پشاور:

صوابی میں دریائے سندھ میں ڈوبنے والے دس افراد کو بچالیا گیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق صوابی ہنڈ کے مقام پر دریائے سندھ میں کشتی الٹںے سے دس افراد پانی میں ڈوب گئے جس پر ریسکیو ادارے کی بوٹ فوری طور پر پہنچ گئی اور ڈوبنے والوں کو بچالیا۔

امدادی ادارے ریسکیو ون ون ٹو ٹو کے مطابق غوطہ خوروں کی ٹیموں نے تمام ڈوبنے والوں کو بچالیا ہے۔

اس حوالے سے امدادی ادارے کی ویڈیو بھی سامنے آئی ہے جس میں دریا میں گرنے والے افراد کو بچایا جارہا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کو بچالیا

پڑھیں:

بجٹ 26-2025: کس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد زیادہ مستفید ہوں گے؟

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نئے مالی سال 26-2025 کا 17 ہزار 573 ارب روپے سے زائد حجم کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ بجٹ پر ملا جلا رجحان پایا جا رہا ہے، کوئی اس سے خوش ہے تو کوئی ناراض۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ 26-2025: سولر پینلز پر کتنے فیصد جی ایس ٹی تجویز ہوا؟

تنخواہ دار طبقہ اور ریئل اسٹیٹ سے تعلق رکھنے والے افراد قدر خوش نظر آ رہے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ جو حکومت نے بجٹ تجاویز پیش کی ہیں وہ مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے کتنی مفید ثابت ہونگی؟

اس حوالے سے جاننے کے لیے وی نیوز نے معاشی ماہرین سے بات کرکے جاننے کی کوشش کی کہ حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کی گئیں بجٹ کی تجاویز عوام اور معیشت کے لیے کتنی فائدہ مند ہوں گی۔

معاشی ماہر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ اس سے زیادہ سخت بجٹ کی توقع کی جا رہی تھی تاہم موجودہ بجٹ نسبتاً بہتر رہا۔ اس بہتری کا بڑا کریڈٹ شرح سود میں کمی کو جاتا ہے جو کہ 22 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد پر آ چکی ہے۔ اس کمی کی بدولت حکومت کو 8 سے 9 ارب روپے کا ریلیف حاصل ہوا جس کے نتیجے میں وہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ہونے کے باوجود عوام کو کچھ سہولیات فراہم کرنے کے قابل ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ان سہولیات میں تنخواہ دار طبقے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں و پنشنز میں اضافہ اور زرعی شعبے کے لیے مراعات شامل ہیں۔

مزید پڑھیے: بجٹ 26-2025: پراپرٹی کی خریداری و فروخت پر عائد ٹیکسز میں بڑی کمی

عابد سلہری نے واضح کیا کہ زرعی شعبے میں، خاص طور پر فرٹیلائزر پر سیلز ٹیکس میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ بھی شرح سود میں کمی ہے۔ حکومت کو کمرشل بینکوں کو سود کی ادائیگی میں جو کمی آئی، اس نے حکومت کو مالی لحاظ سے کچھ آسانی دی۔ یہ امر قابل تحسین ہے کہ حکومت نے رواں مالی سال میں گزشتہ برس کی نسبت اپنے اخراجات میں کمی کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیر خزانہ بجٹ میں بارہا ساختی اصلاحات اور معیشت کے ’ڈی این اے‘ میں تبدیلی کی بات کرتے نظر آئے، مگر عملی طور پر ایسی کوئی بڑی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ بعض اعلانات، جیسے کہ صوبوں سے زرعی ٹیکس کی وصولی، بظاہر ممکن دکھائی دیتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد مشکل ہوگا۔

عابد سلہری کے مطابق حالیہ اقتصادی سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی ترقی کے دو اہم شعبے زرعت اور بڑے پیمانے کی مینیوفیکچرنگ قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکے۔ بجٹ میں بھی ان دونوں شعبوں کے لیے کوئی خاص اقدام نظر نہیں آتا۔ اگرچہ زراعت صوبائی دائرہ اختیار میں آتی ہے لیکن یہ نہ صرف معیشت بلکہ فوڈ سیکیورٹی کا بھی مسئلہ ہے اس لیے دیکھنا ہوگا کہ صوبے اس سلسلے میں کیا اقدامات کرتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں عابد سلہری نے بجٹ کی بعض تجاویز سے اختلاف کا اظہار بھی کیا، جیسے کہ سولر پینلز کی درآمد پر 18 فیصد جی ایس ٹی اور بینک سیونگز پر ٹیکس کو 15 سے بڑھا کر 20 فیصد کرنا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیر خزانہ واقعی فوسل فیولز کی حوصلہ شکنی چاہتے ہیں تو سولر پینلز پر درآمدی ڈیوٹی عائد نہیں کی جانی چاہیے تھی لیکن چونکہ حکومت کو انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کو سرکلر ڈیٹ اور کپیسیٹی پیمنٹس دینا پڑتی ہیں، اس لیے وہ دانستہ طور پر سولر انرجی کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے جو کہ بجٹ میں تضاد کی ایک بڑی مثال ہے۔

مزید پڑھیں: بجٹ میں کھانے پینے کی کون سی اشیا سستی کی جا رہی ہیں؟

اسی طرح جب نان فائلرز کے خلاف سختی کی بات کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے ادائیگی کرنے پر زیادہ ٹیکس لگے گا، تو یہ بھی ایک تضاد ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک میں کتنے لوگ ہیں جن کے پاس کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ ہے اور کتنے دکاندار ہیں جن کے پاس یہ کارڈ قبول کرنے کی سہولت موجود ہے؟ اگر کسی پیٹرول پمپ پر مشین نہ ہو تو صارف کیا کر سکتا ہے؟ مثال کے طور پر، گلیات جیسے علاقوں میں اکثر دکاندار یہ کہہ کر انکار کر دیتے ہیں کہ ان کے پاس کارڈ مشین موجود نہیں۔ یہ عملی مسائل ہیں جنہیں مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔

معاشی ماہر راجہ کامران کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا موجودہ بجٹ آئی ایم ایف کی مشاورت سے تیار کیا گیا ہے اور اس سے کسی بڑے ریلیف کی نہ توقع تھی اور نہ ہی اس میں ایسا کوئی پہلو واضح طور پر نظر آتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ بجٹ ایک ’استحکام کا بجٹ‘ ہے، نہ کہ ترقیاتی بجٹ۔ اس میں سب سے نمایاں اور اہم پہلو یہ ہے کہ سب سے بڑا ریلیف تنخواہ دار طبقے کو دیا گیا ہے۔

تنخواہ دار طبقے کی جانب سے دی جانے والی ٹیکسیشن اب 600 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے جو انکم ٹیکس کے سب سے بڑے سلیب میں شامل ہے۔ حیران کن طور پر بزنس مین، فیکٹری مالکان، لگژری گاڑیاں رکھنے والے اور بڑے محلات میں رہنے والے افراد بھی اس سطح کا ٹیکس نہیں دیتے۔ اس کے برعکس تنخواہ دار طبقہ شفاف انداز میں ٹیکس دیتا ہے جو ہمارے نظام کی ناہمواری کی ایک واضح مثال ہے۔

راجہ کامران نے کہا کہ یہ صورتحال اس جانب بھی اشارہ کرتی ہے کہ ملک میں ٹیکس کی بڑے پیمانے پر چوری ہو رہی ہے۔ اگر ہم ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح، یا زراعت، خدمات، صنعت اور دیگر شعبوں کے جی ڈی پی میں حصے کو دیکھیں، تو واضح گیپ نظر آتا ہے، جسے ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔

اس بجٹ کا مرکزی فوکس ٹیکسیشن کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا ہے۔ سابقہ بجٹ کی طرح اس بار بھی ’پرائمری سرپلس‘ پر زور دیا گیا ہے یعنی حکومت کی آمدنی اور اخراجات میں توازن برقرار رکھا جائے۔

یہ بھی پڑھیے: بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو کتنا ریلیف دیے جانے کی تجویز؟

راجہ کامران نے مزید کہا کہ جب سے بجٹ میں صوبوں کا حصہ بڑھا ہے، وفاق کی مالیاتی پوزیشن کمزور ہو گئی ہے، کیونکہ مجموعی ٹیکس آمدنی کا بڑا حصہ صوبوں کو منتقل ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے صوبے وہ ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے جو انہیں کرنی چاہییں۔ پنجاب میں کچھ بہتری نظر آتی ہے، لیکن باقی صوبوں میں ترقی کی رفتار خاصی سست ہے۔

اسی تناظر میں، وفاق نے اپنی غیر ٹیکس آمدنی (non-tax revenue) کو بڑھانے کی کوشش کی ہے، مثلاً پیٹرولیم لیوی کو 100 فیصد تک بڑھایا جا رہا ہے جو اب حکومت کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔

بجٹ میں آن لائن خریداری پر سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے جس سے بھی حکومتی آمدنی میں اضافہ متوقع ہے۔ گھروں پر پہلے سے عائد جی ایس ٹی برقرار رکھا گیا ہے جبکہ جائیداد کی خرید و فروخت پر عائد کچھ پابندیاں کم کی گئی ہیں تاکہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں دوبارہ بہتری آ سکے۔

مزید پڑھیں: بجٹ میں گاڑیوں پر درآمدی اور سی کے ڈی کٹس میں ڈیوٹی کتنے فیصد کم ہوئی؟

حکومت نے گزشتہ کئی برسوں سے جاری نان فائلر کیٹیگری کو اس بجٹ میں ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ نان فائلر افراد، جن کے بینک اکاؤنٹس موجود ہیں، اگر وہ رقم نکلوانا چاہیں تو ان پر عائد ٹیکس کی شرح 6 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کر دی گئی ہے۔ مزید یہ کہ اب نان فائلرز نہ گاڑیاں خرید سکتے ہیں، نہ ہی گھر، جب تک وہ ٹیکس فائل نہیں کرتے۔ اس طرح حکومت نے نان فائلرز کے گرد دائرہ مزید تنگ کر دیا ہے تاکہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جا سکے اور معیشت میں شفافیت آئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بجٹ 2025-26 بجٹ ریلیف بجٹ سے کون خوش بجٹ کا فائدہ کس کو

متعلقہ مضامین

  • بجٹ 26-2025: کس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد زیادہ مستفید ہوں گے؟
  • ایران نے 2018 کے تصادم میں ملوث داعش کے 9 جنگجوؤں کو پھانسی دے دی
  • نئے آبی ذخائر سندھ کو خشک کرنے کی سازش ہے،عوامی تحریک
  • چوٹیاری ٹیم میں ڈوبنے والوں کی نماز جنازہ ادا کردی گئی
  • 21 سالہ دلہن نے کمسن کزنز کو بچانے کیلیے دریا میں چھلانگ لگادی، تینوں جاں بحق
  • بھارت نے پاکستان کی جانب بہنے والے دریاؤں کا رخ موڑنے کے منصوبے پر کام تیز کر دیا
  • ایران پر نئی امریکی پابندیاں‘ 10 افراد اور 27 ادارے بلیک لسٹ
  • راولپنڈی: گھر میں سوئے ہوئے افراد پر فائرنگ کا واقعہ، باپ اور 2 بیٹے جاں بحق
  • بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے