خطے میں بالادستی کا خواہشمند بھارت تنازعات کے مؤثر حل سے گریزاں ہے، جنرل ساحر شمشاد
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
سنگاپور میں ہونے والے عالمی سیکیورٹی اجلاس ’شنگریلا ڈائیلاگ‘ میں پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ سیکیورٹی کے نظام اس وقت تک مؤثر نہیں ہو سکتے جب تک ان کی بنیاد اعتماد پر نہ ہو اور وہ سب کو ساتھ لے کر نہ چلیں۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان اور بھارت سرحدوں پر تعینات اضافی فوجیوں کی واپسی کے عمل کے قریب پہنچ چکے ہیں، جنرل ساحر شمشاد مرزا
جنرل ساحر شمشاد نے جنوبی ایشیا میں بڑھتے ہوئے تنازعات کے خطرات کی نشاندہی کی اور ایشیا پیسیفک سمیت دیگر خطوں میں جامع، مؤثر اور ادارہ جاتی بحران سے نمٹنے کے نظام کی فوری ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ علاقائی استحکام صرف طاقت کے زور پر نہیں بلکہ باہمی اعتماد، صبر اور سرخ لکیر کی شناخت کے اصولوں پر قائم ہونا چاہیے۔
جنرل مرزا نے جنوبی ایشیا کو ایک ایسے خطے کے طور پر پیش کیا جو عالمی سطح کے خطرات سے دوچار ہے، جن میں کشمیر کا دیرینہ تنازع، بھارت-پاکستان-چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور افغانستان میں جاری عدم استحکام شامل ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ خطے میں جوہری ہتھیاروں کی موجودگی غلط اندازے کے خطرات کو کئی گنا بڑھا چکی ہے اور ایسے میں مؤثر رابطے کے ذرائع ناگزیر ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:سندھ طاس معاہدہ: بھارت کی متواتر خلاف ورزیاں، تیر کمان سے نکلنے سے پہلے دنیا کارروائی کرلے
انہوں نے بھارت کی بڑھتی ہوئی عسکری تیاریوں اور مغربی طاقتوں سے ملنے والی حمایت پر بھی تنقید کی۔
جنرل مرزا کے مطابق بھارت خطے میں بالادستی قائم کرنے کی خواہش میں اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ وہ تنازعات کے مؤثر حل سے بھی گریز کر رہا ہے۔
انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ کی حد خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے، جو ڈیڑھ ارب انسانوں کے لیے شدید خطرے کا باعث ہے۔
انہوں نے بھارت کی جانب سے شہری علاقوں کو نشانہ بنانے اور سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی دھمکیوں کو پاکستان کے لیے ’وجودی خطرہ‘ اور ممکنہ طور پر ’اعلانِ جنگ‘ قرار دیا۔
جنرل مرزا نے واضح کیا کہ پاکستان ہمیشہ مذاکرات اور سفارتی ذرائع کو ترجیح دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سے امن اسی صورت ممکن ہے جب باہمی احترام، مساوی خودمختاری اور عزتِ نفس کی بنیاد پر بات چیت ہو۔
یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب امریکا سے پہلے پاک بھارت کشیدگی کم کرانے کے لیے متحرک تھا، سفارتکار جاوید حفیظ
ایشیا پیسیفک کے وسیع تر تناظر میں انہوں نے خطے میں بڑھتی ہوئی عسکری دوڑ اور بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلے بازی پر تشویش ظاہر کی۔
ان کا کہنا تھا کہ بیرونی طاقتیں سیکیورٹی کے نظام ترتیب دے رہی ہیں لیکن مقامی ملکوں کی شمولیت کے بغیر یہ نظام قابلِ عمل اور قابلِ قبول نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے تجویز دی کہ پہلے سے موجود دو طرفہ، علاقائی اور عالمی سیکیورٹی ڈھانچوں کو فعال بنایا جائے، بجائے اس کے کہ ہر بار نئے نظام تشکیل دیے جائیں۔
انہوں نے زور دیا کہ صرف تنازعے کا انتظام نہیں بلکہ اس کا مستقل حل تلاش کیا جانا چاہیے۔
