بٹلہ ہاؤس دہلی میں مسلم بستیوں پر بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ نے روک لگانے سے کیا انکار کردیا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
دہلی کے بٹلہ ہاؤس میں موجود کئی دوکانوں اور مکانوں پر اترپردیش سینچائی محکمہ کی طرف سے غیرقانونی تعمیرات کے معاملے میں نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ دہلی کے بٹلہ ہاؤس علاقے میں بلڈوزر کارروائی کے خلاف داخل کی گئی عرضی پر آج سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے بلڈوزر کارروائی پر روک لگانے سے انکار کردیا۔ جسٹس سنجے کرول نے کہا کہ ہم نے معاملہ پڑھ لیا ہے، فی الحال ہم کوئی حکم نہیں جاری کریں گے، معاملہ چھٹیوں کے بعد سنا جائے گا۔ سپریم کورٹ میں اس معاملے پر جسٹس کرول کی دو رکنی بینچ کے سامنے یہ معاملہ تھا۔ سماعت کے دوران سینیئر وکیل سنجے ہیگڑے نے عدالت کے ایک حکم کا ذکر کیا، لیکن عدالت نے معاملہ جولائی تک کے لئے ملتوی کردیا۔ اب اگلی سماعت جولائی میں ہوگی۔ واضح رہے کہ بٹلہ ہاؤس میں موجود کئی مکانات اور دوکانوں پر اترپردیش سینچائی محکمہ کی طرف سے غیرقانونی تعمیرات کے معاملے میں نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرنے والوں کی دلیل ہے کہ عدالت نے کہا تھا کہ 15 دنوں کا نوٹس چاہیئے، لیکن یہاں ایک نوٹس چسپاں کیا گیا ہے اور بے دخل کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ اس معاملے میں 26 مئی کو نوٹس جاری ہوا تھا۔ جامعہ نگر اور اوکھلا کے ان مکانوں کو ہٹانے کا نوٹس دہلی ڈسٹرکٹ کونسل نے جاری کیا تھا۔
دراصل دہلی کے بٹلہ ہاؤس میں موجود کئی دوکانوں اور مکانوں پر اترپردیش سینچائی محکمہ کی طرف سے غیرقانونی تعمیرات کے معاملے میں نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ نوٹس 26 مئی کو جاری ہوا تھا۔ جامعہ نگر اور اوکھلا کے ان مکانوں کو ہٹانے کا نوٹس ڈی ڈی سی نے جاری کیا تھا۔ ان لوگوں کو اس علاقے کو خالی کرنے کو کہا گیا ہے، لیکن لوگ اس کی مخالفت کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کم از کم 15 دنوں کا نوٹس دینا چاہیئے تھا، لیکن یہاں ایک جھٹکے میں بے دخل کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ کل 2 بیگھہ اور 10 بسوا زمین پر کارروائی کا یہ پورا معاملہ ہے۔ عدالت نے اس معاملے میں ڈی ڈی اے کو ایک حلف نامہ تین ماہ کے اندر داخل کرنے کو کہا ہے۔ سپریم کورٹ اس وقت دہلی میں عوامی زمین پربڑے پیمانے پر تجاوزات اور غیرقانونی تعمیرات کے خلاف اپنے 2018ء کے احکامات کی مبینہ خلاف ورزی پر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کررہی تھی۔ جہاں تک یہ پورا معاملہ ہے، افسران نے اترپردیش سینچائی محکمہ سے متعلق زمین پر غیرقانونی قبضہ کا حوالہ دیتے ہوئے علاقہ خالی کرنے کو کہا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اترپردیش سینچائی محکمہ غیرقانونی تعمیرات کے معاملے میں سپریم کورٹ کیا گیا ہے نوٹس جاری جاری کیا کا نوٹس
پڑھیں:
سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے بجائے اصل مجرموں کو گرفتار کیا جائے، ملک معتصم خان
