مودی راج میں عیدالاضحیٰ منانا جرم ہوگیا؛ مسلمانوں کے مذہبی حقوق پر یلغار
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
بھارت میں ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی کے کٹھ پتلی وزیراعظم نریندر مودی کے راج میں عید قرباں منانا جرم بن گیا، جہاں مسلمانوں کے مذہبی حقوق پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے۔
دہلی ہائی کورٹ میں مسلمانوں کے تہوار منانے کے خلاف درخواست دائر کردی گئی ہے، جو کہ مسلم دشمنی کی لہر کے دوران ہندوتوا نظریے پر عملدرآمد ہی کی ایک کڑی ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ کے حکم کے بعد ہندوتوا ایجنڈے کے تحت بھارتی وکیل ونیت جندال کی جانب سے عدالتی کارروائی شروع کی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ 7 جون کو ہونے والی عید قربان پر مسلمانوں کو جانور خصوصاً گائے ذبح کرنے کی بالکل اجازت نہ دی جائے۔
مودی کے بھارت میں نام نہاد گؤ رکھشک مسلمانوں سے قربانی کرنے کا بنیادی حق بھی چھننے پر تلے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کی عبادات کو غیر قانونی قرار دینے کی مہم مودی سرکار کی سرپرستی میں کھلے عام جاری ہے جب کہ اس عمل کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے مکمل طور پر غیر قانونی اور غیر انسانی قرار دیا ہے۔
بھارت میں ہر سال عید پر 20 سے 50 لاکھ جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔ اس عمل کو روکنا مکمل غیر اخلاقی اور قانونی لحاظ سے شدید تشویش کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ مودی راج میں صرف مسلمانوں کی مذہبی رسومات پر قدغن لگانے والے قوانین کو فروغ دیاجارہا ہے۔
قربانی جیسے صدیوں پرانے فریضے کو بھارت میں جرم بنا کر مسلمانوں کو کونے میں دھکیلا جا رہا ہے۔ ہندوتوا تنظیموں کے دباؤ پر بنائی گئی پالیسیوں میں مسلم روایات کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مسلم دشمنی میں قربانی جیسے مذہبی فریضے کو غیر قانونی قرار دے کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کی ہدایات کو بھی مودی سرکار مکمل نظرانداز کر رہی ہے۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت مسلمانوں کی قربانی کرنے کو مذہبی حق تسلیم کیا گیا ہے جو مودی دور میں چھین لیا گیا۔ عدالتوں کو مذہبی ہم آہنگی کا حکم دینے والا آئین مودی راج میں بے اثر ثابت ہو رہا ہے۔
مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کےلیے قربانی کے خون کو جواز بنانا اقلیتوں کے خلاف نئی سازش ہے۔ عید سے قبل عدالتوں میں فریق بن کر مودی کے حامی وکلا مسلمانوں کی مذہبی اقدار پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ مودی سرکار کے دور میں اقلیتوں کے مذاہب کو قانون کے نام پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مسلمانوں کی بھارت میں جا رہا ہے
پڑھیں:
پنجاب بمقابلہ بہار تنازعہ، مودی کی ناکام پالیسیوں کے باعث بھارت میں نئی دراڑ
مودی کی ناکام پالیسیوں کے باعث بھارت میں نئی دراڑ پڑ گئی جب کہ مودی کی پالیسیاں بھارت میں فرقہ واریت کو بڑھا کر بہار اور پنجاب کے عوام کو آمنے سامنے لے آئیں۔
بھارتی پنجاب کے مختلف علاقوں میں بہاریوں کو بے دخل کرنے کے لیے پنجابی میدان میں آگئے، بہاری عوام کے بڑے پیمانے پر زبردستی انخلاء کے باعث لدھیانہ ریلوے اسٹیشن ہجوم کا منظر پیش کرنے لگا۔
سکھ برادری نے پنجاب میں بہاریوں کی بڑھتی ہوئی آبادکاری کے خلاف چندی گڑھ میں شدید احتجاج کیا، میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب میں ہر وقت 30 سے 40 لاکھ بہاری مزدور موجود ہوتے ہیں۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق پنجاب میں بہار اور یوپی کی اکثریت سمیت 12 لاکھ سے زائد بین الریاستی مزدور کام کر رہے ہیں۔
پنجابی شہری نے دعویٰ کیا کہ یہ بہاری کسی کے سگے نہیں، مشکل میں میدان چھوڑ کے بھاگ جانے والوں میں سے ہیں۔ جب باقی ریاستوں میں علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں تو پنجاب میں بھی صرف پنجابی بولی جائے گی۔
پنجابی شہری نے کہا کہ ہر کام میں پنجابی مزدوروں کو ترجیح دی جائے اور بہاریوں سے تمام علاقے خالی کرائے جائیں، یہ لوگ ہماچل تک سے آکر پنجاب کو لوٹ رہے ہیں۔
بھارت کے اندرونی تنازعات نے مودی کے نام نہاد "اکھنڈ بھارت" بیانیہ کی قلعی کھول دی، ہندوستانی سیکولرزم محض کتابی دعویٰ ثابت ہوا، زمینی حقائق ہندو شدت پسندی اور سماجی تقسیم ہے۔
آر ایس ایس کی نفرت انگیز سوچ نے بھارت کو ہندو-مسلم کے بعد پنجابی-بہار تصادم میں دھکیل دیا، مودی کا "سب کا ساتھ، سب کا وکاس" نعرہ صوبائی تنازعات کے شور میں دفن ہو چکا ہے۔