ایڈز ہر منٹ ایک موت کا سبب اور امدادی کٹوتیاں مریضوں کے لیے مزید خطرناک
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 06 جون 2025ء) 2024 کے بعد ایڈز سے متعلقہ اموات اب تک کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں لیکن طبی مقاصد کے لیے درکار امدادی وسائل کی قلت کے باعث اس بیماری پر قابو پانے کی کوششوں میں رکاوٹوں کا سامنا ہے جو ہر منٹ میں ایک انسان کی جان لے لیتی ہے۔
اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں تین کروڑ سے زیادہ لوگ ایچ آئی وی کے علاج سے مستفید ہو رہے ہیں اور اس حوالے سے ایڈز کے خلاف اقوام متحدہ کے اقدامات کثیرفریقی طریقہ کار کی کامیابی کی واضح مثال ہیں۔
تاہم، وسائل کی کمی دنیا بھر میں ایچ آئی وی کے خلاف طبی خدمات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ Tweet URLامینہ محمد نے یہ بات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے ایڈز کے خاتمے اور ایچ آئی وی کی روک تھام کے حوالے سے پیش رفت کا جائزہ لیے جانے کے موقع پر کہی ہے۔
(جاری ہے)
کامیابیاں ضائع ہونے کا خدشہنائب سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ ایچ آئی وی/ایڈز پر قابو پانے کے لیے کیے گئےوعدے پورے نہیں ہو رہے اور گزشتہ دہائیوں میں اس بیماری کے خلاف حاصل کی جانے والی تمام کامیابیاں ضائع ہو جانے کا خدشہ ہے۔ مالی مدد میں کمی آںے کے نتیجے میں بہت سی جگہوں پر کلینک بند ہو رہے ہیں اور علاج معالجے کا سامان ختم ہونے لگا ہے۔
ایسے حالات میں نوعمر لڑکیوں اور نوجوان خواتین کے اس بیماری سے متاثر ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔امریکہ کی حکومت کے اقدام 'پیپفار' کی بدولت افریقہ میں ایچ آئی وی کی روک تھام میں نمایاں مدد ملی لیکن ایچ آئی وی/ایڈز کے خلاف اقوام متحدہ کے عالمی پروگرام (یو این ایڈز) نے خبردار کیا ہے اب اس پروگرام کو مستقل مالی کٹوتیوں کا خطرہ درپیش ہے۔
امداد کی متواتر فراہمی جاری نہ رہنے کے نتیجے میں 2029 تک ایڈز سے مزید 40 لاکھ اموات ہو سکتی ہیں اور مزید 60 لاکھ افراد کے اس مرض میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہے۔مالی وسائل کی ضرورتامینہ محمد نے کہا ہے کہ مختصر مدتی مالی کٹوتیوں کے باعث طویل مدتی پیش رفت ضائع ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ایچ آئی وی/ایڈز کے خلاف جنگ جاری رہنی چاہیے۔
مالی وسائل کے بحران کو ہنگامی بنیاد پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ذیلی صحارا افریقہ کے نصف ممالک قرضوں کی ادائیگی پر جس قدر رقم خرچ کرتے ہیں وہ ان کے ہاں طبی سہولیات کی فراہمی پر ہونے والے اخراجات سے کہیں زیادہ ہے۔ ایسے ممالک کو قرضوں میں سہولت دینے، ٹیکس اصلاحات اور بڑے پیمانے پر عالمی مدد کی ضرورت ہے۔
نائب سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک کو ایچ آئی وی کے خلاف پائیدار طور سے مالی وسائل کی فراہمی اور ایڈز کے خلاف جنگ میں ملکی سطح پر مضبوط قیادت درکار ہے۔
طبی خدمات سے محرومیانہوں نے انسانی حقوق پر حملے بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ پسماندہ سماجی گروہوں کے خلاف تادیبی قوانین، تشدد اور اظہار نفرت کے باعث ایڈز سے وابستہ بدنامی میں شدت آ رہی ہے اور لوگ ضروری طبی خدمات سے محروم ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صحت کا تحفظ دراصل انسانی حقوق کا تحفظ ہوتا ہے۔
امینہ محمد نے بتایا ہے کہ مقامی سطح پر ایچ آئی وی/ایڈز کے خلاف کام کرنے والیب ہت سی تنظیمیں مالی وسائل نہ ہونے کے باعث بند ہو چکی ہیں جبکہ اس وقت ان کے کام کی اشد ضرورت تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ان تنظیموں کو اقوام متحدہ اور اس کے شراکت داروں کی جانب سے مدد کی ضرورت ہے۔ 2030 تک ایڈز کے پھیلاؤ کا خاتمہ ناممکن نہیں لیکن موجودہ حالات میں اس حوالے سے کامیابی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ مالی وسائل وسائل کی کی ضرورت کے باعث ہو رہے
پڑھیں:
بےقاعدہ نیند سے جُڑے خطرناک مسائل
ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بے قاعدہ نیند والے لوگوں میں ہارٹ اٹیک یا فالج کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
حال ہی میں ہونے والی تحقیق کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ دن میں مختلف اوقات میں سوتے ہیں اور جاگتے ہیں ان میں ممکنہ طور پر دل سے متعلق مہلک بیماری کا خطرہ 26 فیصد بڑھ جاتا ہے۔
محققین نے پایا کہ یہ بلند خطرہ اس بات سے منسلک ہے کہ آیا ان لوگوں نے رات کی تجویز کردہ سات سے نو گھنٹے کی نیند لی یا نہیں۔
اونٹاریو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے چلڈرن ہسپتال کے ایک سینئر سائنسدان جین فلپ کا کہنا تھا کہ ہمارے نتائج بتاتے ہیں کہ نیند کی باقاعدگی بڑے منفی قلبی عوارض کے خطرے میں اضافہ کرتی ہے۔
مطالعہ کے لیے محققین نے 72,000 سے زیادہ لوگوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جنہوں نے یو کے بائیو بینک میں حصہ لیا ہے۔ یوکے بائیوبینک ایک بڑے پیمانے پر صحت کے تحقیقی منصوبے کا پراجیکٹ ہے۔