کسان کو صحیح قیمت نہ ملی تو آئندہ سال گندم کاشت نہیں ہوگی، وفاقی وزیر خوراک
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
اسلام آباد:
وفاقی وزیر خوراک رانا تنویر نے کہا ہے کہ کسان کو صحیح قیمت نہیں ملی تو آئندہ سال گندم کاشت نہیں ہوگی، اور پھر بری پریشانی ہوگی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فوڈ اینڈ سکیورٹی کا اجلاس سینیٹر سید مسرور احسن کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں پاسکو حکام نے گزشتہ برس گندم کی خریداری کے حوالے سے کمیٹی کو بریفنگ دی۔
سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ میں نے پچھلی ملاقات میں کہا تھا کہ مجھے مکمل تفصیلات چاہییں۔ پتا یہ چلا تھا کہ زمین کی فرد بکنا شروع ہوئی تھی۔ مجھے وہ تفصیلات ابھی تک نہیں ملیں۔
وفاقی وزیر رانا تنویر نے بتایا کہ پچھلے سال کرپشن عروج پر تھی۔ وزیراعظم صاحب اس چیز پر بہت ناراض تھے۔ آپ کی بات ٹھیک ہے بلوچستان میں بوریاں بھی بکیں اور فرد بھی بکی۔ ایم ڈی پاسکو کے خلاف ایکشن بھی ہوا ۔
سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ بلوچستان کے افسران کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ہے وہ تفصیلات دے دیں، جس پر وفاقی وزیر نے بتایا کہ کرپشن کی وجہ سے وزیراعظم صاحب نے پاسکو کو بند کر دیا ہے۔
وزیر خوراک نے بتایا کہ مارکیٹ میں قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے گندم فروخت کرنے پاسکو کے پاس آئے۔ ہم نے کرپشن روکنے کے لیے پاسکو کی نگرانی کے لیے اے سی ڈی سی لگوائے۔ وہ سب لوگ خود بھی اس میں ملوث ہو گئے۔ ایک بندے نے مجھے بتایا کہ اتنے کی میں نے کرپشن نہیں کی جتنے پیسے ایف آئی اے کو دے دیے ہیں۔
اجلاس میں وفاقی وزیر نے گزشتہ سال پاسکو میں کرپشنز کا انکشاف کیا، جس پرچیئرمین کمیٹی کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق ایک ارب کے لگ بھگ کرپشن ہوئی ہوگی۔ چیئرمین نے پوچھا کہ پاسکو کے متبادل میں کون سا نیا ادارہ لا رہے ہیں، جس پر وفاقی وزیر نے بتایا کہ ایک نئے ادارے کموڈیٹی ونگ سے متعلق سوچ بچار کررہے ہیں۔
وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا کہ رواں سال گندم کے لیے اوپن مارکیٹ رکھی ہے۔ گندم 29 ملین میٹرک ٹن ہوئی ہے، ہمارا ٹارگٹ 33 ملین میٹرک ٹن تھا۔ ایسی صورتحال میں تو مڈل مین کو فائدہ ہوگا۔ اگر کسان کو صحیح قیمت نہ ملی تو آئندہ سال گندم کی کاشت نہیں ہوگی اور پھر بہت مشکل ہوگی۔
سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ بلوچستان میں گندم خراب ہورہی ہے، پھر مستقبل میں اسکینڈل بن جائے گا۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ گندم کا بلوچستان میں کچھ حصہ خراب ہوگیا، لیکن زیادہ حصہ خراب نہیں ہوا۔
چیئرمین کمیٹی نے پوچھا کہ اس حوالے سے ہمارے پڑوسی ممالک کی کیا صورتحال ہے؟، جس پر وفاقی وزیر نے بتایا کہ ہمارے پڑوسی ممالک نے محنت کی اور ہم نے نہیں کی ہے۔ وہ آگے نکل گئے اور ہم ایگریکلچر سیکٹر میں ان سے پیچھے رہ گئے۔ وزیراعظم کی سخت ہدایت پر فوکس کررہے ہیں، بیچ پر بہت کام کررہے ہیں۔ جعلی بیچ بیچنے والوں سے متعلق شکایات سامنے آنے پر سزائیں بھی دی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہم ہائبرڈ بیجوں پر بھی کام کررہے ہیں۔ پہلے بین تھے، پر اب ہم منگوا رہے ہیں۔ کاٹن کا ہائبرڈ بیج منگوایا ہے۔ اس کے علاوہ اوریجنل اور سرٹیفائڈ بیج بھی منگوا رہے ہیں۔ اگریکلچر منسٹری میں 6 ماہ میں بہت تبدیلی نظر آئے گی۔
کمیٹی میں سوال اٹھا کہ بیجوں کی انسپکشن کون کرتا ہے؟ جس پر وفاقی وزیر نے بتایا کہ بیجوں کی انسپکشن پہلے وزارت کرتی تھی اور اب پنجاب اپنی انسپکشن کرتی ہے۔ باقیصوبے بھی یہ اختیار مانگیں تو دے دیں گے۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ وزرات فوڈ میں ہماری صلاحیت 50 فیصد بھی نہیں ہے۔ ہمارے پاس عملے کی کمی ہے۔ اتنی بڑی وزارت کے لیے ہمارے پاس 50 فیصد تعداد بھی مکمل نہیں ہے۔
سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیر خوراک کے کام کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ہمیں بلوچستان کا بھی ایک دورہ رکھنا چاہیے، اس سے اچھا پیغام جائے گا، جس پر وفاقی وزیر نے کہا کہ جب چاہے بلوچستان کا دورہ رکھ لیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دنیش کمار نے کہا کہ وزیر خوراک کررہے ہیں سال گندم کے لیے
پڑھیں:
زرمبادلہ کے ذخائر اور قرض
زرمبادلہ کے ذخائر ایک ایسی کہانی ہے جس پر حکومتوں کی سانسیں اور قوم کی امیدیں ٹکی رہتی ہیں اس پر گہری نظر رکھنے والے امپورٹرز بھی ہوتے ہیں کیونکہ ذخائر جتنے زیادہ ہوں گے، روپے کی قدر کو اسی قدر استحکام ملے گا۔ لیکن اسے غارت کرنے میں درآمدات کا ہی ہاتھ ہوتا ہے ملک پر اتنا زیادہ درآمدی بل کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے کہ زرمبادلہ ذخائر کی بلند سطح گرنے لگتی ہے۔
اس وقت ملک کے طول و عرض میں یہ باز گشت سنائی دے رہی ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر 19.9 ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ دہائی میں ذخائر 6 ارب ڈالر تک بھی جا پہنچے تھے۔ جب ڈالر اڑنے لگا اور روپیہ تیزی سے گرنے لگا تھا، پھر کہیں یہ ذخائر 24 ارب ڈالر تک جا پہنچے تھے تو حکومت کامیابی کے دعوے کر رہی تھی کہ اچانک معلوم ہوا کہ درآمدات اتنی زیادہ ہو چکی ہیں جوکہ ذخائر کو کھا رہی ہیں۔
اب جب کہ اسٹیٹ بینک کے پاس 13.5 ارب ڈالر ہیں اور کمرشل بینکوں کے پاس 6.4 ارب ڈالر کا ذخیرہ ہے، اس کا پہلا باب آئی ایم ایف کی مہربانیوں سے شروع ہوتا ہے۔ ایک طرف آئی ایم ایف کی قسط آئی ہے، دوسری طرف اس قسط کا بڑا حصہ بیرونی ادائیگیوں میں چلا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی دریا بھرا ہو اور اگلے لمحے سمندر میں بہہ گیا، یعنی دریا جیسا پہلے خالی تھا اسی طرح قرض لینے کے بعد ادائیگی کرکے پھر خالی ہاتھ رہا۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ درآمدی بل کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس مرتبہ پھر درآمدات گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ ہوئے چلی جا رہی ہیں جس کا ابھی تک کوئی شافی علاج تجویز نہیں کیا جا سکا۔ غذائی درآمدات کا تعلق زراعت سے گہرا ہے۔
اس مرتبہ اس بات کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ شاید 25 یا 30 لاکھ ٹن گندم کی پیداوار کم ہوگی جس کے لیے پھر درآمد کنندگان درآمد کرکے منافع کمانے کے لیے پَر تول رہے ہیں۔ اتنی گندم کی درآمد جب چند سال قبل 36 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی تو ایک ارب ڈالر خرچ ہوگئے تھے۔ اس مرتبہ یہ تو سوچا جا رہا ہے کہ گندم کی پیداوار کم ہوگی اور درآمد کی ضرورت پیش آئے گی۔
گندم کی 8 فی صد یا 10 فی صد کمی کا آسان علاج ہے۔ ہر وہ جگہ جوکہ قابل کاشت ہو سکتی ہے، وہاں پر گندم کی کاشت کرکے اس کمی کو دور کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ہر مقام پر خالی قطعہ زمین وافر مقدار میں موجود ہے کسی طرح سے اس پر گندم کی کاشت کی جائے۔ خاص طور پر بعض علاقے ایسے ہیں جہاں گندم کی کاشت ممکن ہے مجھے نورپور تھل قصبہ ’’چن‘‘ کے زمیندار فہیم راجپوت نے بتایا کہ ان کے علاقے میں کبھی سفیدے کے درخت لگائے گئے جس کے حوصلہ افزا نتائج حاصل ہوئے۔
لیکن اب سفیدے کے درختوں کی زیادتی کے باعث گندم کی فصل پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس کے باعث پہلے کے مقابلے میں گندم کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ اس طرح کے بھی مسائل ہیں محکمہ ریلوے اور دیگر محکموں کے پاس وافر مقدار میں زمین موجود ہے جس پر گندم کاشت کی جا سکتی ہے۔ ہمیں درآمدات کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے اس طرح ملک اور عوام پر قرض کا بار بڑھتا چلا جا رہا ہے اور پھر ڈالرز میں اس کی ادائیگی حکومت کے لیے چیلنج بن جاتی ہے۔
