تحریک انصاف کی احتجاجی حکمت عملی تبدیل،پارٹی کیلئے اہم ہدایات جاری
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) نے احتجاج کے حوالے سے حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے اسلام آباد کا رُخ نہ کرنے فیصلہ کیا ہے جبکہ بانی پی ٹی آئی نے پارٹی کو احتجاجی تحریک کی تیاری کرنے کی ہدایت بھی کردی ہے۔
پیر کو بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان نے اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے بتایا کہ پارٹی کی جانب سے پورے ملک میں احتجاجی تحریک چلائی جائے گی جبکہ بانی پی ٹی آئی نے واضح پیغام دیا ہے کہ کسی کو اسلام آباد نہیں بلاؤں گا کیونکہ یہاں اسنائپرز بٹھائے جاتے ہیں۔علیمہ خان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے احتجاجی تحریک کی تیاری کرنے کی ہدایت کر دی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ اُن کی سب پر نظر ہے ، تحریک انصاف ایک نظریے کا نام ہے ، وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے والوں کی پارٹی میں کوئی جگہ نہیں۔
علیمہ خان کے مطابق بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ جو عام قیدی کوحقوق حاصل ہیں مجھے وہ بھی نہیں دیئے جا رہے، بچوں سے 8 ماہ میں ایک مرتبہ بات کرائی گئی اور بہنوں سے ملاقات نہیں کروائی جا رہی، یہ کون سا قانون ہے کہ عدالتی احکامات کے باوجود بہنوں سے ملاقات نہ کروائی جائے۔
علیمہ خان کا کہنا تھا کہ جیل انتظامیہ بانی پی ٹی آئی کی کتابیں روک لیتی ہے جو ٹارچر کے زمرے میں آتا ہے جبکہ عدالتی احکامات کی توہین کرتے ہیں اور ان کے ڈاکٹرز کو معائنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔انہوں نے مزید بتایا کہ بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے پارٹی تیاری کر لے پورے پاکستان میں ایک تحریک کا اعلان کرنے لگے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کہ بانی پی ٹی ا ئی نے علیمہ خان
پڑھیں:
پاکستان ٹیکس اصلاحات پر مؤثر حکمت عملی اپنائے‘ ایشیائی ترقیاتی بینک کا انتباہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
منیلا (مانیٹرنگ ڈیسک) ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں صرف ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا مؤثر نتائج نہیں دے گا، جب تک اس کے ساتھ تعمیل اور نفاذ پر مؤثر حکمت عملی نہ اپنائی جائے۔ رپورٹ کے مطابق ایشیائی ترقیاتی بینک نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں بغیر کسی حکمت عملی کے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا اْس وقت تک پائیدار مالی نتائج نہیں دے سکتا جب تک نفاذ اور مؤثر تعمیل پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی جائے۔ منگل کو جاری کی گئی ایک پالیسی گائیڈ میں اے ڈی بی نے کہا کہ پاکستان کا تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ پہلے سے موجود ٹیکس دہندگان سے تعمیل کو یقینی بنائے بغیر ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کی کوششیں نہ صرف کم آمدنی کا باعث بنتی ہیں بلکہ انتظامی اخراجات میں بھی اضافہ کرتی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ ٹیکس نیٹ کے پھیلاؤ اور تعمیل میں بہتری کے درمیان سرمایہ کاری پر منافع کا باقاعدہ موازنہ کرنے کے لیے منظم شواہد جمع کریں۔ رہنمائی میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ٹیکس نیٹ کو صرف اْس وقت بڑھایا جائے جب غیر آمدنی بخش فوائد جیسے کہ معیشت کو رسمی بنانا یا بہتر اقتصادی ڈیٹا کا حصول ٹیکس دہندگان کے لیے تعمیل کے اخراجات اور حکومت پر پڑنے والے انتظامی بوجھ سے زیادہ ہوں۔ رپورٹ کے مطابق طویل المدتی مالیاتی پائیداری کے لیے متوازن حکمت عملی ناگزیر ہے۔ پاکستان کی مثال دیگر اے ڈی بی رکن ممالک کے لیے بھی سبق آموز ہے جو اپنے غیر رسمی شعبوں کو رسمی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹیکس فائلنگ میں جارحانہ اضافے کی کوششیں لازمی طور پر نہ تو زیادہ آمدنی کا باعث بنتی ہیں اور نہ ہی وسیع تر معاشی فوائد فراہم کرتی ہیں۔ اسی طرح کے نتائج روانڈا، جنوبی افریقہ، یوگنڈا اور دیگر ترقی پذیر معیشتوں میں بھی دیکھے گئے، جہاں ٹیکس بیس بڑھانے کے باوجود آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا۔ پاکستان میں 2007 سے 2019 کے دوران ٹیکس فائلرز کی تعداد 3 گنا سے زاید بڑھ گئی، خاص طور پر 2014 کے بعد جب نفاذ کے سخت اقدامات متعارف کروائے گئے، تاہم اس کے باوجود انکم ٹیکس کا مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں حصہ بدستور 3 سے 4 فیصد کے درمیان جمود کا شکار رہا۔ اے ڈی بی نے کہا کہ یہ عدم مطابقت مہنگے تعمیلی اقدامات کی مؤثریت پر سنجیدہ سوالات کھڑے کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کئی نئے فائلرز نے نہایت کم یا بالکل بھی قابلِ ٹیکس آمدنی ظاہر نہیں کی، جب کہ ودہولڈنگ ٹیکسز اور لین دین پر عائد پابندیوں نے آمدنی بڑھانے کے بجائے انتظامی پیچیدگیوں میں اضافہ کیا۔ اے ڈی بی نے واضح کیا کہ محض ٹیکس رول میں نئے نام شامل کر لینا مؤثر آمدنی کی ضمانت نہیں دیتا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ جب تک حکومتی پالیسیوں کا مقصد وسیع تر سماجی فوائد جیسے شفافیت، اقتصادی شمولیت یا مالیاتی دستاویزات کی بہتری نہ ہو، ان حکمتِ عملیوں کا دفاع مشکل ہوتا ہے۔ اگر نہ تو آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہو اور نہ ہی غیر آمدنی فوائد قابلِ پیمائش ہوں، تو موجودہ پالیسی کو مؤثر قرار دینا ممکن نہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2014 سے 2021 کے دوران پاکستان نے رسمی معیشت کا حجم تین گنا بڑھا دیا، لیکن 2021 تک ٹیکس آمدنی تقریباً اتنی ہی رہی جتنی 2007 میں تھی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ صرف معیشت کو رسمی بنانا آمدنی میں اضافے کی ضمانت نہیں۔ اے ڈی بی نے نتیجہ اخذ کیا کہ اگر پاکستان نے اپنی ٹیکس پالیسی پر ازسرِ نو غور نہ کیا تو موجودہ حکمتِ عملی ٹیکس دہندگان اور انتظامیہ پر غیر ضروری بوجھ ڈال سکتی ہے، جبکہ مالیاتی استحکام کے اہداف بھی حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