لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 27 مئی ۔2025 )پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جھڑپوں میں پہلی بار بڑی تعداد میں ڈرونز کا استعمال کیا گیا جو دونوں ممالک کے درمیان روایتی جنگ کے طریقہ کار میں ایک انقلابی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے مئی میں چار روزہ جھڑپوں کے دوران بھارت اور پاکستان نے بڑے پیمانے پر بغیر پائلٹ طیاروں (یو اے ویز) کا استعمال کیا اگرچہ امریکی ثالثی سے جنگ بندی عمل میں آگئی مگر دونوں ایٹمی طاقتیں اب ڈرونز کے میدان میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ میں مصروف ہو گئی ہیں.

(جاری ہے)

برطانوی نشریاتی ادارے کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بھارت آئندہ 12 سے 24 ماہ کے دوران مقامی سطح پر یو اے ویز پر تقریباً 47 کروڑ ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جو تنازع سے پہلے کے اخراجات کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں یہ اخراجات حالیہ دنوں منظور شدہ 4.6 ارب ڈالر کے ہنگامی دفاعی بجٹ کا حصہ ہیں. بھارت تیزی سے مقامی ڈرون ساز کمپنیوں کو تجربات اور مظاہروں کے لیے بلا رہا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا دوسری جانب پاکستان ایئر فورس بھی اپنی قیمتی لڑاکا طیاروں کو خطرے سے بچانے کے لیے مزید ڈرونز حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اس ضمن میں ترکی اور چین کے ساتھ اشتراک کو وسعت دینے پر غور ہو رہا ہے.

پاکستانی فوج کی جانب سے ترک دفاعی کمپنی بایکار کے اشتراک سے تیار کردہ ییہا-III ڈرونز کا مقامی سطح پر اسمبل کیا جانا ایک اہم پیش رفت ہے، جہاں ہر دو سے تین دن میں ایک یونٹ تیار کیا جا سکتا ہے بھارت نے اشتعال انگیزی کرتے ہوئے 7 مئی کو پاکستان پر فضائی حملے کیے اگلی رات پاکستان نے تقریباً 300 سے 400 ڈرونز 36 مقامات سے بھارتی دفاعی نظام کو چیلنج کرنے کے لیے بھیجے .

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہپاکستان نے اس موقع پر ترک ساختہ ییہا-III، اسیس گارڈ سونگر اور مقامی شاہپر-II ڈرونز استعمال کیے، جبکہ بھارت نے کولڈ وار کے زمانے کے اینٹی ایئرکرافٹ گنز کو جدید ریڈار سسٹمز سے جوڑ کر ان ڈرونز کا دفاع کیا بھارت نے اسرائیلی ہارپ، پولش وارمیٹ اور مقامی یو اے ویز بھی پاکستانی فضائی حدود میں استعمال کیے. ہارپ ڈرونز خودکش نوعیت کے ہوتے ہیں، جو نشانے پر منڈلاتے ہوئے ٹکرانے سے پھٹ جاتے ہیںپاکستان نے ان ہارپ ڈرونز کے خلاف ریڈار اور دیگر تکنیکی تدابیر استعمال کیں تاکہ انہیں کم بلندی پر لا کر مار گرایا جا سکے ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈرونز کی مدد سے دونوں ممالک اپنی عسکری طاقت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں بغیر اس کے کہ جنگ کی شدت بڑے پیمانے پر بڑھ جائے مگر اس کے باوجود یہ جھڑپ خطرے سے خالی نہیں اور کسی بھی وقت بڑی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں.

بھارتی ڈرون پروگرام کے لیے ایک چیلنج یہ ہے کہ اس کا انحصار چینی پرزہ جات، جیسے کہ لیتھیم بیٹریز اور میگنیٹس پر ہے چین پاکستان کا دفاعی اتحادی ہونے کے ناطے کسی بھی وقت بھارت کے لیے سپلائی بند کر سکتا ہے، جس سے بھارتی ڈرون انڈسٹری کو شدید دھچکا پہنچ سکتا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سپلائی چین کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا خطرہ ہے جیسا کہ یوکرین کے خلاف چین کی برآمدی پابندیوں میں دیکھا گیا. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ڈرونز کی اس دوڑ نے خطے میں دفاعی توازن اور روایتی جنگ کے تصور کو بدل کر رکھ دیا ہے اب میدان جنگ میں فوجیوں کی موجودگی سے زیادہ ڈرونز اور ٹیکنالوجی کی برتری فیصلہ کن کردار ادا کرتی دکھائی دے رہی ہے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان نے کے درمیان کے لیے

پڑھیں:

پاک افغان جنگ بندی میں توسیع، طالبان کا خلوص ایک ہفتے میں واضح ہوجائے گا، ماہرین

25 سے 30 اکتوبر پاکستان اور افغان عبوری حکومت کے مابین استنبول میں ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے حوالے سے مایوس کُن خبریں بین الاقوامی میڈیا کی شہ سرخیاں بنتی رہیں اور ان کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا رہا اور دونوں ممالک کے درمیان ایک جنگی ماحول بنا دیا گیا جبکہ غلط معلومات کا ایک سیلاب عام لوگوں کے ذہنوں میں کافی خدشات پیدا کرتا رہا۔

