوں نے یہ سب لکھا ہے وہ کس ذہنیت کے مالک ہوں گے اور جن خواتین سیاسی کارکنان کے لیے یہ سب کہا جاتا ہے انہیں کیسا محسوس ہو گا۔

ریاستی تحویل یا جیل میں موجود خواتین پر جنسی تشدد یا اس کی دھمکی اُن بدترین ہتھکنڈوں میں سے ایک ہے، جو خواتین سیاسی کارکنان کے خلاف استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف کسی فرد کی جسمانی خودمختاری اور وقار کی شدید خلاف ورزی ہے بلکہ یہ بین الاقوامی انسانی حقوق اور قوانین کے بھی خلاف ہے۔

(جاری ہے)

خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کا کنونشن (CEDAW) کا جنرل ریکمنڈیشن نمبر 35 (2017) واضح کرتا ہے کہ ریاستی اداروں کی جانب سے جنسی تشدد بھی صنفی امتیاز اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے تو پھر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ لوگ کھلے عام ان خواتین کو جنسی تشدد کی دھمکیاں دیتے ہوں اور ریاست خاموش رہے۔

یہ معاملہ فقط سیاسی اختلاف کا نہیں بلکہ یہ طاقت کا عدم توازن اور خواتین کے جسم کو ان ہی کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعما ل کرنے کا ایک حربہ بھی ہے۔ مشہور ماہر سیاسیات ڈاکٹر مونا لینا کروک لکھتی ہیں کہ سیاست میں خواتین کو دی جانے والی جنسی نوعیت کی دھمکیاں اور تشدد کا خوف محض اتفاق نہیں، بلکہ یہ طاقت کی صنفی حدود کو نافذ کرنے کی ایک منظم کوشش ہیں۔

پاکستانی سیاست میں خواتین کی نمائندگی گزشتہ دہائیوں میں بڑھ ضرور رہی ہے، مگر یہ اضافہ محض اعداد و شمار تک محدود نظر آتا ہے۔

آج بھی، جب کوئی عورت عوامی نمائندگی کے لیے سامنے آتی ہے تو اسے صرف نظریاتی یا انتخابی مخالفت کا سامنا نہیں ہوتا، بلکہ اس کی ذات، جسم اور کردار کو نشانہ بنایا جاتا ہے اگر وہ سیاست میں کامیاب ہوتی ہیں تو انہیں کردار کشی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کبھی قید و بند کی صعوبت دیکھنی پڑے تو اس مشکل کے ساتھ یہ بھی سہنا پڑتا ہے کہ آن لائن سپیس میں مرد حضرات یہ قیاس آرائیاں کر رہے ہوں گے کہ جیل میں ان کی نتھ اتروائی کون کر رہا ہے۔

یہ جنسی نوعیت کی دھمکیاں، توہین آمیز تبصرے اور تشدد کی صورتیں، خواتین سیاستدانوں کو صرف خاموش نہیں کرتیں، بلکہ انہیں خوفزدہ کر کے سیاست سے باہر نکالنے کا ہتھیار بھی ہیں۔

پاکستان کی سیاست میں پہلے ہی خواتین کی سیاست میں شمولیت غیر معمولی حد تک محدود ہے اور اس پر ستم یہ کہ جو خواتین سیاست میں شمولیت اختیار کرتی ہیں انہیں ایسے رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بے نظیر بھٹو کو بطور خاتون سیاستدان اپنی زندگی میں جس نفرت، الزام تراشی اور جنسی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا، وہ ہمارے قومی شعور کا ایک تلخ باب ہے۔ آج بھی، جب کوئی خاتون ایم این اے، کونسلر یا ورکر بننے کی کوشش کرتی ہے، تو اسے تضحیک آمیز رویوں اور سوشل میڈیا پر جنسی حملوں کا سامنا رہتا ہے۔

ایسے رہنما بھی مخالف سیاسی جماعت کی خواتین کو سیاسی جلسوں میں فحاشی پھیلانے اور ناچنے کا طعنہ دیتے رہے جن کے اپنے گھر کی خواتین عملی سیاست میں سرگرم تھیں اور پھر جوابا انہیں بھی کبھی کسی قطری کے طعنے ملے اور کبھی کسی جنرل سے تعلقات کے۔

ایسی افسوسناک صورتحال صرف سیاسی اختلاف نہیں، بلکہ معاشرتی ذہنیت کی وہ پستی ظاہر کرتی ہے جو عورت کو قیادت کے قابل ہی نہیں سمجھتی۔ ایسے میں شاعرہ کشور ناہید صاحبہ کا یہ مصرعہ یاد آتا ہے،

