اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 مئی 2025ء) پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی کمیٹی کے چیئرمین، جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت رواں ماہ کے دوران ہونے والی شدید عسکری جھڑپوں کے بعد سرحد پر تعینات اپنی اضافی فوج کو بتدریج کم کر رہے ہیں، تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ حالیہ بحران سے مستقبل میں کشیدگی بڑھنے کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستانی مسلح افواج کے اس اعلیٰ عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ دونوں حریف ہمسایہ ممالک اپنی اپنی فوجی پوزیشنوں کو واپس 22 اپریل سے پہلے والی سطح پر لا رہے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ جھڑپیں بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں پہلگام کے مقام پر بائیس اپریل کو سیاحوں پر کیے گئے ایک حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئی تھیں۔

(جاری ہے)

نئی دہلی نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا، تاہم اسلام آباد نے اس کی تردید کی تھی۔

اس کے بعد سات مئی کو بھارت نے سرحد پار ''دہشت گردی کے ڈھانچے‘‘ پر میزائل حملے کیے، جس کے بعد پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔ دونوں ممالک نے مشترکہ سرحد پر بھاری تعداد میں مسلح دستے بھی تعینات کر دیے تھے۔

جنرل مرزا کا کہنا تھا، ''ہم تقریباً 22 اپریل سے پہلے کی صورتحال پر واپس آ چکے ہیں، یا قریب قریب پہنچ چکے ہیں۔

‘‘ بھارتی وزارت دفاع اور بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف کے دفتر نے فوری طور پر پاکستانی جنرل مرزا کے اس بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

سنگاپور میں جاری شنگریلا ڈائیلاگ فورم میں شریک جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا کہ اگرچہ اس تنازعے میں جوہری ہتھیاروں کی طرف کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، لیکن خطرہ موجود رہا۔ انہوں نے خبردار کیا، ''جب بحران ہوتا ہے تو ردعمل مختلف ہو سکتا ہے، اور اس وقت کسی بھی اسٹریٹیجک غلطی کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

‘‘

مرزا نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ اس بار جھڑپیں صرف کشمیر تک محدود نہیں رہیں، بلکہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے مرکزی علاقوں میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، حالانکہ کسی بھی فریق نے کسی سنجیدہ نقصان کی تصدیق نہیں کی۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے رواں ماہ ہی خبردار کیا تھا کہ اگر دوبارہ حملہ ہوا تو بھارت پھر سے سرحد پار ''دہشت گردوں کے ٹھکانوں‘‘ کو نشانہ بنائے گا۔

پاکستان اور بھارت 1947میں برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں، جن میں سے دو کشمیر کے متنازع خطے پر لڑی گئیں۔ اس کے علاوہ دونوں حریف ممالک کے مابین درجنوں بڑی سرحدی جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔

جنرل مرزا نے کہا، ''یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ مستقبل میں یہ تنازعہ صرف کشمیر تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ یہ پورے بھارت اور پورے پاکستان پر محیط ہو سکتا ہے۔

‘‘ انہوں نے اعتراف کیا کہ اس بار امریکہ کی پس پردہ سفارت کاری سے کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملی، اگرچہ بھارت نے کسی تیسرے فریق کے کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔

جنرل مرزا نے خبردار کیا کہ آئندہ کسی بحران میں عالمی برادری کے پاس مداخلت کے لیے بہت کم وقت ہو گا، کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان بحران کی مؤثر مینجمنٹ کا کوئی نظام موجود نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن بحران سے متعلق ہاٹ لائن کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی باقاعدہ یا غیر رسمی رابطہ نہیں ہو رہا۔

جنرل مرزا نے واضح کیا کہ نہ تو کوئی بیک چینل رابطہ ہے اور نہ ہی بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان سے ملاقات کا کوئی منصوبہ ہے، حالانکہ وہ بھی سنگاپور میں ہی موجود ہیں۔

انہوں نے کہا، ''یہ مسائل صرف بات چیت اور مشاورت سے ہی حل ہو سکتے ہیں، میدان جنگ میں نہیں۔‘‘

شکور رحیم، روئٹرز کے ساتھ

ادارت: مقبول ملک

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دونوں ممالک خبردار کیا اور بھارت انہوں نے کے بعد کیا کہ

پڑھیں:

دکھ روتے ہیں!

اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک بار، Keanu Reevesنے کہا: ”درد شکل بدل دیتا ہے، لیکن یہ کبھی غائب نہیں ہوتا۔ جو چیز آپ کو دکھ دیتی ہے یا توڑ دیتی ہے، آپ اس پر قابو نہیں پا سکتے، لیکن آپ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔ آپ جس چیز سے پیار کرتے ہیں اس کے لیے لڑیں، کیونکہ کوئی اور آپ کے لیے ایسا نہیں کرے گا۔ انسانوں کے مذہب، زبان، رنگ، نسل مختلف ہیں لیکن دنیا بھر کے دکھوں کا ایک ہی مذہب ہے ایک ہی رنگت اور نسل ہے اور ایک ہی زبان ہے انسان مختلف ہیں لیکن دکھ سب کے ایک جیسے ہیں ہاں ان کی شدت کم یا زیادہ ہوتی ہے جب کبھی بھی کہیں سے یہ آواز اٹھتی ہے کہ میرے دکھ سب سے زیادہ ہیں تو پھر ہمارے دکھ روتے ہیں۔
1986 میں امن کا نوبیل انعام جرمنی کے ایلی ویزیل کو دیاگیا جو بچ نکلا تھا 1945 میں اس راکھ کے ڈھیر سے جس کے شعلوں نے چھ لاکھ یہودیوں کو نا بود کر دیاتھا Auschwitzکے وقوعے کے بعد اس کا سب کچھ تباہ ہو چکا تھا اس کا خاندان نیست و نابود کر دیاگیا تھا وہ بے گھراور بے وطن تھا ایک انسان کی حیثیت میں اس کی شناخت بھی خطرے میں تھی اب وہ صرف قیدی نمبرA7713 تھا آتش ذدہ ساحل پر بیٹھا ہوا ایک بے امید، بے مستقبل ملاح کی طرح تھا جس کا جہاز تباہ ہوچکا تھا صرف یادیں باقی رہ گئیں تھیں اس نے آسمان کی طرف نظر کرکے خدا سے سوال کیا تھا ”آخر کیوں، ایسا کیوں ہونا تھا اور مجھے کیوں زندہ باقی رہ جانا تھا پیارے خدا، تیرے اپنے منتخب چھ ملین افراد موت کے منہ میں کیوں ڈالے گئے تھے تو اس وقت کہاں تھا جب انہوں نے بارہ برس کے لڑکوں کو Auschwitz میں دار پر لٹکا دیاتھا یا چھوٹے بچوں کو زندہ جلا دیا تھا اس وقت اس کی عمر 17سال تھی او وہ سترہ بر س کا مگر فریادوں کا تنہا پیمبر بن گیا تھا اس نے کہاتھا ”تم سب جو گذرے جارہے ہو کیا یہ سب تمہارے نزدیک کچھ نہیں ہے ٹہرو اور دیکھو اگر کہیں میرے غم جیسا کوئی غم ہے بھی”۔ محتر م ایلی ویزیل آپ کے دکھ اپنی جگہ بہت زیادہ ہیں آپ کے درد کی شدت یقینا بہت زیادہ ہوگی لیکن محترم ہمارے دکھوں کی شدت آپ کی شدت سے کسی بھی صورت کم نہیں ہے اسے بیان کرنے کے لیے ایک نئی لعنت ایجاد کرنی ہوگی اس لیے کہ ہمارے دکھ در د کی شدت موجودہ الفاظوں سے کہیں زیادہ ہے ہمارے تکلیفیں موجود لفظوں کی چیخوں سے زیادہ دردناک اور وحشت ناک ہیں ہماری اذیتوں کی ٹیسیں موجودہ لفظوں سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہیں آپ تو چھ ملین افراد کی موت پر تڑپ گئے تھے یہاں تو 25 کروڑ افراد زندہ جل رہے ہیں یہاں تو25 کروڑ افراد سولی پہ لٹکے ہوئے ہیں جو نہ تو زندہ ہیں اور نہ ہی مردہ ہیں آئیں ۔ ذراتاریخ کے اندر سفر کرتے ہیں۔ طاقت کے نشے میں چور بادشاہ اشوک جب اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر کالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے کے لیے نکلا تو اس کی نگا ہوں کے سامنے دور دور تک پھیلا ہوا میدان تھا جس میں ایک لاکھ سے زیادہ سپاہیوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ مردار خور پرندے ان پر اتر آئے تھے بہت سے ان میں نیم مر دہ تھے کراہتے ہوئے اور پانی مانگتے ہوئے قریب کی بستیوں سے عورتیں آن پہنچی تھیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے رشتے ڈھو نڈ تی تھیں اور آہ و بکا کررہی تھیں۔ بادشادہ اشوک نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا اس کا گریہ تاریخ میں محفو ظ ہے۔ محترم ایلی ویزیل تاریخ میں کا لنگا کے میدان سے آج بھی آہ و بکا کی آوازیں آتی ہیں۔ آج بھی ایک لاکھ سپاہیوں کی لاشیں کالنگا کے میدان میں بکھری پڑی ہیں ۔آپ کے لیے یہ عرض ہے کہ آج ہماری حالت کسی بھی طرح سے ان عورتوں سے کم نہیں ہے جو کالنگا کے میدان میں آہ و بکا کررہی تھیں۔ آپ اور کچھ نہ کریں صرف ہمارے ملک کی غرباؤں کی بستیوں میں گھوم کر دیکھ لیں۔ ان کے گھروں میں جھانک لیں ان کے نوحے سن لیں ،ان کے ماتم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ،ان کے گر ئیے ان ہی کی زبانی سن لیں پھر جو فیصلہ آپ کریں گے ہمیں منظور ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ ان منظروں اور آوازوں کے بعد فیصلہ کرنے کے قابل بھی رہتے ہیں یا نہیں۔سنتے ہیں کہ چڑیلیں کسی سے چمٹ جائیں تو بڑی مشکل سے جان چھوڑتی ہیں لیکن جان چھوڑ دیتی ہیں یہ جو دکھ ہوتے ہیں ۔یہ جب کسی سے چمٹتے ہیں تو پھر کبھی اس کی جان نہیں چھوڑتے جب تک کہ اس کی جان نہ نکل جائے۔
آئیں ہم اپنے دکھوں کے ذمہ داروں کا تعین کرتے ہیں (١) پہلا گروپ۔ اس گروپ میں تمام بڑے بڑے جاگیر دار، سردار، پیر شامل ہیں جن کی سو چ یہ ہے کہ جب تک عام آدمی ہمارا غلام رہے گا ہماری جاگیریں، سرداری، پیری صحیح سلامت اور محفوظ رہیں گی۔ اس لیے انہیں بے بس رکھو ان کی عزت نفس ہر وقت پامال کرتے رہو انہیں ذلیل کرتے رہو اورانہیں ان کے تمام حقوق سے محروم رکھو ان کی حالت جانوروں سے بدتر رکھو۔ دوسرا گروپ۔جس میں صنعت کار، تاجر، بزنس مین، سرمایہ دار، بلڈرز اور کاروباری حضرات
شامل ہیں۔ یہ تمام حضرات بظاہر بہت مہذب، شائستہ نظر آتے ہیں سوٹوں میں ملبوس خو شبوؤں میں ڈوبے لیکن اگر آپ ان کے اندر جھانک کر دیکھیں تو دہشت زدہ ہو کر بھاگ کھڑے ہونگے ۔ان کا سب کچھ صرف اور صرف پیسہ ہے یہ کسی تعلق، رشتے، احساس، جذبات کو نہیں مانتے اور نہ ہی ان کا انسانیت سے کوئی دور دور تک تعلق ہے۔ان کا مذہب، ایمان، دین سب پیسہ ہے (٣) تیسر ا گروپ۔اس گروپ میں علمائ، مشائخ اور ملاشامل ہیں آج ہمارا ملک جو مذہبی انتہا پسندی کی آگ میں جل رہا ہے اس کی ساری کی ساری ذمہ داری ان پر ہی عائد ہوتی ہے ہمارے آدھے سے زیادہ دکھوں کے ذمہ دار یہ ہی ہیں ۔یہ حضرات ہماری جہالت سے جتنا فائد ہ اٹھا سکتے تھے اٹھارہے ہیں ،ہماری آدھی سے زیادہ آبادی ان ہی کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ (٤) چوتھا گروپ۔ جس میں سیاست دان، بیورو کریٹس، اعلیٰ افسران شامل ہیں ان کے متعلق جتنی بھی بات کی جائے کم ہے اس گروپ کی اکثریت نے ہی ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے جتنا یہ ملک کو لوٹ سکتے تھے لوٹ چکے ہیں اور لوٹ رہے ہیں اور ابھی تک ان کے پیٹ نہیں بھرے ہیں ۔ شیطان اگر دنیامیں کسی سے ڈرتا ہے تو وہ یہ ہی حضرات ہیں سب سے زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ بظاہر یہ سب گروپس مختلف اور الگ الگ اپنی اپنی کاروائیوں میں مصروف نظرآتے ہیں لیکن اگر باریک بینی کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ تمام گروپس اندر سے ایک ہی ہیں ان سب کو ایک دوسرے کی مکمل مدد اور حمایت حاصل ہے ان سب کاایک ہی مقصد ہے کہ جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہو اٹھا تے رہو اور اپنے اقتدار کے سو رج کو کبھی غروب مت ہونے دو اور 25 کروڑ پاکستانیوں کو جتنے دکھ اور دے سکتے ہو دیتے رہو دیتے رہو دیتے رہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • دکھ روتے ہیں!
  • مائیکرو پلاسٹکس ہماری روزمرہ زندگی میں خاموش خطرہ بن گئے
  • پاکستان میں ٹیپ بال کرکٹ کے فروغ کے لیے تیمور مرزا کا نجی ادارے کیساتھ بڑا معاہدہ طے
  • پاک افغان کشیدگی اور ٹرمپ کا کردار
  • پاکستان میں دینی مدارس کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے، احسن اقبال
  • پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • پاکستان کی سیکیورٹی کی ضامن مسلح افواج، یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • ٹام کروز اور آنا دے آرمس کی علیحدگی کے بعد بھی دوستی برقرار
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف