سچوان (اوصاف نیوز)چین کے صوبہ سچوان سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ من ہینگ کائی نامی شخص نے دنیاوی ذمہ داریوں، شادی اور روزگار کو ترک کرکے غار میں تنہا زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جنوبی چین مارننگ پوسٹ کے مطابق، انہوں نے اپنی ملازمت چھوڑ کر شہر کی بھاگ دوڑ سے دور سکون کی تلاش میں پہاڑوں کا رخ کیا ہے۔

من ہینگ کائی ایک وقت میں روزانہ دس گھنٹے رائیڈ ہیلنگ سروس چلا کر خاندان کے قرضے چکانے میں مصروف تھے، تاہم یہ کام انہیں بے معنی لگا۔ 2021 میں، انہوں نے ماہانہ 1400 امریکی ڈالر کی نوکری چھوڑ دی اور ایک چھوٹے سے پلاٹ کے بدلے اپنی زمین کا سودا کر کے ایک 50 مربع میٹر پر مشتمل غار کو 6 ہزار ڈالر کی لاگت سے اپنا نیا گھر بنا لیا۔
ان کے مطابق، رشتہ داروں کی جانب سے ان کی جائیدادیں بیچ دیے جانے کے بعد وہ مایوس ہو گئے اور 42 ہزار ڈالر کے بینک قرضے کی واپسی کا ارادہ بھی ترک کر دیا۔

غار میں زندگی گزارنے والے من ہینگ کائی کا معمول سادہ ہے۔ صبح 8 بجے جاگنا، مطالعہ کرنا، چہل قدمی اور زمین کی دیکھ بھال کرنا، اور رات 10 بجے سونا۔ وہ زیادہ تر اپنی اگائی گئی سبزیوں پر گزارا کرتے ہیں اور صرف ضروری اشیاء پر خرچ کرتے ہیں۔ 4 سال سے اس غار میں ہی رہائش پزیر ہیں اور اپنی رہائش کو وہ ’بلیک ہول‘ کہتے ہیں تاکہ خود کو اپنی حیثیت کا احساس دلاتے رہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ تنہائی کی زندگی گزارنے کے باوجود سوشل میڈیا پر کافی متحرک ہیں۔ ان کے فالوورز کی تعداد 40 ہزار تک پہنچ چکی ہے اور وہ لائیو اسٹریمنگ کے ذریعے کمائی بھی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ شہر میں ملازمت کرتے ہوئے ہمیشہ اسی سادہ زندگی کی خواہش رکھتے تھے۔

شادی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ وقت اور پیسے کا ضیاع ہے کیونکہ سچی محبت ملنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ’جب سچی محبت ملنے کے امکانات ہی نہ ہوں، تو میں اتنی محنت کیوں کروں؟‘

ان کی زندگی کے انتخاب پر سوشل میڈیا پر شدید بحث چھڑ گئی ہے۔ کچھ صارفین نے انہیں ’ٹانگ پنگ‘ یعنی ’لیٹے رہنے والا‘ یا بےعمل کہا، جو صرف بنیادی ضروریات پوری کرنے والا طرزِ زندگی ہے، جبکہ دیگر نے انہیں سماجی روایات کو رد کرنے والا ’سچا فلسفی‘ قرار دیا، حالانکہ ان کی تعلیم معمولی ہے۔

ایک صارف نے لکھا، ’یہ تو جنت جیسی زندگی ہے!‘
دوسری جانب کچھ لوگوں نے اس طرزِ زندگی پر سوالات بھی اٹھائے ہیں، کیونکہ وہ سوشل میڈیا پر متحرک ہیں اور انٹرویوز بھی دیتے ہیں، جو ان کی ’تنہائی‘ کے دعوے سے متصادم معلوم ہوتا ہے۔
معاشی استحکام کیلئے ایس آئی ایف سی کی کاوشیں رنگ لے آئیں، منرلز کمپلیکس قائم

