لبّیک اللّھمّ لبّیک۔۔۔۔۔۔۔ !
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
حضرت ابُوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
’’جو شخص اﷲ تعالیٰ کے لیے حج کرے اور اس میں بُری باتیں اور بُرے کام نہ کرے تو وہ حج کرکے اسی طرح لوٹتا ہے گویا کہ آج اس کی ماں نے اسے جنا۔‘‘ (متفق علیہ)
حج کی حقیقت ہی یہی ہے کہ خدا کی رحمتوں اور برکتوں کے نازل ہونے کی جگہ میں حاضری دینا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اﷲ کی دعوت پر لبیک کہنا اور اس عظیم الشان قربانی کی روح کو زندہ کرنا، ابراہیمؑ و اسمٰعیلؑ جیسی برگزیدہ بندوں کی پیروی کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کے حکم کے سامنے تسلیم و رضا، فرماں برداری اور اطاعت کے ساتھ اپنی گردن جھکا دینا۔ اور اس بندگی کے طریقے کو اسی طرح بجالانا جس طرح وہ ہزاروں برس پہلے بجا لائے اور خدائی نوازشوں اور بخششوں سے مالا مال ہوئے، یہی ملت ابراہیمی اور یہی حقیقی اسلام ہے، یہی روح اور یہی باطنی احساس ہے جس کو حاجی حضرات ان برگزیدہ بندوں کے مقدس اعمال کو اپنے جسم پر سجا کر ظاہر کرتے ہیں۔
اسی ابتدائی دور کی طرح بغیر سلے ہوئے کپڑے پہنتے ہیں، اپنے بدن اور سر کے بال نہ منڈواتے ہیں نہ کٹواتے ہیں، نہ خوش بُو لگاتے ہیں، نہ رنگین کپڑے پہنتے ہیں، نہ سر ڈھانپتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اﷲ میں حاضر ہوکر پکارا، مفہوم: ’’میں حاضر ہوں۔ اے اﷲ میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ سب خوبیاں اور سب نعمتیں تیری ہی ہیں اور سلطنت تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘
آج ان تمام حاجیوں کے زبانوں پر وہی تین چار ہزار سال پہلے کے کلمات جاری ہوجاتے ہیں۔ یہ توحید کی صدا ان تمام مقامات اور بلند گھاٹیوں میں بلند کرتے ہیں جہاں ان دونوں نیک بندوں کے نقش قدم زمین پر پڑے۔ پھر اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ محترمہ ہاجرہ نے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کے درمیان چکر لگائے آج حاجی وہاں سعی کرتے ہیں، چلتے ہیں اور مخصوص جگہ میں دوڑتے ہیں، دعا کرتے ہیں اور گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں۔
عرفات کے بڑے میدان میں جمع ہوکر اپنی گذشتہ عمر کے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی چاہتے ہیں، خدا کے حضور گڑگڑاتے اور روتے ہیں، اپنے قصور معاف کرواتے ہیں، اور وہاں وعدہ کرتے ہیں آئندہ زندگی میں اﷲ کی اطاعت و فرماں برداری کا عہد کرتے ہیں۔ اسی وقوف عرفات کو حج کا بنیادی رکن کہتے ہیں، یہ تاریخی میدان دعا کے مقامات، لاکھوں بندگان خدا کا ایک وحدت کے رنگ میں ایک لباس، ایک ہی جذبے میں سرشار، ایک بے آب و گیاہ ، خشک میدان، پہاڑوں کے درمیان دعا و مغفرت کی پکار گذشتہ عمر کی کوتاہیوں اور بربادیوں پر آہ و زاری، اپنی بدکاریوں کا اقرار، بڑے بڑے شقی القلب لوگوں کے دل موم کی طرح پگھلنے لگتے ہیں۔
