گزشتہ ماہ 7 مئی کو جب انڈیا پاک فضائیہ کے ہاتھوں سکتے سے دوچار تھا تو افغانستان سے ایک تعصب بھری ٹویٹ ہوئی۔ اس ٹویٹ میں کہا گیا:
’ہندوؤں اور پنجابیوں کے سیاسی جھگڑے کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے۔ پنجابی کوشش کریں گے کہ جہاد کے نام پر پختونوں کو اکسائیں۔‘
یہ ٹویٹ افغانستان کے ایک ایسے ملا کی تھی جس کے نام کے ساتھ ہی ’ضعیف‘ کا لاحقہ لگا ہوا ہے۔ امام غزالی نے لکھا ہے، نام کا شخصیت پر اثر پڑتا ہے۔ سو اس ٹویٹ نے ثابت کیا تھا کہ امام غزالی نے کم از کم اس افغان ملا کی حد تک تو ٹھیک ہی لکھا ہے۔ ان کی اس نام نہاد رائے کا ضعف دیکھیے کہ ایک فریق مذہبی اٹھایا تو دوسرا لسانی۔ ایسی پستی تو کبھی انڈین ہندوؤں نے بھی نہ دکھائی تھی۔ وہ جب پاکستان اور انڈیا کی بجائے مذہبی ریفرنس استعمال کرتے ہیں تو ہندو اور مسلمان ان کا حوالہ دیتے ہیں، نہ کہ ہندو اور پنجابی کا۔ سو پہلا سوال تو یہی ہے کہ ملاضعیف نے پاکستان یا مسلمان کی بجائے پنجابی ترکیب کیوں برتی؟ کیا اسے پاکستان کے پنجابیوں سے کوئی مسئلہ ہے؟
ایسا قطعاً نہیں ہے۔ آپ شاید حیران ہوں مگر ہر افغانی ہر پاکستانی کو پنجابی ہی قرار دیتا ہے۔ خود ہم نے ذاتی طور پر 40 سال تک ان کی یہ بکواس سن رکھی ہے کہ اچھی بھلی رواں پشتو میں بات ہو رہی ہوتی ہے کہ ان میں سے کوئی اجنبی پوچھ بیٹھتا کہ ہم کہاں کے ہیں؟ جب ہم خیبرپختون خوا کا بتاتے تو ان کا فوری ردعمل ہوتا
’اچھا پنجابی ہو !‘
ہم چونکہ لگ بھگ 40 سال ذاتی طور پر افغانستان میں کسی نہ کسی شکل میں انوالو رہے ہیں، سو ذاتی تجربے کی بنیاد پر پورے اعتماد کے ساتھ بتا دیں کہ یہ پاکستانی اقوام میں سے سب سے زیادہ پاکستانی پختونوں سے نفرت کرتے ہیں۔ جس کی کئی وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی پختون بیلٹ کسی زمانے میں افغانستان کا علاقہ تھا جو برطانیہ نے قبضہ کرلیا تھا۔ اس قبضے کو افغانستان نے نہ صرف یہ کہ ڈیورنڈ لائن معاہدے تحت قبول کرلیا تھا بلکہ آگے چل کر بے چوں و چرا اسے رینیو کرکے اس علاقے کے لوگوں کو بالکل ہی بھلا دیا تھا۔ اس سے یہاں کے پختونوں میں افغانستان کے خلاف نفرت ہی پیدا نہ ہوئی بلکہ انہوں نے طے کرلیا کہ یہ اب آنے والے وقت میں کسی بھی صورت افغانستان کا حصہ نہیں بنیں گے۔ جواباً افغانی پختونوں نے انہیں ’پنجابی‘ پکارنا شروع کردیا۔
اگر آپ یاد کیجیے تو 1947 میں بٹوارے کے وقت برطانیہ نے صوبہ سرحد کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کروانے کے لئے ریفرنڈم کروایا تو اس میں صرف انڈیا اور پاکستان کی آپشنز دی گئیں اور صوبہ سرحد کے لوگوں نے اس پر کوئی اعتراض نہ کیا۔ باچا خان کی صورت یہ آواز تو موجود تھی کہ پختونستان کی آپشن بھی رکھی جائے مگر افغانستان کو بطور آپشن رکھنے کی کوئی آواز نہ تھی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ خود باچا خان بھی افغانستان پر تین حرف بھیج چکے تھے۔ صرف باچا خان ہی نہیں بلکہ آج 75 سال بعد بھی صورتحال یہ ہے کہ ’لر و بر‘ کا چورن بانٹنے والا منظور پشتین بھی افغانستان سے صرف مال پانی بٹورنے پر ہی یقین رکھتا ہے اس کا حصہ بننے کو وہ بھی تیار نہیں۔
افغان پشتونوں کا پاکستانی پختونوں پر دوسرا بڑا غصہ اس بات کا ہے کہ ایک زمانے میں افغانستان کا تعارف ایک پشتون ملک کا تھا۔ لیکن آج دنیا میں پشتون آبادی والے 2 ممالک ہیں۔ اور جب سوال ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پختون آبادی والا ملک کونسا ہے؟ تو درست جواب افغانستان نہیں بلکہ پاکستان ہوتا ہے۔ اور فرق اتنا بڑا ہے کہ افغانستان میں پشتون آبادی ایک کروڑ 70 لاکھ ہے جبکہ پاکستان ساڑھے 4 کروڑ پختونوں کا وطن ہے۔ پھر ایک اور اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ پختون تہذیب میں علم و فن کی نسبت سے جتنے بھی لیجنڈری نام ہیں ان کا تعلق تاریخی طور پر پاکستان والی بیلٹ سے رہا ہے۔ مثلاً آپ صرف شاعری میں ہی 3 نام دیکھ لیجیے۔ خوشحال خان خٹک، رحمان بابا اور غنی خان تینوں کا آبائی علاقہ پاکستان میں ہے۔
