لاپتا افراد کمیشن کے چیئرمین کی چھ ہفتوں میں تقرری کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
اسلام آباد:
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو چھ ہفتے میں لاپتا افراد کمیشن کے چیئرمین کا تقرر کرنے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے 2015ء سے لاپتا شہری عبداللہ عمر کہ اپیلیں زینب زعیم کی پر سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔
عدالت نے کہا ہے کہ مسنگ پرسن سے متعلق عدالت کو ان کیمرا بریفنگ دینے کے لیے متعلقہ حکام سے مشاورت کی جائے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل، وزارت دفاع و داخلہ کے نمائندے متعلقہ حکام سے مشاورت کے بعد مشترکا رپورٹ پیش کریں۔
عدالت نے حکم دیا ہے کہ وفاقی حکومت چھ ہفتے میں لاپتا افراد کمیشن کے چیئرمین کا تقرر کرے، کیس ریکارڈ کے مطابق درخواست گزار کے شوہر محمد عبداللہ عمر 2015ء سے لاپتا ہیں۔
تحریری حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ دس سال گزرنے کے باوجود مسنگ پرسن کا کوئی سراغ نہیں لگایا جاسکا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لاپتا افراد کمیشن کے چیئرمین کی وفات کے بعد نئے چیئرمین کا عہدہ تاحال خالی ہے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ حکومت پاکستان چیئرمین لاپتا افراد کمیشن کی تعیناتی کے پراسیس میں ہے، چیئرمین کی تعیناتی کے فوری بعد متاثرہ خاندان کے لیے سپورٹ پیکج کا معاملہ اسپیشل کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ اسپیشل کمیٹی وزارت داخلہ، وزارت دفاع اور وزارت انسانی حقوق کے سیکرٹریز پر مشتمل ہے، اسپیشل کمیٹی چیئرمین لاپتا افراد کمیشن کی نگرانی میں درخواست دہندہ کے کیس کا جائزہ لے گی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق پچاس لاکھ روپے ہر متاثرہ خاندان کے لیے جاری کیے جائیں گے۔
عدالت نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں مسنگ پرسن کی فیملی کے لیے ضروریات زندگی کو پورا کرنا نہایت مشکل ہے، چیئرمین تعینات ہونے کے بعد دو ہفتوں میں متاثرہ فیملی کو سپورٹ پیکیج کا فیصلہ کرکے رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔
کیس کی مزید سماعت 24 جون کو کی جائے گی۔
عدالت نے اسپیشل کمیٹی کو 2015ء سے لاپتا شہری عبداللہ عمر کی عدم بازیابی پر اہل خانہ کو معاوضہ کی ادائیگی کے لیے ان کے کیس کا جائزہ لینے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین لاپتا افراد کمیشن کی تعیناتی کے بعد اسپیشل کمیٹی زینب زعیم کیس کا جائزہ لے کر معاوضے سے متعلق دو ہفتوں میں فیصلہ کرے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افراد کمیشن کے چیئرمین اسپیشل کمیٹی عدالت نے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
غیرت کے نام پر 7 افراد کو قتل کرنے والے مجرم کو 7 بار سزائے موت دینے کا فیصلہ
غیرت کے نام پر 7 افراد کو قتل کرنے والے مجرم کو عدالت نے 7 بار سزائے موت کا فیصلہ سنادیا۔
سیشن کورٹ پشاور نے غیرت کے نام پر 7 افراد کے قتل کے مقدمے میں جرم ثابت ہونے پر ملزم محمد ابراہیم کو 7 بار سزائے موت اور 21 لاکھ 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنادی۔
مقدمے کی سماعت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد جمیل نے کی۔
پراسیکیوشن کے مطابق ملزم محمد ابراہیم، جو چارسدہ کے علاقے تنگی کا رہائشی ہے، نے جون 2021 میں پشاور کے علاقے پھندو روڈ پر گھر میں گھس کر فائرنگ کی اور اپنی بیوی بانو، کم سن بیٹوں سلیم، سلمان، جلال، چچازاد بھائی حبیب اللہ، اس کی اہلیہ شکیلہ اور بیٹی سمیہ کو قتل کر دیا۔ افسوس ناک واقعہ تھانہ چمکنی کی حدود میں پیش آیا تھا۔
عدالت نے مقدمے میں شواہد اور گواہوں کے بیانات کی بنیاد پر جرم ثابت ہونے پر فیصلہ سنایا۔
ملزم نے اس سے قبل سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، جس پر پشاور ہائی کورٹ نے کیس دوبارہ ٹرائل کے لیے متعلقہ عدالت کو بھیج دیا تھا۔ دوبارہ ٹرائل کے بعد عدالت نے ایک بار پھر جرم ثابت ہونے پر ملزم کو 7 بار سزائے موت اور 21 لاکھ روپے سے زائد جرمانے کی سزا سنائی۔