خواتین سیاسی کارکنان اور جنسی تشدد کی دھمکی
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 مئی 2025ء) بلوچ یکجہتی کمیٹی سے تعلق رکھنے والی مہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ کی گرفتاری کے بعد ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کے کارکن سوشل میڈیا پر یہ بحث کرنے لگے کہ ان کے کن اعضاء کے بال کس سے اتروائے جائیں گے۔ ایسے کمنٹس پڑھنا اس قدر کراہت آمیز ہے تو سوچیں جنہوں نے یہ سب لکھا ہے وہ کس ذہنیت کے مالک ہوں گے اور جن خواتین سیاسی کارکنان کے لیے یہ سب کہا جاتا ہے انہیں کیسا محسوس ہو گا۔
ریاستی تحویل یا جیل میں موجود خواتین پر جنسی تشدد یا اس کی دھمکی اُن بدترین ہتھکنڈوں میں سے ایک ہے، جو خواتین سیاسی کارکنان کے خلاف استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف کسی فرد کی جسمانی خودمختاری اور وقار کی شدید خلاف ورزی ہے بلکہ یہ بین الاقوامی انسانی حقوق اور قوانین کے بھی خلاف ہے۔
(جاری ہے)
خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کا کنونشن (CEDAW) کا جنرل ریکمنڈیشن نمبر 35 (2017) واضح کرتا ہے کہ ریاستی اداروں کی جانب سے جنسی تشدد بھی صنفی امتیاز اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے تو پھر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ لوگ کھلے عام ان خواتین کو جنسی تشدد کی دھمکیاں دیتے ہوں اور ریاست خاموش رہے۔
یہ معاملہ فقط سیاسی اختلاف کا نہیں بلکہ یہ طاقت کا عدم توازن اور خواتین کے جسم کو ان ہی کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعما ل کرنے کا ایک حربہ بھی ہے۔ مشہور ماہر سیاسیات ڈاکٹر مونا لینا کروک لکھتی ہیں کہ سیاست میں خواتین کو دی جانے والی جنسی نوعیت کی دھمکیاں اور تشدد کا خوف محض اتفاق نہیں، بلکہ یہ طاقت کی صنفی حدود کو نافذ کرنے کی ایک منظم کوشش ہیں۔
پاکستانی سیاست میں خواتین کی نمائندگی گزشتہ دہائیوں میں بڑھ ضرور رہی ہے، مگر یہ اضافہ محض اعداد و شمار تک محدود نظر آتا ہے۔آج بھی، جب کوئی عورت عوامی نمائندگی کے لیے سامنے آتی ہے تو اسے صرف نظریاتی یا انتخابی مخالفت کا سامنا نہیں ہوتا، بلکہ اس کی ذات، جسم اور کردار کو نشانہ بنایا جاتا ہے اگر وہ سیاست میں کامیاب ہوتی ہیں تو انہیں کردار کشی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کبھی قید و بند کی صعوبت دیکھنی پڑے تو اس مشکل کے ساتھ یہ بھی سہنا پڑتا ہے کہ آن لائن سپیس میں مرد حضرات یہ قیاس آرائیاں کر رہے ہوں گے کہ جیل میں ان کی نتھ اتروائی کون کر رہا ہے۔
یہ جنسی نوعیت کی دھمکیاں، توہین آمیز تبصرے اور تشدد کی صورتیں، خواتین سیاستدانوں کو صرف خاموش نہیں کرتیں، بلکہ انہیں خوفزدہ کر کے سیاست سے باہر نکالنے کا ہتھیار بھی ہیں۔پاکستان کی سیاست میں پہلے ہی خواتین کی سیاست میں شمولیت غیر معمولی حد تک محدود ہے اور اس پر ستم یہ کہ جو خواتین سیاست میں شمولیت اختیار کرتی ہیں انہیں ایسے رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بے نظیر بھٹو کو بطور خاتون سیاستدان اپنی زندگی میں جس نفرت، الزام تراشی اور جنسی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا، وہ ہمارے قومی شعور کا ایک تلخ باب ہے۔ آج بھی، جب کوئی خاتون ایم این اے، کونسلر یا ورکر بننے کی کوشش کرتی ہے، تو اسے تضحیک آمیز رویوں اور سوشل میڈیا پر جنسی حملوں کا سامنا رہتا ہے۔ایسے رہنما بھی مخالف سیاسی جماعت کی خواتین کو سیاسی جلسوں میں فحاشی پھیلانے اور ناچنے کا طعنہ دیتے رہے جن کے اپنے گھر کی خواتین عملی سیاست میں سرگرم تھیں اور پھر جوابا انہیں بھی کبھی کسی قطری کے طعنے ملے اور کبھی کسی جنرل سے تعلقات کے۔
