ٹرمپ کو امن کا پیامبر قرار دینا فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے، علامہ بشارت زاہدی
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
اپنے ایک بیان میں قم المقدسہ میں نمائندہ قائد ملت جعفریہ پاکستان اور مدیر دفتر کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی تعلقات میں الفاظ کا چناؤ بہت اہمیت رکھتا ہے اور ایک رہنماء کا بیان ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایسے میں، ایک متنازعہ شخصیت کو "امن کا پیامبر" قرار دینا ملک کی خارجہ پالیسی اور عوام کے جذبات کی درست عکاسی نہیں کرتا۔ اسلام ٹائمز۔ قم المقدسہ میں نمائندہ قائد ملت جعفریہ پاکستان اور مدیر دفتر علامہ بشارت حسین زاہدی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو "امن کا پیامبر" قرار دینے کے بیان نے بہت سے حلقوں میں شدید غم و غصے اور تشویش کو جنم دیا ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ٹرمپ کی پالیسیاں اور ان کی حکومتی فیصلوں کو عالمی سطح پر، خصوصاً مسلم دنیا میں، سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
بیان پر تحفظات کے اہم نکات:
* فلسطینی تنازعہ اور القدس:
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے القدس منتقل کیا گیا، جس کی عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی اور اسے فلسطینیوں کے حقوق کی صریح خلاف ورزی سمجھا گیا۔ اس فیصلے نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو مزید بڑھاوا دیا اور دو ریاستی حل کی امیدوں کو شدید دھچکا پہنچایا۔ ایک ایسے شخص کو جو اس قسم کے فیصلے کا ذمہ دار ہو، "امن کا پیامبر" کہنا نہ صرف فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے بلکہ عالمی امن کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
* مسلم ممالک سے متعلق پالیسیاں:
ٹرمپ انتظامیہ نے بعض مسلم ممالک پر سفری پابندیاں عائد کیں، جسے "مسلم بین" کا نام دیا گیا تھا۔ یہ پالیسی نہ صرف تعصب پر مبنی تھی بلکہ اس نے عالمی سطح پر اسلامو فوبیا کو بھی فروغ دیا۔ ایسے اقدامات کرنے والے شخص کو امن کا علمبردار قرار دینا کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔
* مقبولیت پسندی اور تقسیم کی سیاست:
ٹرمپ کی سیاست کو دنیا بھر میں مقبولیت پسندی اور تقسیم کو فروغ دینے والی سیاست کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس سے معاشرتی ہم آہنگی اور عالمی امن متاثر ہوا ہے۔ ان کے بیانات اور پالیسیاں اکثر عالمی سطح پر تصادم اور عدم استحکام کا باعث بنیں۔
اس بیان پر اٹھنے والے تحفظات اور غم و غصے کو سمجھنا مشکل نہیں۔ عوام کی یہ توقع بجا ہے کہ ان کے منتخب نمائندے ایسے بیانات سے گریز کریں، جو قومی غیرت اور عالمی امن کے اصولوں سے متصادم ہوں۔ بین الاقوامی تعلقات میں الفاظ کا چناؤ بہت اہمیت رکھتا ہے اور ایک رہنماء کا بیان ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایسے میں، ایک متنازعہ شخصیت کو "امن کا پیامبر" قرار دینا ملک کی خارجہ پالیسی اور عوام کے جذبات کی درست عکاسی نہیں کرتا۔ یہ ضروری ہے کہ ہمارے رہنماء ایسے بیانات دیتے وقت زمینی حقائق اور عوامی جذبات کا پاس رکھیں، تاکہ قومی وقار اور عالمی ساکھ کو برقرار رکھا جا سکے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امن کا پیامبر عالمی سطح پر ملک کی
پڑھیں:
جنگ بندی کیلئے صدر ٹرمپ کےکردارکو سراہتے ہیں، انہوں نے ثابت کیا کہ وہ امن کے پیامبر ہیں: وزیراعظم
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہےکہ جنگ بندی کے لیے امریکی صدر ٹرمپ کے اہم کردار کو سراہتے ہیں، صدر ٹرمپ نے ثابت کیا کہ وہ امن کے پیامبر ہیں۔
امریکی سفارت خانے میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کوئی شک نہیں رہا کہ پہلگام واقعہ بھارت کا فالس فلیگ آپریشن تھا، پاکستان نے کشیدہ صورتحال میں بھی بہت تحمل کا مظاہرہ کیا، امریکی صدر ٹرمپ سرد اور گرم جنگ کے خلاف ہیں، جنگ بندی کے لیے صدر ٹرمپ کے اہم کردار کو سراہتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے ثابت کیا کہ وہ امن کے پیامبر ہیں، امن کے فروغ، اقتصادی روابط میں اضافےکے لیے صدرٹرمپ کی کوشش قابل ستائش ہے، پاک بھارت کشیدگی میں کمی اور جنگ بندی کے لیے دوست ملکوں کے بھی شکر گزار ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی پر عمل ہو رہا ہے ، نائن الیون کےبعد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ شروع ہوئی، 2018 میں پاکستان نے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کردیا تھا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بھاری جانی مالی نقصان اٹھایا،90 ہزار سے زائد شہادتیں اور 150 ارب ڈالر سے زائدکا معاشی نقصان ہوا، انسداد دہشت گردی کے لیے پاکستان کی قربانیاں کسی سےکم نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلگام واقعے پر بھارت کو غیرجانبدارانہ عالمی انکوائری کی پیشکش کی، ہماری مخلصانہ پیشکش کے جواب میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا، بھارت نے حملے کرکے پاکستان میں خواتین اور بچوں کو بھی نشانہ بنایا، پاکستان نے اپنے دفاع میں بھارت کے 6 جہاز مارگرائے، پاکستان ہمیشہ خطے میں امن استحکام اور خوشحالی کا خواہشمند رہا ہے۔
وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ ہماری توجہ معیشت کو مضبوط بنانے پر ہے، امریکا کے ساتھ اقتصادی تعلقات بڑھانےکے لیے اقدامات جاری ہیں، ٹیرف کے مسئلے سمیت تجارت میں اضافے کے لیے اقدامات جاری ہیں، پاکستان اور امریکا کے تعلقات نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں، پاک امریکا تعلقات مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہیں، دونوں ملک جمہوری روایات اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔
مزیدپڑھیں:اسلام آباد میں امریکہ کے یومِ آزادی کی تقریب، وزیر اعظم شہباز شریف کی خصوصی شرکت، نیٹلی بیکر کا دوستی اور تعاون پر زور