بلوچستان کی اخباری صنعت تباہی کے دہانے پر، ذمہ دار کون؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 مئی 2025ء) لوچستان سے روزانہ شائع ہونے والے کل 122 اخبار حکومتی میڈیا لسٹ پر ہیں۔ صوبے سے 232 دیگر مقامی اخبارات جن میں ہفت روزہ اور ماہانہ میگزین بھی شامل ہیں، شائع ہوتے ہیں۔ ان مقامی اخبارات میں ایسے متعدد اخبارات بھی شامل ہیں جو پشتو، بلوچی، براہوی اور دیگر زبانوں میں شائع کیے جاتے ہیں۔
اخبارات کے حوالے سے حکومتی پالیسی بلوچستان میں عرصہ دراز سے تضادات کا شکار رہی ہے۔ صوبے میں معاشی عدم استحکام اور انڈسٹریز کی کمی کے باعث اخباری صنعت کی معیشت کا سب سے زیادہ انحصار سرکاری اشتہارات پر ہے۔
بلوچستان کے مقامی اخبارات حکومت سے ناراض کیوں ہیں؟بلوچستان کے مقامی اخبارات کی نمائندہ تنظیم کے جنرل سیکرٹری مرتضیٰ ترین کہتے ہیں حکومتی بے حسی کی وجہ سے صوبے میں اخباری صنعت دن بدن تباہی کے دہانے پر پہنچ رہی ہے۔
(جاری ہے)
ڈویچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''صوبے میں حکومتی اشتہارات کی تقسیم کی پالیسی اس قدر تنازعات کا شکار ہے کہ متعلقہ محکموں میں کوئی سینئر عہدیدار اس معاملے میں خود کو جواب دہ نہیں سمجھتا۔ اخبارات کے لیے جو سالانہ بجٹ مختص کیا گیا ہے وہ صرف من پسند اخبارات کو ہی جاری کیا جاتا ہے۔‘‘
مرتضٰی ترین کے مطابق مقامی اخبارات کو معاشی طور پر غیر مستحکم کر کے قومی سطح پر بلوچستان کی آواز دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ''بلوچستان سے شائع ہونے والے اخبارات کو دانستہ طور پر نظرانداز کیا جارہا ہے۔ صرف دیگر صوبوں سے شائع ہونے والے غیر مقامی اخبارات کو اشتہارات، مالی معاونت اور ادارہ جاتی سرپرستی باقاعدگی سے فراہم کی جاتی ہے۔ بلوچستان میں چونکہ اخباری صنعت کا سب سے زیادہ انحصار حکومتی اشتہارات پر ہے اسی لیے اس ضمن میں ادائیگیوں میں بھی ہمیشہ تاخیر کی جاتی ہے اور سرکاری ادارے واضح جانبداری دکھا رہے ہیں۔
ہمیں اس حد تک مجبور کیا گیا ہے کہ اگر یہ حالات بہتر نہیں بنائے گئے تو ہمارے پانچ ہزار سے زائد ورکرز بے روزگار ہوجائیں گے۔‘‘مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ آزادی صحافت کے دعویدار موجودہ حکومت نے حسب ضابطہ اخبارات سے متعلق اپنی پالیسی میں ہمیں تاحال کوئی نمائندگی بھی نہیں دی ہے اس لیے من پسند زاویوں سے اقدامات کیے جاتے ہیں۔
اے پی این ایس اخباری صنعت کی تباہی کی ذمہ دار کس کو سمجھتی ہے؟پاکستان میں اخبارات کی سب سے بڑی تنظیم، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی بلوچستان کمیٹی کے چیئرمین، وسیم احمد کہتے ہیں کہ بلوچستان میں اخباری صنعت کو تباہی سے بچانے کے لیے حکومتی سطح پر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان کے اخبارات مالی دباؤ کے باعث اپنی اشاعت بند کرنے اور عملے میں کمی پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس بحران سے صحافیوں سمیت، پرنٹنگ پریس ورکرز اور دیگر معاون عملے کے ہزاروں ورکرز کے بے روزگار ہونے کا بھی خدشہ پیدا ہوا ہے۔ یہ مسئلہ صرف معاشی نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔
اخبارات کو دباؤ میں لا کر آزادی صحافت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔‘‘وسیم احمد کا کہنا تھا کہ مقامی اخبارات کا استحصال عوام کی معلومات تک رسائی کے قانون کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے: ''بلوچستان پہلے ہی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ مقامی اخبارات کے ساتھ امتیازی سلوک بند ہونا چاہیے۔ اگر اس صنعت کو مصنوعی معاشی بحران سے نہیں نکالا گیا تو صنعت تباہ اور ہزاروں افراد روزگار سے محروم ہوجائیں گے۔
‘‘وسیم احمد کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں مقامی اخبارات کے لیے مختص بجٹ میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے اور صوبائی ایس ایس پبلسٹی کا بجٹ بھی سالانہ صرف آٹھ کروڑ روپے ہے جبکہ سندھ اور پنجاب میں اس ضمن میں سالانہ 10 ارب روپے سے زائد رقم خرچ کی جاتی ہے۔
بلوچستان میں مقامی اخباری صنعت کے بحرانوں پر حکومتی موقف کیا ہے؟دوسری جانب، بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کہتے ہیں کہ اخباری صنعت سے متعلق معاملات کا حکومت جائزہ لے رہی ہے اور سرکاری اشتہارات کی پالیسی کسی ابہام کا شکار نہیں ہے۔
ڈویچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان میں اشتہارات کے حوالے سے حکومتی پالیسی میں اب تک کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ مختلف پروپوزلز پیش کیے گئے ہیں جن میں پی پیپرا رولز کی تجویز بھی شامل ہے لیکن اس پر عمل درآمد اب تک نہیں کیا گیا ہے۔ حکومت کے لیے چھوٹے اور بڑے اخبارات کی کوئی تفریق نہیں۔ صوبائی حکومت نے آزادی صحافت کے فروغ کے لیے ہمیشہ کردار ادا کیا ہے۔
‘‘شاہد رند کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مقامی اخبارات کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور صورتحال کی بہتری پر ہر ممکن توجہ دی جائے گی۔
