Islam Times:
2025-09-18@11:49:31 GMT

3 جون۔۔۔۔ تیرے قدموں کے نشاں دل میں ہیں

اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT

3 جون۔۔۔۔ تیرے قدموں کے نشاں دل میں ہیں

اسلام ٹائمز: ہر سال 3 جون کا دن ہمیں یہ سمجھانے کیلئے آتا ہے کہ اسلامی انقلاب ایک لمحہ نہیں، ایک مسلسل مکالمہ ہے۔ یہ مکالمہ عقل و روح کے درمیان، تقدیر و تدبیر کے مابین، ذات و کائنات کے اندر ہمیشہ جاری رہنا چاہیئے۔ اگر یہ مکالمہ جاری رہے گا تو یہ انقلاب ہر اس انسان کی فکری اور قلبی صدا ہے، جو ظلم سے بیزار اور حق کا متلاشی ہے۔ 3 جون کا سورج طلوع ہوتے ہی ہر صاحبِ ضمیر کو آواز دیتا ہے کہ اُٹھ! اور اپنے فہم کے مطابق اپنے اور مظلوموں کے حق کیلئے کھڑا ہو جا۔ وہ کشمیر ہو یا فلسطین، وہ یمن ہو یا قطیف۔۔۔ کہیں پر بھی پہلے دن علمی، فکری و شعوری انقلاب نہیں آتا، لیکن ہر علمی، فکری و شعوری انقلاب کا ایک پہلا دن ضرور ہوتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

ایرانی کیلنڈر کے مطابق 13 خرداد 1368 بمطابق 3 جون 1989ء کو حضرت امام خمینی ؒنے وصال فرمایا۔ تشیع و تدفین 16 خرداد بمطابق 6 جون کو ہوئی۔ تاریخ اُن لمحات کو فراموش کرنے سے عاجز ہے۔ ایسے لمحات محض زمان و مکان اور جذبات کے اتفاقات نہیں ہوتے۔ ایسے لمحات کو  کسی قوم، نسل یا مسلک سے بھی نہیں باندھا جا سکتا۔  3 جون کو ہر طرف پھیلنے والا غم و اندوہ کیا وہ محض ایک قومی تحرک تھا یا ایک عالمی صدائے فہم۔؟ ہم کبھی بھی 3 جون کے ظاہری مظاہر پر اکتفا نہیں کرسکتے۔ ہمیں حضرت امام خمینی ؒ کے تابوت کے پس منظر میں موجود ان تصوراتِ عقلیہ پر بھی غور کرنا ہوگا، جن کے بغیر شعور ممکن ہی نہیں۔ امام خمینیؒ کے وصال کے روز جو گریہ و آہ و بکا کی جو بھی صدا بلند ہوئی، کیا وہ فقط ایرانی انقلابیوں کی بازگشت تھی، یا وہ "نوائے دلِ عارف" تھی، جو ہر اس دل میں گونجتی ہے، جسے مظلوم سے محبت ہو۔ کیا حضرت امام خمینی ؒ کا انقلاب فقط ایرانیوں کیلئے ہی تھا اور اس وقت دنیا میں فقط ایرانی ہی مظلوم تھے۔؟

یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگوں نے اسلامی انقلاب کو فقط برانڈ بنا دیا ہے، جن لوگوں نے ایسا کرنے کی کوشش کی، انہوں نے دراصل اسلامی انقلاب کے مقصد کو صرف کسی مسلک، تنظیم، جغرافیئے یا طبقے تک محدود سمجھا ہے۔ یہی وہ طبقہ ہے، جس نے "انقلاب" کو ایک مفید تجارتی استعارہ بنا دیا۔ نعرے باقی ہیں، مگر نظریہ معدوم۔ ان کے ہاں "ولایت فقیہ" محض ایک ادارہ جاتی ضرورت ہے، نہ کہ وہ عارفانہ و حکیمانہ فکر جو عوامی شرکت، عدلِ اجتماعی اور تدبیرِ الٰہی پر مبنی ہو۔ ان کے نزدیک امامؒ ایک شخصیت ہیں، ایک تجریدی مرجع، نہ کہ ایک زندہ فکری تحریک۔ یہ وہ اذہان ہیں، جنہوں نے ہر اسلامی انقلاب کے معارف کو تعصب کی صلیب پر چڑھا رکھا ہے۔ اسلامی انقلاب ان کے نزدیک فقط ایک مکتب کی بات ہے۔ وہ یہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ امام خمینیؒ نے اپنے انقلاب سے کسی دوسرے مکتب کو نہیں بلکہ استعمار کو چیلنج کیا ہے۔ ایسے لوگوں کی سوچ نہ قابلِ عمل ہے اور  نہ ہی  اسلامی انقلاب کے اصولوں اصولوں سے ہم آہنگ۔