ہمارے جسموں کے گناہ کی گواہی مت دو،

ہم نے سانسوں سے اپنے خوابوں کی فصلیں اگائی ہیں

2024 کے ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ کے مطابق پاکستان 146 ممالک میں سے 145ویں نمبر پر ہے، جو صنفی برابری کے حوالے سے ایک تشویشناک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔

خواتین کی سیاسی شراکت داری کے حوالے سے پاکستان کا درجہ 112واں ہے، جہاں صرف 19 فیصد خواتین قانون ساز اداروں میں نمائندگی رکھتی ہیں، اور محض چھ اعشاریہ تین فیصد خواتین وزارتی عہدوں پر فائز ہیں۔ 2024 کے عام انتخابات میں صرف 4.

6 فیصد جنرل نشستوں کے امیدوار خواتین تھیں، جبکہ 27 خواتین قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہوئیں۔ اسی طرح، قومی اسمبلی کی 34 قائمہ کمیٹیوں میں سے صرف 2 کی صدارت خواتین کے پاس ہے، جبکہ سینیٹ کی 50 کمیٹیوں میں سے 10 کی صدارت خواتین کے پاس ہے۔

جس معاشرے میں پہلے ہی خواتین کی سیاست میں شرکت کا یہ حال ہو وہاں جنسی ہراسانی اور جنسی تشدد کی دھمکیاں جلتی پر تیل کا کام کرتی ہیں۔ خواتین سیاستدانوں کو ان حملوں کے بعد اکثر سیاست کو خیرباد کہنا پڑتا ہے۔ جن خواتین سیاستدانوں پر آن لائن جنسی حملے ہوتے ہیں، ان کے دوبارہ انتخاب لڑنے کے امکانات نمایاں حد تک کم ہو جاتے ہیں۔ یہ صرف ایک فرد کا سیاسی نقصان نہیں بلکہ پورے معاشرے کا جمہوری نقصان ہے، کیونکہ ہم اپنے سیاسی منظرنامے سے ایک مؤثر اور حساس قیادت کو کھو دیتے ہیں۔

یہ وقت ہے کہ ہم ان حملوں کو صرف 'سیاست کی تلخی‘ سمجھ کر نظرانداز کرنا بند کریں۔ ہمیں ان حملوں کو 'سیاسی دہشت گردی' کے طور پر تسلیم کرنا ہو گا۔

یقیناً، یہ صورتحال صرف خواتین سیاستدانوں ہی کے لیے نہیں بلکہ ہر اس عورت کے لیے خطرے کا باعث بن رہی ہے جو عوامی مکالمے اور سیاسی مباحثوں میں حصہ لینا چاہتی ہے۔ خاص طور پر آن لائن پلیٹ فارمز پر، جو اب سیاسی بیانیے کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔

واشنگٹن میں قائم نیشنل ڈیموکریٹک انسٹیٹیوٹ کے ایک عالمی سروے کے مطابق وہ نوجوان خواتین جو آن لائن سیاسی آراء کا اظہار کرتی ہیں، ان میں سے نصف سے زائد کو صرف اپنے خیالات کے اظہار پر بدسلوکی اور جنسی حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بدسلوکی چند انفرادی واقعات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک منظم معاشرتی اور سیاسی مسئلہ ہے جو جمہوریت کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔

نیٹو کی ایک 2021 کی رپورٹ میں فن لینڈ کی حکومت کی خواتین وزراء، بشمول وزیراعظم سانا مارین، کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (پہلے ٹوئٹر) پر موصول ہونے والی نفرت انگیز اور صنفی بنیاد پر مبنی بدسلوکی کا جائزہ لیا گیا۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ان خواتین کو منظم طریقے سے "لپ اسٹک حکومت"، "فیمنسٹ کوئنٹیٹ" اور "ٹیم ٹامپیکس" جیسے توہین آمیز القابات سے نشانہ بنایا گیا۔

اس رپورٹ کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ حملے کچھ مخصوص افراد کی ذاتی سوچ پر مبنی نہیں تھے، بلکہ یہ جمہوری نظام کو نقصان پہنچانے کی منظم سازش کا حصہ تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے والے عناصر نے جان بوجھ کر خواتین کو نشانہ بنانے کو ایک مؤثر حکمتِ عملی کے طور پر اپنایا ہے۔