پھر اس پاکیزگی کے بعد یہ احساس کہ یہی وہ مقام ہے جہاں ابراہیم علیہ السلام سے لے کر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تک بہت سے انبیائے کرامؑ اسی حالت اور اسی صورت میں اسی جگہ کھڑے ہوئے تھے۔ ایسا روحانی منظر، ایسا کیف، ایسا اثر، ایسا گداز، ایسی تاثیر پیدا کرتا ہے جس کی مٹھاس روح اور جسم کی ہر تار اور نس میں رچ بس جاتی ہے۔ پھر حاجی قربانی کرتے ہیں۔ ارشاد نبوی ﷺ کے مطابق اپنے باپ ابراہیمؑ کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔
اور پھر یہ کہتے ہیں، مفہوم: ’’میں نے موحد بن کر ہر طرف سے منہ موڑ کر اس کی طرف منہ کیا، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں۔‘‘ (الانعام)
پھر حاجی یہ اقرار کرتا ہے، مفہوم: ’’میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اﷲ کے لیے ہے جو تمام دنیا کا پروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور یہی حکم مجھے ہُوا ہے، اور میں سب سے پہلے فرماں برداری کا اقرار کرتا ہوں۔‘‘ (الانعام)
حج بیت اﷲ کی ان تمام کیفیات کو سمیٹ کر لانے والا یقیناً ارشاد نبوی ﷺ کے مطابق ایسا ہوتا ہے گویا ابھی جنم لیا۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں حج بیت اﷲ کرنے کی سعادت اور پھر اس کی برکات سے مستفیض فرمائے۔ آمین
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: علیہ السلام کرتے ہیں ہیں اور اور اس
پڑھیں:
رحمان بابا،جن کے افکار ہر زمانے کیلئے مشعل راہ ہیں
صدیاں گزرگئیں ہزاروں موسم بیت چکے،کئی سماجی،تہذہبی اور سیاسی انقلابات آئے لیکن شاعر انسانیت حضرت عبدالرحمان بابا کے فکر کا جو سوتا سماجی حقیقت نگاری،تاریخی وتہذیبی شعور،ادراک،جذبات اور احساسات سے پھوٹا تھا وہ آج بھی اسی طرح صاف وشفاف شکل میں بہہ رہا ہے۔
اگر چہ اس طویل عرصے میں ہزارہا تاریخی،معاشرتی،سیاسی،ادبی اور تہذیبی تبدیلیاں رونما ہوئیں زمانے نے کئی کروٹیں بدلیں اور دنیا کیا سے کیا ہوگئی لیکن کوئی انقلاب کوئی بھی تہذیب و سیاست رحمان بابا کے کلام کی اپنی جو خاصیت،انفرادیت،اہمیت اور ضرورت ہے اس میں ذرہ بھر کمی نہیں کرسکی بلکہ یہ مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے تو وقت و حالات کے ساتھ رحمان بابا ایک حقیقی اور سچے کلاسیک شاعر کے طور پر نئے نئے رنگ اور نئی نئی شکل میں سامنے مزید نمایاں ہو رہے ہیں۔
ان کے افکار ہمیں محبت،امن،دوستی بھائی چارے،رواداری اور انصاف کی شاہراہوں پر برابر آگے کی طرف بڑھنے کی تلقین کرتے ہیں اور مسلسل جدوجہد کی تحریک دیتے ہیں۔ رحمان بابا کی شاعری میں جو دل موہ لینے والی شاعرانہ کشش اور کیفیت پائی جاتی ہے اس نے آج ایک دنیا کو اپنا اسیر اور گرویدہ بنایا ہوا ہے۔اور یہی ان کے کلام کا سب سے بڑا اعجاز ہے جیسا کہ وہ خود اپنی شاعری کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
چہ منکر پرے اعتراض کولے نہ شی
دا دے شعر رحمانہ کہ اعجاز
مفہوم۔جب کوئی منکر بھی اس پر اعتراض نہیں کرسکتا، اے رحمان! آپ کا شعر ہے یا کہ اعجاز(معجزہ)۔اور یہ معجزہ وہ جو خون جگر سے نمود پاتا ہے جس کا ذکر علامہ اقبال نے بھی کیا ہے کہ’’معجزہ فن کی ہے، خون جگر سے نمود‘‘۔رحمان بابا جنہیں شاعر انسانیت اور پشتو کا حافظ شیرازی کہا جاتا ہ، اپنے مخلصانہ، عارفانہ اور عشقیہ کلام کی بدولت عام و خاص بچوں بوڑھوں اور خواتین میں یکساں مقبول اور پسند کیے جاتے ہیں۔
