WE News:
2025-11-05@03:15:55 GMT

افغان تعصب

اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT

گزشتہ ماہ 7 مئی کو جب انڈیا پاک فضائیہ کے ہاتھوں سکتے سے دوچار تھا تو افغانستان سے ایک تعصب بھری ٹویٹ ہوئی۔ اس ٹویٹ میں کہا گیا:

’ہندوؤں اور پنجابیوں کے سیاسی جھگڑے کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے۔ پنجابی کوشش کریں گے کہ جہاد کے نام پر پختونوں کو اکسائیں۔‘

یہ ٹویٹ افغانستان کے ایک ایسے ملا کی تھی جس کے نام کے ساتھ ہی ’ضعیف‘ کا لاحقہ لگا ہوا ہے۔ امام غزالی نے لکھا ہے، نام کا شخصیت پر اثر پڑتا ہے۔ سو اس ٹویٹ نے ثابت کیا تھا کہ امام غزالی نے کم از کم اس افغان ملا کی حد تک تو ٹھیک ہی لکھا ہے۔ ان کی اس نام نہاد رائے کا ضعف دیکھیے کہ ایک فریق مذہبی اٹھایا تو دوسرا لسانی۔ ایسی پستی تو کبھی انڈین ہندوؤں نے بھی نہ دکھائی تھی۔ وہ جب پاکستان اور انڈیا کی بجائے مذہبی ریفرنس استعمال کرتے ہیں تو ہندو اور مسلمان ان کا حوالہ دیتے ہیں، نہ کہ ہندو اور پنجابی کا۔ سو پہلا سوال تو یہی ہے کہ ملاضعیف نے پاکستان یا مسلمان کی بجائے پنجابی ترکیب کیوں برتی؟ کیا اسے پاکستان کے پنجابیوں سے کوئی مسئلہ ہے؟

ایسا قطعاً نہیں ہے۔ آپ شاید حیران ہوں مگر ہر افغانی ہر پاکستانی کو پنجابی ہی قرار دیتا ہے۔ خود ہم نے ذاتی طور پر 40 سال تک ان کی یہ بکواس سن رکھی ہے کہ اچھی بھلی رواں پشتو میں بات ہو رہی ہوتی ہے کہ ان میں سے کوئی اجنبی پوچھ بیٹھتا کہ ہم کہاں کے ہیں؟ جب ہم خیبرپختون خوا کا بتاتے تو ان کا فوری ردعمل ہوتا

’اچھا پنجابی ہو !‘

ہم چونکہ لگ بھگ 40 سال ذاتی طور پر افغانستان میں کسی نہ کسی شکل میں انوالو رہے ہیں، سو ذاتی تجربے کی بنیاد پر پورے اعتماد کے ساتھ بتا دیں کہ یہ پاکستانی اقوام میں سے سب سے زیادہ پاکستانی پختونوں سے نفرت کرتے ہیں۔ جس کی کئی وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی پختون بیلٹ کسی زمانے میں افغانستان کا علاقہ تھا جو برطانیہ نے قبضہ کرلیا تھا۔ اس قبضے کو افغانستان نے نہ صرف یہ کہ ڈیورنڈ لائن معاہدے تحت قبول کرلیا تھا بلکہ آگے چل کر بے چوں و چرا اسے رینیو کرکے اس علاقے کے لوگوں کو بالکل ہی بھلا دیا تھا۔ اس سے یہاں کے پختونوں میں افغانستان کے خلاف نفرت ہی پیدا نہ ہوئی بلکہ انہوں نے طے کرلیا کہ یہ اب آنے والے وقت میں کسی بھی صورت افغانستان کا حصہ نہیں بنیں گے۔ جواباً افغانی پختونوں نے انہیں ’پنجابی‘ پکارنا شروع کردیا۔

