Express News:
2025-10-04@16:50:17 GMT

غزہ ، انسانیت کی شکست کا استعارہ

اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT

اسرائیلی بحریہ نے غزہ کے لیے امداد لے جانے والے ’’ گلوبل صمود فلوٹیلا‘‘ پر ایک بڑا فوجی آپریشن کرتے ہوئے 42 کشتیوں کو تحویل میں لے لیا اور ان میں سوار 450 سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا۔

دوسری جانب غزہ میں اسرائیلی حملوں میں مزید 53 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ شہر میں اب بھی سات لاکھ افراد پھنسے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ نے امریکا کے نئے جنگ بندی منصوبے کو مسترد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

 غزہ ایک بار پھر تاریخ کے خون آلود اور سیاہ باب کی زد میں ہے۔ اسرائیلی بمباری، ٹینکوں کی گھن گرج، فضا میں اڑتے ہوئے تباہ کن طیارے، ملبے کے نیچے دبی انسانی چیخیں، ادھ جلی لاشیں، بچوں کی لاوارث نعشیں، اور غزہ شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ عالمی طاقتیں، انسانی حقوق کے دعویدار اور بین الاقوامی ادارے سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ان کی خاموشی، ان کی لاتعلقی اور ان کے دہرے معیار اس انسانی المیے کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔

غزہ کی جانب امداد لے جانے والے ’’گلوبل صمود فلوٹیلا‘‘ پر اسرائیلی بحریہ کی کارروائی انسانی ہمدردی پر براہِ راست حملہ ہے۔ 42 کشتیوں کو تحویل میں لینا، 450 سے زائد امدادی کارکنوں کو گرفتار کرنا اور انھیں اشدود بندرگاہ منتقل کر کے یورپ ڈی پورٹ کرنا عالمی قوانین اور انسانی اقدار کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

فلوٹیلا میں شریک افراد محض سیاسی کارکن نہیں تھے، بلکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غزہ کے متاثرین کے لیے خوراک، ادویات، اور بنیادی ضروریات لے کر جا رہے تھے۔ ان میں سویڈن کی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ، پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد، اور جنوبی افریقہ کے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا کے پوتے نکوسی زویلیولیلی بھی شامل تھے۔ ان افراد کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ انسانی اقدار، انصاف اور مظلوموں کے لیے آواز بلند کر رہے تھے۔

اگر دنیا میں کوئی قانون ہوتا، اگر عالمی ضمیر بیدار ہوتا، تو اسرائیل کے اس عمل کو بحری قزاقی اور دہشت گردی قرار دے کر اسے جواب دہ ٹھہرایا جاتا، لیکن بدقسمتی سے عالمی طاقتوں نے خاموشی کو ترجیح دی، اور اسرائیلی جارحیت کو نظر انداز کر کے گویا اسے اس جرم کی اجازت دے دی۔

غزہ میں خوراک، پانی، بجلی، اور دوا کی عدم دستیابی ایک ایسی صورت حال پیدا کر چکی ہے جو نسل کشی کے مترادف ہے۔ جب کسی علاقے کو مکمل طور پر بند کر کے وہاں انسانی زندگی کے تمام بنیادی وسائل ختم کر دیے جائیں، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہاں زندہ رہنا ممکن نہیں۔ یہی صورت حال آج غزہ میں ہے۔13 افراد جو گزشتہ روز شہید ہوئے، وہ صرف اس لیے مارے گئے کہ وہ خوراک کی تلاش میں نکلے تھے۔

یہ واقعہ عالمی ضمیر پر ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب شاید کبھی نہ ملے۔ اگر دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں واقعی مخلص ہوتیں، تو وہ اس واقعے کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی المناک داستانوں میں شمار کرتیں، لیکن یہاں بھی دہرے معیار غالب ہیں۔ غزہ شہر، جو کبھی زندگی، ثقافت اور مزاحمت کا مرکز تھا، آج ایک کھلی جیل بن چکا ہے۔

اسرائیلی ٹینکوں نے شہر کا مرکزی راستہ بند کر دیا ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق اب بھی سات لاکھ سے زائد فلسطینی شہری شہر میں محصور ہیں۔ ان کے لیے نہ خوراک ہے، نہ دوا، نہ بجلی اور نہ ہی کوئی محفوظ پناہ گاہ۔ یہ لوگ بے بسی کی اس انتہا پر ہیں جہاں سے آگے صرف موت کی وادی ہے، لیکن اس کے باوجود، ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ غزہ میں مقیم عوام کا کہنا ہے ’’ مرجائیں گے، لیکن غزہ چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ ہمیں ڈر ہے اگر یہاں سے گئے تو کبھی واپس نہیں آ سکیں گے۔‘‘ یہ ایک اجتماعی عزم ہے، ایک اجتماعی فیصلہ، جو کسی سیاسی منشور یا رہنما کے حکم کا نتیجہ نہیں بلکہ تاریخ کے زخم خوردہ لوگوں کی فطری مزاحمت کا عکس ہے۔

