اسرائیلی فورسز کی فائرنگ، ڈرون حملہ، امداد کے متلاشی 25 فلسطینیوں سمیت 29 شہید
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
اسرائیلی فورسز کی فائرنگ، ڈرون حملہ، امداد کے متلاشی 25 فلسطینیوں سمیت 29 شہید WhatsAppFacebookTwitter 0 11 June, 2025 سب نیوز
غزہ(آئی پی ایس) اسرائیلی افواج نے فائرنگ کرکے امداد کے متلاشی کم از کم 25 فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے، یہ واقعہ غزہ شہر کے جنوب میں نام نہاد نیٹرازیم کوریڈور کے قریب خوراک کی تقسیم کے مقام پر پیش آیا۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ نے طبی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ جنوبی غزہ میں خان یونس شہر کے شمال میں القرارہ قصبے کے قریب الواقع المواسی علاقے میں اسرائیلی ڈرون حملے میں بے گھر افراد کے خیمے کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 4 فلسطینی شہید ہوئے۔
اسرائیل نے غزہ جانے والی امدادی کشتی کو روکنے کے بعد اس پر سوار 12 کارکنوں میں سے 4 کو ملک بدر کر دیا ہے، جن میں سویڈن کی مہم چلانے والی گریٹا تھنبرگ بھی شامل ہیں، دیگر 8 کارکنوں کو اسرائیل چھوڑنے سے انکار پر حراست میں لے لیا گیا ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی غزہ پر مسلط کردہ جنگ کے نتیجے میں اب تک کم از کم 55 ہزار فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 27 ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں اسرائیل میں تقریباً ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے تھے، اور 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
اسرائیل میں تعینات امریکی سفیر مائیک ہکابی کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام ’ہماری زندگی میں ممکن نہیں‘۔
مائیک ہکابی پرجوش ایوینجلیکل عیسائی اور اسرائیلی بستیوں کے پھیلاؤ کے زبردست حامی ہیں، انہوں نے کہا کہ ’شک ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام اب بھی امریکی خارجہ پالیسی کا ہدف ہے‘۔
بلوم برگ نیوز کے ایک نشریاتی ادارے نے ان سے پوچھا کہ کیا فلسطینی ریاست کا قیام اب بھی امریکا کا مقصد ہے، تو انہوں نے کہا کہ مجھے ایسا نہیں لگتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب تک کچھ اہم ثقافتی تبدیلیاں نہ ہوں، ایسا ممکن نہیں ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ ایسی تبدیلیاں ’ہماری زندگی میں شاید ممکن نہ ہوں‘۔
ہکابی اس سے پہلے فلسطینی شناخت کے تصور پر بھی سوال اٹھا چکے ہیں، انہوں نے کہا تھا کہ واقعی ’فلسطینی‘ جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔
فلسطین میں امداد پہنچانے کے لیے انسانی حقوق کی سرگرم کارکن گریٹا تھنبرگ اسرائیل سے ملک بدری کے بعد سویڈن واپس پہنچ گئیں۔
تھنبرگ، 12 کارکنوں اور صحافیوں کے اُس گروپ میں شامل تھیں جنہوں نے غزہ جانے والی ایک انسانی ہمدردی کی امدادی کشتی پر سفر شروع کیا تھا، اب اپنے آبائی ملک سویڈن واپس پہنچ چکی ہیں، یہ کشتی اسرائیل نے اپنی تحویل میں لے لی تھی، جس کے بعد تھنبرگ کو منگل کے روز ملک بدر کر دیا گیا تھا۔
تھنبرگ نے پیرس کے راستے ہوائی سفر کیا اور منگل کی رات تقریباً 10:30 بجے ) اپنے وطن پہنچیں، وہاں تقریباً 30 جوشیلے حامیوں نے ان کا استقبال کیا، جو فلسطینی پرچم لہرا رہے تھے، اور فلسطین زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ جب کہ میڈیا کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