ایسے  افراد کی بھی کمی نہیں، جن کے قلوب میں امامؒ کی محبت تو ہے، مگر ان کی عقل اس محبت کے مغز تک رسائی نہیں رکھتی۔ ان کے لیے امامؒ ایک ولی ہیں، مگر ایسے لوگ ولایت کی شعوری اور تدبیری پرتوں سے اجنبی ہیں۔ وہ اسلامی انقلاب کی مالا تو جھپتے ہیں، مگر اس انتظار کی زمانی و مکانی آفاقیت کو سمجھے بغیر۔ وہ اسلامی انقلاب سے محض اقتدار کی تبدیلی تک آشنا ہیں۔ وہ اس فکری بیداری سے محروم ہیں کہ جس نے اسلامی دنیا کو عبادت گاہ سے نکال کر سوسائٹی، معیشت، سیاست اور عالمی دنیا کے دائرے میں منفرد حیثیت سے کھڑا کیا۔ وہ شعورِ انقلاب کہ جس نے بندگی کو صرف روحانی کیفیت نہیں، بلکہ ایک سماجی فریضہ قرار دیا۔ ایسا شعورِ انقلاب کہ جس نے رائےِ عامہ اور حاکمیتِ الٰہی کے درمیان وہ پل تعمیر کیا، جو انسان کے تصورِ خود مختاری اور اسلامی توحید کی وحدت  کا شہکار ہے۔

ایسا شعور جو ایک ایسی امت کی تشکیل کا داعی ہے، جو رنگ، نسل، مسلک، زبردستی بیعت اور جغرافیے سے آزاد ہے۔ ایسا شعورِ توحید کہ جو  وحدت کے بیج انسان کے اندر سے بوتا ہے اور ہر تفریق کو عبور کرکے ایک سماجی و سیاسی ہم آہنگی کو جنم دیتا ہے۔ ایسا شعورِ انقلاب کہ جو  مہدویت کو انتظارِ ساکت سے نکال کر عملِ متحرک میں بدل دیتا ہے۔ جو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ انتظار، اگر عمل نہ بنے، تو وسوسہ بن جاتا ہے۔ حضرت امام خمینی ؒ نے مزاحمت کے مفہوم کو محض عسکری جدوجہد نہیں، بلکہ علم، شعور، اخلاق اور تدبر کی شکل دی اور مظلوم انسانوں کو اپنے فہم سے استفادہ کرنے کی جرأت بخشی۔ انہوں نے انقلاب سے کسی کے علمی و فکری اختلاف کو انقلاب سے انکار نہیں سمجھا بلکہ تبیین اور مکالمے کے ذریعے تطہیرِ اذہان کا دروازہ کھلا رکھا۔ انہوں نے عملاً یہ سکھایا کہ وہ اختلاف جو دلیل، اخلاق اور گہری سوچ سے جنم لے، وہی انقلابی ارتقاء کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

ہر سال 3 جون کا دن ہمیں یہ سمجھانے کیلئے آتا ہے کہ اسلامی انقلاب ایک لمحہ نہیں، ایک مسلسل مکالمہ ہے۔ یہ مکالمہ عقل و روح کے درمیان، تقدیر و تدبیر کے مابین، ذات و کائنات کے اندر ہمیشہ جاری رہنا چاہیئے۔ اگر یہ مکالمہ جاری رہے گا تو یہ انقلاب ہر اس انسان کی فکری اور قلبی صدا ہے، جو ظلم سے بیزار اور حق کا متلاشی ہے۔ 3 جون کا سورج طلوع ہوتے ہی ہر صاحبِ ضمیر کو آواز دیتا ہے کہ اُٹھ! اور اپنے فہم کے مطابق اپنے اور مظلوموں کے حق کے لیے کھڑا ہو جا۔ وہ کشمیر ہو یا فلسطین، وہ یمن ہو یا قطیف۔۔۔ کہیں پر بھی پہلے دن علمی، فکری و شعوری انقلاب نہیں آتا، لیکن ہر علمی، فکری و شعوری انقلاب کا ایک پہلا دن ضرور ہوتا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فکری و شعوری انقلاب اسلامی انقلاب انقلاب سے ایسا شعور یہ مکالمہ دیتا ہے جون کا

پڑھیں:

عرب اسلامی سربراہ اجلاس!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

250917-03-3

 

