کراچی میں عید الاضحیٰ پر سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے چھوٹے اور بڑے جانوروں کی فروخت کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، عید قرباں جیسے جیسے قریب آرہی ہے جانوروں کی فروخت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

اس مرتبہ عید الاضحیٰ پر گذشتہ برس کی نسبت قربانی کے جانوروں کی قیمتوں میں 50 سے 70 فیصد اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ مویشی منڈیوں میں کم وزن کی بچھیا کی ایک لاکھ روپے تک دستیابی انتہائی مشکل ہوگئی ہے، بچھیا کی کم سے کم قیمت ایک لاکھ 40 ہزار اور بکرے کی قیمت 40 ہزار روپے سے شروع ہو رہی ہے۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ سرکاری سطح پر قربانی کے جانوروں کی قیمتوں کے تعین کے لیے کوئی میکنزم موجود نہیں ہے، ہر بیوپاری اپنی مرضی کی قیمت مانگ رہا ہے۔ بیوپاریوں اور گاہگوں میں سودے بحث و مباحثہ کے بعد طے ہو رہے ہیں۔

مویشی کے بیورپاریوں کا کہنا ہے کہ جانوروں کو پالنے کی لاگت، ٹرانسپورٹیشن، ٹیکسز اور دیگر وجوہات کی بناء پر قربانی کے جانوروں کی قیمتوں میں ہوش روبا اضافہ ہوا ہے۔

ایکسپریس نے رواں عید قربان کے لیے جانوروں کی قیمتوں کے حوالے سے رپورٹ مرتب کی۔

قربانی کے جانوروں کے بیوپاری کاشف قریشی نے بتایا کہ عید الاضحیٰ پر ہر صاحب حیثیت مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سنت ابراہیمی کی ادائیگی کرے تاہم اس عید الاضحیٰ پر قربانی کے جانوروں کی قیمتوں میں گذشتہ برس کی نسبت ایک اندازے کے مطابق 50 سے 70  فیصد اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ قربانی کے جانوروں کی قیمتوں میں اضافہ کی کئی وجوہات ہیں جن میں پنجاب اور سندھ کے کئی اضلاع جہاں مویشوں کی بڑی منڈیاں ہیں وہاں بڑے بیوپاری مہنگے جانور فروخت کر رہے ہیں۔ ان مویشی بیوپاریوں کا دعویٰ ہے کہ مویشیوں کو چارے کے اخراجات میں 50 فیصد سے زائد اضافہ ہوگیا ہے۔ جانوروں کے پالنے کے اخراجات بڑھنے کی وجہ سے ان کی قیمتیں بڑھ گئیں ہیں۔

بڑے بیوپاریوں سے درمیانے درجے کے بیوپاری جانور خرید رہے ہیں۔ ان کو کراچی لانے کے لیے ٹرانسپورٹیشن اور ٹیکسز کی ادا کرنا پڑ رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹیشن کے کرایوں میں بھی 50 سے 60 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ ان تمام مراحل کے بعد جب جانور کراچی کی مویشی منڈیوں میں پہنچ رہے ہیں تو ان منڈیوں میں جگہوں کی الاٹمنٹ، کھانے پینے اور دیگر متفرق اخراجات ہیں۔ ان تمام اخراجات کے بعد بیوپاری اپنا منافع رکھنے کے بعد قربانی کے جانور فروخت کر رہے ہیں۔

مویشیوں کے بیوپاری یہ سمجھتے ہیں کہ کراچی میں ان کو اچھا منافع مل جائے گا۔ اس لیے بیوپاری چھوٹے اور بڑے قربانی کے جانوروں کی منہ مانگی قیمتیں مانگ رہے ہیں۔ شہر میں قربانی کے جانوروں کی قیمتوں میں یکسانیت نہیں ہے، جانوروں کی قیمتوں کو طے کرنے کے لیے سرکاری سطح پر کوئی میکنزم نہیں ہے۔ ہر بیوپاری اپنی مرضی کے مطابق گاہگوں سے اپنے جانور کی قیمت طلب کر رہا ہے اور ہر بیوپاری کی کوشش ہوتی ہے کہ چھوٹے جانور پر 15 سے 50 ہزار سے زائد اور بڑے جانور پر 50 سے 2 لاکھ یا اس سے زائد تک منافع مل جائے۔ انہوں نے بتایا کہ جانور کی قیمت اس کی نسل، خوبصورتی اور وزن کو دیکھ کر طے کی جاتی ہے۔

