بلیو اکانومی ترقی، روزگار اور ماحول کے تحفظ کا پائیدار حل ہے۔حکومت خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تعاون سے بلیو اکانومی کو فروغ دے رہی ہے۔سی فوڈ برآمدات سے سالانہ پینتالیس کروڑ ڈالر جبکہ بحری سیاحت سے تیس کروڑ ڈالرز رمبادلہ حاصل ہوا ہے۔ایس آئی ایف سی کی معاونت سے بلیو اکانومی پالیسی کی فوری تکمیل کی ہدایت جاری، بلیو اکانومی سے سالانہ 100 ارب ڈالر تک آمدن متوقع ہے۔پاکستان کی بحری معیشت کا جی ڈی پی میں حصہ صرف 0.

4 فیصد تک محدود ہے،ماہی گیری، بحری سیاحت و نقل و حمل کا بحری معیشت کی آمدن میں بنیادی کردار ہے

سی فوڈ کی برآمدات سے سالانہ 450 ملین ڈالر جبکہ بحری سیاحت سے 300 ملین ڈالر زرمبادلہ موصول ہوا۔ماہی گیری، آبی زراعت، بحری سیاحت و نقل و حمل میں 34 ارب ڈالر سالانہ آمدن کی صلاحیت موجود ہے۔وفاقی وزیر بحری امور جنیدانوار چوہدری نے کہا کہ بلیو اکانومی صرف مستقبل کی نہیں، آج کی معاشی ترجیح ہے۔ایس آئی ایف سی کے تعاون سے حکومت ملک کے معاشی استحکام کے لیے کوشاں ہے۔

اشتہار

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: بلیو اکانومی بحری سیاحت

پڑھیں:

حکومت سیلاب متاثرین کے لیے عالمی امداد کی اپیل کیوں نہیں کر رہی؟

ملک بھر میں مون سون بارشوں کے بعد 26 جون سے اب تک آنے والے سیلاب نے بڑی تباہی مچائی ہے۔ اب تک 998 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، پنجاب میں 5 لاکھ ایکڑ زرعی زمین متاثر ہوئی ہے۔

اسی طرح فصلوں کو بھاری نقصان پہنچا ہے، جبکہ گھر اور سڑکیں بھی شدید متاثر ہوئے ہیں، مجموعی نقصان کا تخمینہ 409 ارب روپے یعنی تقریباً 1.4 ارب ڈالر لگایا جا رہا ہے۔

اس سب کے باوجود حکومت نے تاحال بین الاقوامی اداروں اور دوست ممالک سے امداد کی اپیل نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب متاثرین کے لیے وفاق کو فوری فلیش اپیل کرنی چاہیے، وزیراعلیٰ سندھ

وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ پیپلز پارٹی کے مطالبے کے باوجود حکومت نے ابھی تک امداد کی اپیل کیوں نہیں کی ہے۔

وفاقی وزیر ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے فی الحال بین الاقوامی امداد کی اپیل کا فیصلہ نہیں کیا۔ ان کے مطابق 2022 میں آنے والے سیلاب کے بعد امداد کی اپیل کی گئی تھی مگر اس کا تجربہ زیادہ مثبت نہیں رہا تھا۔

’اس وقت امداد کم ملی تھی جبکہ زیادہ تر مالی مدد آسان قرضوں کی صورت میں دی گئی تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ فی الحال نقصانات کا مکمل تخمینہ نہیں لگایا جا سکا، اور جب تک تخمینہ مکمل نہیں ہوتا، امداد کی اپیل نہیں کی جا سکتی۔

ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی حکومت کی اتحادی ہے اور اس کے مطالبے کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔

’حکومت کوئی بھی فیصلہ اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے ہی کرے گی۔‘

مزید پڑھیں: بھارت کی آبی جارحیت: پنجاب میں پھر سیلابی صورت حال، جلال پور پیر والا شہر خالی کرنے کا حکم

پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمان نے سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے اپیل میں تاخیر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو منی بجٹ پر بحث کے بجائے عالمی امداد کے موجودہ ذرائع کو متحرک کرنا چاہیے۔

’۔۔۔جیسا کہ 2022 میں کیا گیا تھا، پاکستان کو اقوام متحدہ سے ہنگامی بنیادوں پر مدد کی اپیل کرنی چاہیے تاکہ متاثرہ خاندانوں کو فوری ریلیف فراہم کیا جا سکے۔‘

واضح رہے کہ 2022 کے سیلاب کے بعد جنوری 2023 میں جینیوا ڈونرز کانفرنس کے دوران حکومت پاکستان کی اپیل پر مجموعی طور پر 9 ارب ڈالر کی امداد کے وعدے کیے گئے تھے۔

ان میں اسلامی ترقیاتی بینک کے 4.2 ارب ڈالر، ورلڈ بینک کے 2 ارب ڈالر اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے 1.5 ارب ڈالر کے وعدے شامل تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اتحادی پیپلز پارٹی ڈاکٹر طارق فضل چوہدری شیری رحمان مجموعی نقصان کا تخمینہ منی بجٹ

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ: 2026 کے مجوزہ بجٹ میں اصلاحات اور 500 ملین ڈالر کٹوتیاں
  • حکومت سیلاب متاثرین کے لیے عالمی امداد کی اپیل کیوں نہیں کر رہی؟
  • پولینڈ اور پاکستان میں تیل و گیس کے شعبے میں 100 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری میں اضافہ متوقع
  • اسپین نے اسرائیل سے 825 ملین ڈالر کا اسلحہ معاہدہ منسوخ کردیا
  • اسپین کا بڑا فیصلہ: اسرائیل کے ساتھ 825 ملین ڈالر کا اسلحہ معاہدہ منسوخ
  • پنجاب حکومت نے ہڑپہ میوزیم میں چار نئی گیلریوں کا افتتاح کر دیا
  • بیرون ممالک جانے والے پاکستانیوں کیلئے بری خبر، بڑی وجہ سامنے آگئی
  • حکومت سیلاب اور ہنگامی صورتحال میں ہرممکن ریلیف کی فراہمی کیلیے کوشاں ہے، شرجیل میمن
  • اسپین نے اسرائیل کے ساتھ 825 ملین ڈالر کے اسلحہ معاہدے منسوخ کر دیے
  • صدر مملکت اور وزیراعظم کا جمہوری اقدار کے تحفظ اور فروغ کا عزم