ذکر چل ہی نکلا ہے تو یہ صراحت بھی بے جا نہ ہوگی کہ پاکستان کے ابدالی اور غوری میزائلوں کی نسبت کو افغان نسبت سمجھنا ایک بڑی غلط فہمی ہے۔ یہ نسبت عین پاکستان کی پختون بیلٹ کی طرف ہے۔ ذرا اس کا تاریخی تناظر بھی سمجھ لیجیے۔ غزنوی، ابدالی اور غوری کی اس خطے میں شہرت ہندوستان پر حملوں کی ہے۔ ذرا غور کیجیے آج کی تاریخ میں کون سے پختون انڈیا کے حامی اور کون سے اس کے دشمن ہیں؟ کیا ابھی پچھلے ماہ نظر نہیں آگیا کہ کون سے پختون تھے جو انڈیا کے خلاف صف آراء تھے اور کون سے پشتون تھے جن کا ملا صدر خفیہ دورے پر دہلی پہنچا ہوا تھا؟ اور وہ کون تھا جو 10 مئی کو انڈین وزیر خارجہ جے شنکر کو فون پر ٹکوری تسلیاں دے رہا تھا ؟ کیا یہ مخلوق ابدالی اور غوری کی اولاد ہوسکتی ہے؟
یہ تو وہ لوگ ہیں کہ جب تقسیم ہند کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کا مرحلہ آیا تو افغانستان دنیا کا واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی ممبرشپ کی مخالفت کی تھی۔ اور اس نے1948ء میں ہی پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے ٹریننگ سینٹر قائم کر لیے تھے۔ جہاں سے اگلے 27 سال تک یہ پاکستان میں دہشتگردی کرواتے رہے۔ وہ تو خدا بھلا کرے ذوالفقار علی بھٹو کا جو اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر افغانستان کی آگ افغانستان کی طرف ہی نہ لوٹائی گئی تو ہم مستقل جلتے رہیں گے۔ چنانچہ 1975ء میں انہوں نے احمد شاہ مسعود اور حکمت یار نامی افغان طلبہ کے ہاتھ میں ’جہاد کی ماچس‘ پکڑا دی۔ اور جب ان کے بعد جنرل ضیاء آئے تو انہوں نے وہ ماچس لے کر اس کی جگہ لائٹر مٹی کا تیل دیدیا۔ یوں سوویت یونین اور افغانیوں کے ہاتھوں پورا افغانستان خاکستر ہوگیا۔ جو رہی سہی کسر تھی وہ امریکا نے آکر پوری کردی۔ مگر ملاضعیفوں کو اب بھی عقل نہیں آئی۔
وہ تو چین ایک ہاتھ میں ڈنڈا اور دوسرے ہاتھ میں گاجر لے کر کھڑا ہوگیا ہے تو یہ انسان بننے پر آمادہ ہوئے ورنہ 10 مئی کو تو یہ جے شنکر کے گھنٹے سے لٹکے نظر آرہے تھے۔ پاکستان کو ان سے محتاط رہنا ہوگا۔ ان کی داڑھیوں اور پگڑیوں کے جھانسے میں آنا ایک سنگین غلطی ہوگی۔ یہ وہی ہیں جو حرم شریف میں عہد کرکے کابل پہنچتے ہی توڑ دیتے تھے۔ اور خون کی ندیاں بہایا کرتے تھے۔ گروپس بیشک الگ تھے، مگر نسل یہ وہی ہے۔ جو ان کا جتنا بڑا حاجی ہوتا ہے وہ اتنا ہی بڑا سود خور اور ہندوؤں کا یار ہوتا ہے۔اگر ان میں ذرا بھی دینداری یا خدا خوفی ہوتی تو شی جن پنگ کے کہنے پر فتوی جاری کرتے؟
حماقت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ محض پولیٹکل و ملٹری آڈر بھی تو جاری کرسکتے تھے۔ مگر عقل اپنے مقام سے کھسک کر وہیں پہنچ جائے جہاں کافور بادشاہ کی پہنچ گئی تھی تو پھر ملا کو فتوے والی ٹھرک بھی تو پوری کرنی ہوتی ہے۔ سو اب یہ ہمیشہ اس طعنے کے ساتھ جئیں گے کہ انہوں نے دنیا کی سب سے بڑی ملحد ریاست کے حکم پر شرعی فتوی جاری کیا تھا۔ ایسے لوگ کس منہ سے یہ طے کرتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کی لڑائی کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان رعایت اللہ فاروقی کہ پاکستان پاکستان کی انہوں نے کے ساتھ ہوتا ہے کون سے
پڑھیں:
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کے فروغ میں مدد کیلیے تیار ہیں:چین
چین نے کہا ہے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری اور ترقی کےلیے تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لین جیان کے مطابق پاکستانی حکومت اور افغان عبوری حکومت نے اپنے سفارتی مشن کو سفیر کی سطح تک لانے کا اعلان کیا ہے اور چین اس پیشرفت کا خیرمقدم کرتا ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ چین سمجھتا ہے سفیر تعینات کرنے کا یہ اقدام دونوں ممالک کو باہمی اعتماد بڑھانے، تعاون مضبوط کرنے اور خطے میں امن و استحکام کو فروغ دینے میں مدد دے گا۔انکا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم اور مثبت قدم ہے جو ظاہر کرتا ہے .پاکستان اور افغانستان اس سال مئی میں ہونے والے چین افغانستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے غیر رسمی اجلاس کے نتائج پر عمل درآمد کر رہے۔