تاہم گزشتہ روز جنگ بندی معاہدے میں توسیع اور 6 نومبر کو مذاکرات کے اگلے دور کا اعلان کیا گیا جس سے افواہوں کا شور کسی قدر تھم گیا۔ ترکیہ کی طرف سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے’ تمام فریقین ایک نگرانی اور ویری فکیشن نظام قائم کرنے پر متفق ہو گئے ہیں، جو جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنے والے فریق کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائے گا۔‘ یقیناً اسے مذاکرات کی کامیابی کی دلیل مانا جا سکتا ہے۔

6 نومبر  کو استنبول میں اعلیٰ سطحی مذاکرات شیڈول ہیں، جو ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں ہوں گے۔ یہ حالیہ استنبول مذاکرات کا فالو اپ ہے، جہاں 30 اکتوبر کو فائر بندی کو برقرار رکھنے پر اتفاق ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیے پاکستان میں دہشتگردی کے پیچھے طالبان حکومت کے حمایت یافتہ افغان باشندے ملوث ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ

12/11 اکتوبر سرحدی جھڑپوں، افغان سائیڈ سے دراندازی کی کوششوں اور پاکستانی فضائی حملوں کی وجہ سے کشیدگی عروج پر پہنچی۔ اس کے بعد دوحہ اور استنبول مذاکرات میں پاکستان نے افغان طالبان رجیم سے مطالبہ کیا کہ وہ سرحد پار سے ٹی ٹی پی دہشتگردوں کے حملے روکیں، ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی پاکستان میں دراندازی اور دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کو محفوظ بنایا جائے۔

پاکستان نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ افغان طالبان رجیم ٹی ٹی پی کی پشت پناہی ترک کر دے۔ استنبول مذاکرات میں پاکستان کے جانب سے ثالثوں کی موجودگی میں پاکستان نے افغانستان کی جانب سے دراندازی کے ثبوت بھی دِکھائے لیکن افغانستان کی ہٹ دھرمی کے باعث دراندازی کی مانیٹرنگ کے حوالے سے مجوّزہ میکنزم طے نہیں ہو پایا۔

واشنگٹن میں امریکی تِھنک ٹینک وِلسن سینٹر سے وابستہ جنوبی ایشیائی اُمور کے ماہر مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کوئی حیران کُن خبر نہیں لیکن اِس کی کوئی ایک وجہ بیان نہیں کی جا سکتی۔ طالبان کے نقطہ نظر سے ٹی ٹی پی کے خلاف اقدامات مُشکل ہیں لیکن یہ چیز پاکستان کو مزید فضائی حملے کرنے کا جواز فراہم کر سکتی ہے۔

دوسری طرف پاکستان کے ساتھ کشیدگی اور فضائی حملے افغان طالبان کو افغان عوام میں مزید طاقت مہیّا کر سکتے ہیں۔ اگر پاکستان نے طالبان مخالف دھڑوں کی حمایت شروع کر دی تو طالبان کے لیے اقتدار میں رہنا مُشکل ہو جائے گا۔

مانیٹرنگ میکنزم بن گیا تو خلاف ورزی پر جُرمانہ عائد کیا جائے گا، بریگیڈئر حارث نواز

دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈئر حارث نواز نے وی نیوز سے خصوص گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال عارضی طور پر جنگ بندی ہو چُکی ہے اور 6 نومبر تک جو 7 دن ہیں اُن میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ افغان طالبان رجیم قیامِ امن کے لیے کتنی سنجیدہ ہے۔ اگر اِن 6، 7 دِنوں میں ٹی ٹی پی کے دہشتگرد سرحد پار کر کے پاکستان نہیں آتے اور یہاں پر دہشتگرد کارروائیاں نہیں کرتے تو پھر 6 نومبر کو مذاکرات کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پاک افغان مذاکرات میں مثبت پیشرفت، فریقین کا جنگ بندی پر اتفاق،آئندہ اجلاس 6 نومبر کو ہوگا

افغانستان کو یہ یقین دہانی کرنی ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو جس کے لیے ترکیے اور قطر کی ثالثی میں میکنزم طے کیا جا رہا ہے جس میں ماہانہ یا سہ ماہی بنیادوں پر ہونے والی میٹنگز میں اگر سرحد پار دہشتگردی ہوتی ہے تو اُس کی رپورٹس شیئر کی جائیں گی۔

اگر افغان طالبان رجیم یہ سرحد پار دہشتگردی روکنے میں بار بار ناکام ہوتا ہے تو پھر پاکستان کو حق ہے کہ وہ فضائی حملے کر سکے یا ڈرون حملوں کے ذریعے سے دہشتگردوں کے تربیتی مراکز کو نشانہ بنا سکے۔ پاکستان میں حالیہ دہشتگرد حملے جیسا کہ گزشتہ روز کُرّم میں 6 پاک فوج اہلکاروں کی شہادت اور آج لکی مروت میں حملہ کے بارے میں بریگیڈئر حارث نواز نے کہا کہ یہ اُن دہشتگردوں کی کارروائی ہو سکتی ہے جو پہلے سے سرحد پار کر کے کُرّم اور شمالی وزیرستان آ چُکے ہیں۔

