ہمالیہ کی گھاٹیوں سے فولادی بھائیوں تک
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
(گزشتہ سےپیوستہ)
مایرامیکڈونلڈاپنی کتاب’’وائٹ ایزدی شراڈ‘‘(کفن کی طرح سفید)میں لکھتی ہیں کہ اکسائی چن پربرطانوی سرحدی پالیسی کبھی واضح نہ تھی،اوریہ خطہ برطانوی نقشوں میں بھی مبہم حیثیت رکھتاتھا۔یہی ابہام آج بھی تینوں ممالک کے درمیان کشیدگی کاسبب ہے۔مایرا میکڈونلڈ اور رونگ شِنگ گوجیسے ماہرین کی تحقیقات ہمیں بتاتی ہیں کہ کشمیرکاتنازع محض پاکستان اور بھارت تک محدودنہیں،بلکہ چین کی خطے میں موجودگی بھی اس کی جغرافیائی پیچیدگی کالازمی حصہ ہے۔
چین کے قبضے میں موجوداکسائی چن، بھارت کے دعوے کے مطابق لداخ کاحصہ ہے۔ پاکستان کے زیرانتظام آزادکشمیراورگلگت بلتستان، بھارت کے نقشے میں ابھی تک اس کے دعوے کاحصہ ہیں،جبکہ چین اروناچل پردیش کو ’’ژانگنان ‘‘یعنی جنوبی تبت کاحصہ گردانتا ہے۔ آئی ایس پی آرکے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری،اب کھلے عام کہتے ہیں کہ کشمیر ’’تین ملکوں‘‘ بھارت،پاکستان،اورچین کے درمیان ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے،جومسئلہ فلسطین کی طرح عالمی ضمیرکی آزمائش بھی ہے اوراس اعتراف نے بین الاقوامی منظرنامے میں ایک نیازاویہ پیداکردیاہے۔
19ویں صدی میں جب برطانوی حکمران برصغیرمیں اپنی جڑیں مضبوط کررہے تھے،ان کی توجہ مشرقی سرحدوں کی بجائے تجارتی شاہراہوں اور داخلی استحکام پرمرکوزرہی۔ تبت، سنکیانگ اور لداخ کے بیچ کی بنجروادیاں انہیں اس قدربے سودمحسوس ہوئیں کہ کئی متنازع خطوطا رداغ- جانسن لائن،میکارٹنی-میکڈونلڈلائن تجویز تو ہوئیں، مگربین الاقوامی حیثیت کبھی نہ پاسکیں۔ تاریخ کی دھندمیں گم سرحدیں اپناسراغ پانے کیلئے بے تاب ہوچکی ہیں۔
انگریزوں کی بے فکری اورسیاسی ابہام، ایک ایسی الجھی ہوئی میراث چھوڑگئے جس کاخمیازہ آج تین ممالک بھگت رہے ہیں۔چین، جس کی کمیونسٹ حکومت نے1949ء میں اقتدار سنبھالا، صاف کہہ چکی تھی کہ’’ہمارے کسی عہدیدارنے کسی بھارتی نمائندے سے سرحدکاکوئی معاہدہ نہیں کیا، لہٰذاہمارے لیے یہ لکیریں کاغذی حیثیت رکھتی ہیں‘‘۔جہاں مفادات باہم ہوں،وہاں نظریات پیچھے رہ جاتے ہیں۔پاکستان اورچین کی دوستی کاآغازنظریاتی ہم آہنگی سے نہیں ہوابلکہ ایک ایسے سیاسی خلامیں ہواجہاں بھارت کا سامراجی مزاج،امریکاکی محدودپالیسی اورسوویت یونین کاابہام تینوں نے راستہ ہموارکیا۔یہ وہ دوستی تھی جوسیاست کی پگڈنڈی سے شروع ہوکر معیشت، دفاع،سفارت اوراب سی پیک جیسے بین الاقوامی منصوبوں تک جا پہنچی ہے۔
