علی ظفر کی بیدری سے قتل کی گئی ٹک ٹاکر ثنا کے نام جذباتی نظم وائرل
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
معروف گلوکار، اداکار اور مصور علی ظفر نے اسلام آباد میں قتل ہونے والی 17 سالہ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے نام دل دہلا دینے والی ایک نظم تحریر کی ہے۔
سوشل میڈیا پر گلوکار علی ظفر نے اپنے جذباتی پیغام میں لکھا کہ ثنا یوسف کے بہیمانہ قتل سے میرے دل پر ایک ایسا بوجھ بن گیا ہے جو ہلکا ہونے کا نام نہیں لیتا۔
انھوں نے کہا کہ لیکن یہ غم نیا نہیں ہے۔ قندیل بلوچ سے نور مقدم تک بس نام بدلتے ہیں، زخم وہی رہتا ہے۔
علی ظفر نے مزید لکھا کہ یہ ذمہ داری ہماری ہے کہ ہم اپنے گھر میں مردوں کی تربیت کریں۔ جب تک ہم اپنے بیٹوں کو نرمی، ہمدردی، احترام اور عزت دینے کی تعلیم نہیں دیں گے، ہم اپنی بیٹیاں کھوتے رہیں گے۔
اپنے ویڈیو پیغام میں علی ظفر نے اس سانحہ پر اپنی لکھی ہوئی نظم ’’محبت‘‘ سنائی۔
محبت ملکیت نہیں، احساس ہے، یقین ہے
عورت کوئی شے نہیں — وہ مکمل ہے، مکمل ذات
مرد وہی ہے جو عورت کو بلند پرواز میں دیکھ کر مسکرائے
جس کی روح اُس کے آنسو سن کر بے قرار ہو جائے
عزت اُس کے لباس میں نہیں
بلکہ مرد کی نگاہ کی خاموش شائستگی میں ہوتی ہے
محبت فرمانبرداری کی بنیاد پر نہیں
بلکہ برابری، عزت اور باہمی رضامندی پر قائم ہوتی ہے
خوبصورتی کی فانی چمک پر فیصلہ نہ کرو
بلکہ اُس کے نام کی سچائی کو تلاش کرو
کیسا مرد ہے جو عورت کے انکار سے
اپنی انا زخمی محسوس کرے؟
حقیقی مرد دل جیتتا ہے، مانگ کر نہیں، حکم سے نہیں
بلکہ شائستگی کی طاقت اور آزادی دینے والے دل سے
یاد رہے کہ اسلام آباد میں ایک نوجوان نے دوستی سے انکار اور ملنے سے منع کرنے پر ٹک ٹاکر ثنا یوسف کو گھر میں گھس کر گولیاں مار کر قتل کردیا تھا۔
بعد ازاں ملزم فرار ہوگیا تھا جسے پولیس نے فیصل آباد سے حراست میں لے لیا۔ وہ بھی ٹک ٹاکر تھا اور ثنا کی مقبولیت سے حسد کرتا تھا۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
یہ غلط ہو رہا ہے
پہلے دنیا ہر دس برس بعد اپنا رنگ ڈھنگ تبدیل کرتی تھی مگر اب بدلاؤ کا عمل بہت تیزی اختیارکرچکا ہے، ہر شے ہی ٹھہراؤ کے معنی سے انجان ہوتی جا رہی ہے، جدیدیت کی جدت بھی مانند پڑنے لگی ہے، نئے اطوار پرانے اور پرانے اطوار فرسودہ بہت کم وقت میں ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی بھی طرح کی تبدیلی جب اپنے روایتی طریقہ کار کے تحت رونما ہوتی ہے تو وہ معاشرے اور اُس کے افراد کو خوشگواری کی نوید سناتی ہے۔
مگر مسلسل آنے والی غیر معمولی تبدیلیاں معاشرے کو صرف اور صرف بربادی کی جانب دھکیلنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ قدرت نے اس دنیا میں ہونے والے ہر کام کا ایک مخصوص عمل موجود رکھا ہے جس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے، دنیا والوں کی جانب سے قدرتی نظام سے چھیڑ چھاڑ کی صورت میں زمین پر تباہی کا نزول ناگزیر ہے۔