9 ستمبر کو دوحا پر اسرائیلی حملے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر قطر کے دارالحکومت میں ہونے والا عرب اسلامی سربراہ اجلاس حسب ِ توقع، نشستند، گفتند، برخواستند ثابت ہوا۔ 15 ستمبر کو منعقد ہونے والا عرب اسلامی سربراہ اجلاس عرب شیوخ کی جھاگ اُڑاتی تقریروں، مسلم حکمرانوں کی شعلہ بیانی، لقلقہ لسانی، اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی حسرتِ ناتمام اور ایک مردہ اعلامیے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اجلاس میں قطر پر اسرائیلی حملے کی مذمت اور قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اعلان کیا گیا۔ اجلاس سے قبل عرب اور اسلامی وزرائے خارجہ کا اجلاس بھی ہوا جس میں حملے کو اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی قراردیا گیا۔ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد اَل ثانی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے 25 نکاتی مشترکہ اعلامیے میں سوائے مذمت اور مطالبات کے کچھ بھی نہیں، یہ اجلاس نہ امت مسلمہ کے احساسات و جذبات کا ترجمان ثابت ہوا نہ ہی نہتے مظلوم فلسطینیوں کے دکھوں کا مداوا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ 25 نکات پر مشتمل مشترکہ اعلامیے میں کہیں بھی کھل کر غزہ پر اسرائیل جارحیت اور قتل وغارت گری کی مذمت نہیں کی گئی اور نہ ہی حماس اور غزہ کے دیگر مزاحمت کاروں سے یکجہتی کا اظہار کیا گیا، انتہائی مبہم انداز میں صرف اتنا کہا گیا کہ: ’’اسرائیلی پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہیں جنہوں نے فلسطینی عوام کے خلاف انسانی تباہی کا ایک ناقابل یقین منظر پیش کیا ہے‘‘۔ اعلامیے میں نیو یارک ڈیکلریشن کی حمایت کی گئی جس کے تحت دو ریاستی حل کا فارمولا پیش کیا گیا تھا، اعلامیے میں امریکا کی ثالثی کی کوششوں کی بھی تعریف کی گئی۔ یہ اْس اجلاس کا حال ہے جس کے انعقاد سے قبل یہ امید کی جارہی تھی کہ دنیا بھر کے مسلم حکمران اب اسرائیل کے دانت کھٹے کردیں گے، مبصرین بھی یہ خیال کیے بیٹھے تھے کہ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد وہ اسرائیل کے خلاف فیصلہ کن ردِعمل دیں گے، مگر نتیجہ! وہی ڈھاک کے تین پات۔ حقیقت یہ ہے کہ وہن کے مرض میں مبتلا ان حکمرانوں سے غیرت و حمیت کی توقع کارِ عبث کے سوا کچھ نہیں، ان کا حال اس الہامی حقیقت کا ترجمان ہے کہ ’’انہیں دیکھو تو اِن کے جْثّے تمہیں بڑے شاندار نظر آئیں۔ بولیں تو تم ان کی باتیں سْنتے رہ جاؤ۔ مگر اصل میں یہ گویا لکڑی کے کْندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چْن کر رکھ دیے گئے ہوں‘‘۔ اجلاس میں غزہ میں جاری اسرائیل درندگی کے سدباب، اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدام اور شام، یمن، ایران، لبنان اور قطر میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف کوئی عملی ٹھوس، سنجیدہ اور ممکنہ اقدامات کا اعلان نہیں کیا۔ آج شہر ِ تہذیب کے پیچ چوراہے پر اسرائیلی درندگی کا برہنہ رقص جاری ہے اور مسلم حکمران منہ کھولے ہونقوں کی طرح اس پر محو ِ تماشا ہیں۔ حماس مزاحمت کی وہ آخری دیوار ہے جو خاکم بدہمن زمیں بوس ہوئی تو اسرائیل جنگلی بھینسے کی طرح ڈکراتا ہوا عرب ریاستوں کی آزادی اور خودمختاری کو روند ڈالے گا، اس حقیقت ادارک جنتی جلد ممکن ہو کر لینا چاہیے اور اس طوفانِ بلاخیر کا راستہ روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات اقدامات اٹھانے چاہییں، خالی خولی زبانی دعوؤں، مذمت، قرارداد اور مطالبات سے کبھی بھی جارح کے آگے بند نہیں باندھا جاسکتا، جارح صرف آہنی پنجوں کا احترام ہی جانتا ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی جاسوس، خیانت سے تختہ دار تک
  • اسلامی کانفرنس ’’اب کے مار کے دیکھ‘‘
  • ڈھاکا یونیورسٹی میں انقلاب کی نوید
  • عرب اسلامی سربراہ اجلاس!
  • میئر کراچی کی گھن گرج!
  • انقلاب – مشن نور
  • بے حیائی پر مبنی پروگرامات کی تشہیر قابل مذمت ، ان کا مقصد ن نوجوان نسل کو گمراہ کرنا ہے‘ جاوید قصوری
  • چالیس ممالک کی افواج اور ایک اسرائیل
  • ٹک ٹاک سے انقلاب نہیں آتے، اگر آتے تو عمران خان آج جیل میں نہ ہوتے،علی امین گنڈاپور
  • ہم ہرگز یورپ کو اسنیپ بیک کا استعمال نہیں کرنے دینگے، محمد اسلامی