گریٹا تھنبرگ نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ اُس نے انہیں اور کشتی ’مدلین‘ پر موجود دیگر افراد کو عالمی سمندر سے ’اغوا‘ کیا اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا، انہوں نے زور دیا کہ دنیا کی توجہ غزہ میں فلسطینیوں کی حالت زار پر مرکوز رہنی چاہیے۔
قانونی حقوق کی تنظیم عدالہ کے مطابق، وہ 12 رکنی عملے میں شامل 4 افراد میں سے ایک تھیں جنہوں نے ملک بدری کی شرائط کو قبول کیا، باقی 8 افراد کو اسرائیلی حراستی نظرثانی ٹریبونل کے سامنے پیش کیا گیا ہے، تاکہ ان کے خلاف جاری حراست کے احکام کا جائزہ لیا جاسکے۔
آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، ناروے اور برطانیہ نے اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزرا، ایتامار بن گویر اور بیزالیل سموٹریچ، پر پابندیاں عائد کر دی تھیں، ان پر مقبوضہ مغربی کنارے میں بار بار فلسطینیوں کے خلاف تشدد کو ہوا دینے کا الزام ہے۔
یہ اسرائیلی وزرا غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کی کھل کر حمایت کرتے ہیں، اور فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے کی وکالت کرتے ہیں، اسرائیل نے ان پابندیوں کو شرمناک قرار دے کر مسترد کر دیا، جب کہ امریکا نے بھی ان اقدامات کی مذمت کی ہے۔
تنقید کے باوجود، آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز نے ان پابندیوں کا دفاع کرتے ہوئے اسرائیل اور امریکا کے ردعمل کو ’متوقع‘ قرار دیا۔
انہوں نے ABC ریڈیو سڈنی کو ایک انٹرویو میں کہا کہ اسرائیلی حکومت کو بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں، اور جو توسیع پسندانہ بیانیہ ہم نے ان سخت گیر دائیں بازو کے نیتن یاہو حکومت کے وزرا کی جانب سے سنا ہے، وہ واضح طور پر ان قوانین سے متصادم ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے چینل سیون کو دیے گئے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں کہا کہ ہم، دیگر ممالک اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر یہ یقین رکھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں امن صرف اسی صورت ممکن ہے، جب دو ریاستوں پر مبنی حل کی طرف بڑھا جائے، اور جب اسرائیلی اور فلسطینی دونوں امن اور سلامتی کے ساتھ رہ سکیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروزیر خزانہ کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس: صحافی واک آؤٹ کر گئے ’بہت ہوگیا، بس اب غزہ میں جنگ ختم کرو‘، ٹرمپ کی نیتن یاہو کو تنبیہہ امریکا: لاس اینجلس میں احتجاج شدت اختیار کر گیا، ایمرجنسی کرفیو نافذ، سینکڑوں گرفتار سٹاک مارکیٹ میں نئی تاریخ رقم، انڈیکس ایک لاکھ 24 ہزار پوائنٹس کی حد عبور کر گیا ٹرمپ اپنے دور میں مسئلہ کشمیر حل کر سکیں گے: امریکی محکمہ خارجہ نے امید ظاہر کر دی نیتن یاہو کو بتائیں ‘اب بہت ہو چکا’؛ سابق اسرائیلی وزیرِاعظم کی ٹرمپ سے اپیل نان فائلر گاڑی، جائیداد نہیں خرید سکیں گے،بینک اکاؤنٹ نہیں کھلے گاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
غزہ سے پہلے مغربی کنارہ ہڑپ ہو رہا ہے