جو عقیدت و حترام اور ادبی اعتبار کا رشتہ پختونوں کا رحمن بابا سے قائم ہے وہ رشتہ اور اعتماد اپنے کسی دوسرے شاعر سے نہیں رکھتے۔ رحمان بابا کے ساتھ پختونوں کی عقیدت ،دل و دماغ اور جذبات کی وابستگی کا یہ عالم ہے کہ جہاں بھی کوئی سبق آموز اور مقصدیت سے بھرا ہوا شعر انہیں کسی دوسرے نامعلوم شاعر کا ملتا ہے بالعموم اسے بھی رحمان بابا کا سمجھ لیا جاتا ہے کیونکہ ان کے خیال میں رحمان بابا سے بڑھ کر کوئی دوسرا شاعر اتنی سچائی اور حقیقت بیان نہیں کرسکتا جتنی سچائی اور حقیقت نگاری رحمان بابا کی شاعری میں موجود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عورتیں گھروں ،تندوروںکے کنارے کسان کھیتوں کلیانوں،صوفیا و درویش مزاروں اور خانقاہوں میں سیات دان اسٹیج پر مولوی، واعظ مسجد کے منبر سے اور گوئیے موسیقی اور محفل سماع میں رحمان بابا کے اشعار سے خود بھی لطف اندوز ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی لطف پہنچاتے ہیں۔ان کی شاعرانہ عظمت،تخلیقیت،صداقت بیانی اور سبق آموزی کے حوالے سے سوات کے مشہور ولی اللہ اخون کہا کرتے تھے کہ قرآن و حدیث کے بعد پختونوں میں کوئی دوسری کتاب اتنی مقبول و معتبر نہیں جتنی مقبولیت،شہرت،قبولیت اور اعتبار رحمان بابا کے دیوان کو حاصل ہے۔ وہ خود بھی اپنے ایک شعر میں اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ
دا چہ زہ ئے درتہ وایمہ کہ خدائے کڑہ
پہ قرآن او پہ حدیث کے بہ سرگند وی
یعنی میں جو کچھ کہتا ہوں اگر خدا نے چاہا تو قرآن اور حدیث میں بھی یہی باتیں آپ ملیں گی۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی پختونوں کے بیشتر گھرانوں میں رحمان بابا کا دیوان تبرک اور ایک مقدس کتاب کے طور پر رکھا جاتا ہے کوئی بھی ایسا پختون جوان ، بوڑھا یا عورت نہیں ہوگی جو اپنے محبوب شاعر انسانیت کے نام اور کام سے واقفیت نہ رکھتا ہو،یا انہیں رحمان بابا کے کچھ اشعار ازبر نہ ہوں۔بات بات پر رحمان بابا کے اشعار کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ رحمان بابا وائی(رحمان بابا فرماتے ہیں)،رحمان بابا سہ خہ وئیلی دی(رحمان بابا نے کیا خوب کہا ہے)۔ان کے اشعار اس قدر سادہ،برجستہ،برمحل،تکلف اور پیچدگی سے پاک ہیں کہ پختون انہیں اپنی روزمرہ زندگی میں ضرب المثل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
رحمان بابا کو پشتو کا حافط شیرازی اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ دونوں کے فکر و فن اور پیغام میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔رحمان بابا نے بھی حافظ شیرازی ہی کی طرح زیادہ تر طبع آزمائی صنف غزل میں کی ہے۔ وہ بھی حافظ شیرازی کی طرح ایک باکمال فنکار،مصورانہ مزاج،غنائی انداز اور بلند تخئیل کے مالک ہیں۔ان کے کلام میں بھی ان کا اپنا ایک مخصوص لب ولہجہ(ڈکشن) ایک منفرد جداگانہ اسلوب،سادہ بیانی،لطافت اور شیرینی بدرجہ اتم موجود ہے۔ میر عبدالصمد خان اپنی کتاب’’رحمان بابا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ رحمان بابا اور حافظ میں ایک اور بات بھی مشترک ہے اور وہ یہ کہ دونوں ریاکاری اور منافقت کے سخت خلاف ہیں۔ زاہدان خشک کو دونوں ناپسند کرتے ہیں، حرص و ہوس،بخل ،حسد و بغض وکینہ بے غیرتی بے حیائی اور بے حمیتی کو دونوں ناپسند کرتے اور زندگی کے لیے مہلک گردانتے ہیں۔ زندگی کی اعلیٰ قدریں بھی دونوں نے یکساں لطافت کے ساتھ پیش کی ہیں۔ نکتہ آفرینی کا رنگ ڈھنگ بھی دونوں کا ایک سا ہے۔ خوشحال و اقبال کی طرح تندی وتیزی اور پرشور فعالیت دونوں کے ہاں زیادہ نمایاں نہیں، دونوں عاشق مزاج ہیں۔دونوں کے نزدیک حسن لاینفک اور ناقابل تقسیم ہے۔‘‘