عالمی سطح پر جنرل مرزا نے سیکیورٹی کی موجودہ صورتحال کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ طاقت اور مفادات نے اصولوں اور اخلاقیات کی جگہ لے لی ہے، ریاستی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کو پامال کیا جا رہا ہے، جبکہ کثیرالطرفہ تعاون کی جگہ تنگ نظر، محدود اتحادوں نے لے لی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم شہباز شریف کی ترک صدر سے ملاقات، پاک بھارت کشیدگی کے دوران حمایت پر شکریہ ادا کیا
انہوں نے بحرانوں سے بچاؤ کے لیے باقاعدہ طریقہ کار، پہلے سے طے شدہ رابطے کے اصول، اور مشترکہ فوجی مشقوں کی ضرورت پر زور دیا۔ ساتھ ہی جدید ٹیکنالوجی، جیسے مصنوعی ذہانت (AI) اور سائبر ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو ایک نیا خطرہ قرار دیا، جو فیصلہ سازی کے وقت کو محدود اور روک تھام کی حکمتِ عملی کو پیچیدہ بنا رہا ہے۔
انہوں نے کہا اسٹریٹجک کمیونیکیشن بہت اہم ہے۔ غلط فہمی، بیانیے کی جنگ اور معلومات کی بگاڑ کشیدگی کو ہوا دیتے ہیں۔
آخر میں جنرل مرزا نے ایک بار پھر پاکستان کے کشمیر سے متعلق دیرینہ مؤقف کو دہرایا اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلہ حل کرنے کو خطے میں پائیدار امن کے لیے ضروری قرار دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایٹمی جنگ بھارت پاکستان سندھ طاس معاہدہ سنگاپور شنگریلا ڈائیلاگ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایٹمی جنگ بھارت پاکستان سندھ طاس معاہدہ سنگاپور یہ بھی پڑھیں کے درمیان انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
جنوبی ایشیا میں موجود تنازعات قابو سے باہر ہوسکتے ہیں، جنرل ساحرشمشادکا انتباہ
ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو کشیدگی کے خطرات میں کسی بھی ابہام کو ختم کرسکیں
تنازع کشمیرموجود ہے ، علاقائی اختلافات دبانے سے حل نہیں کیے جاسکتے، خطاب
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے خبردارکیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں ایسے بہت سے تنازعات ہیں جو کبھی بھی قابو سے باہر ہوسکتے ہیں، جنوبی ایشیا میں غیر حل شدہ تنازع کشمیر موجود ہے ۔سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آزاد دنیا کے رکھوالوں نے خود ہی ریاستی خودمختاری، علاقائی سالمیت، انسانی حقوق، عالمی قانون اور انصاف کی قدروں کو پامال کر دیا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ طاقت اور مفاد، اخلاقیات اور اصولوں سے بالاتر ہوگئے ہیں، ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو کشیدگی کے خطرات میں کسی بھی ابہام کو ختم کرسکیں۔جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا کہ نظریاتی یا علاقائی اختلافات کو دبانے سے انہیں حل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدم اعتماد کی فضا میں کوئی میکنزم کام نہیں کرتا، پائیدار کرائسس مینجمنٹ کے لیے باہمی برداشت، ریڈ لائن کی پاسداری اور مساوات کی ضرورت ہوتی ہے ۔چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی نے کہا کہ جب تک بنیادی اسٹیک ہولڈرز کمزور سمجھے جائیں، کوئی فریم ورک کامیاب نہیں ہوسکتا، استحکام کا حصول شراکت داری کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایڈہاک رسپانسز ناکافی ہیں، ہمیں ادارہ جاتی پروٹوکول، ہاٹ لائنز کی ضرورت ہے ۔ کشیدگی میں کمی کے طے شدہ طریقہ کار اور مشترکا کرائسس مینجمنٹ مشقوں کی ضرورت ہے ۔