پنجاب: کسانوں کے ترقیاتی فنڈ کی 20 ارب روپے سے زائد رقم روکے جانے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
— فائل فوٹو
پنجاب میں کسانوں کے ترقیاتی فنڈ کی 20 ارب روپے سے زائد رقم روکے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ 25-2024 میں انکشاف ہوا ہے کہ کسانوں کے 20 ارب سے زائد ترقیاتی فنڈ غیر قانونی طور پر روکے گئے ہیں۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق فنڈز کی رقم روکنا گنے کے ترقیاتی سیس قواعد 1964 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، محکمہ خزانہ نے اربوں روپے کا فنڈ متعلقہ ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسرز کو جاری نہیں کیا۔
آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ قواعد کے مطابق یہ فنڈ ضلعی سطح پر ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہونا تھا، منظوری کے بغیر فیصل آباد کے ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر نے 5.
رپورٹ کے مطابق منظوری کے بغیر وہاڑی کے ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر نے 2.86 کروڑ روپے کی غیرقانونی ادائیگیاں کیں، قواعد کے مطابق وصولی پر لگنے والے 2 فیصد وصولی چارجز کا بجٹ میں تعین نہیں کیا گیا۔
رپورٹ میں سفارشات پیش کی گئی ہیں کہ روکے گئے 20 ارب روپے سے زائد فنڈ کو فوری طور پر متعلقہ ضلعی ترقیاتی فنڈز میں منتقل کیا جائے، غیرقانونی ادائیگیوں کی تحقیقات کر کے رقم واپس لی جائے، ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ترقیاتی فنڈ کے مطابق
پڑھیں:
صرف ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے کا نیا بوجھ، حکومتی قرضے 84 ہزار ارب سے متجاوز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وزارت خزانہ کی تازہ رپورٹ نے ملک کے بڑھتے ہوئے قرضوں کی سنگین صورتحال کو بے نقاب کردیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد قومی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اس تیزی سے بڑھتا ہوا قرض ملکی معیشت کے لیے سنگین خطرے کی علامت بن چکا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ آئی ایم ایف کے فریم ورک کے تحت پاکستان کے ذمے قرضوں کا تناسب اگلے 3 سال میں 70.8 فیصد سے کم ہوکر 60.8 فیصد تک لانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ہے، تاہم خطرات اب بھی موجود ہیں۔
اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ جون 2025ء تک مجموعی قرض 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا، جب کہ صرف گزشتہ ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا جب کہ فنانسنگ کی ضروریات آئندہ برسوں میں 18.1 فیصد کی بلند سطح پر برقرار رہیں گی۔
وزارت خزانہ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ مالی سال میں مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ہوئی، تاہم قرضوں کا حجم اب بھی تشویشناک حد تک بلند ہے۔
رپورٹ میں قرضوں سے متعلق خطرات اور چیلنجز کی تفصیلی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ معاشی سست روی کو قرضوں کی پائیداری کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے جب کہ ایکسچینج ریٹ میں اتار چڑھاؤ اور شرح سود میں تبدیلی کو قرض کے بوجھ میں اضافے کی بنیادی وجوہات بتایا گیا ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان کے مجموعی قرضوں کا 67.7 فیصد اندرونی جب کہ 32.3 فیصد بیرونی قرضوں پر مشتمل ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 80 فیصد قرض فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیا گیا، جس سے شرح سود کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کی شرح 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کا دباؤ بڑھا ہوا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں، جو دوطرفہ اور کثیرالجہتی ذرائع سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ ریٹ والے بیرونی قرضوں کی شرح 41 فیصد ہے، جو درمیانی سطح کے خطرے کی نشاندہی کرتی ہے۔