اسی طرح انصار ناصری رحمان بابا کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ’’صدیاں گزرگئیں سینکڑوں انقلاب آئے پشتو کے صاحب دل صوفی رحمان بابا کی لگائی پھلواری آج تک ویسی کی ویسی سرسبز وشاداب اورا س کے بہار پھولوں کی تازگی اور مہک اسی طرح برقرار ہے جیسے اول تھی، بڑے آرٹ کو کبھی فنا نہیں، اس کی سادگی اور سچائی ہی بقاء کی ضامن ہے‘‘۔رحمان بابا کا کلام اس قدر صاف،سیدھا ،ا ٓسان اور ان کا پیام اس قدر سچا پرخلوص اور دل پزیر ہے کہ آرٹ کی تمام تصنع آمیز بلند وبانگ تعریفیں اور اس کے ادلتے بدلتے پُر پیچ معیارات بمشکل اس کا احاطہ کرسکتے ہیں۔ یہی اس کے زندہ جاوید ہونے کا ثبوت ہے۔
رحمان بابا کے کلام کی مقبولیت اور ان کے سچے پیغام کا یہ عالم ہے کہ پشتو کے علاوہ اسے دیگر زبانوں اردو،فارسی اور انگریزی زبان کے ہزاروں لوگ پڑھنا پسند کرتے ہیں،جس کے لیے ان کے مکمل دیوان کے ان زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں ۔ان کی شاعری کا اصل پیغام جملہ انسانیت سے پیار،امن و اشتی،قومی اور مذہبی رواداری اور باہمی اتفاق و یکجہتی پر مبنی ہے۔اس کے علاوہ ناانصافی،غیرمساوی تقسیم اور ظلم و جبر کے سخت ناقد ہیں اور ان قوتوں کے شیدید مخالف ہیں۔لہذا بغیر کسی تردید کے کہا جاسکتا ہے کہ رحمان بابا ہمارے ماضی کا امین اور مستقبل کے ایک سچے رہبر و رہنما ہیں۔ذیل میں ان کے چند اشعار کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے
۔آدمی سے تمام تر مدعا آدمیت ہے نہ یہ کہ اس کے سر پر طرہ ہو۔آدم زاد معنوی طور پر سب ایک صورت کی مانند ہیں جو دوسرے کو آزار پہنچاتا ہے وہ خود بھی آزار ہوجاتا ہے۔
۔تم جن لوگوں کے برابر زور اور قوت نہیں رکھتے ان کے پہلو میں دلیر ہوکر نہ بیٹھ۔زورآور لوگ آگ اور پانی کی مانند ہوا کرتے ہیں یہ بات سمجھ لیں اور دھیان رکھیں کہ کہیں ڈوب یا جل بھن کر کباب نہ ہو جائیں۔
۔میری قناعت میرے خرقے کے اندر پنہاں اطلس ہے۔ میں باطن میں سارے جہاں کا بادشاہ لیکن بظاہر گدا نظر آرہا ہوں۔
۔وہ دل طوفان اور بادوباران سے محفوط رہے گا جو کشتی کی طرح لوگوں کا بار اٹھائے گا۔اپنا پیٹ رسی سے مضبوط باندھ لے مگر فلک سے روٹی کی امید اور توقع نہ رکھ۔
۔اپنی زندہ جان بیچ کی طرح زمین میں دفن کردے اگر تو عظمت چاہتا ہو تو خاکساری اختیار کر۔
۔ سارے وسوسے اور واہمے اختیاط سے پیدا ہوتے ہیں، میں بہت زیادہ ہوشیاری کے سبب دیوانہ ہوگیا ہوں۔
۔ظالم حاکموں کے سبب شہر پشاور آگ اور گورستان تینوں ایک جیسے ہیں۔
۔جو پرندہ صیاد کے پنجرے میں اسیر ہو اس میں اچھے اچھے کھانے پینے سے خون کب بنتا ہے۔
۔سارا وجود ایک ناخن کے درد سے درمند ہوجاتا ہے۔پورا شہر ایک آدمی کے الزام میں ویران ہوجاتا ہے۔