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

بجٹ مایوس کن عوامی توقعات کے برخلاف، مہنگائی میں اضافہ ہوگا، جنید نقی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی( کامرس رپورٹر) کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر جنید نقی نے وفاقی بجٹ 2025-26 کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بجٹ نہ تو صنعتی شعبے کی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور نہ ہی عوامی توقعات پر پورا اترتا ہے۔ جنید نقی نے کہا کہ بجٹ کا مجموعی انحصار بالواسطہ ٹیکسز، خصوصاً سیلز ٹیکس پر ہے، جو پہلے ہی کاروباری لاگت اور مہنگائی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے 14,131 ارب روپے کا محصولات اور 5,167 ارب روپے کا غیرمحصولی آمدن کا ہدف مقرر کیا ہے جو زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ حکومت کی جانب سے 4.2 فیصد جی ڈی پی گروتھ اور 7.5 فیصد مہنگائی کی شرح کے اہداف رکھے گئے ہیں، لیکن ان اہداف کے حصول کے لیے جو اقدامات تجویز کیے گئے ہیں وہ ناکافی اور غیر حقیقت پسندانہ ہیں۔ صدر کاٹی نے کہا کہ خاص طور پر زرعی شعبہ، جو قومی آمدنی میں 26 فیصد کا ایک بڑا حصہ رکھتا ہے، بدستور ٹیکس نیٹ سے باہر ہے اور اس کی قومی ٹیکس میں شراکت ایک فیصد سے بھی کم ہے، جو ایک شدید عدم توازن کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 17.6 ٹریلین روپے کے مجموعی بجٹ حجم کے باوجود صنعتکار برادری ایک متوازن اور منصفانہ پالیسی کی توقع رکھتی تھی تاکہ موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں صنعتوں کو سہارا دینے یا پیداواری لاگت کم کرنے کے بجائے ایک بار پھر صنعتی شعبے کو ہی مالی بوجھ اٹھانے پر مجبور کیا گیا ہے۔ بجٹ میں دفاعی اخراجات کے لیے 2.55 ٹریلین روپے، ترقیاتی پروگرام کے لیے 1 ٹریلین روپے اور دیگر سبسڈی و پنشن کی مد میں بھاری رقوم رکھی گئی ہیں لیکن صنعت، برآمدات اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے کوئی نمایاں اقدامات نظر نہیں آتے۔ جنید نقی نے کہا کہ سولر پینلز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس اور پیٹرولیم مصنوعات پر بھاری لیوی اور کاربن ٹیکس جیسے اقدامات مہنگائی میں اضافے کا باعث بنیں گے اور کاروباری لاگت مزید بڑھا دیں گے۔ اگرچہ حکومت نے کچھ حد تک سپر ٹیکس کی شرح میں کمی اور انکم ٹیکس سلیب میں تبدیلی کی ہے لیکن مجموعی طور پر یہ بجٹ سرمایہ کاروں اور کاروباری طبقے کا اعتماد بحال کرنے میں ناکام رہا ہے۔ صدر کاٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بالواسطہ ٹیکسز پر انحصار کم کرے اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے تاکہ ٹیکس کا بوجھ منصفانہ انداز میں تقسیم ہو۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ٹیکس نظام میں بنیادی اصلاحات نہیں کی جاتیں، تب تک معیشت کی بحالی اور پائیدار ترقی ممکن نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ اور اپنی تنخواہوں میں 700 فیصد تک اضافہ کر لیا
  • بجٹ2025-26 مایوس کن اور عوام دشمن ہے، آفاق احمد
  • ٹک ٹاکر خابی لیم کو امریکا میں حراست میں کیوں لیا گیا تھا؟
  • بجٹ مایوس کن عوامی توقعات کے برخلاف، مہنگائی میں اضافہ ہوگا، جنید نقی
  • شادی اور نوکری سے فرار: برسوں سے غار نشین شخص کی انوکھی زندگی
  • بھارت کبھی پانی روک کر اور کبھی چھوڑ کر دریاؤں میں سیلابی صورتحال پیدا کر رہا ہے: مصدق ملک
  • وفاقی بجٹ مایوس کن، تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا جائے ،جاوید قصوری
  • میرے تمام سابقہ معاشقوں کا شوہر کو علم ہے، روبی انعم
  • نوبیاہتا جوڑے نے ٹرین تلے لیٹ کر زندگی کا خاتمہ کرلیا