حکومت 18 سال سے کم عمر کی شادی پر پابندی کا بل واپس لے اور صدر مملکت اس بل پر دستخط نہ کریں، جے یو آئی
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
ملتان میں صحافیوں کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی ملتان کے ضلعی امیر کا کہنا تھا کہ سعودی عرب پاکستان کا دیرینہ دوست ہے اسی لیے حکومت پاکستان حج پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے فوری طور پر سعودی حکومت سے مذاکرات کریں تاکہ 67000 ہزار حجاج حج سے محروم نہ ہوں، جو آج انتہائی شدید پریشانی سے دوچار ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیت علمائے اسلام ملتان کے ضلعی امیر مفتی عامر محمود، ضلعی جنرل سیکریٹری نور خان ہانس ایڈوکیوٹ، ضلعی سیکریٹری اطلاعات رانا محمد سعید نے کہا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کا دیرینہ دوست ہے، اسی لیے حکومت پاکستان حج پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے فوری طور پر سعودی حکومت سے مذاکرات کریں تاکہ 67000 ہزار حجاج حج سے محروم نہ ہوں، جو اج انتہائی شدید پریشانی سے دوچار ہیں، غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی امداد کے لیے امت مسلمہ سنجیدگی سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرے، بالخصوص اقوام متحدہ مظلوم فلسطینیوں کی آزادی و خودمختاری پر ذرہ برابر آنچ نہ آنے دے اور مستقل بنیادوں پر جنگ بندی کرائے، صحافتی برادری نے انڈیا کی بزدلانہ حرکت کے واقعہ پر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور پاک فوج کی جانب سے انڈیا کو منہ توڑ جواب دینے کے حوالے سے مثبت کردار ادا کیا جس پر انہیں ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں، پوری پاکستانی قوم بشمول جے یو ائی پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، جو دنیا کی بہادر فوج ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مدرسہ قاسم العلوم گلگشت میں صحافیوں کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانہ سے خطاب کے دوران کیا۔
مفتی عامر محمود نے مزید کہا کہ ٹورز آپریٹرز نے اربوں ریال سعودی حکومت کو جمع کرا رکھے ہیں اسی لیے حکومت ہنگامی بنیادوں پر عازمین حج کا مسئلہ حل کرائے، انہوں نے کہا کہ حکومت 18 سال سے کم عمر کی شادی پر پابندی کا بل واپس لے اور صدر مملکت اس بل پر دستخط نہ کریں۔ قائد مولانا فضل الرحمن تمام معاملات کے حوالے سے مسائل کے حل کے سلسلے میں دن رات جدوجہد کر رہے ہیں، پہلے بھی 26 ویں ترمیم کے حوالے سے بہترین کردار ادا کیا جو پوری قوم جانتی ہے، انشاء اللہ اب بھی مسائل کے حل کے لیے تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی میں تیزی، رواں برس کے آخر تک مکمل انخلا کا ہدف
اسلام آباد(صغیر چوہدری )پاکستان سے افغان مہاجرین واپسی کے عمل میں تیزی آئی ہے۔ اپریل سے ستمبر تک 554000 مہاجرین کو واپس بھیجا گیا ہے اور اگست 2025 میں 143000افغان پناہ گزین واپس بھیجے گئے
جبکہ صرف ستمبر 2025 کے پہلے ہفتے میں ایک لاکھ افغانیوں کو واپس بھجوایا گیا ہے ۔ پاکستان نے افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے واضح اور سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو مزید برداشت نہیں کرے گی۔دوسری جانب مجموعی طور پر 2023 سے اب تک تقریباً 13 لاکھ افغان مہاجرین واپس بھیجے جا چکے ہیں۔ حکومت اس فیصلے کو قومی سلامتی کے لیے ضروری قرار دیتی ہے،جبکہ پی او آر کارڈز کے حامل افغان مہاجرین کی تعداد 15 لاکھ سے زائد ہے جن کی واپسی کا عمل جاری ہے لیکن سیکیورٹی ذرائع بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اس،وقت غیر رجسٹرڈ افغانیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے اور وہ ملکی سلامتی کے لئے زیادہ خطرہ ہیں تاہم رجسٹرڈ اور نان رجسٹرڈ تمام افغان مہاجرین کی واپسی اب ناگزیر ہے اور انہیں ہر حال میں واپس جانا ہے دوسری جانب ریاستی ادارے ان مہاجرین کی وطن واپسی کے لئے دن رات کوشاں ہیں اور حکومت کا یہ ٹارگٹ ہے کہ رواں برس کے آخر تک تمام افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل مکمل کرلیا جائے ۔ تاہم ناقدین کے مطابق یہ اجتماعی سزا کے مترادف ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر دہائیوں سے پاکستان میں آباد تھے۔دوسری جانب
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) نے افغانستان میں اپنے آٹھ امدادی مراکز بند کر دیے ہیں۔ ان مراکز کا بنیادی کام واپس آنے والے افغان مہاجرین کو رجسٹریشن، بایومیٹرک تصدیق اور فوری مالی امداد فراہم کرنا تھا۔ ان مراکز کی۔بندش کی وجہ طالبان حکومت کی خواتین عملے پر ان مراکز میں کام کرنے پر پابندی بتائی گئی ہے جس کے باعث UNHCR نے کہا کہ وہ اپنی خدمات جاری نہیں رکھ سکتا۔ ان مراکز میں روزانہ سات ہزار افراد مدد کے لیے رجوع کرتے تھے، لیکن اب یہ سہولت دستیاب نہیں رہی۔ اس کے علاوہ مالی امداد اور فنڈز کے بحران کو بھی جواز بنایا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ واپسی کرنے والے مہاجرین کو سب سے بڑا مسئلہ نقد امداد کی معطلی ہے۔ان تمام جواز کو بنیاد بنا کر UNHCR نے اعلان کیا ہے کہ فنڈز کی کمی اور طالبان کی سخت عدم تعاون کی پالیسی کی وجہ سے اب وہ لاکھوں افراد کو کیش اسسٹنس یعنی نقد رقم فراہم نہیں کر سکتا کیونکہ مختلف ڈونر ممالک نے بھی فنڈز روک دیے ہیں، جس کی وجہ سے صورتحال مزید بگڑ گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے واضح کیا ہے کہ اگر اضافی وسائل فراہم نہ کیے گئے تو افغان مہاجرین کو بنیادی سہولیات دینا ناممکن ہو جائے گا۔ یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ جو لوگ پاکستان اور ایران سے واپس جا رہے ہیں، ان کی اکثریت ایسے علاقوں میں آباد ہو رہی ہے جو حالیہ زلزلے سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ وہاں پہلے ہی رہائش، خوراک، صحت اور روزگار کی سہولیات محدود ہیں۔ خواتین اور بچے سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہیں، کیونکہ طالبان حکومت نے خواتین کی نقل و حرکت اور بنیادی خدمات تک رسائی پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ دوسری جانب مہاجرین کی واپسی کا یہ معاملہ صرف پاکستان اور افغانستان تک محدود نہیں رہا بلکہ یورپی ممالک بھی اپنے افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کے لیے طالبان حکومت سے براہِ راست رابطے کر رہے ہیں جس میں جرمنی، آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ جیسے ممالک شامل ہیں ۔ اس تمام تر صورت حال پر نظر رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ افغان مہاجرین کا بحران عالمی سطح پر نئی سفارتی اور سیاسی صف بندی پیدا کر رہا ہے جبکہ پاکستان کی زیرو ٹالرنس پالیسی، طالبان حکومت کی سختیاں اور عدم تعاون ۔ اقوام متحدہ کے ہاتھ کھڑے کر دینا اور فنڈز کا بحران یہ سب عوامل مل کر افغان مہاجرین کے لیے ایک بڑے انسانی المیے کو جنم دے رہے ہیں نتیجتا لاکھوں افراد غیر یقینی صورتحال، بنیادی سہولیات کی کمی اور سخت پالیسیوں کا شکار ہو کر مشکلات سے دوچار ہیں تاہم اسکی تمام تر ذمہ داری اب افغان حکومت اور اقوام متحدہ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ دہائیوں تک لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کی میزبانی پاکستان سمیت دیگر ممالک کے لئے ممکن نہیں رہی