یورینیم چوری کے واقعات؛ بھارت کی غفلت عالمی سلامتی کیلیے خطرہ بن گئی
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
بھارت میں یورینیم کی چوری کے واقعات نے جوہری تحفظ کے پروٹوکولز کے بارے میں بڑھتے خدشات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
بھارت میں جوہری مواد کی چوری، اسمگلنگ اور تابکار حادثات کے تسلسل نے عالمی برادری کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھارت کی جوہری تنصیبات اور مواد کی تیاری سے متعلق حفاظتی اقدامات میں مسلسل کوتاہیاں سامنے آ رہی ہیں، جو نہ صرف خود بھارت بلکہ پورے خطے اور دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔
سکیورٹی ماہرین اور بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ بھارت میں ایٹمی مواد کی تیاری، تجربات اور ان کی نگرانی میں سنگین خامیاں موجود ہیں۔
ساؤتھ ایشیا اسٹریٹجک اسٹیبیلٹی انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 1994 سے 2021 کے دوران بھارت میں جوہری مواد کی چوری کے 18 واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں، جن میں چوری ہونے والے مواد کی مقدار 200 کلوگرام سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان واقعات میں شامل متعدد کیسز میں ایسے افراد کو گرفتار کیا گیا جن کے قبضے سے یورینیم یا کیلیفورنیم جیسے خطرناک تابکار مادے برآمد ہوئے۔
نیوکلئیر تھریٹ انیشی ایٹو (NTI) کی 2024 کی رپورٹ بھی بھارت کی جوہری سلامتی کے نظام پر شدید سوالات اٹھاتی ہے۔ اس رپورٹ میں بھارت کو 22 ممالک کی فہرست میں 20 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے، جب کہ ایٹمی تنصیبات کے تحفظ کے عالمی انڈیکس میں بھارت 47 ممالک میں سے 40 ویں نمبر پر ہے۔
صرف یہی نہیںNTI نے متعدد بار بھارت میں ممکنہ جوہری حادثات سے قبل خبردار بھی کیا، مگر حکومتی عدم توجہ نے ان خطرات کو حقیقت بنا دیا۔
واقعات کی تفصیلات کے مطابق نومبر 1994 میں بھارت کے علاقے دومیاسیات سے 2.
اسی برس جولائی میں تامل ناڈو سے 8 کلوگرام، مئی 2000 میں ممبئی سے 8.3 کلوگرام اور اگست 2001 میں مغربی بنگال سے 200 گرام نیم تیار شدہ یورینیم برآمد ہوا۔
حالیہ برسوں میں بھی صورتحال بدستور تشویشناک ہے۔ 2018 میں کولکتہ میں پانچ افراد کے قبضے سے 1 کلوگرام یورینیم برآمد ہوا۔ مئی 2021 میں مہاراشٹرا سے 7 کلوگرام یورینیم اور جون 2021 میں جھارکھنڈ سے 6.4 کلوگرام یورینیم قبضے میں لیا گیا۔ اسی سال کولکتہ ایئرپورٹ پر 250 گرام کیلیفورنیم بھی برآمد کیا گیا جو کہ شدید تابکار اور مہنگا مواد ہے۔
جولائی 2024 میں بھارت کے حساس ترین ادارے، بھابھا ایٹمی تحقیقاتی مرکز سے تابکار آلہ چوری ہو جانا بھارتی جوہری تحفظ کے لیے ایک کھلا طمانچہ تھا۔ اگست 2024 میں ایک اور تابکار مادہ، جو کیلیفورنیم سے مشابہہ تھا، قبضے میں لیا گیا۔ ان تمام واقعات نے عالمی اداروں اور ماہرین کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ بھارت کی جوہری سلامتی پر نظر ثانی کریں۔
بھارتی پارلیمانی رپورٹس بھی اس غفلت کی تصدیق کرتی ہیں۔ 1995 سے 1998 کے درمیان 147 حفاظتی حادثات رپورٹ کیے گئے، جو حکومتی اور انتظامی سطح پر بدترین لاپروائی کی عکاسی کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق بھارت کی یہ کمزوریاں نہ صرف خود اس کے لیے خطرناک ہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں جوہری تحفظ کے عالمی پروٹوکولز کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ تابکار مواد کی بار بار چوری اور اس کی اسمگلنگ کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت جوہری ہتھیار رکھنے کے باوجود بین الاقوامی ذمے داریوں کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام رہا ہے۔