کوئٹہ میں مقیم سینئر صحافی سید گلزار شاہ کہتے ہیں کہ بلوچستان کے مقامی اخبارات صرف مالی بحرانوں تک محدود نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم حکومتی پالیسی بھی عمل پیرا دکھائی دیتی ہے: ''بلوچستان کی مقامی صحافت اس پسماندہ خطے کی سب سے اہم آواز ہے۔
اس آواز کو دبانا دراصل صوبے کے عوام کو قومی مکالمے سے باہر رکھنے کے مترادف ہے۔ جب مقامی مسائل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بدعنوانی اور ترقیاتی ناکامیاں رپورٹ نہیں کی جائیں گی تو فائدہ صرف ایسے عناصر کو پہنچے گا جو ہمیشہ اخبارات کو سیلف سنسرشپ پر مجبور کرتے رہے ہیں۔ غیر اعلانیہ سنسرشپ صوبے میں ادارتی خودمختاری پر بھی ایک حملہ ہے۔‘‘گلزار شاہ کے مطابق صوبائی حکومت کو بلوچستان میں اخباری صنعت کو تباہی سے بچانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ مقامی لوگوں کی معلومات تک رسائی کا یہ حق متاثر نہ ہو۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بلوچستان کے مقامی اخبارات کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں کہ بلوچستان اخبارات کے اخبارات کو کہتے ہیں انہوں نے کا شکار رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو، وزیراعلیٰ بلوچستان
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں، کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق بلوچستان کے دور دراز اور پسماندہ علاقے سنجاوی میں اتوار کو اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بلوچستان کے ہر کونے میں جانے کو تیار ہوں، وسائل کی کمی ہو تو پیدل بھی عوام تک پہنچوں گا.
انہوں نے کہا کہ صوبے کے وسائل اور مسائل سب کے سامنے ہیں مگر صوبائی حکومت کی اولین ترجیح وسائل کے شفاف اور درست استعمال کو یقینی بنانا ہے, جو وعدہ کیا وہ پورا کیا ہے، کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ وزیراعلیٰ نے سنجاوی کو ترقی کے نقشے پر نمایاں کرنے کیلئے فوری طور پر کئی بڑے اعلانات کیے جو علاقے کی صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر اور سیکیورٹی کو انقلابی تبدیلی دیں گے۔
انہوں نے تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال سنجاوی کو 20 بستروں پر مشتمل مثالی طبی ادارے میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اسپتال کو بیکڑ کی طرز پر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت فعال بنایا جائے گا۔
اس موقع پر اسپتال کا دورہ کرتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹرز اور عملے سے ملاقات کی اور مریضوں کی فوری سہولیات کیلئے ہدایات جاری کیں تعلیم کے شعبے میں سنجاوی کے بوائز اور گرلز کالجز کیلئے علیحدہ عمارتوں کی تعمیر اور دو بسوں کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا۔
وزیراعلیٰ نے کیڈٹ کالج زیارت میں سنجاوی کے طلبہ کیلئے دو نئے بلاکس اور چار بسوں کی فراہمی کا بھی اعلان کیا۔
انہوں نے بتایا کہ زیارت کے 14 غیر فعال اسکول موسم سرما کی تعطیلات کے بعد مکمل طور پر فعال ہوں گے جبکہ محکمہ تعلیم میں بھرتیاں سو فیصد میرٹ پر کی جا رہی ہیں۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ میرٹ کی خلاف ورزی کی نشاندہی کی جائے تو فوری کارروائی یقینی بنائی جائے گی ۔
سیکیورٹی اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے عوامی مطالبے پر سنجاوی میں چار نئے پولیس اسٹیشنز قائم کرنے، بائی پاس اور نشاندہی کردہ 15 کلومیٹر نئی سڑک کی تعمیر کا اعلان کیا۔
انہوں نے افسران و اہلکاروں کیلئے نیا انتظامی کمپلیکس تعمیر کرنے کا بھی وعدہ کیا، لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کے فیصلے کو بظاہر غیر مقبول مگر وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دیرپا امن کیلئے ضروری ہے لینڈ سیٹلمنٹ کے عمل کا آغاز کرتے ہوئے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ سنجاوی کیلئے یہ عمل فوری شروع ہوگا جبکہ بلوچستان بھر میں انتظامی حدود کا ازسرنو تعین کیا جا رہا ہے، زیارت میں نئے ضلع کے قیام پر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے سنجیدہ غور جاری ہے ۔
اجتماع سے قبل وزیراعلیٰ نے استحکام پاکستان فٹ بال ٹورنامنٹ کے فائنل میچ میں شرکت کی اور کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کیے۔ انہوں نے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے کھیلوں کے فروغ کیلئے مزید اقدامات کا وعدہ کیا۔
دورے کے دوران صوبائی وزیر حاجی نور محمد خان ڈمر، پارلیمانی سیکریٹری ولی محمد نورزئی، سردار کوہیار خان ڈومکی اور میر اصغر رند سمیت اعلیٰ حکام موجود تھے۔
وزیراعلیٰ ہیلی کاپٹر کے ذریعے سنجاوی پہنچے جہاں ڈپٹی کمشنر محمد ریاض خان داوڑ نے پرتپاک استقبال کیا عوام نے وزیراعلیٰ کے اعلانات پر زوردار نعرے بازی کی اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