پاکستان اِن دہشتگردوں کو 2 سے 3 مہینے کی کارروائیوں میں ختم کر دے گا لیکن اصل چیز یہ ہے کہ مزید دہشتگرد پاکستان نہ آئیں۔ ثالثوں کی موجودگی میں جو بھی میکنزم طے ہو گا اُس کے مطابق سرحد پار دہشتگردی کے حوالے سے جُرمانے عائد کئے جائیں گے جو ادا کرنا ہوں گے۔

موجودہ معاہدہ بالکل دوحہ معاہدے جیسا ہے، طاہر خان

افغان اُمور کے حوالے سے معروف صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ معاہدہ بالکل دوحہ معاہدے جیسا ہے جس میں جنگ بندی پر اِتّفاق کیا گیا ہے اور اگلے مذاکرات کی تاریخ دی گئی ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ مذاکرات میں تعطّل نہیں آیا جو میری نظر میں ایک اچھا اقدام ہے گو کہ سیز فائر ایک مبہم سی اصطلاح ہے۔

طاہر خان نے کہا کہ جِس طریقے سے ماحول بنایا گیا تھا اور کُچھ عناصر دونوں مُلکوں کے درمیان جنگ بندی کے عمل کو سبوتاژ کرنے پر تیار نظر آتے تھے۔ جس طرح پاکستانی وزیروں اور کچھ میڈیا نے دھمکیاں دیں اور ویسی ہی دھمکیاں افغانستان کی طرف سے بھی آئیں۔ میڈیا کے بعض حِصّے یہ کہتے پائے گئے کہ بس پاکستانی جنگی طیارے افغانستان پر حملے کے لیے تیار کھڑے ہیں اور دوسری طرف سے کہا گیا کہ جی! افغانستان سے ٹینک بھی تیار ہیں۔ ایک جنگ جیسے ماحول میں یہ جنگ بندی معاہدہ درست قدم ہے۔

یہ بھی پڑھیں:افغان سرزمین سے دہشتگرد حملوں کی اجازت نہیں دیں گے، فیلڈ مارشل عاصم منیر

ٹی ٹی پی کے حالیہ حملوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے طاہر خان نے کہا کہ ٹی ٹی پی آج کا مسئلہ تو نہیں یہ برسوں پُرانا مسئلہ ہے اور یہ مسئلہ رہے گا کیونکہ ٹی ٹی پی تو مذاکرات کا حصّہ نہیں تھی۔ پاکستان کا بُنیادی مطالبہ تو ٹی ٹی پی کے حوالے سے ہی ہے۔ مذاکرات جاری رہے تو کچھ نہ کچھ تو میکنزم طے ہو گا۔ اور یہ جنگ بندی معاہدہ اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کچھ نہ کچھ بات تو طے ہوئی ہے۔

اصل معاملہ یہ ہے کہ میکنزم طے ہو جائے تو اُس پر عمل درآمد کیسے کیا جائے؟ جیسا کہ فروری 2020 دوحہ معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ افغان طالبان اپنی سرزمین القاعدہ کاروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے لیکن 31 جولائی 2022 کو القاعدہ لیڈر ایمن الظواہری حملے میں مارا گیا تو اِس سے ثابت ہوا کہ افغان سرزمین القاعدہ دہشتگردوں کو پناہ دئیے ہوئے تھی۔ تو یہ کہنا کہ تحریری معاہدے کے بعد دہشتگردی رُک جائے گی، ایسا بظاہر مُشکل نظر آتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاک افغان معاہدہ ٹی ٹی پی طالبان

متعلقہ مضامین

  • مقبوضہ فلسطین کا علاقہ نقب صیہونی مافیا گروہوں کے درمیان جنگ کا میدان بن چکا ہے، عبری ذرائع
  • پاکستان میں تعلیم کا بحران؛ ماہرین کا صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور مالی معاونت بڑھانے پر زور
  • بھارت سے آنے والی آلودہ ہواؤں نے لاہور کا سانس گھونٹ دیا، فضائی معیار انتہائی خطرناک
  • امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقیقت یا فسانہ
  • بھارتی پروپیگنڈے کا نیا حربہ ناکام، اعجاز ملاح کا اعترافی بیان منظر عام پر، عطا تارڑ و طلال چوہدری کی مشترکہ پریس کانفرنس
  • امریکہ، بھارت میں 10 سالہ دفاعی معاہدہ: اثرات دیکھ رہے ہیں، انڈین مشقوں پر بھی نظر، پاکستان
  • پاکستان نے امریکہ اور بھارت کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے کا نوٹس لیا ہے، ترجمان دفتر خارجہ
  • بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان دوسرے ٹی ٹوئنٹی سے قبل بین آسٹن کی یاد میں خاموشی
  • پاک افغان جنگ بندی میں توسیع، طالبان کا خلوص ایک ہفتے میں واضح ہوجائے گا، ماہرین
  • ایک ہی رات میں 130 یوکرینی ڈرونز مار گرا دیئے گئے