اگر آپ یاد کیجیے تو 1947 میں بٹوارے کے وقت برطانیہ نے صوبہ سرحد کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کروانے کے لئے ریفرنڈم کروایا تو اس میں صرف انڈیا اور پاکستان کی آپشنز دی گئیں اور صوبہ سرحد کے لوگوں نے اس پر کوئی اعتراض نہ کیا۔ باچا خان کی صورت یہ آواز تو موجود تھی کہ پختونستان کی آپشن بھی رکھی جائے مگر افغانستان کو بطور آپشن رکھنے کی کوئی آواز نہ تھی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ خود باچا خان بھی افغانستان پر تین حرف بھیج چکے تھے۔ صرف باچا خان ہی نہیں بلکہ آج 75 سال بعد بھی صورتحال یہ ہے کہ ’لر و بر‘ کا چورن بانٹنے والا منظور پشتین بھی افغانستان سے صرف مال پانی بٹورنے پر ہی یقین رکھتا ہے اس کا حصہ بننے کو وہ بھی تیار نہیں۔

افغان پشتونوں کا پاکستانی پختونوں پر دوسرا بڑا غصہ اس بات کا ہے کہ ایک زمانے میں افغانستان کا تعارف ایک پشتون ملک کا تھا۔ لیکن آج دنیا میں پشتون آبادی والے 2 ممالک ہیں۔ اور جب سوال ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پختون آبادی والا ملک کونسا ہے؟ تو درست جواب افغانستان نہیں بلکہ پاکستان ہوتا ہے۔ اور فرق اتنا بڑا ہے کہ افغانستان میں پشتون آبادی ایک کروڑ 70 لاکھ ہے جبکہ پاکستان ساڑھے 4 کروڑ پختونوں کا وطن ہے۔ پھر ایک اور اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ پختون تہذیب میں علم و فن کی نسبت سے جتنے بھی لیجنڈری نام ہیں ان کا تعلق تاریخی طور پر پاکستان والی بیلٹ سے رہا ہے۔ مثلاً آپ صرف شاعری میں ہی 3 نام دیکھ لیجیے۔ خوشحال خان خٹک، رحمان بابا اور غنی خان تینوں کا آبائی علاقہ پاکستان میں ہے۔

ذکر چل ہی نکلا ہے تو یہ صراحت بھی بے جا نہ ہوگی کہ پاکستان کے ابدالی اور غوری میزائلوں کی نسبت کو افغان نسبت سمجھنا ایک بڑی غلط فہمی ہے۔ یہ نسبت عین پاکستان کی پختون بیلٹ کی طرف ہے۔  ذرا اس کا تاریخی تناظر بھی سمجھ لیجیے۔  غزنوی، ابدالی اور غوری کی اس خطے میں شہرت ہندوستان پر حملوں کی ہے۔ ذرا غور کیجیے آج کی تاریخ میں کون سے پختون انڈیا کے حامی اور کون سے اس کے دشمن ہیں؟ کیا ابھی پچھلے ماہ نظر نہیں آگیا کہ کون سے پختون تھے جو انڈیا کے خلاف صف آراء تھے اور کون سے پشتون تھے جن کا ملا صدر خفیہ دورے پر دہلی پہنچا ہوا تھا؟ اور وہ کون تھا جو 10 مئی کو انڈین وزیر خارجہ جے شنکر کو فون پر ٹکوری تسلیاں دے رہا تھا ؟ کیا یہ مخلوق ابدالی اور غوری کی اولاد ہوسکتی ہے؟