پاکستان ہو یا دنیا کے دیگر ممالک اس طرز کے حملے صرف خواتین سے نفرت کے غماز نہیں ہیں، بلکہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ خواتین کو جنسی تشدد کی دھمکیاں دینے والے اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ خواتین کے خلاف نفرت انگیز مہم ان کے سیاسی مقاصد کے حصول کا مؤثر ذریعہ بن سکتی ہے۔

یو این نے یہ واضح کیا ہے کہ سیاست میں خواتین کے خلاف تشدد کا مقصد انہیں عوامی زندگی میں حصہ لینے سے روکنا ہے، یہ ایک قسم کی سیاسی دہشت گردی ہے۔

لہذا حکوت کو بھی چاہیے کہ ایسے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائیں جو اس سیاسی دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ جو عورتوں کے جسموں کو ان کی کمزوری سمجھتے ہیں، جو عورت کو ذہانت سے سر نہیں کر پاتے تو اس پر اپنی جسمانی طاقت کا خوف ڈالتے ہیں۔

ان کو جلسوں میں تقریر کرتی، آزادی کے خواب دیکھتی، ہتھکڑیوں میں جکڑی، یا نعرے لگاتی عورت فقط ایک جسم لگتی ہے جس کو وہ زیر کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے عناصر نہ پارٹی کے خیر خواہ ہوتے ہیں اور نہ جمہوریت کے، یہ صرف اپنی پست سوچ کے غلام ہوتے ہیں۔

سلام ہے ہماری بہادر بیٹیوں کو جو اس سب کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ وہ استحصال اور خوف کے اس نظام کو اپنی بہادری اور استقامت سے زیر کر رہی ہیں۔

وہ بے نظیر ہوں، مریم نواز، مہ رنگ بلوچ ، صنم جاوید یا ان جیسی ہزاروں خواتین، جو اس نظام میں اپنی جگہ بنانے کے ساتھ ان حملوں کا بہادری سے سامنا کرتی رہی ہیں۔ جمہوریت کی عمارت میں ان کی لگائی ہوئی اینٹیں ہی اس کی پختگی کی ضامن ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خواتین سیاستدانوں کا سامنا کرنا خواتین سیاست جنسی تشدد کی کی دھمکیاں خواتین کی سیاست میں نہیں بلکہ خواتین کو خواتین کے اور جنسی ان حملوں ہیں بلکہ کے خلاف پڑتا ہے آن لائن بلکہ یہ کے لیے

پڑھیں:

وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست

سیلابی ریلے وسطی و جنوبی پنجاب میں تباہی مچا کر سندھ میں داخل ہونے پر پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں کو بھی خیال آگیا کہ انھیں اور کچھ نہیں تو سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا خالی ہاتھ دورہ ہی کر لینا چاہیے۔

 اس لیے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان اور سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے ملتان، شجاع آباد اور جلال پور پیروالا کا دورہ کیا اور حکومتی امدادی سرگرمیوں پر عدم اطمینان کا اظہارکیا۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ سیاست کا وقت تو نہیں، اس لیے عوام کو اپنے سیلاب سے متاثرہ بہن بھائیوں کی مدد کے لیے آگے آنا ہوگا۔

انھوں نے ایک ریلیف کیمپ کے دورے پر کہا کہ پی ٹی آئی اس مشکل گھڑی میں متاثرین کے ساتھ ہے مگر انھوں نے متاثرین میں سلمان اکرم راجہ کی طرح کوئی امدادی سامان تقسیم نہیں کیا اور زبانی ہمدردی جتا کر چلتے بنے۔ سلمان اکرم راجہ نے اپنے دورے میں کہا کہ اس وقت جنوبی پنجاب سیلاب کی زد میں ہے اور سرکاری امداد محدود ہے، اس لیے میری عوام سے اپیل ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور سیلاب متاثرین کی مدد کریں۔

سابق اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے باز نہیں آئے ، موصوف نے کہا کہ ٹک ٹاکر حکومتیں سیلاب زدگان کی مدد کرنے والے والنٹیئرز پر امدای سامان پر فوٹو نہ لگانے کی پاداش میں ایف آئی آر کاٹ رہی ہیں۔

پی ٹی آئی کے حامی اینکرز اور وی لاگرز نے بھی اس موقع پر سیاست ضروری سمجھی اور انھوں نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو اپنے وی لاگ اور انٹرویوز میں بٹھا کر یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ (ن) لیگ کی وفاقی اور صوبائی حکومت نے سیلاب متاثرین کو لاوارث چھوڑ رکھا ہے اور صرف دکھاوے کی امداد شروع کر رکھی ہے اور سیلاب متاثرین کو بچانے پر توجہ ہی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا ہے اور متاثرین کو بروقت محفوظ مقامات پر پہنچانے کی کوشش نہیں کی اور جب سیلابی پانی ان کے گھروں اور کھیتوں میں داخل ہوا تو ریلیف کا کام شروع کیا گیا۔

