data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: اپر مڈل کلاس بھی مہنگائی کے طوفان سے بے حال ہے ایک خاندان کی کہانی، جن کی ماہانہ آمدنی 4 لاکھ ہونے کے باوجود ضروریات زندگی پوری کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

ملک میں مہنگائی نے صرف نچلے طبقات ہی کو نہیں بلکہ اپر مڈل کلاس کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ کراچی کے پوش علاقے سے تعلق رکھنے والے عامر اور ان کی اہلیہ ماروی عامر نے ایک نیوز پروگرام میں اپنی زندگی کے مالی حالات کُھل کر بیان کیے۔

ماروی عامر کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر بنیادی کفیل ہیں جبکہ وہ خود بھی آن لائن کام کرکے کچھ آمدنی حاصل کر لیتی ہیں، جس کے باعث دونوں کی ماہانہ کل آمدنی تقریباً 4 لاکھ روپے تک پہنچ جاتی ہے۔

تاہم اتنی آمدنی کے باوجود بھی ان کے اخراجات نے مالی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ کچن کا خرچہ گوشت اور سبزیوں سمیت 80 ہزار روپے تک جا پہنچا ہے۔ بچوں کی اسکول فیس، ٹرانسپورٹ اور دیگر تعلیمی اخراجات 1 لاکھ 20 ہزار روپے ماہانہ ہو چکے ہیں۔ گھر کے کام کے لیے دو ملازماؤں کی تنخواہ 20 ہزار روپے بنتی ہے۔

گھر کے سربراہ عامر نے بتایا کہ بجلی کا بل 50 ہزار، گیس اور پانی کا بل 7 ہزار روپے تک آ رہا ہے، جبکہ ڈرائیور کی تنخواہ 30 ہزار روپے ہے۔ گھر اور گاڑی کی مرمت جیسے اضافی اخراجات الگ ہیں۔

عامر کے مطابق آنے والے بجٹ میں اخراجات مزید بڑھنے کا امکان ہے، اس لیے آمدنی بڑھے یا نہ بڑھے، مالی دباؤ میں اضافہ طے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا کہ اگلا سال مزید مشکلات لا سکتا ہے۔

یہ کہانی اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ آج کے معاشی حالات نے اپر مڈل کلاس کو بھی ایسے مسائل سے دوچار کر دیا ہے جو ماضی میں صرف نچلے طبقات کا حصہ سمجھے جاتے تھے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہزار روپے

پڑھیں:

ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا

وزارتِ خزانہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد ملک کا مجموعی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کا تناسب 70.8 فیصد سے کم ہو کر 60.8 فیصد تک آنے کا تخمینہ ہے، اور درمیانی مدت میں قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق جون 2025ء تک پاکستان پر واجب الادا قرض 84 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ 2028ء تک فنانسنگ کی ضروریات 18.1 فیصد کی بلند سطح پر رہیں گی، تاہم گزشتہ مالی سال میں مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ریکارڈ کی گئی۔
رپورٹ میں قرضوں کے حوالے سے درپیش اہم خطرات اور چیلنجز کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ وزارت کے مطابق معاشی سست روی قرضوں کی پائیداری کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، جبکہ ایکسچینج ریٹ، سود کی شرح میں اتار چڑھاؤ، بیرونی جھٹکے اور موسمیاتی تبدیلیاں قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 67.7 فیصد حصہ ملکی قرضوں کا ہے، جبکہ 32.3 فیصد بیرونی قرضے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 80 فیصد قرضے فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیے گئے، جس سے شرحِ سود میں اضافے کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کا حصہ 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں جو دوطرفہ یا کثیرالطرفہ اداروں سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ بیرونی قرضوں کا حصہ 41 فیصد ہونے کی وجہ سے درمیانی سطح کا خطرہ برقرار ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھا یا زرمبادلہ ذخائر کم ہوئے تو مالی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مالیاتی نظم و ضبط، معاشی استحکام، برآمدات کے فروغ اور آئی ٹی سیکٹر کی ترقی سے قرضوں کے دباؤ میں کمی لانے کی حکمتِ عملی اپنائی گئی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں وفاقی مالی خسارہ 6.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں کم ہو کر 6.2 فیصد رہا، جبکہ وفاقی پرائمری بیلنس 1.6 فیصد سرپلس میں رہا — جو کہ مالی نظم میں بہتری کی علامت ہے۔
اقتصادی اعشاریوں میں بہتری کے آثار بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال معاشی شرحِ نمو 2.6 فیصد سے بڑھ کر 3.0 فیصد تک پہنچ گئی، اور اگلے تین سال میں یہ شرح 5.7 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مہنگائی کی شرح بھی نمایاں طور پر گھٹ کر 23.4 فیصد سے 4.5 فیصد تک آ گئی ہے، اور 2028ء تک 6.5 فیصد پر مستحکم رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
پالیسی ریٹ میں جون 2024ء سے اب تک 1100 بیسس پوائنٹس کی کمی، زرمبادلہ مارکیٹ میں استحکام، اور بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ میں کمی جیسے عوامل نے مالیاتی فریم ورک کو سہارا دیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق، اگر یہی رجحان برقرار رہا تو درمیانی مدت میں کم از کم 1.0 فیصد پرائمری سرپلس برقرار رکھنے کی توقع ہے۔
مجموعی طور پر، رپورٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اگرچہ قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، تاہم مالی نظم، شرحِ سود میں نرمی، اور برآمدات کے فروغ سے پاکستان درمیانی مدت میں معاشی استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک سوزوکی کا ’ایوری وی ایکس آر‘ پر 3 لاکھ 50 ہزار روپے کی رعایت کا اعلان
  • کام کی زیادتی اور خاندانی ذمے داریاں، لاکھوں امریکی خواتین نے نوکریاں چھوڑ دیں
  • پاک افغان بارڈر کی بندش: خشک میوہ جات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ
  • ٹرینوں میں بغیر ٹکٹ سفر کرنیوالے مسافروں کو لاکھوں روپے جرمانہ
  • صرف ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے کا نیا بوجھ، حکومتی قرضے 84 ہزار ارب سے متجاوز
  • ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا
  • پنجاب میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے نئے قوانین اور جرمانوں میں اضافہ
  • پنجاب میں جنگلی حیات کے غیرقانونی شکار پر جرمانے بھی بڑھا دیے گئے
  • ملک بھر میں اسمارٹ میٹرنگ اصلاحات کا آغاز کردیا گیا
  • ایف آئی اے نے شبر زیدی کیخلاف مقدمہ واپس لینے کیلئے خط لکھ دیا