آج چین-پاکستان تعلقات سی پیک کی شکل میں ایک نئی بلندترین سطح پرپہنچ چکے ہیں۔ یہ60ارب ڈالرسے زائدکامنصوبہ،محض اقتصادی راہداری نہیں،بلکہ چین کی عالمی حکمتِ عملی بیلٹ اینڈروڈانیشی ایٹوکامرکزی سنگِ میل ہے۔ جودنیاکاسب سے بڑاتجارتی اورتعمیری پراجیکٹ ہے جس پرڈھائی ٹریلین ڈالرکی لاگت متوقع ہے اور یہ دنیاکے52مماممالک کوایک تجارتی لڑی میں پرو کررکھ دینے کاوہ پراجیکٹ ہے جس کاچین نے نہ صرف خواب دیکھابلکہ عملی طورپراس کی تعبیر کا فائدہ بھی اٹھانے کیلئے تیارہے کہ اس نے برسوں پہلے یہ کہاتھاکہ دنیاکوطاقت سے نہیں بلکہ تجارتی دوستی کے ساتھ فتح کریں گے۔پاکستان کیلئے بھی یہ اقتصادی بقا،توانائی کاتسلسل،اورعلاقائی رسائی کاراستہ ہے،جبکہ چین کیلئے گوادر سے خنجراب تک کازمینی راستہ، مشرق وسطی اورافریقاتک رسائی کی کلیدہے۔
تاریخ کاپہیہ رکنے والانہیں،لیکن اس کے نشانات کبھی مٹتے نہیں۔جودوستی کبھی پنچ شیل کی بنیاد پر اٹھی تھی،وہ زمیں بوس ہوئی،اور جو مفاہمت، مفادات اوراخلاص کی فصل پرپروان چڑھی،وہ آج بھی قائم ہے فولادکی طرح مضبوط،اورموسموں کی طرح ہم آہنگ۔ابتدا میں یہ سوال تھاکہ کیاچین نے پہل کی یاپاکستان نے؟توتاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پہل ضرورت نے کی،قدم چین نے بڑھایا،اوردستِ تعاون پاکستان نے تھاما۔دشمن کادشمن جب دوست بن جائے تویہ سیاست کی سادہ حکمت کہلاتی ہے،مگرجب یہ دوستی دہائیوں تک قائم رہے، تواسے تاریخ کی دانائی کہاجاتاہے۔
چین اورپاکستان کارشتہ اب مفادات سے کہیں آگے،نظریاتی ہم آہنگی اورجغرافیائی ہم نصیبی کارشتہ بن چکاہے۔جس دوستی کی بنیاد سرحدی تبادلے پررکھی گئی،آج وہ عالمی اسٹیج پر مشترکہ بیانیہ،دفاعی اشتراک،اورسفارتی ہم آہنگی میں ڈھل چکی ہے۔اس طرح ایک نکتہ آغازسے ایک نظریاتی ہم آہنگی تک کایہ سفرفولای دوستی میں تبدیل ہوا۔
اب سوال یہ ہے کہ اب اس خطے پاک چین دوستی نے مودی اوراس کے اتحادیوں کی رات کی نیندیں اوردن کاچین کیوں بربادکردیا ہے؟اس کی سب سے بڑی وجہ پہلے توقوم پرست مودی اورآرایس ایس کاوہ نظریہ ہے جو اکھنڈ بھارت بنانے کاخواب دیکھ رہے ہیں کہ جہاں جہاں بحرہندکاساحل لگتاہے،وہ اکھنڈبھارت کا حصہ ہے اوردوسری طرف گریٹر اسرائیل کا خواب جواب ایک نقشے کی صورت میں نصف درجن مسلم مملکتوں کی سرزمین پرمشتمل ہوگا اور یہودوہنود مملکتوں کی سرحدیں اپس میں مل جائیں گی اورسابقہ یہودی امریکی وزیرخارجہ سیکرٹری ہنری کیسنجرکاتخلیق کردہ ورلڈآرڈرجیساناپاک منصوبہ معرضِ وجودمیں آئے گا۔