فلسطینی عوام کو گزشتہ سات دہائیوں سے انسانی حقوق کی مسلسل پامالی کا سامنا ہے، لیکن موجودہ حملے ان تمام مظالم کی انتہا ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اب تک شہدا کی تعداد 66 ہزار 225 ہو چکی ہے، جب کہ زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ 68 ہزار 938 سے تجاوزکرچکی ہے۔

ان اعداد و شمار کے پیچھے صرف اعداد نہیں، بلکہ ٹوٹے ہوئے گھرانے، یتیم بچے، دکھی مائیں اور جلتے ہوئے خواب ہیں۔ ایک عام شہری جب بھوک، قحط اور پانی کی تلاش میں گھر سے نکلتا ہے اور اسرائیلی گولے کا نشانہ بن جاتا ہے، تو یہ محض ایک فوجی کارروائی نہیں بلکہ انسانیت پر حملہ ہوتا ہے۔

اسی تناظر میں حالیہ دنوں میں امریکا کی طرف سے پیش کردہ جنگ بندی منصوبہ حماس کے عسکری ونگ نے مسترد کر دیا ہے۔ اس منصوبے میں نہ صرف حماس سے مکمل ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا بلکہ اسے غزہ کی مستقبل کی حکومت میں بھی کسی قسم کا کردار دینے سے انکار کیا گیا۔ مزید برآں، ’’ سیکیورٹی بفر زون‘‘ قائم کرنے اور بین الاقوامی فورس تعینات کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی، جوکہ دراصل ایک نئی قسم کا قبضہ ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس منصوبے کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیش کیا، جسے اسرائیل پہلے ہی قبول کر چکا ہے، لیکن حماس کو کوئی رعایت دیے بغیر اس سے مکمل اطاعت کا تقاضا کیا گیا ہے۔ قطر میں موجود حماس کی سیاسی قیادت اگرچہ ترامیم کے ساتھ منصوبے کو قبول کرنے پر آمادہ ہے، مگر ان کا اثر و رسوخ محدود ہے، کیونکہ جنگی قیدیوں اور یرغمالیوں کا کنٹرول ان کے پاس نہیں۔ یہ تمام حقائق اس بات کا مظہر ہیں کہ عالمی طاقتیں، خاص طور پر مغربی دنیا، مسئلہ فلسطین کو انصاف کے ترازو میں نہیں بلکہ اپنے سیاسی، معاشی اور اسٹرٹیجک مفادات کی عینک سے دیکھتی ہیں۔ انسانی حقوق، آزادی، خود مختاری، اور جمہوریت جیسے نعرے صرف اس وقت بلند کیے جاتے ہیں جب ان سے مغربی مفادات کو فائدہ ہو۔

یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ ایسا ہولناک المیہ دنیا کی نظروں کے سامنے پیش آ رہا ہے اور دنیا بے حس، بے بس اور مفلوج بنی تماشائی ہے۔ اسرائیل کے بے رحم حکمرانوں کے ہاتھوں فلسطینیوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، ان پر دنیا کس طرح خود کو بری الذمہ قرار دے سکتی ہے؟ آنے والی نسلیں آج کے عالمی رہنماؤں کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔آنے والی نسلیں پوچھیں گی کہ دنیا کس طرح ان درندگی بھرے اقدامات کے مقابل خاموش رہی؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا جذبات سے عاری ہو چکی ہے۔ غزہ میں جاری قیامت خیز صورتحال انسانی ضمیرکا پیچھا کرتی رہے گی۔

بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں کی چیخیں، جو خیراتی اداروں کے چند نوالوں کے لیے دوڑ رہے ہیں، ہر انسان کے دل میں درد بیدار کرتی ہیں۔ یہ مناظر انسانیت کے لیے باعثِ شرم ہیں۔ کیمرے میں محفوظ کیے گئے یہ مناظر موجودہ اور آنے والی نسلوں کی یاد داشت سے کبھی مٹ نہیں سکیں گے۔ اور وہ مناظر جن میں ماں باپ اپنے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے بچوں کی لاشوں پر چیخ رہے ہیں، وہ انسانی ضمیر کو ہمیشہ جھنجھوڑتے رہیں گے۔

آنے والی نسلیں پوچھیں گی کہ کیا دنیا کے پاس ظلم روکنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا؟یہ المیہ صرف مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تصادم کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ انسانیت کا زخم ہے۔ بیشتر یہودی بھی ان بربریت بھرے اقدامات کے مخالف ہیں۔ غزہ اب صرف فلسطین کا نہیں، بلکہ انسانی المیے کی علامت بن چکا ہے۔

دنیا کو اس پر شرمندہ ہونا چاہیے کہ وہ ان مجرموں کو روکنے، ان پر مقدمے قائم کرنے، اور انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے مؤثر نظام قائم کرنے میں ناکام رہی۔ مغرب کو اب انسانی حقوق، انسانی وقار اور شہریوں کے تحفظ کے دعووں سے باز آنا چاہیے، کیونکہ غزہ میں ان کے دہرے معیار، منافقت اور خاموشی نے سب کچھ بے نقاب کر دیا ہے۔غزہ کا بحران نہ صرف فلسطینیوں کا المیہ ہے بلکہ انسانیت کی مجموعی شکست کا استعارہ ہے۔

جب معصوم بچوں کی لاشیں دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے میں ناکام رہیں، جب اسپتالوں کے ملبے کے نیچے دبی چیخیں اقوام متحدہ کو خواب غفلت سے نہ جگا سکیں اور جب امدادی کارکنوں کی گرفتاریاں عالمی قوانین کو حرکت میں نہ لا سکیں، تو ہمیں خود سے سوال کرنا چاہیے۔ ’’ ہم کہاں کھڑے ہیں؟‘‘ اگر اس ظلم پر خاموشی اختیار کی گئی، تو کل یہ ظلم کسی اور دروازے پر دستک دے گا۔ فلسطین کا مسئلہ صرف ایک خطہ زمین کا نہیں، بلکہ یہ انصاف، انسانی وقار اور عالمی ضمیر کا امتحان ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی بے حسی کو توڑیں، آواز بلند کریں، اور مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں، اگر ہم آج بھی خاموش رہے، تو کل تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بلکہ انسانی اقوام متحدہ بچوں کی نے والی رہے ہیں کے لیے اور ان دیا ہے چکا ہے

پڑھیں:

امدادی قافلے پر اسرائیلی حملہ بین الاقوامی پانیوں میں قانون اور انسانیت دونوں کی صریح توہین ہے، صادق جعفری

احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم رہنما نے کہا کہ فلسطین میں موجود مزحمتی جماعتیں غاصب اسرائیل کے خلاف اپنا جائز دفاع کر رہی ہیں، اسرائیل مغربی کنارے سمیت غزہ پر مسلسل حملے کر رہا ہے، امریکہ اور یورپی ممالک مشرق وسطیٰ میں امن و امان کے خیر خواہ نہیں، ٹرمپ کی امن تجاویزات کو عرب و مسلم ممالک کو مسترد کرنا چاہیئے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے کراچی کے صدر علامہ شیخ محمد صادق جعفری نے کہا ہے کہ پاکستانی 25 کروڑ عوام ٹرمپ منصوبے کو سختی سے مسترد کرتی ہے، ہمیں ٹرمپ کا نہیں قائد اعظم محمد علی جناح کا پاکستان چاہیئے، نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار عوام کو معاہدے سے مطلق بے وقوف نہ بنایئے، کل اگر کشمیری عوام کے بغیر ٹرمپ مسئلہ کے حل کیلئے اپنا ایجنڈا دیتے ہیں تو کیا حکومت قبول کرے گی۔ جامع مسجد حیدر کرار اورنگی ٹاؤن کے باہر احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے علامہ صادق جعفری، علامہ مبشر حسن کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ نہ صرف فلسطینی قوم کے بنیادی حقوق کی نفی کرتا ہے بلکہ غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف یہود و نصاریٰ کی ایک منظم اور گہری سازش ہے، غزہ کے عوام کو ان کے وطن، شناخت، خودمختاری اور جغرافیائی وحدت سے محروم کرنے کی اس  مذموم کوشش کے خلاف امت مسلمہ کو آواز بلند کرنا ہوگی، اس منصوبے کا مقصد غزہ کو سیاسی طور پر تنہا، معاشی طور پر مفلوج، اور انسانی سطح پر تباہ کرنا اور وہاں کی مزاحمتی آواز کو مکمل طور پر خاموش کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے عوام کو سیاسی منظرنامے سے نکالنے کی کوشش ایک ناقابل قبول اقدام ہے جو بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور انسانی حقوق کے اصولوں کے سراسر خلاف ہے، اس منصوبے کے ذریعے فلسطینی سرزمین کی تقسیم، انضمام اور غزہ کی علیحدگی کو ایک ''حل'' کے طور پر پیش کرنا اصل میں قبضے کو قانونی جواز فراہم کرنے کی کوشش ہے، غزہ پر جاری ناکہ بندی، معاشی پابندیاں اور مسلسل عسکری حملے اس منصوبے کے نفاذ کی عملی صورت ہیں، جو غزہ کے لاکھوں مظلوم عوام کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہیں، فلسطینی مجاہدین ایسے کسی دھوکے میں نہیں آئیں گے، ٹرمپ کے ایجنڈے پر فلسطین کا سودا کرنے والے مسلم حکمران خیانت کار ہیں، امریکہ و صہیونی غاصب ریاست کی افواج نے سرزمین انبیاء فلسطین پر لاکھوں بے گناہ انسانوں کا خون بہایا ہے، پاکستانی حکمران خائن عرب بادشاہوں کے طرز عمل اپنا رہے ہیں، خائن عرب حکمرانوں کی طرح فلسطین کا سودا نہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین میں موجود مزاحمتی جماعتیں غاصب اسرائیل کے خلاف اپنا جائز دفاع کر رہی ہیں، اسرائیل مغربی کنارے سمیت غزہ پر مسلسل حملے کر رہا ہے، امریکہ اور یورپی ممالک مشرق وسطیٰ میں امن و امان کے خیر خواہ نہیں، ٹرمپ کی امن تجاویزات کو عرب و مسلم ممالک کو مسترد کرنا چاہیئے، ہم عالمی برادری، اقوام متحدہ، اسلامی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس خطرناک اور غیر انسانی سازش کا حصہ بننے کی بجائے اس کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوں، غزہ کے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات وقت کی اولین ضرورت ہے، ہم فلسطین کی مکمل آزادی، القدس کو دارالحکومت بنانے اور غزہ سمیت پورے فلسطین میں عوام کے حقِ خودارادیت کے لیے اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے، ٹرمپ منصوبہ تاریخ کی کوڑے دان میں جائے گا لیکن غزہ کے عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، غزہ فلسطین کا دل ہے اور دل کی اس دھڑکن کو کبھی خاموش نہیں ہونے دیا جائے گا۔