یہ تو وہ لوگ ہیں کہ جب تقسیم ہند کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کا مرحلہ آیا تو افغانستان دنیا کا واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی ممبرشپ کی مخالفت کی تھی۔ اور اس نے1948ء میں ہی پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے ٹریننگ سینٹر قائم کر لیے تھے۔ جہاں سے اگلے 27 سال تک یہ پاکستان میں دہشتگردی کرواتے رہے۔ وہ تو خدا بھلا کرے ذوالفقار علی بھٹو کا جو اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر افغانستان کی آگ افغانستان کی طرف ہی نہ لوٹائی گئی تو ہم مستقل جلتے رہیں گے۔ چنانچہ 1975ء میں انہوں نے احمد شاہ مسعود اور حکمت یار نامی افغان طلبہ کے ہاتھ میں ’جہاد کی ماچس‘ پکڑا دی۔ اور جب ان کے بعد جنرل ضیاء آئے تو انہوں نے وہ ماچس لے کر اس کی جگہ لائٹر مٹی کا تیل دیدیا۔ یوں سوویت یونین اور افغانیوں کے ہاتھوں پورا افغانستان خاکستر ہوگیا۔ جو رہی سہی کسر تھی وہ امریکا نے آکر پوری کردی۔ مگر ملاضعیفوں کو اب بھی عقل نہیں آئی۔

 وہ تو چین ایک ہاتھ میں ڈنڈا اور دوسرے ہاتھ میں گاجر لے کر کھڑا ہوگیا ہے تو یہ انسان بننے پر آمادہ ہوئے  ورنہ 10 مئی کو تو یہ جے شنکر کے گھنٹے سے لٹکے نظر آرہے تھے۔ پاکستان کو ان سے محتاط رہنا ہوگا۔ ان کی داڑھیوں اور پگڑیوں کے جھانسے میں آنا ایک سنگین غلطی ہوگی۔ یہ وہی ہیں جو حرم شریف میں عہد کرکے کابل پہنچتے ہی توڑ دیتے تھے۔ اور خون کی ندیاں بہایا کرتے تھے۔ گروپس بیشک الگ تھے، مگر نسل یہ وہی ہے۔ جو ان کا جتنا بڑا حاجی ہوتا ہے وہ اتنا ہی بڑا سود خور اور ہندوؤں کا یار ہوتا ہے۔اگر ان میں ذرا بھی دینداری یا خدا خوفی ہوتی تو شی جن پنگ کے کہنے پر فتوی جاری کرتے؟

حماقت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ محض پولیٹکل و ملٹری آڈر بھی تو جاری کرسکتے تھے۔ مگر عقل اپنے مقام سے کھسک کر وہیں پہنچ جائے جہاں کافور بادشاہ کی پہنچ گئی تھی تو پھر ملا کو فتوے والی ٹھرک بھی تو پوری کرنی ہوتی ہے۔ سو اب یہ ہمیشہ اس طعنے کے ساتھ جئیں گے کہ انہوں نے دنیا کی سب سے بڑی ملحد ریاست کے حکم پر شرعی فتوی جاری کیا تھا۔ ایسے لوگ کس منہ سے یہ طے کرتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کی لڑائی کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

افغان رعایت اللہ فاروقی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغان رعایت اللہ فاروقی کہ پاکستان پاکستان کی انہوں نے کے ساتھ ہوتا ہے کون سے

پڑھیں:

مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!

پاک افغان تعلقات کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد

(ڈین فیکلٹی آف سوشل اینڈ بیہوئرل سائنسز، جامعہ پنجاب)

پاک افغان تنازعہ نیا نہیں ہے مگر اس کی جہت نئی ہے۔ اس وقت بہت کوشش کی جا رہی ہے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آسکے تاہم سوال یہ ہے کہ اس کیلئے کتنی قربانی دی جاسکتی ہے؟ پاکستان کے معاشرتی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے اور تعاون جاری رہے۔

پہلے صرف ریاست فیصلہ کرتی تھی اور عوام کو بتا دیتی تھی۔ عصر حاضر میں ذرائع ابلاغ بدل چکے ہیں، اب حکومت اکیلئے فیصلہ نہیں کرتی بلکہ عوام بھی پرزور انداز میں اپنی رائے دیتے ہیں۔ اگر 2025ء میں یہ سوال کیا جائے کہ کیا ریاست اپنے طور پر مسئلہ افغانستان حل کر سکتی ہے تو جواب ہوگا نہیں، بلکہ اب ریاست کو اس مسئلے میں عوام کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اس معاملے پر معاشرے کے مختلف گروہوں میں اطمینان ضروری ہے۔ ہمیں دنیا پر واضح کرنا چاہیے کہ پاکستان کو مسئلہ افغانستان سے نہیں بلکہ وہاں موجود دہشت گرد گروہوں سے ہے جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔

سیاسی جماعتوں اور قیادت کو چاہیے کہ پارلیمنٹ میں باقاعدہ قرارداد لا کر دنیا کو دو ٹوک پیغام دیا جائے تاکہ اختلافات اور افواہیں ختم ہوں اور ایک موقف کے ساتھ ملک میں استحکام لایا جاسکے۔یہ سب کی یکساں ذمہ داری ہے کہ ملکی استحکام کو دوام بخشنے کیلئے ایک موقف اپنائیں۔ بارڈر پر دی جانے والی قربانیوں کا فائدہ اس وقت ہی ہوگا جب سب متحد ہوں۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہماری نوجوان نسل میں تصدیق کا عمل ختم ہوگیا ہے۔

انہیں یہ سکھانا ہے کہ جب بھی کوئی خبر آئے اس کی تصدیق کر لیں، اس کا سورس لازمی دیکھیں۔ ہمارے لیے سوچ بدلنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے اپنی نسلوں کو اس بیانیے پر پروان چڑھایا کہ افغانستان برادر اسلامی ملک ہے جس پر دشمن قابض ہے لہٰذا ہمیں ہر حال میں اس کا ساتھ دینا ہے۔

اب اس نسل کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ ہم پہلے ٹھیک تھے یا اب۔ بھارت نے ہمیں آزمائش میں ڈال رکھا ہے جس کی تیاری کیلئے ہمیں بہت سارے پہلوؤں پر سوچنا ہوگا، اس کیلئے اندرونی اتحاد اور پاک افغان اعتماد بحال کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر ذمہ دارانہ بیانات دیے جائیں۔ جذباتی بیانات کے نتائج قوموں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔

افغانستان کے ساتھ ہمارا بھائی چارے کا تعلق ہے، وہاں چند عناصر ہیں جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں، اس کا ذمہ دار پورے افغانستان کو نہیں ٹہرایا جاسکتا۔ ہمیں بھارت کے ہاتھوں میںکھیلنے والوں کو بہترین حکمت عملی سے ڈیل کرنا ہے۔ ہمیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے لوگ مشتعل ہوں، ہم نیا محاذ کھولنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہمیں تمام عناصر کا سمجھداری سے مقابلہ کرنا ہے۔ میرے نزدیک پاک افغان معاملے پر ریاست کو ذمہ دارانہ بیانات دینے چاہئیں۔ سب سے پہلے ہمیں اندرونی استحکام لانا ہے، ہمارے ادارے، حکومت اور افواج پاکستان ملک کو ہر طرح سے محفوظ بنانے اور استحکام لانے کیلئے تیار ہیں، تمام سیاسی جماعتوں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو اعلانیہ طور پر غلط چیزوں کی مذمت کرنی چاہیے، سب کو واضح ہونا چاہیے ہمارا ملک بھی ایک ہے اور دشمن بھی سب کا ہے۔

بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی

(دفاعی تجزیہ کار)

 میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیادہ تر جنگ کی بات ہوتی ہے، ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن میں ٹکراؤ کا عنصر زیادہ ہوتا ہے اور امن کی بات کم۔ میرے نزدیک ’افغانستان کو کھلی دھمکی‘ جیسے الفاظ سے پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر ہوتی ہے، ہمیں پاک افغان مذاکرات کے معاملے میں اشتعال انگیز بیانات کے بجائے امن کے پیغام کو اجاگر کرنا چاہیے۔ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور اس لیے ہی مذاکرات بھی کر رہا ہے۔

پاک افغان تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے، ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ ستمبر 1947ء میں افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت کی اور پھر اکتوبر میں پاکستان کو بطور ملک تسلیم کر لیا۔ افغانستان کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کا پہلا واقعہ لیاقت علی خان کی شہادت ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کی آرکائیوز میں یہ موجود ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل میں سی آئی اے کا ہاتھ تھا کیونکہ وہ امریکا کی مرضی کے خلاف جا رہے تھے۔ سی آئی اے نے افغانستان سے شوٹر لیے اور اپنا کام کروا لیا۔ پاک افغان اور پاک بھارت تعلقات میں بہت کچھ مشترک ہے۔

بھارت نے بھی آزادی سے پہلے ہی پاکستان کیلئے مسائل پیدا کیے۔ آزادی کے بعد بھی یہی سب چل رہا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح فیروزپور اور گرداسپور میں مسیحیوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا، 51 فیصد ووٹ ہونے کے باوجود علاقہ بھارت کو دے دیا گیا۔ بھارت کی بنیاد میں دہشت گردی پوشیدہ ہے۔ اس وقت بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ ہے اور دونوں ہی شروع دن سے پاکستان کے مخالف ہیں۔افغانستان کے بادشاہ عبدالرحمن نے ڈیورنڈ لائن کو عالمی سرحد تسلیم کیا لیکن اب افغانستان اسے نہیں مانتا۔ بھارت خطے میں مسائل پیدا کر رہا ہے اور پاک افغان تعلقات میں مزید خرابیاں پیدا کرنی کی کوشش میں ہے۔

آر ایس ایس ، اجیت دوول، ششی تھرور و دیگر اشتعال انگیز سیاست کر رہے ہیں۔ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ امریکا افغانستان میں 7.2 ارب ڈالر کا اسلحہ چھوڑ کر چلا گیا جو وہاں طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں ہے۔ وہاں اسلحہ کی فروخت اور سمگلنگ بھی ہو رہی ہے۔یہ جدید اسلحہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہو رہا ہے۔

بی ایل اے جاوید مینگل گروپ کے پاس جدید ہتھیار ہیں، یہ اسلحہ انہیں افغان لیڈرز نے دیا ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور امریکا کو بھی مستحکم پاکستان پسند نہیں ہے۔امریکا جب افغانستان میں تھا تو ہم نے اسے یہاں سے کور دیا تاکہ دہشت گردی کی کارروائیاں نہ ہوں مگر آپریشن ضرب عضب میں ہمیں دھوکا دیا گیا۔ جب طالبان نے ٹیک اوور کیا تو وہاں کی جیلوں سے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کر دیاجنہوں نے خود کو دوبارہ سے منظم کر لیا۔ گلبدین حکمت یار، منگل باغ و دیگر کی کہانی سب کے سامنے ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان میں 33 دہشت گرد تنظیمیں کام کر رہی ہیں جنہیں افغان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے،وہاں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ بھی کام کر رہی ہیں۔سانحہ آرمی پبلک سکول کے پیچھے بھارت ہے، دہشت گرد’’را‘‘ کے ساتھ رابطے میں تھے، پاکستان نے اقوام متحدہ کو بھی شواہد دیے ہیں۔ بھارت نے افغان حکومت کو فنڈز دیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت کا رویہ غیر لچکدار ہے۔افغانستان میں ’’را‘‘ کا دفتر بھی ہے، اب وہاں بھارتی سفارتخانہ بھی کھولا جا رہا ہے ۔

افغانستان کی جانب سے پاکستان کی دو تشکیلوں پر حملہ کیا گیا۔ ایف سی پر حملے میں ملوث پانچ افراد میں سے تین افغانی تھے جو وہاں بیان ریکارڈ کرو ا کر آئے تھے۔پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں 70 ہزار سول ملٹری شہادتیں دیں اور اربوں ڈالرز کا نقصان بھی اٹھایا۔ پاکستان نے خطے میں سٹرٹیجک رسٹرینٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نے افغانستان پر کبھی حملہ نہیں کیا، اب بھی صرف جوابی کارروائی کی ہے۔ اس سے پہلے جب چمن بارڈر پر افغانستان کی طرف سے حملہ ہوا تھا تو اس کا جواب دیا، پاکستان نے افغان بارڈ پر باڑ لگائی اور انٹرنیشنل بارڈر کو یقینی بنایا۔ گزشتہ مہینے افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی ہوئی اور پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔

افغان حکومت کہتی ہے کہ اس کا دہشت گردوں پر کنٹرول نہیں ہے تو پھر دہشت گرد کہاں سے آئے؟ جب پاکستان نے افغان چیک پوسٹوں پر حملہ کیا تو وہاں افغان فورسز اور خوارج دونوں موجود تھے جو پاکستان کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے۔ پاکستان نے بھرپور جواب دیا جس کے بعد جنگ بندی ہوئی۔افغانستان بھارت گٹھ جوڑ بے نقاب ہو چکا ہے۔ استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں ترکیہ کی خفیہ ایجنسی نے کالیں ٹریس کی تو معلوم ہوا کہ مذاکرات میں شریک افغان نمائندوں کا رابطہ بھارت میں اجیت دوول کے ساتھ ہے۔ طالبان قندھا ر اور کابل کے درمیان پھنسے ہیں۔ افغان حکومت چاہتی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کوبھی مذاکرات میں شامل کیا جائے، پاکستان اس پر تیار نہیں ہے۔

افغانستان یہ مان نہیں رہاکہ وہاں دہشت گرد موجود ہیں جبکہ پاکستان نے ترکیہ کے سامنے ویڈیو ثبوت بھی پیش کیے ہیں۔ مذاکرات میں پاکستان کا یک نکاتی ایجنڈہ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہواور افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں کوئی دہشت گردی کی کارروائی نہ ہو، پاکستان افغانستان کے ساتھ جنگ کی طرف نہیں جائے گا، کوشش ہوگی کہ مذاکرات سے معاملہ حل ہو لیکن اگرمعاملہ حل نہ ہوا تو پھر دنیا نے جو ’’نیو نارمل‘‘ سیٹ کیا ہے کہ دور رہ کر کارروائی کرکے اپنے دشمنوں کا خاتمہ کریں تو پاکستان بھی یہ طریقہ استعمال کر سکتا ہے۔

محمد مہدی

(ماہر امور خارجہ)

پاک افغان تعلقات کی تاریخ پاکستان کی تحریک آزادی سے منسلک ہے۔ آزادی کے وقت آزاد پختونستان کی باتیں تھیں اور آج بھی یہ سوچ مسئلہ ہے۔ پاکستان نے شروع دن سے ہی کوشش کی کہ افغانستان کے ساتھ معاملات حل بہتر رہیں۔ آزادی کے بعد پہلے افغانستان نے پاکستان کی مخالفت کی اور بعدازاں تسلیم کر لیا۔ 65ء کی جنگ میں افغانستان نے مہمند پر حملہ کیا۔

71ء میں بنگلہ دیش کے بننے پر کابل میں بڑا جشن منایا گیا۔ 1998ء میں طالبان کے پہلے دور میں برٹش انڈیا معاہدے کے 100 سال مکمل ہوئے، اس وقت طالبا ن کا پہلا دور تھا۔ پاکستان کا خیال تھا کہ اس کی توثیق کی جائے گی لیکن طالبان نے نہیں کی۔ اسی طرح جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں افغان حکومت کے ساتھ استنبول میں مذاکرات ہوئے۔ صدرپاکستان آصف علی زرداری کے سابق دور میں بھی استنبول میں سہ فریقی مذاکرات ہوئے لیکن دونوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو۔