اس کرہ ارض پر روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی مختلف اقسام کی ایجادات جہاں ایک طرف ابنِ آدم کو سہولیات فراہم کر رہی ہیں، وہیں دوسری طرف اُن کے مضر اثرات پوری قومِ انسانی کو شدید نقصان بھی پہنچا رہے ہیں۔ انسانوں کا مشترکہ مزاج اس طرزکا ہے کہ وہ تھوڑے فائدے کے آگے بڑے نقصان کو کسی خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب کسی چیز سے اُنھیں بیشمار فائدہ پہنچ رہا ہوتا ہے تو اُن کی آنکھیں اُس کے ہمراہ آنے والی بڑی خرابی کو دیکھنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔ ہم سبھی نے یہ سن رکھا ہے کہ ’’ لالچ بری بلا ہے‘‘ دراصل مزید اور مزید کی خواہش ہم سے میسر آیا ہوا بھی چھین لیتی ہے، زیادہ کی تمنا انسان کے وجود میں بے چینی پیدا کر دیتی ہے۔
نعمت کا اصل مزا انتظار میں ہے کیونکہ ہر شے کا فوراً مل جانا زندگی کا حُسن ختم کر دیتا ہے۔ محرومی انسان کو اپنی زندگی میں آگے بڑھنے اور بہتری کی جانب سفر کرنے پر اُکساتی ہے، اس کے علاوہ یہ انسانوں کے اندر قدرکا جذبہ بھی اُجاگر کرتی ہے۔ انسان کا شاکر ہونا اور تھوڑے کو بہت سمجھنا اُس کے ذہنی سکون کے لیے انتہائی اہم ہے، البتہ بِنا محنت، بغیر مانگے اور وقت سے پہلے کیسی چیز کا مل جانا انسان کی طبیعت میں اُچاٹ پن اور بیزاری کو جنم دیتا ہے۔
اگر انسان کا دماغ اور جسم دونوں مثبت کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہوں گے، تبھی وہ صحیح معنوں میں صحت مند گردانا جائے گا، بصورت دیگر وہ خود پر خود ہی بوجھ بن کر رہ جائے گا جسے اُٹھانا اُس کے اعصاب کو تھکا کر شل کردے گا۔ ہر انسانی ترقی قابلِ ستائش نہیں ہوتی ہے بلکہ کچھ تو بِلا ضرورت وقوع پذیر ہو جاتی ہیں جو سکون کے بجائے بے سکونی کا باعث ثابت ہوتی ہیں۔
تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو یہ دیکھ کر بے حد حیرانی ہوتی ہے کہ پرانے وقتوں میں انسان کے پاس آسائشیں کم یا نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیں مگر اطمینان اور خوشی کا احساس اپنی انتہا پر موجود تھا، اس کے برعکس زمانہ حال میں بنی نوع انسان کے پاس تقریباً ہر شے بے حساب ہے، ماسوائے چین و سکون کے۔
دورِ ماضی میں جب انسان خوش ہوتا تھا تو سرشاری اُس کے پورے وجود سے عیاں ہوتی تھی اور جب کبھی وہ رنج، پریشانی اور بے چینی کی کیفیات میں مبتلا ہو جاتا تھا تب وہ رنجیدگی اور دل گیری کی جیتی جاگتی تصویر پیش کر رہا ہوتا تھا۔ آج کی دنیا میں ہر انسان اپنے آپ میں ایک بہترین اداکار ہے جن کو اپنے اندرونی جذبات کو ظاہر ہونے سے روکنا باخوبی آتا ہے، ظہورِ احساسات کے سامنے زبردستی بند باندھنے کے اس عمل نے موجودہ دور کے ہر دوسرے انسان کو ذہنی طور پر بیمار کر کے رکھ دیا ہے۔