ایسی افسوسناک صورتحال صرف سیاسی اختلاف نہیں، بلکہ معاشرتی ذہنیت کی وہ پستی ظاہر کرتی ہے جو عورت کو قیادت کے قابل ہی نہیں سمجھتی۔ ایسے میں شاعرہ کشور ناہید صاحبہ کا یہ مصرعہ یاد آتا ہے،ہمارے جسموں کے گناہ کی گواہی مت دو،
ہم نے سانسوں سے اپنے خوابوں کی فصلیں اگائی ہیں
2024 کے ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ کے مطابق پاکستان 146 ممالک میں سے 145ویں نمبر پر ہے، جو صنفی برابری کے حوالے سے ایک تشویشناک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔
خواتین کی سیاسی شراکت داری کے حوالے سے پاکستان کا درجہ 112واں ہے، جہاں صرف 19 فیصد خواتین قانون ساز اداروں میں نمائندگی رکھتی ہیں، اور محض چھ اعشاریہ تین فیصد خواتین وزارتی عہدوں پر فائز ہیں۔ 2024 کے عام انتخابات میں صرف 4.6 فیصد جنرل نشستوں کے امیدوار خواتین تھیں، جبکہ 27 خواتین قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہوئیں۔ اسی طرح، قومی اسمبلی کی 34 قائمہ کمیٹیوں میں سے صرف 2 کی صدارت خواتین کے پاس ہے، جبکہ سینیٹ کی 50 کمیٹیوں میں سے 10 کی صدارت خواتین کے پاس ہے۔
جس معاشرے میں پہلے ہی خواتین کی سیاست میں شرکت کا یہ حال ہو وہاں جنسی ہراسانی اور جنسی تشدد کی دھمکیاں جلتی پر تیل کا کام کرتی ہیں۔ خواتین سیاستدانوں کو ان حملوں کے بعد اکثر سیاست کو خیرباد کہنا پڑتا ہے۔ جن خواتین سیاستدانوں پر آن لائن جنسی حملے ہوتے ہیں، ان کے دوبارہ انتخاب لڑنے کے امکانات نمایاں حد تک کم ہو جاتے ہیں۔ یہ صرف ایک فرد کا سیاسی نقصان نہیں بلکہ پورے معاشرے کا جمہوری نقصان ہے، کیونکہ ہم اپنے سیاسی منظرنامے سے ایک مؤثر اور حساس قیادت کو کھو دیتے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم ان حملوں کو صرف 'سیاست کی تلخی‘ سمجھ کر نظرانداز کرنا بند کریں۔ ہمیں ان حملوں کو 'سیاسی دہشت گردی' کے طور پر تسلیم کرنا ہو گا۔یقیناً، یہ صورتحال صرف خواتین سیاستدانوں ہی کے لیے نہیں بلکہ ہر اس عورت کے لیے خطرے کا باعث بن رہی ہے جو عوامی مکالمے اور سیاسی مباحثوں میں حصہ لینا چاہتی ہے۔ خاص طور پر آن لائن پلیٹ فارمز پر، جو اب سیاسی بیانیے کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔
واشنگٹن میں قائم نیشنل ڈیموکریٹک انسٹیٹیوٹ کے ایک عالمی سروے کے مطابق وہ نوجوان خواتین جو آن لائن سیاسی آراء کا اظہار کرتی ہیں، ان میں سے نصف سے زائد کو صرف اپنے خیالات کے اظہار پر بدسلوکی اور جنسی حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بدسلوکی چند انفرادی واقعات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک منظم معاشرتی اور سیاسی مسئلہ ہے جو جمہوریت کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔نیٹو کی ایک 2021 کی رپورٹ میں فن لینڈ کی حکومت کی خواتین وزراء، بشمول وزیراعظم سانا مارین، کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (پہلے ٹوئٹر) پر موصول ہونے والی نفرت انگیز اور صنفی بنیاد پر مبنی بدسلوکی کا جائزہ لیا گیا۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ان خواتین کو منظم طریقے سے "لپ اسٹک حکومت"، "فیمنسٹ کوئنٹیٹ" اور "ٹیم ٹامپیکس" جیسے توہین آمیز القابات سے نشانہ بنایا گیا۔