وہی ہوا جو منطقی تسلسل میں ہوتا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں باقاعدہ ضم کرنے کی علامتی قرار داد گذرے بدھ تیرہ کے مقابلے میں اکہتر ووٹوں سے منظور کر لی۔ اس سے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر نیتن یاہو حکومت مستقبلِ قریب میں ایسا کوئی قدم اٹھاتی ہے تو پارلیمان اس کے پیچھے کھڑی ہے۔گزشتہ برس نو کے مقابلے میں اڑسٹھ ووٹوں سے دو ریاستی حل کا فارمولا مسترد کرنے کی قرار داد بھی کنیسٹ منظور کر چکی ہے۔
مغربی کنارے کو باقاعدہ ضم کرنے کی قرار داد کی مخالفت میں جو تیرہ ووٹ آئے وہ پارلیمنٹ میں عرب بلاک کے نمایندوں اور بائیں بازو بشمول لیبر ارکان نے دیے۔نام نہاد اعتدال پسند صیہونی جماعتوں ، دائیں بازو کی حکمران لیخود پارٹی اور اس کی حواری متشدد مذہبی پارٹیوں نے مقبوضہ علاقے کو اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے سے اتفاق کیا۔
تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مقبوضہ غربِ اردن کی فلسطینی آبادی کو ضم ہونے کی صورت میں برابر کا اسرائیلی شہری تسلیم کیا جائے گا اور ان پر موجودہ فوجی قوانین کے بجائے وہی سویلین قوانین لاگو ہوں گے جو اسرائیلی شہریوں پر لاگو ہوتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔
اس کا عملی مطلب یہ ہے کہ انضمام کے بعد مسلح یہودی آبادکاروں کے حملے اور تیز ہو جائیں گے ، فلسطینیوں کی باقی ماندہ نجی زمینوں پر فوجی سنگینوں کے سائے میں ’’ دفاعی مقاصد ‘‘ کے نام پر قبضے کی رفتار بھی بڑھ جائے گی۔ان زمینوں پر نئی یہودی بستیاں بسائی جائیں گی۔یعنی ایسا ماحول پیدا کیا جائے گا کہ لاکھوں فلسطینیوں کا آخری ریلا بھی ’’ رضاکارانہ ‘‘ طور پر اپنی زمین سے نکل جائے اور جوڈیا سماریا (غربِ اردن ) ایک مکمل یہودی خطہ بن جائے۔
یہ قرار داد اسرائیلی کابینہ کے پندرہ وزرا کے بنام سرکار خط کی روشنی میں لکھی گئی۔ خط کے مطابق ’’ ایرانی شیطانی تکون ( حزب اللہ ، بشار الاسد ، یمنی ہوثی ) پر فتح کے بعد اب اندر موجود بقائی خطرے ( مقبوضہ فلسطینی ) سے بھی موثر انداز میں نمٹنے کی ضرورت ہے۔امریکا اور اسرائیل کی اسٹرٹیجک ساجھے داری اور صدر ٹرمپ کی مکمل حمائیت کے سبب یہی مناسب وقت ہے کہ آیندہ اسرائیلی نسلوں کا جغرافیائی مستقبل محفوظ کیا جائے۔ سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے المیے نے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطینی ریاست ہر شکل میں اسرائیل کی بقا کے لیے سنگین خطرہ ہے۔لہٰذا جوڈیا سماریا ( مقبوضہ کنارہ ) پر اسرائیل کا مکمل اختیار نافذ کیا جائے ‘‘۔
قرار داد کی علامتی اہمیت اپنی جگہ مگر عملاً اسرائیل بیشتر مقبوضہ علاقے کو پہلے ہی بتدریج ہضم کر چکا ہے۔مغربی یروشلم انیس سو اڑتالیس میں ہی اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا گیا۔فلسطینی اکثریتی مشرقی یروشلم انیس سو سڑسٹھ کی جنگ کے بعد گریٹر یروشلم میونسپلٹی کا حصہ بنا دیا گیا۔ فلسطینی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے یروشلم کے چاروں طرف آبادکار بستیوں کا جال بچھا دیا گیا۔
حالانکہ اقوامِ متحدہ نے نومبر انیس سو سینتالیس میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی جو قرار داد منظور کی تھی اور جس کی بنیاد پر چھ ماہ بعد اسرائیل کا وجود عمل میں آیا۔ اس قرار داد کے تحت یروشلم ایک کھلا بین الاقوامی شہر ہو گا۔مگر اسرائیلی پارلیمان نے انیس سو اسی میں متحدہ یروشلم کو اسرائیل کا تاریخی دارالحکومت قرار دے کے قصہ چکتا کر دیا۔