نئے دورکے انسان کی کوئی ذاتی پسند یا ناپسند نہیں ہے بلکہ زمانے کا چلن اُن کا منظورِ نظر بن جاتا ہے، وہ شوق بھی صرف وہی پالتے ہیں جن کو اشرافیہ قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اپنی جڑوں میں موجود تخلیقی عنصرکی بیدردی سے ناقدری کرتے ہوئے انسان خود سے بہتر لگنے والے افراد کی نقول بننے کو ترجیح دیتا ہے۔
یہاں ہرکوئی اپنی کھوکھلی ذات کو دنیا کے سامنے سجا، سنوار کر پیش کرنے کے قابل بنانے کے جتن کرنے میں اتنا مصروف ہوچکا ہے کہ اپنے اصل کو بالکل فراموش کر بیٹھا ہے۔ ماڈرن ورلڈ کے انسانوں کو لگتا ہے کہ اگر وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو مسلسل اپنی موجودگی کا احساس نہیں دلائیں گے تو وہ اُنھیں بھول جائیں گے تبھی وہ جگ بھاتے معیار پر پورا اُترنے کی کوششوں میں خود کو ہلکان کر کے رکھ دیتے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ آج کا انسان اپنی ذات کے بجائے دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے جی رہا ہے تو اس میں قطعی مبالغہ آراء نہیں ہوگی۔جدید دنیا نے یہاں بسنے والے تقریباً تمام نوجوانوں کو ذہنی دباؤ کا شکار بنا دیا ہے، ہنسنے کھیلنے اور موج مستی کی عمر میں وہ اپنے دماغ پر بلاضروری بوجھ ڈال کر وقت سے پہلے سنجیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔
انٹرنیٹ سرفنگ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہماری نوجوان نسل کے دماغ کوکھانے کا کام کر رہے ہیں جب کہ موبائل اسمارٹ فون، ایٹم بم سے کم خطرناک ثابت نہیں ہو رہے ہیں۔ گزرے ہوئے وقتوں میں کبھی موبائل فون رابطے کا ذریعہ مانے جاتے تھے لیکن اب یہ ہماری ذہنی و جسمانی صحت اور نسلوں کو تباہ کرنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹس نے انسان کو سماج میں متحرک تو نہیں کیا بلکہ الٹا ایسی بھیانک تنہائی میں جھونک دیا ہے جہاں اُن کا جسم اور روح بھی ایک دوسرے سے انجان انجان دکھائی دیتے ہیں۔روشنی جب تک نورکی حیثیت سے ہماری زندگیوں میں رمق بکھیرتی ہے تب تک ہی وہ قلب کو بھاتی ہے، ساتھ ہمارے پورے وجود کو منور اور پر رونق بنا کر خوشنمائی کا پیکر بنا دیتی ہے جب کہ اُسی روشنی کی زیادتی اور بھڑکیلا پن ہماری آنکھوں کو چندھیا کر بینائی سے محروم کردیتا ہے۔
کسی بھی شے کو ضرورت سے بڑھ کر استعمال کرنا اُس کو امرت سے زہر میں تبدیل کر دیتا ہے، لفظ معتدل کو اُس کے صحیح معنوں اور پوری افادیت کے ساتھ زندگی میں اپنانے سے ترنم کا احساس تادمِ مرگ زندہ رہتا ہے۔ زمانے کی چکا چوند میں اپنی ذات کوگم ہونے سے بچانے کے لیے میسر آئی تمام طرزکی تسہیل کو صرف اور صرف اُس کی مثبتیت کے ساتھ بروئے کار لانا انتہائی ضروری ہے۔ انسان کا سب سے بڑا دشمن وہ خود ہے لہذٰا خود کو خود ہی سے بچانے کی حکمتِ عملی مرتب کرنے میں دیر نہ لگائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت نکل جائے اور آپ کی بقاء کے سارے در مقفل ہو جائیں۔