3 جون۔۔۔۔ تیرے قدموں کے نشاں دل میں ہیں
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ہر سال 3 جون کا دن ہمیں یہ سمجھانے کیلئے آتا ہے کہ اسلامی انقلاب ایک لمحہ نہیں، ایک مسلسل مکالمہ ہے۔ یہ مکالمہ عقل و روح کے درمیان، تقدیر و تدبیر کے مابین، ذات و کائنات کے اندر ہمیشہ جاری رہنا چاہیئے۔ اگر یہ مکالمہ جاری رہے گا تو یہ انقلاب ہر اس انسان کی فکری اور قلبی صدا ہے، جو ظلم سے بیزار اور حق کا متلاشی ہے۔ 3 جون کا سورج طلوع ہوتے ہی ہر صاحبِ ضمیر کو آواز دیتا ہے کہ اُٹھ! اور اپنے فہم کے مطابق اپنے اور مظلوموں کے حق کیلئے کھڑا ہو جا۔ وہ کشمیر ہو یا فلسطین، وہ یمن ہو یا قطیف۔۔۔ کہیں پر بھی پہلے دن علمی، فکری و شعوری انقلاب نہیں آتا، لیکن ہر علمی، فکری و شعوری انقلاب کا ایک پہلا دن ضرور ہوتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
ایرانی کیلنڈر کے مطابق 13 خرداد 1368 بمطابق 3 جون 1989ء کو حضرت امام خمینی ؒنے وصال فرمایا۔ تشیع و تدفین 16 خرداد بمطابق 6 جون کو ہوئی۔ تاریخ اُن لمحات کو فراموش کرنے سے عاجز ہے۔ ایسے لمحات محض زمان و مکان اور جذبات کے اتفاقات نہیں ہوتے۔ ایسے لمحات کو کسی قوم، نسل یا مسلک سے بھی نہیں باندھا جا سکتا۔ 3 جون کو ہر طرف پھیلنے والا غم و اندوہ کیا وہ محض ایک قومی تحرک تھا یا ایک عالمی صدائے فہم۔؟ ہم کبھی بھی 3 جون کے ظاہری مظاہر پر اکتفا نہیں کرسکتے۔ ہمیں حضرت امام خمینی ؒ کے تابوت کے پس منظر میں موجود ان تصوراتِ عقلیہ پر بھی غور کرنا ہوگا، جن کے بغیر شعور ممکن ہی نہیں۔ امام خمینیؒ کے وصال کے روز جو گریہ و آہ و بکا کی جو بھی صدا بلند ہوئی، کیا وہ فقط ایرانی انقلابیوں کی بازگشت تھی، یا وہ "نوائے دلِ عارف" تھی، جو ہر اس دل میں گونجتی ہے، جسے مظلوم سے محبت ہو۔ کیا حضرت امام خمینی ؒ کا انقلاب فقط ایرانیوں کیلئے ہی تھا اور اس وقت دنیا میں فقط ایرانی ہی مظلوم تھے۔؟
یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگوں نے اسلامی انقلاب کو فقط برانڈ بنا دیا ہے، جن لوگوں نے ایسا کرنے کی کوشش کی، انہوں نے دراصل اسلامی انقلاب کے مقصد کو صرف کسی مسلک، تنظیم، جغرافیئے یا طبقے تک محدود سمجھا ہے۔ یہی وہ طبقہ ہے، جس نے "انقلاب" کو ایک مفید تجارتی استعارہ بنا دیا۔ نعرے باقی ہیں، مگر نظریہ معدوم۔ ان کے ہاں "ولایت فقیہ" محض ایک ادارہ جاتی ضرورت ہے، نہ کہ وہ عارفانہ و حکیمانہ فکر جو عوامی شرکت، عدلِ اجتماعی اور تدبیرِ الٰہی پر مبنی ہو۔ ان کے نزدیک امامؒ ایک شخصیت ہیں، ایک تجریدی مرجع، نہ کہ ایک زندہ فکری تحریک۔ یہ وہ اذہان ہیں، جنہوں نے ہر اسلامی انقلاب کے معارف کو تعصب کی صلیب پر چڑھا رکھا ہے۔ اسلامی انقلاب ان کے نزدیک فقط ایک مکتب کی بات ہے۔ وہ یہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ امام خمینیؒ نے اپنے انقلاب سے کسی دوسرے مکتب کو نہیں بلکہ استعمار کو چیلنج کیا ہے۔ ایسے لوگوں کی سوچ نہ قابلِ عمل ہے اور نہ ہی اسلامی انقلاب کے اصولوں اصولوں سے ہم آہنگ۔
