کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا ناقص انتظام صحت عامہ کیلئے سنگین خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا ناقص انتظام صحتِ عامہ کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے اور اس کے اثرات معاشرتی، ماحولیاتی اور طبی سطح پر بہت گہرے ہوتے ہیں۔
1. متعدی امراض کا پھیلاؤ
کھلا کچرا مکھیوں، مچھروں، چوہوں اور دیگر کیڑوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے، جو ڈینگی، ملیریا، ہیضہ، ٹائیفائیڈ جیسے بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ آلودہ پانی اور گندگی کے سبب بچوں اور ضعیف افراد میں انفیکشنز زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔
2.
کھلے ماحول میں جلایا گیا کچرا (خصوصاً پلاسٹک) زہریلی گیسیں پیدا کرتا ہے جیسے ڈائی آکسنز، فیورانز، اور کاربن مونو آکسائیڈ جو پھیپھڑوں اور دل کے امراض پیدا کر سکتے ہیں۔ زمین اور زیرِ زمین پانی آلودہ ہو جاتا ہے، جس سے پینے کے پانی کے ذرائع متاثر ہوتے ہیں۔
3. سانس کی بیماریاں
کوڑے کے ڈھیروں سے نکلنے والی بدبو اور زہریلی گیسیں دمہ، کھانسی، برونکائٹس اور دیگر سانس کی بیماریوں کا سبب بنتی ہیں۔
4. نفسیاتی و معاشرتی اثرات
مستقل گندگی میں رہنے والے لوگ ڈپریشن، ذہنی دباؤ اور بے بسی جیسے مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ شہروں اور بستیوں کی خوبصورتی اور پرکشش ماحول بھی متاثر ہوتا ہے، جو سیاحت، سرمایہ کاری اور شہری ترقی کے خلاف جاتا ہے۔
ممکنہ حل:
1) سخت بلدیاتی قوانین اور ان کا مؤثر نفاذ
2) عوامی آگاہی مہمات – اسکولوں، میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے
3) کچروں کی علیحدگی (گیلا اور ٹھوس خشک کچرا الگ کرنا)
4) ری سائیکلنگ اور کمپوسٹنگ کے مراکز کا قیام
5) کوڑا اٹھانے کے باقاعدہ اوقات اور جدید ٹرانسپورٹیشن
6) شہری شراکت داری – عوام کو اس عمل کا حصہ بنانا
ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
جرگے کی بنیاد پر فیصلے اور قتل جیسے اقدامات کسی صورت قبول نہیں، وزیر صحت بلوچستان بخت کاکڑ
بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کے حالیہ واقعات کے حوالے سے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر صحت بخت کاکڑ نے کہا کہ جرگے کی بنیاد پر فیصلے اور قتل جیسے اقدامات کسی صورت قابلِ قبول نہیں، موجودہ دور میں کہ جب قانون موجود ہے، 2 متوازی نظام نہیں چل سکتے۔
صوبائی وزیر کے مطابق ماضی میں جب ریاستی ادارے یا عدالتی نظام موجود نہیں تھے تو جرگہ ایک مقامی سطح پر انصاف فراہم کرنے والا نظام تھا، جو مخصوص قبائلی حالات میں اپنی افادیت رکھتا تھا۔ ’تاہم اب، چونکہ ملک میں باقاعدہ عدالتی نظام اور قانون موجود ہے، لہٰذا کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ بغیر تفتیش یا عدالتی کارروائی کے کسی فرد کو موت کی سزا دے۔‘
صوبائی وزیرصحت بخت کاکڑ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس کے لیے قانونی دائرہ کار موجود ہے، تفتیش ہونی چاہیے اور عدالتی کارروائی کے بعد ہی فیصلہ کیا جانا چاہیے، کیونکہ جرگہ بٹھا کر محض الزام کی بنیاد پر کسی کو قتل کر دینا معاشرے کے لیے ایک خطرناک رجحان ہے۔
ایک سوال کے جواب میں بخت کاکڑ نے کہا کہ قانون تو موجود ہے، لیکن مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب مقدمات کی پیروی اور تفتیش اس معیار پر نہیں ہوتی جیسا کہ ہونی چاہیے۔ ’اکثر اوقات مقتول کے قریبی رشتہ دار، خاص طور پر اہم خاندانی گواہ، عدالت میں پیش نہیں ہوتے، جس سے کیس کمزور ہو جاتا ہے اور ملزمان قانونی سقم کا فائدہ اٹھا کر بچ نکلتے ہیں۔‘
صوبائی وزیرصحت کا کہنا تھا کہ ڈگاری واقعے کے بعد حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے مؤثر کارروائیاں کیں، اور وزیراعلیٰ بلوچستان، سرفراز بگٹی، نے کھلے الفاظ میں سرداری نظام اور جرگوں پر سوال اٹھائے جو کہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔
’جب تک ہم معاشرتی سطح پر ان معاملات پر کھل کر بحث و مباحثہ نہیں کریں گے، اس وقت تک مؤثر قانون سازی اور اصلاحات بھی ممکن نہیں ہو سکیں گی۔
‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بخت کاکڑ جرگہ غیرت قتل وزیر صحت