متاثرہ علاقوں میں ضرورت کے مطابق کشتیاں موجود تھیں نہ ریلیف کا سامان اور نہ ضرورت کے مطابق حفاظتی کیمپ قائم کیے گئے۔ یہ رہنما اس موقعے پر بھی سیاست کرتے رہے اور کسی نے بھی حکومتی کارکردگی کو نہیں سراہا بلکہ حکومت پر ہی تنقید کی۔ جب کہ وہ خود کوئی ریلیف ورک نہیں کرتے۔

پنجاب کے ریلیف کمشنر نے قائم مقام امریکی ناظم الامور کو پنجاب ہیڈ آفس کے دورے میں بتایا کہ پنجاب کو تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا ہے جس سے ساڑھے چار ہزار موضع جات متاثر 97 شہری جاں بحق اور تقریباً 45 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جن کے لیے متاثرہ اضلاع میں 396 ریلیف کیمپس، 490 میڈیکل کیمپس اور 405 وزیٹری کیمپس قائم کیے گئے جہاں سیلاب متاثرین کو ٹھہرا کر ہر ممکن امداد فراہم کی جا رہی ہے اور شمالی پنجاب کے متاثرہ اضلاع کے بعد جنوبی پنجاب کی سیلابی صورتحال پر حکومتی توجہ مرکوز ہے اور سیلاب متاثرین کے لیے تمام سرکاری وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے قدرتی آفت پر صوبائی حکومتوں کی امدادی کارروائیوں کو قابل ستائش قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے کسانوں، مزدوروں، خواتین اور بچوں نے غیر معمولی ہمت دکھائی ہے اس قدرتی آفت سے بے پناہ مسائل و چیلنجز نے جنم لیا ہے مگر حکومت متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔

 خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی کارکردگی کا موازنہ پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکوتوں سے کیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خیبر پختونخوا کے برعکس پنجاب و سندھ کی حکومتوں نے سیلابی صورت حال دیکھتے ہوئے تیاریاں شروع کردی تھیں اور حفاظتی انتظامات کے تحت متاثرہ علاقوں میں سیلاب آنے سے قبل خالی کرنے کی اپیلیں کی تھیں مگر اپنے گھر فوری طور خالی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

غریب اپنے غیر محفوظ گھر خالی کرنے سے قبل بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں، انھیں حکومت اور انتظامیہ پر اعتماد نہیں ہوتا کہ وہ واپس اپنے گھروں کو آ بھی سکیں گے یا نہیں اور انھیں سرکاری کیمپوں میں نہ جانے کب تک رہنا پڑے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر قدرتی آفت پر حکومتی اور اپوزیشن دونوں طرف سے سیاست ضرور کی جاتی ہے اور غیر حقیقی دعوے کیے جاتے ہیں اور عوام کو حقائق نہیں بتائے جاتے۔ حکومت نے بلند و بانگ دعوے اور اپوزیشن نے غیر ضروری تنقید کرکے اپنی سیاست بھی چمکانا ہوتی ہے اور دونوں یہ نہیں دیکھتے کہ یہ وقت سیاست کا ہے یا نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست
  • اب جنازوں پر سیاست ہو رہی ہے: علی امین گنڈاپور
  • آئی سی سی نے پی سی بی کا مطالبہ مسترد کیا، پاکستان کی ایونٹ سے دستبرداری کی دھمکی برقرار
  • لاہور: سوتیلی بیٹی سے جنسی زیادتی کرنے والا ملزم گرفتار
  •   برطانوی پرچم کو تشدد کی علامت نہیں بننے دیں گے‘ وزیراعظم
  • ٹرمپ عمر رسیدہ ، صدارت کے اہل نہیں؟ امریکی سیاست میں نئی بحث چھڑ گئی
  • صدر ٹرمپ کی واشنگٹن ڈی سی میں قومی ایمرجنسی نافذ کرنے کی دھمکی
  • برطانوی پرچم تشدد، تقسیم کی علامت بنانے والوں کے حوالے نہیں کرینگے، وزیراعظم کیئر اسٹارمر
  • بھارتی جنرل یا سیاسی ترجمان؟ عسکری وقار مودی سرکار کی سیاست کی نذر