عالمی برادری کے لیے یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کیا بھارت جیسے ملک کو ایٹمی ہتھیاروں کی ملکیت برقرار رکھنے دی جائے جب کہ اس کے اندرونی حفاظتی نظام اتنے غیر محفوظ اور ناقابلِ اعتماد ثابت ہو چکے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھارت میں میں بھارت بھارت کی تحفظ کے مواد کی کے لیے
پڑھیں:
بھارت کا جنگی جنون جنوبی ایشیاء کے امن کیلئے سنگین خطرہ ہے، مسعود خان
سابق صدر آزاد کشمیر کا کہنا ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے تنازعہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا خواہاں رہا ہے۔ اسلام ٹائمز آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ بھارت کا جنگی جنون جنوبی ایشیاء کے امن کیلئے سنگین خطرہ ہے۔ ذرائع کے مطابق سردار مسعود خان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ حالیہ کشیدگی نے دنیا کو واضح پیغام دیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں کوئی بھی روایتی جنگ، جوہری تصادم میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی قیادت کی جانب سے کوئی خوش فہمی رکھنا خطرناک ہو گا کیونکہ بھارتی وزِیراعظم نریندر مودی کھلے عام یہ اعلان کر چکے ہیں کہ بھارت یا مقبوضہ کشمیر میں کسی بھی دہشت گرد کارروائی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جائے گا اور اس کے نتیجے میں پاکستان پر حملہ کیا جائے گا۔ سردار مسعود خان نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے تنازعہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا خواہاں رہا ہے۔ لیکن بھارت نے کبھی سنجیدگی سے مذاکرات کی پیش کش کو قبول نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے مسلسل پاکستان پر دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں لیکن ان کے ثبوت کبھی فراہم نہیں کیے گئے، جبکہ پاکستان کے پاس ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ بھارت نہ صرف اعلانیہ بلکہ خفیہ طور پر بھی پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہے، خاص طور پر بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں پراکسی نیٹ ورکس کے ذریعے دہشت گردی ہو رہی ہے۔
سردار مسعود خان نے کہا کہ پہلگام واقعے کے بعد بھارتی جارحیت پر پاکستان نے موثر اور فیصلہ کن جواب دے کر بھارتی عزائم کو ناکام بنا دیا۔ جس کے بعد بھارت کو سفارتی دبائو کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارتی قیادت کی جانب سے ”نیو نارمل” کے تصور پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر بھارت مستقبل میں ہر واقعے کا الزام پاکستان پر لگا کر حملے کو معمول بنا دے گا تو خطے میں امن قائم نہیں رہ سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی مسلح افواج نے بھارت کی عسکری برتری کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیا ہے اور وہ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہے۔
امریکی ثالثی کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے مذاکرات اور ثالثی کی پیشکش پاکستان کے لیے ایک موقع ہے مگر بھارت اس سے خائف دکھائی دیتا ہے اور مسلسل بہانے بنا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک حالیہ رپورٹ میں بھارت پر کینیڈا، امریکہ اور پاکستان میں ایجنٹوں کے ذریعے قتل و غارت گری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں جو اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی نشاندہی کرتے ہیں۔ سردار مسعود خان نے بھارت میں مذہبی تعصب اور مسلم مخالف پالیسیوں پر بھی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مذہب کی بنیاد پر ریاستی سرپرستی میں تعصب اور امتیاز برتا جا رہا ہے جس کا سب سے بڑا نشانہ بھارتی مسلمان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی معاشرے میں مسلمانوں کو محض اس بنیاد پر ”پاکستانی” کہہ کر دشمن قرار دیا جاتا ہے اور یہی رویہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ بھی اختیار کیا جا رہا ہے۔