دوحہ مذاکرات کے بعد خیال تھا کہ طالبان ہمارے احسان مند ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ طالبان نے کہا کہ پاکستان سے مذاکرات ہوئے ہی نہیں۔ اب استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات ہوئے جن سے فی الحال کچھ نہیں نکلا۔ پاکستان کہتا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کو سپورٹ کر رہا ہے اور باقاعدہ ثبوت دکھا رہا ہے جبکہ طالبان کہتے ہیں کہ ہمارے پاس دہشت گرد نہیں ہیں، ہم لکھ کر کیوں دیں۔ اس وقت بھارت افغانستان کی مدد کر رہا ہے۔ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے کاکول اکیڈمی میں دیے گئے بیان میں واضح کیا کہ اگر بھارت اور افغانستان نے مل کر ہمیں انگیج کرنے کی کوشش کی تو ملکی دفاع میں ہر حد تک جائیں گے۔

خطے کے دیگر ممالک کی بات کریں تو چین نے افغانستان کے ساتھ سڑک تعمیر کی لیکن تجارت نہیںکھلی، چین چاہتا ہے کہ تجارت ہوں ۔ اس وقت خطے کے تقریباََ ہر ملک کو طالبان سے مسئلہ ہے۔ طالبان کی پالیسی ہے کہ ہر ملک کیلئے مسائل پیدا کرو تاکہ وہ گھبرا کر ان سے تعلق قائم کریں اور پھر یہ اپنی بات منوا سکیں۔ فیلڈ مارشل نے بارڈر سمگلنگ کا خاتمہ کر دیا ہے جس سے افغانستان کی معیشت کو نقصان ہوا ۔ افغانستان میں بھوک بڑھ رہی ہے۔ اگر پاکستان نے تمام افغان مہاجرین واپس بھیج دیے تووہاں بھوک کی صورتحال بدترین ہو جائے گی۔ طالبا ن قیادت کے اپنے بچے دوسرے ممالک میںرہتے ہیں۔

سہیل شاہین کے بچے قطر میں رہتے ہیں، ان لوگوں کو تو کوئی مسئلہ نہیںہے۔ پہلے قطر اور اب ترکی میں مذاکرات ہوئے، پاکستان جو چاہتا تھا وہ نہیں نکلا۔ افغانستان پر اس وقت دنیا کی توجہ ہے اور کچھ قوتیں متحرک بھی نظر آتی ہیں۔ جنرل احسان نے کہا ہے کہ دنیا میں بات ہو رہی ہے کہ اب افغانستان میں استحکام نہیں آئے گا۔ ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ دنیا افغانستان کی تقسیم پر غور کر رہی ہے، اگر امریکا اور چین دونوں اس پر متفق ہوجاتے ہیں تو یہ کام ہوسکتا ہے۔ افغانستان کا معاملہ سادہ نہیں ہے لہٰذا پاکستان کو احتیاط اور سفارتی محاذ پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں صرف ٹرمپ اور امریکا پر ہی توجہ نہیں دینی چاہیے دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا چاہیے ۔ ہمیں دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان امن پسند ہے اور افغانستان میں بھی امن چاہتا ہے۔ TAPI گیس پائپ لائن منصوبہ اہم ہے۔ اس میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت شامل ہیں۔ گیس ہم تک آنی ہے اور کرایہ افغانستان کو ملنا ہے۔ افغانستان کے مسائل کی وجہ سے وسط ایشیائی ممالک تک درست رسائی نہیں ہوسکی۔ پاکستان کو سفارتی محاذ پر محتاط تو رہنا ہے لیکن خاموش نہیں، ہمیں امن اور دفاع کا واضح پیغام دینا چاہیے۔

Tagsپاکستان

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان طالبان مذاکرات کا اگلا دور، 6 نومبر کو ہونے والی بیٹھک کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں؟
  • افغانستان میں پختون برتری کا خاتمہ ہوا تو ذمہ دار کون ہوگا؟
  • پاک افغان جنگ بندی پر اتفاق؟
  • سمندر گھنائو نے کھیل پر ھارت کو شدید جواب ملے گا : ڈی جی آئی ایس پی آر 
  • فتح افغانستان کے بعد پاکستان کی اگلی طویل جنگ
  • افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، ذبیح اللہ مجاہد
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے...افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • افغانستان ثالثی کے بہتر نتائج کی امید، مودی جوتے کھا کر چپ: خواجہ آصف