رواں مالی سال 23 ارب ڈالرز کی ادائیگی حکومت کے لیے ایک چیلنج بن کر رہ جائے گی۔ اتنی رقم کی ادائی کے لیے معیشت پر بہت بڑا بوجھ پڑے گا اور اس بوجھ کا بیشتر حصہ ترقیاتی منصوبے برداشت کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں پر ایسے منصوبے بھی ہیں جو کئی سالوں سے زیر التوا ہیں۔ کہیں تمام منصوبے مکمل کرنے کے بعد معمولی کام کے رہنے کے باعث پورا منصوبہ ہی جام کر دیا جاتا ہے۔
اب ان تمام منصوبوں کی تکمیل کے لیے اس مرتبہ امداد بہت کم رکھی گئی ہے۔ حکومت کی طرف سے سیلاب کے بعد بحالی کی خاطر بہت کچھ کرنے کے منصوبے ہیں لیکن حکومت کو ان منصوبوں کے مکمل کرنے کی خاطر اچھی خاصی رقوم درکار ہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ سب سے پہلے ملک کے مختلف منصوبوں کے بارے میں مکمل معلومات ہونی چاہئیں، پھر ان معلومات کی روشنی میں جو منصوبے اعلان کر دیے گئے ہیں اولین ترجیح ایسے منصوبوں کے لیے دینی چاہیے اور ایسے منصوبے جیسا کہ پانی کی سپلائی قائم کرنے کے لیے K-4 کا منصوبہ ہے۔ اسی طرح سرکولر ٹرین کا معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے جسے چلانے کے لیے ان علاقوں کے لوگ اپنی حیثیت کے مطابق سرکار کے ساتھ تعاون کریں۔
یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کی معیشت پر سیلاب کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔البتہ حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں فوری اقدامات کا اعلان کیا ہے جس کے تحت 5.8 ارب روپے کا فوری ریلیف پیکیج منظور کیا گیا ہے اور 4 ارب روپے فوری جاری کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ حکومت پنجاب نے بھی صوبائی سطح پر امدادی پیکیج کی منظوری دی ہے مزید یہ کہ 2855 دیہاتوں کے لیے آبیانہ اور زرعی آمدنی ٹیکس معاف کرنے کا کہا گیا ہے۔
وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ سیلاب متاثرین کے گھروں کے بجلی کے بل برائے اگست معاف کر دیے گئے ہیں۔ بیرونی امداد کے سلسلے میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے 3 ملین ڈالر کی ایمرجنسی گرانٹ فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یعنی 30 کروڑ وفاقی حکومت کو فوری ملنے کا امکان ہے۔ حکومت کو ماحولیاتی مزاحمت اور تیاری کے طریق کار لائحہ عمل اور منصوبے کا اعلان کرنا چاہیے اور تمام شہریوں کو اس میں شمولیت آگاہی پروگرام تیاری اور دیگر اقدامات سے آگاہ کرنا چاہیے۔
اس وقت ایک بار پھر قرض کا مسئلہ اور زرمبادلہ کے برائے نام بڑھتے ذخائر کا کس طرح سے استعمال کیا جائے یہ مسئلہ اہم ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے غیر ضروری اخراجات جس سے ڈالر کی برآمد ہوتی ہے یعنی بعض اوقات درآمد کے ذریعے ڈالر جاتا ہے اور کبھی بہت سی غیر ملکی کمپنیاں اپنا منافع ڈالر کی شکل میں لے کر چلے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ جتنے بھی تجارتی معاہدے کیے جائیں اس بات کو ترجیح دی جائے کہ بارٹر سسٹم کا استعمال ہو، یعنی ہم ان سے جو چیز خریدیں اس کے بدلے میں اپنا مال ان کو دیں۔ اس طرح مال دے کر مال حاصل کرنے سے ڈالر کی بچت ہو گی اور یوں جتنے بھی زرمبادلہ اسٹاک میں ہوں گے اس کا انتہائی مناسب استعمال کیا جاسکے گا۔ اس طرح بار بار ڈالر کو اڑان کا موقع نہیں ملے گا اور بار بار روپے کی کم قدری نہیں ہوگی، لہٰذا اگر زرمبادلہ کے ذخائر میں معمولی اضافہ ہوا ہے تو اب خرچ میں بھرپور احتیاط کی جائے تو یہ معاشی استحکام کا ذریعہ بن سکتا ہے اور زیادہ قرض لینے کی ضرورت میں کمی واقع ہو کر رہے گی۔