رہنماؤں نے گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیل کا قبضہ کرنے سینیٹر مشتاق سمیت 150 سے زائد نہتے کارکنوں کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ امدادی قافلے پر اسرائیلی حملہ بین الاقوامی پانیوں میں قانون اور انسانیت دونوں کی صریح توہین ہے، واقعہ دراصل غزہ کے غیر قانونی اور غیر انسانی محاصرے کو مزید سخت کرنے کی ایک شرمناک کڑی ہے، قافلہ کسی جنگ کے لیے نہیں، بلکہ بھوک اور پیاس سے تڑپتے غزہ کے بچوں اور مریضوں کے لیے زندگی کا پیغام لے کر نکلا تھا مگر اسرائیلی جارحیت ایک بار پھر دنیا پر عیاں ہوگئی ہے، اس ریاست کے اصل عزائم امداد روکنے، ظلم بڑھانے اور انسانیت کو روندنے کے سوا کچھ نہیں، حکومت اپنے اس دوغلے رویے کو ترک کرے، مگرمچھ کے آنسو بہانے کے بجائے فلسطین کے مظلوم عوام کے ساتھ دے سینیٹر مشتاق سمیت دیگر مغویوں کو فوری آزاد کرایا جائے، ملکی عوام امریکی صدر کے ایجنڈے کو مسترد کرتی ہے حکومت فورا اپنی حمایت واپس لے۔ شرکائے احتجاج نے امریکہ و اسرائیل کا پرچم نذر آتش کیا۔

متعلقہ مضامین

  • حماس کی طرف سے قیدیوں کی رہائی کی پیشکش، شکست یا حکمت عملی؟
  •    آزاد کشمیر کی 12 نشستوں کا معاملہ آئینی ، جذبات نہیں سمجھداری سے بات ہونی چاہیے، اعظم نذیر تارڑ
  • امدادی قافلے پر اسرائیلی حملہ بین الاقوامی پانیوں میں قانون اور انسانیت دونوں کی صریح توہین ہے، صادق جعفری
  • ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں ،کاشف سعید شیخ
  • صمود فلوٹیلا پرحملہ، انسانیت کا مقدمہ
  • اسرائیل کا گلوبل صمود فلوٹیلا پر حملہ، 200 سے زائد انسانی حقوق کارکن گرفتار کرلئے، دنیا بھر میں مذمت جاری
  • صہیونیت دنیا بھر کیلئے واحد حقیقی خطرہ ہے، وینزویلا
  • سیز فائر یا سودۂ حریت؟ فلسطین اور دو ریاستی فریب
  • فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ امریکہ نہیں، بلکہ فلسطینی عوام کرینگے، علامہ مقصود ڈومکی