ایسے افراد کی بھی کمی نہیں، جن کے قلوب میں امامؒ کی محبت تو ہے، مگر ان کی عقل اس محبت کے مغز تک رسائی نہیں رکھتی۔ ان کے لیے امامؒ ایک ولی ہیں، مگر ایسے لوگ ولایت کی شعوری اور تدبیری پرتوں سے اجنبی ہیں۔ وہ اسلامی انقلاب کی مالا تو جھپتے ہیں، مگر اس انتظار کی زمانی و مکانی آفاقیت کو سمجھے بغیر۔ وہ اسلامی انقلاب سے محض اقتدار کی تبدیلی تک آشنا ہیں۔ وہ اس فکری بیداری سے محروم ہیں کہ جس نے اسلامی دنیا کو عبادت گاہ سے نکال کر سوسائٹی، معیشت، سیاست اور عالمی دنیا کے دائرے میں منفرد حیثیت سے کھڑا کیا۔ وہ شعورِ انقلاب کہ جس نے بندگی کو صرف روحانی کیفیت نہیں، بلکہ ایک سماجی فریضہ قرار دیا۔ ایسا شعورِ انقلاب کہ جس نے رائےِ عامہ اور حاکمیتِ الٰہی کے درمیان وہ پل تعمیر کیا، جو انسان کے تصورِ خود مختاری اور اسلامی توحید کی وحدت کا شہکار ہے۔
ایسا شعور جو ایک ایسی امت کی تشکیل کا داعی ہے، جو رنگ، نسل، مسلک، زبردستی بیعت اور جغرافیے سے آزاد ہے۔ ایسا شعورِ توحید کہ جو وحدت کے بیج انسان کے اندر سے بوتا ہے اور ہر تفریق کو عبور کرکے ایک سماجی و سیاسی ہم آہنگی کو جنم دیتا ہے۔ ایسا شعورِ انقلاب کہ جو مہدویت کو انتظارِ ساکت سے نکال کر عملِ متحرک میں بدل دیتا ہے۔ جو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ انتظار، اگر عمل نہ بنے، تو وسوسہ بن جاتا ہے۔ حضرت امام خمینی ؒ نے مزاحمت کے مفہوم کو محض عسکری جدوجہد نہیں، بلکہ علم، شعور، اخلاق اور تدبر کی شکل دی اور مظلوم انسانوں کو اپنے فہم سے استفادہ کرنے کی جرأت بخشی۔ انہوں نے انقلاب سے کسی کے علمی و فکری اختلاف کو انقلاب سے انکار نہیں سمجھا بلکہ تبیین اور مکالمے کے ذریعے تطہیرِ اذہان کا دروازہ کھلا رکھا۔ انہوں نے عملاً یہ سکھایا کہ وہ اختلاف جو دلیل، اخلاق اور گہری سوچ سے جنم لے، وہی انقلابی ارتقاء کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
ہر سال 3 جون کا دن ہمیں یہ سمجھانے کیلئے آتا ہے کہ اسلامی انقلاب ایک لمحہ نہیں، ایک مسلسل مکالمہ ہے۔ یہ مکالمہ عقل و روح کے درمیان، تقدیر و تدبیر کے مابین، ذات و کائنات کے اندر ہمیشہ جاری رہنا چاہیئے۔ اگر یہ مکالمہ جاری رہے گا تو یہ انقلاب ہر اس انسان کی فکری اور قلبی صدا ہے، جو ظلم سے بیزار اور حق کا متلاشی ہے۔ 3 جون کا سورج طلوع ہوتے ہی ہر صاحبِ ضمیر کو آواز دیتا ہے کہ اُٹھ! اور اپنے فہم کے مطابق اپنے اور مظلوموں کے حق کے لیے کھڑا ہو جا۔ وہ کشمیر ہو یا فلسطین، وہ یمن ہو یا قطیف۔۔۔ کہیں پر بھی پہلے دن علمی، فکری و شعوری انقلاب نہیں آتا، لیکن ہر علمی، فکری و شعوری انقلاب کا ایک پہلا دن ضرور ہوتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فکری و شعوری انقلاب اسلامی انقلاب انقلاب سے ایسا شعور یہ مکالمہ دیتا ہے جون کا
پڑھیں:
امام خمینیؒ نے امت مسلمہ کو طاقتور بننے کا راستہ دکھایا، علامہ مقصود ڈومکی