جانوروں کے بیوپاری عارف قریشی نے بتایا کہ کراچی میں اس وقت 13 مقامات پر سرکاری منڈیاں ہیں۔ اس کے علاوہ شہر کے مختلف علاقوں میں جانور فروخت ہو رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہم گائے بچھیا اور اونٹ کی فروخت کا کام کرتے ہیں، بڑے جانوروں کی قیمتیں مہنگی ہونے کی وجہ سے متوسط طبقے کے لیے قربانی کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ گذشتہ برس کم وزن کی بچھیا ایک لاکھ روپے سے کم میں فروخت ہوئی تھی تاہم یہی جانور اب ایک لاکھ روپے میں دستیاب نہیں ہے۔ کم وزن اور اوسط نسل کی بچھیا اور گائے کی کم از کم قیمت ایک لاکھ 40 ہزار سے شروع ہو رہی ہے۔ درمیانے وزن کی گائے اور بچھیا کی قیمت 2 لاکھ سے 3 لاکھ یا اس سے زائد روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ زائد وزن کی بچھیا اور گائے کی قیمت 4 لاکھ سے 10 لاکھ روپے یا اس سے زائد ہے۔ طبقہ اشرافیہ کے لیے مہنگے جانور 12 لاکھ سے 20 لاکھ یا اس سے زائد قیمت میں دستیاب ہیں۔

عارف قریشی نے بتایا کہ اس وقت منڈیوں میں بڑے جانوروں کی خریداری شروع ہوگئی ہے، شہری شام اور رات کے اوقات میں منڈیوں کا رخ کر رہے ہیں۔ شہریوں کا رجحان یہ ہے کہ وہ  درمیانے وزن کی بچھیا کم از کم دو لاکھ روپے تک خرید لیں، شہریوں اور بیوپاریوں میں سودے کافی بحث و مباحثہ کے بعد طے ہو رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شہر میں پنجاب کے مختلف اضلاع کے بڑے جانور فروخت ہو رہے ہیں۔

بکرے کے بیوپاری سیف الدین نے بتایا کہ کراچی میں بکرے پنجاب کے علاوہ سندھ کے مختلف علاقوں سے فروخت کے لیے لائے گئے ہیں۔ بکرے مختلف نسل اور وزن کے ہیں جن کی قیمتیوں میں گذشتہ برس کی نسبت 50 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ برس درمیانہ وزن کا بکرا 30 ہزار روپے سے زائد میں فروخت ہوا اب یہی بکرا 50 ہزار روپے سے زائد میں فروخت ہو رہا ہے۔ بکرے کی قیمت 40 ہزار روپے سے شروع ہوکر 3 لاکھ روپے یا اس سے زائد ہے، ہر شخص اپنی مالی حیثیت کے مطابق قربانی کے لیے بکرے خرید رہا ہے۔ شہریوں کی کوشش ہے کہ وہ قریبی علاقے سے بکرے خرید لیں۔

دنبہ اور بھیڑ فروخت کرنے والے بیوپاری راشد سلیم نے بتایا کہ بھیڑ اور دنبہ 40 ہزار سے لیکر 2 لاکھ روپے یا اس سے زائد میں فروخت ہو رہے ہیں۔ ان کی قیمت بھی وزن، خوبصورتی اور نسل کو دیکھ کر طے کی جاتی ہے۔

اونٹ کے بیوپاری ابراہیم دین نے بتایا کہ اونٹ زیادہ تر سندھ کے مختلف اضلاع سے فروخت کے لیے کراچی لائے گئے ہیں تاہم اونٹ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اونٹ کی قیمت تین لاکھ یا اس سے زائد ہے، اونٹ کی قربانی محدود ہوتی ہے لیکن گذشتہ دو برسوں میں اونٹ کی قربانی کے رجحان میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ناظم آباد کے رہائشی سعید الظفر نے بتایا کہ اس عید الاضحیٰ پر قربانی کے لیے بچھیا اور گائے کی قیمتوں میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔ گذشتہ برس جو بچھیا ڈیڑھ لاکھ کی خریدی تھی وہ اس مرتبہ میں نے 2 لاکھ 40 ہزار روپے میں لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو قربانی کے جانوروں کی قیمتوں کے تعین کے لیے میکنزم طے کرنا چاہیے۔

صدر کے رہائشی آصف عباسی نے بتایا کہ اس عید الاضحیٰ پر بیوپاریوں نے جانوروں کی قیمتیں بہت بڑھا دی ہیں۔ ہر بیوپاری اپنی مرضی کی قیمت طلب کر رہا ہے اور حکومتی سطح پر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، میں نے جو بکرا گذشتہ برس 35 ہزار کا خریدا تھا اس عید قرباں کے لیے 60 ہزار روپے میں خریدا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: قربانی کے جانوروں کی قیمتوں میں لاکھ یا اس سے زائد انہوں نے بتایا کہ قربانی کے جانور میں فروخت ہو پر قربانی کے ہزار روپے سے کے بیوپاری عید الاضحی منڈیوں میں ہر بیوپاری ہو رہے ہیں بڑے جانور کراچی میں بچھیا اور گذشتہ برس لاکھ روپے روپے میں ایک لاکھ ہوگیا ہے اضافہ ہو کے مختلف اونٹ کی شروع ہو نہیں ہے کے لیے رہا ہے کے بعد

پڑھیں:

کراچی کی مخدوش عمارتیں مکینوں سے خالی کروا کے بلڈرز کو فروخت کی جاسکتی ہیں، ایم کیو ایم