اس رپورٹ کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ حملے کچھ مخصوص افراد کی ذاتی سوچ پر مبنی نہیں تھے، بلکہ یہ جمہوری نظام کو نقصان پہنچانے کی منظم سازش کا حصہ تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے والے عناصر نے جان بوجھ کر خواتین کو نشانہ بنانے کو ایک مؤثر حکمتِ عملی کے طور پر اپنایا ہے۔پاکستان ہو یا دنیا کے دیگر ممالک اس طرز کے حملے صرف خواتین سے نفرت کے غماز نہیں ہیں، بلکہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ خواتین کو جنسی تشدد کی دھمکیاں دینے والے اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ خواتین کے خلاف نفرت انگیز مہم ان کے سیاسی مقاصد کے حصول کا مؤثر ذریعہ بن سکتی ہے۔
یو این نے یہ واضح کیا ہے کہ سیاست میں خواتین کے خلاف تشدد کا مقصد انہیں عوامی زندگی میں حصہ لینے سے روکنا ہے، یہ ایک قسم کی سیاسی دہشت گردی ہے۔لہذا حکوت کو بھی چاہیے کہ ایسے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائیں جو اس سیاسی دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ جو عورتوں کے جسموں کو ان کی کمزوری سمجھتے ہیں، جو عورت کو ذہانت سے سر نہیں کر پاتے تو اس پر اپنی جسمانی طاقت کا خوف ڈالتے ہیں۔
ان کو جلسوں میں تقریر کرتی، آزادی کے خواب دیکھتی، ہتھکڑیوں میں جکڑی، یا نعرے لگاتی عورت فقط ایک جسم لگتی ہے جس کو وہ زیر کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے عناصر نہ پارٹی کے خیر خواہ ہوتے ہیں اور نہ جمہوریت کے، یہ صرف اپنی پست سوچ کے غلام ہوتے ہیں۔سلام ہے ہماری بہادر بیٹیوں کو جو اس سب کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ وہ استحصال اور خوف کے اس نظام کو اپنی بہادری اور استقامت سے زیر کر رہی ہیں۔
وہ بے نظیر ہوں، مریم نواز، مہ رنگ بلوچ ، صنم جاوید یا ان جیسی ہزاروں خواتین، جو اس نظام میں اپنی جگہ بنانے کے ساتھ ان حملوں کا بہادری سے سامنا کرتی رہی ہیں۔ جمہوریت کی عمارت میں ان کی لگائی ہوئی اینٹیں ہی اس کی پختگی کی ضامن ہیں۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خواتین سیاستدانوں کا سامنا کرنا خواتین سیاست جنسی تشدد کی کی دھمکیاں خواتین کی سیاست میں نہیں بلکہ خواتین کو خواتین کے اور جنسی ان حملوں ہیں بلکہ کے خلاف پڑتا ہے آن لائن بلکہ یہ کے لیے
پڑھیں:
علیگڑھ میں مسلمانوں کے ہجومی تشدد کا سانحہ سماج پر بدنما داغ ہے، کانگریس