کوئٹہ میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ امام خمینیؒ کی انقلابی فکر نے اسلامی جمہوریہ ایران کو اتنا مضبوط کر دیا کہ آج امریکہ اور اسرائیل اس پر حملہ کرنے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری نشر و اشاعت علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ دین اسلام نے اہل حق اہل ایمان کو طاقت کے حصول کا حکم دیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے "اور دشمن کے مقابلے میں جتنی طاقت جمع کر سکتے ہو، کرو۔" ایسی طاقت حاصل کرو کہ دشمن تم سے خوفزدہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینیؒ اللہ کی طاقت پر کامل یقین رکھتے تھے، اسی لیے وہ امریکہ، اسرائیل اور عالمی استعمار سے خوفزدہ نہیں تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ "امریکہ ھیچ غلطی نمی تواند بکند" یعنی امریکہ کوئی غلط قدم نہیں اٹھا سکتا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بانی انقلاب اسلامی، رہبر کبیر حضرت امام خمینیؒ کی 36ویں برسی کی مناسبت پر منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران کوئٹہ کے زیر اہتمام "اقتدار امام خمینی کی نگاہ میں" کے عنوان سے کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے اس موقع پر کہا کہ امام خمینیؒ نے امت مسلمہ کو طاقتور بننے کا راستہ دکھایا۔ اللہ کی ذات کے بعد آپ نے ہمیشہ عوامی طاقت پر بھروسہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ آپ کا یہ تاریخی جملہ ’’میزان، رائے ملت است‘‘ یعنی "پیمانہ ملت کی رائے ہے"، آج بھی اسلامی جمہوریہ کی سیاست کی بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینیؒ نے اسلامی افواج کو طاقتور دیکھنا چاہا۔ فلسطین کے نہتے مجاہدین، جن کے ہاتھوں میں صرف پتھر اور غلیل تھے، انہی کے ہاتھوں میں رائفل، میزائل اور راکٹ لانچر دیئے تاکہ وہ اسرائیل جیسے غاصب کے مقابلے میں ڈٹ سکیں۔ امام خمینیؒ کی انقلابی فکر نے اسلامی جمہوریہ ایران کو اتنا مضبوط کر دیا کہ آج امریکہ اور اسرائیل اس پر حملہ کرنے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں۔ علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ اقتدار اور طاقتور دفاع کی تازہ مثال ہمیں وطن عزیز پاکستان میں دیکھنے کو ملی، جب بھارتی وزیراعظم مودی نے طاقت کے نشے میں پاکستان پر حملہ کیا، تو پاک فضائیہ کے بہادر جوانوں نے بھارتی جہازوں کو سرنگوں کرکے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا۔ اگر پاکستان کا دفاع کمزور ہوتا تو دشمن مزید حملوں کا مرتکب ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینیؒ کی فکر آج بھی دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے امید کا چراغ ہے، اور امت مسلمہ کو چاہئے کہ وہ اپنے دفاع، معیشت، سیاست اور ٹیکنالوجی میں خودکفالت حاصل کرے تاکہ عالم کفر کے سامنے اپنا سر بلند رکھ سکے۔