جماعت اسلامی کے نائب امیر نے عدالتی نظام میں اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 19 سال کے بعد بے قصوروں کی رہائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشتگردی کے مقدمات کی تفتیش میں کتنی سنگین کوتاہیاں موجود ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے 2006ء کے 7/11 ممبئی ٹرین دھماکوں کے مقدمے میں تمام 12 ملزمان کو بری کئے جانے کے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے مہاراشٹر حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے جس کے تحت وہ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ 21 جولائی 2025ء کو سنایا گیا جس میں 2015ء کی سزا کو کالعدم قرار دیا گیا اور عدالت کی طرف سے تفتیش میں سنگین کوتاہیوں اور ناقص شواہد کی بنیاد پر شدید سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ملک معتصم خان نے کہا کہ عدالت کی طرف سے جو سوال اٹھائے گئے ہیں وہ ہمارے فوجداری نظام انصاف پر سنجیدہ غوروفکر کے متقاضی ہیں۔
میڈیا کو دئے گئے اپنے بیان میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے کہا کہ ہم 7/11 ممبئی دھماکوں کے مقدمے میں 12 بے گناہ افراد کو بری کرنے کے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں جنہوں نے تقریباً دو دہائیوں تک جیل میں ظلم و جبر کا سامنا کیا۔ عدالت کے ریمارکس نے واضح کر دیا ہے کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا اور جو شواہد عدالت میں پیش کئے گئے وہ ناقابل اعتبار تھے۔ کورٹ کے مطابق مہاراشٹر اے ٹی ایس بم دھماکوں میں استعمال ہونے والے بارود کی قسم تک معلوم نہ کر سکی اور مشکوک گواہیوں اور غلط طریقے سے جمع کئے گئے شواہد پر انحصار کیا۔ یہ صرف اے ٹی ایس کی ناکامی نہیں بلکہ پورے نظام انصاف کی ناکامی ہے جس نے ملزمان اور ان کے خاندانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
ملک معتصم خان نے اس شدید ناانصافی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ افراد 19 سال جیل میں رہے جہاں ان پر تشدد ہوا اور انہیں نفسیاتی طور پر ہراساں کیا گیا، خود عدالت نے بھی ان باتوں کا مشاہدہ کیا ہے، بے قصور افراد کے خاندان بدنامی کا شکار ہوئے اوران کی زندگیاں تباہ ہو گئیں۔ انہون نے کہا کہ اب بجائے اس کے کہ حکومت ان مظلوموں کو انصاف دے اور ان کے نقصانات کا ازالہ کرے وہ سپریم کورٹ میں اپیل کر کے ایک ناقص اور بلاجواز فیصلہ کرنے جارہی ہے۔ اس طرح کے اقدام سے اصل مسئلہ پس پشت چلا جائے گا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 7/11 بم دھماکوں کے اصل مجرم اب بھی قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔ ان دھماکوں میں 189 افراد جاں بحق اور 800 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ متاثرین کے ساتھ انصاف کرے۔ ان دھماکوں میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے اہل خانہ کو انصاف اور سکون چاہیئے جو 19 سال بعد بھی میسر نہیں آسکا ہے۔ ہائی کورٹ کے 671 صفحات پر مشتمل فیصلے نے استغاثہ کی مکمل ناکامی کو ظاہر کر دیا ہے۔ اس کے بعد اب یہ سوال بدستور قائم ہے کہ اس خوفناک جرم کا اصل ذمہ دار کون ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ اپنا وقت اور وسائل سپریم کورٹ میں اپیل کرکے ضائع نہ کرے بلکہ دھماکوں کی ازسرنو اور سنجیدہ تفتیش کرے تاکہ اصل مجرموں کو گرفتار کیا جا سکے۔ یہی قانون کی بالادستی اور عوام کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ ملک معتصم خان نے عدالتی نظام میں اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 19 سال کے بعد بے قصوروں کی رہائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات کی تفتیش میں کتنی سنگین کوتاہیاں موجود ہیں۔