ایم کیو ایم پاکستان نے کہا ہے کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ میں مخدوش قرار دے کر خالی کرائی گئی 41 عمارتیں بلڈرز کو فروخت کی جائیں گی، سندھ حکومت بے دخل کیے گئے مکینوں کو بے نظیر انکم سپورٹ سے دو سال کا کرایہ اور رہائش کا جامع منصوبہ بنائے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے مرکز بہادرآباد پر پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں حق پرست رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر ارشد عبداللہ وہرا، ڈپٹی پارلیمانی لیڈر طحہ احمد، رکن صوبائی اسمبلی دلاور خان و دیگر اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی نے شرکت کی۔

ڈاکٹر ارشد وہرا نے کہا کہ آپ سب کے علم میں ہے کہ بغدادی لیاری میں بلڈنگ گرنے کا واقعہ ہوا،اس واقعہ میں 27 افراد جانبحق ہوئے یہ حادثہ جہاں ہوا وہاں عمارتیں قیام پاکستان بننے سے پہلے کی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس حادثے کے بعد ڈسٹرکٹ ویسٹ کی 41 بلڈنگیں خالی کروائی گئی ہیں، لوگوں کو زبردستی دھکے دے کر نکالا گیا ہے، تو کیا اس سے پہلے حکومت سوئی ہوئی تھی؟

انہوں نے کہا کہ حکومت نے اولڈ سٹی ایریا کی عمارتوں اور لوگوں کو صحیح طریقے سے ہینڈل نہیں کیا،ایم کیو ایم پاکستان نے لوگوں کو ہمیشہ سپورٹ کیا،ان متاثرین کی آبادکاری کے لئے جامع پلان ہوناچاہیے، حکومت ان لوگوں کے لئے متبادل رہائش کا انتظام کرے۔

ارشد وہرہ نے کہا کہ خدشہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے لوگ عمارتیں خالی کرا کر بلڈرز مافیا کو زمینیں بیچ دیں گے، سندھ حکومت کے کارندے ایل ڈی اے اور ایم ڈی اے میں کروڑوں روپے کی زمینیں کھا گئے تو پھر یہ عمارتیں کیا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان متاثرین کے ساتھ کھڑی ہے، متاثرین اپنا ریکارڈ ہمارے پاس جمع کرائیں، انکے حقوق کا مقدمہ ایم کیو ایم لڑے گی، ان لوگوں کی آبادکاری پر حکومت کو کام کرنا چاہیےْ

ڈاکٹر ارشد وہرہ نے سندھ حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ کراچی والوں کو انہوں نے غلام سمجھ کر رکھا ہوا ہے، بینظر انکم سپورٹ پروگرام میں 716 ارب روپے رکھے گئے جبکہ اتنا بجٹ کسی اور محکمے یا منصوبے کیلیے مختص نہیں ہوا، ہم حکومتِ سندھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ متاثرین کو 2 سال کا کرایہ اور متبادل رہائش فراہم کرے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ سندھ حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی میں عوامی نمائندوں کو شامل کرنا ہو گا، یہ 5 ہزار خاندان ہیں اگر یہ سی ایم ہاؤس کے باہر جمع ہوئے تو لاکھوں افراد ہوں گے، پھر یہ لوگ کہاں جائیں گے؟اگر یہ زمین خالی کرا کر بلڈر مافیا کو دی تو یہ عمل ناقابل قبول ہوگا۔

دوسری جانب سندھ حکومت کی ترجمان سعدیہ جاوید نے ایم کیو ایم کی پریس کانفرنس کو مسترد کرتے ہوئے بے نظیر انکم سپورٹ پر تنقید کو بلاجواز قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کا بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے خلاف بیان بغض پیپلز پارٹی ہے جبکہ یہ منصوبہ اور پروگرام عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ باتوں سے سنہرے خواب دکھانا ایم کیو ایم کا وطیرہ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس پروگرام سے ایک کروڑ کے قریب غریب خاندان سہہ ماہی وظیفہ حاصل کرتے ہیں جبکہ سندھ میں 36 لاکھ سے زائد بچوں کو تعلیمی وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سسرالیوں نے خاتون کو ایک لاکھ 20 ہزار روپے میں فروخت کردیا
  • اسلام آباد ایئرپورٹ پر لاوارث سامان 560 روپے میں فروخت کیا جارہا ہے؟
  • 173روپے کے نوٹیفکیشن کے باوجود چینی کی 200 روپے کلو فروخت جاری
  • حج رجسٹریشن کی تعداد میں اضافہ، حج کوٹے میں بھی اضافے کے لیے رابطے کا فیصلہ
  • بھارت میں 2024 میں کتے کے کاٹنے کے37 لاکھ سے زائد واقعات
  • کریانہ ایسوسی ایشن نے پنجاب بھر میں چینی کی فروخت بند کر دی 
  • کراچی کی مخدوش عمارتیں مکینوں سے خالی کروا کے بلڈرز کو فروخت کی جاسکتی ہیں، ایم کیو ایم
  • عالمی و مقامی مارکیٹوں میں سونے کی قیمتوں میں استحکام، چاندی مہنگی ہوگئی
  • کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں!
  • کریانہ ایسوسی ایشن کا پنجاب بھر میں چینی کی فروخت بند کرنے کا اعلان