اسرائیل نے شام سے انیس سو سڑسٹھ میں چھینی گئی گولان پہاڑیوں کو انیس سو اکیاسی میں باقاعدہ ضم کر لیا۔اگرچہ سلامتی کونسل نے اس اقدام کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔مگر پہلی ٹرمپ انتظامیہ نے دو ہزار انیس میں نہ صرف گولان کو اسرائیل کا جائز حصہ مان لیا بلکہ یروشلم پر بھی اسرائیل کی حاکمیت کو قانونی تسلیم کر کے وہاں سفارت خانہ منتقل کر کے عشروں پرانی مبہم امریکی پالیسی ٹھکانے لگا دی۔
غزہ کے المئے نے نہ صرف وہاں کی پوری آبادی کو غذائی و عسکری نسل کشی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے بلکہ مغربی کنارے کی قسمت بھی سربمہر کر دی ہے۔اس بحران کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک مغربی کنارے پر اکتیس نئی یہودی بستیوں کی آبادکاری کی منظوری دی جا چکی ہے۔مزید چالیس ہزار سے زائد فلسطینی خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔ سیکڑوں ایکڑ فصلیں اور باغات نذرِ آتش ہو چکے ہیں یا اجاڑے جا رہے ہیں ، لگ بھگ ایک ہزار فلسطینی شہید اور چار گنا زخمی ہو چکے ہیں۔
انیس سو چورانوے کے نام نہاد اوسلو سمجھوتے کے تحت مغربی کنارے کا ساٹھ فیصد علاقہ ایریا سی کے نام پر اسرائیل کی دفاعی ضروریات کے لیے مختص ہے۔یہاں کوئی فلسطینی باشندہ کچھ بھی تعمیر نہیں کر سکتا۔اکیس فیصد علاقہ ایریا بی کے نام سے اگرچہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے مشترکہ کنٹرول میں ہے۔ عملاً اسرائیلی فوج مسلح آباد کاروں کو آگے رکھ کے ایریا بی کو بھی مقامی آبادی سے صاف کر رہی ہے۔
اب رہ جاتا ہے انیس فیصد ایریا اے۔کہنے کو یہاں فلسطینی اتھارٹی کی اتھارٹی چلنی چاہیے۔مگر اسرائیلی فوج دھشت گردوں کے قلع قمع کے نام پر ایریا اے کے شہروں اور قصبوں میں جس وقت جہاں اور جب چاہے گھس جاتی ہے ، ناکہ بندی کرتی ہے اور برسوں سے قائم پناہ گزین کیمپوں کو بھی مکمل منہدم کر رہی ہے۔
مسجدِ اقصی کا احاطہ اگرچہ قانوناً غیر مسلموں پر بند ہے اور اس احاطے کی علامتی نگرانی اردن کے ہاتھ میں ہے۔مگر کوئی ہفتہ ایسا نہیں جاتا کہ کوئی نہ کوئی صیہونی جتھہ اس احاطے میں نہ گھسے اور نمازیوں کو بے دخل نہ ہونا پڑے۔
مسجد مسلسل فوج اور پولیس کے محاصرے میں رہتی ہے۔یعنی یروشلم سمیت مغربی کنارہ عملاً اسرائیل میں ضم ہو چکا ہے۔بس باضابطہ اعلان کی کسر ہے تاکہ عرب ممالک ، او آئی سی ، اقوامِ متحدہ اور کچھ غیر عرب ریاستیں بین الاقوامی قوانین کا علم اٹھائے پہلے کی طرح کچھ ہفتے ماتم کر سکیں۔
اگلا منصوبہ یہ ہے کہ اسرائیل کس طرح غزہ سے تمام فلسطینیوں کو زندہ یا مردہ نکالتا ہے ، جنوبی لبنان کی سرحدی پٹی پر مستقل پنجے گاڑنا ہے اور جنوبی شام کے گولان سے متصل کچھ اور علاقے ہڑپ کرنے کے عمل میں قبائلی و علاقائی خانہ جنگی کو ہوا دے کر شام کے چار ٹکڑے ( دروز ، علوی ، سنی ، کرد ) کرواتا ہے۔
علاقے میں بس ترکی آخری طاقت رہ گیا ہے جو اسرائیل کو کبھی منہ دے سکے۔چنانچہ ان سب ہتھکنڈوں کا ہدف اگلے مرحلے میں ترکی کو تنہا کرنا ہے۔
آپ کے علم میں ہے کہ اسرائیلی بچوں کو اسکول میں کیا پڑھایا جاتا ہے ؟
’’ خدا نے دریاِ نیل تا فرات پھیلی زمین بنی اسرائیل کو ہمیشہ کے لیے بخشی ہے ‘‘۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)