عدنان اشرف نے کہا کہ نہ صرف مجھے بلکہ ہر ہندوستانی کو اب یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ایسے غنڈوں کو بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کو لنچنگ کرنے کیلئے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی اقلیتی شعبہ کے نیشنل میڈیا انچارج اور تلنگانہ کوآرڈینیٹر سید عدنان اشرف نے کہا کہ علی گڑھ میں پیش آنے والے ہجومی تشدد کا واقعہ ملک پر ایک بدنما داغ ہے۔ علی گڑھ میں جس طرح ہجوم کے ذریعہ گوشت کے تاجروں کو مارا گیا وہ دہشتگردی سے کم نہیں ہے اور کسی بھی معزز شخص کے لئے اس واقعہ کے منظر کو دیکھنا بھی ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے گوشت کے تاجروں سے بھتہ مانگا اور جب وہ بھتہ وصول کرنے میں ناکام رہے تو ان کی گاڑی کو آگ لگا دی اور پھر مشتعل ہجوم نے مل کر نہتے بے قصور لوگوں کو جان لیوا انداز میں مارا گیا، اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں ملک کے وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا یہی اترپردیش میں قانون و انتظام ہے، کیا یہ اس ریاست کی حالت ہے، جس میں وزیراعظم کا پارلیمانی حلقہ آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں بی جے پی حکومت سے پوچھنا چاہتا ہوں اور جواب مانگنا چاہتا ہوں کہ یہ وہ وقت ہے جب ہندوستان پوری دنیا کو اتحاد کا پیغام دے رہا ہے، کیا اس طرح کے مناظر کا سامنے آنا حکومت کے لئے شرمندگی کا باعث نہیں ہے اور کیا یہ حال اور مستقبل میں وزیراعظم، وزیرداخلہ اور ملک کی بی جے پی حکومت کے لئے شرمندگی کی وجہ نہیں بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ کیا ان غنڈوں پر انتظامیہ کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
کانگریس لیڈر عدنان اشرف نے کہا کہ نہ صرف مجھے بلکہ ہر ہندوستانی کو اب یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ایسے غنڈوں کو بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کو لنچنگ کرنے کے لئے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور ان لوگوں کو حکومت کی حمایت حاصل ہے۔ ہجومی تشدد کے متاثرین نے واقعہ سے پہلے وہاں موجود بھیڑ کو فیکٹری کا بل، لائسنس اور تمام درست دستاویزات دکھائے اس کے بعد بھی انہیں مارنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب بی جے پی حکومت کی رضامندی سے جان بوجھ کر کیا گیا تھا۔ اس میں حکومت کی ملی بھگت اس لئے بھی زوروں پر نظر آتی ہے کیونکہ ملزمین میں سے ایک کو شکایت کنندہ بنا کر پولس نے دو دن بعد موب لنچنگ کے متاثرین کے خلاف کر اس ایف آئی آر درج کرائی تاکہ متاثرین کا مقدمہ کمزور ہو اور ملزمین کے حوصلے بلند ہوں۔
کانگریس مائنارٹی سیل کے نیشنل میڈیا انچارج نے کہا کہ جب تک حکومت ایسے مجرموں کو تحفظ فراہم کرتی رہے گی، تب تک معصوم اقلیتوں پر اس طرح کے حملے اور قتل عام نہیں رکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملک اور ریاست کی بی جے پی حکومتوں کو مذہب سے اوپر اٹھ کر ملک کے آئین کے مطابق ملک کے شہریوں کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا اور جب اکثریت اقلیتوں پر ظلم کرے گی تو آگے بڑھ کر ایماندارانہ قانونی کارروائی کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ میں کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور کانگریس اقلیتی شعبہ کے چیئرمین عمران پرتاپ گڑھی سے درخواست کروں گا کہ وہ اس مسئلہ کو پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس میں اٹھائیں۔