پی ٹی آئی پیٹرن انچیف کا کیس غلطی سے مقرر ہونے کے بعد کاز لسٹ سے خارج کر دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
---فائل فوٹوز
اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی پیٹرن انچیف سے ملاقاتیں نہ کروانے پر توہینِ عدالت کا کیس غلطی سے مقرر ہونے کے باعث آج کی کاز لسٹ سے نکال دیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق کیس غلطی سے مقرر ہو گیا تھا۔
یاد رہے کہ پیٹرن انچیف، عمران خان کے فوکل پرسن نیازاللّٰہ نیازی نے 24 مارچ کے عدالتی آرڈر پر عمل نہ کرنے پر توہینِ عدالت کی درخواست دائر کر رکھی ہے جس کی قائم مقام چیف سرفراز ڈوگر کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کرنی تھی۔
جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس محمد آصف بھی بینچ کا حصہ تھے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
وقف بل کے حوالے سے مودی حکومت کا اقدام عدالت کی توہین ہے، مسلم پرسنل لاء بورڈ
بورڈ کا دعویٰ ہے کہ اسطرح کا اقدام پورٹل کی بنیاد کے طور پر توہین عدالت کو تشکیل دیتا ہے یعنی وقف قانون سازی کی توثیق عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے 6 جون سے وقف امید پورٹل کو چلانے کے مودی حکومت کے اقدام پر اعتراض جتایا ہے۔ لاء بورڈ نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی بات کہی ہے۔ پریس بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ مودی حکومت کا یہ اقدام غیر قانونی ہے اور یہ توہین عدالت کے مترادف ہے کیونکہ اس کی حمایت کرنے والا قانون وقف ترمیمی ایکٹ فی الحال سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا کہ وہ توہین عدالت کی عرضی داخل کرکے حکومتی اقدام کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی۔ بورڈ کے مطابق تمام مسلم تنظیموں نے اس قانون کی مخالفت کی ہے اور اس پر اپوزیشن جماعتوں، انسانی حقوق کے گروپوں اور اقلیتی برادریوں بشمول سکھ اور عیسائی اداروں کی جانب سے بھی تنقید کی گئی ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے الزام لگایا کہ سپریم کورٹ میں معاملہ زیر التوا ہونے کے باوجود حکومت نے پورٹل کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے ذریعے وقف املاک کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ بورڈ کا دعویٰ ہے کہ اس طرح کا اقدام پورٹل کی بنیاد کے طور پر توہین عدالت کو تشکیل دیتا ہے یعنی وقف قانون سازی کی توثیق عدالت میں زیر سماعت ہے۔ پریس نوٹ میں مسلمانوں اور ریاستی وقف بورڈ سے مزید اپیل کی گئی ہے کہ جب تک سپریم کورٹ اپنا فیصلہ نہیں سناتی اس پورٹل کا استعمال کرنے سے گریز کریں۔ کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت دی تھی کہ اس قانون میں متنازعہ دفعات کو اس وقت تک لاگو نہیں کیا جائے گا جب تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہو جاتا لیکن اس دوران حکومت 6 جون سے وقف امید پورٹل شروع کرنے جا رہی ہے، جس کے بارے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سربراہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے پریس نوٹ میں کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے پیش کردہ وقف ترمیمی ایکٹ فی الحال سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
سپریم کورٹ نے صرف دو ہفتے قبل وقف ترمیمی ایکٹ پر روک لگانے کی درخواستوں کے بیچ میں اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ نے عبوری ریلیف پر اپنا حکم محفوظ رکھنے سے پہلے تین دن تک تمام فریقین کے دلائل سنے تھے۔ ترمیمی ایکٹ کو 5 اپریل کو صدارتی منظوری ملی تھی۔ نئے قانون نے وقف املاک کے ضابطے کو حل کرنے کے لئے 1995ء کے وقف ایکٹ میں ترمیم کی جو اسلامی قانون کے تحت خصوصی طور پر مذہبی یا خیراتی مقاصد کے لئے وقف کی گئی ہیں۔ کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ محمد جاوید اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی سمیت ترمیم کے جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کا ایک بیچ سپریم کورٹ میں داخل کیا گیا تھا۔ اس طرح کی مزید درخواستیں آنے والے دنوں میں سامنے آئیں۔ درخواست گزاروں نے عدالت سے رجوع کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہے۔ درخواست گزاروں کے مطابق ترامیم مسلمانوں کے مذہبی اوقاف کو منتخب طور پر نشانہ بناتی ہیں اور کمیونٹی کے اپنے مذہبی معاملات کو سنبھالنے کے آئینی طور پر محفوظ حق میں مداخلت کرتی ہیں۔