یہ دنیاہمیشہ سے طاقت کے ترازومیں تولی جاتی رہی ہے۔کبھی سلطنتوں کے خیمے لہراتے تھے، اب کرسی کی چمک آنکھوں کوخیرہ کرتی ہے۔ ماضی میں بھی بادشاہوں نے اپنی رعایاکو ’’جنت نشین‘‘ کہا،اورآج جمہوریت کے علم بردارا نہیں ’’قوم پرست‘‘کہہ کرجھانسہ دیتے ہیں۔ مگر کھیل وہی ہے،مہرے بدل گئے ہیں،چالیں باقی ہیں۔ جنگ کانیا بازارآج بھی گرم ہے،فرق اتناہے کہ تلواروں کی جگہ اب ٹی وی اسکرینوں پرنعرے گونجتے ہیں‘‘۔
کہتے ہیں جنگ کبھی ختم نہیں ہوتی،صرف اس کامفہوم بدلتارہتاہے۔آج کی جنگیں وہ نہیں رہیں جن میں سپاہی نیزے لیکرصف بندی کیا کرتے تھے۔آج ہتھیارپہلے تیارہوتے ہیں،پھران کیلئے محاذتراشے جاتے ہیں۔ہتھیاروں کی منڈی اب صرف میدانِ جنگ نہیں،سیاسی میدان کاآلہ بن چکی ہے۔ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس،وہ آکٹوپس ہے جس کی ہر شاخ کسی نہ کسی قوم کے بجٹ،کسی نہ کسی جوان کی جان،اورکسی نہ کسی ماں کے بیٹے سے چمٹی ہوتی ہے۔یہ جنگی مافیا وہ درندہ ہے جوجنگ سے نہیں جیتا،جنگ کے نام پرجیتاہے۔ میرے انتہائی محترم انگریزدانشوردوست کایہ فقرہ اکثر مجھے یاد رہتاہے کہ دنیامیں سب سے زیادہ طاقتور جنگی مافیاہے جس کی مرضی سے دنیاکی حکومتیں ٹوٹتی اورقائم ہوتی ہیں۔اگر سیاست کسی عظمت کانام ہے توپھراسے جھوٹ کے کاندھوں پرکیوں سوارکیاجاتاہے؟مودی جیسے قائدین کیلئے ’’نیشنل ازم‘‘ ایک مقدس لبادہ ہے،جس کے نیچے وہ اپنے اقتدار کے ناپاک ارادوں کوچھپاتے ہیں۔ مکار ہندوسیاست کاگروچانکیہ کی سیاست کایہ پہلا اصول ہے کہ جب معاشی گراف نیچے جائے، تو جنگی گراف بلندکردومودی اس کابہت بڑا پیرو کار ہے جواسی اصول پرکام کرتے ہوئے اپنے اقتدارکودوام دینے کی کوشش کررہاہے۔مودی جانتا ہے کہ بیروزگاری کے مارے ہوئے،تعلیم سے محروم،صحت سے مایوس لوگ اگر سوچنے لگیں، توحکومت کے تانے بانے بکھرجائیں۔اس لیے ان کے سامنے ایک نیادشمن کھڑاکروکبھی پاکستان،کبھی چین،کبھی نیپال۔بس دشمن رہے، تاکہ سوال نہ رہے۔
اسی لئے مودی اپنے سیاسی گروچانکیہ کے اصولوں پرعمل کرتے ہوئے’’آتشِ سیاست میں سلگتی جنتاکیلئے جنگ،اقتداراورمیڈیاکی سہ رخی تثلیث‘‘ کابھرپوراستعمال کررہاہے۔ اس نے ملک بھرکے میڈیاکومنہ مانگی قیمت پرخریدرکھاہے اورجب بھی کوئی حکومتی کارکردگی پرسوال کرتاہے تویہ گودی میڈیاسوال کرنے والے کو غدارکہہ کربدنام کرناشروع کردیتے ہیں:جب کوئی نوجوان سوال کرے روزگارکہاں ہے؟ کوئی مائیں پوچھیں،ہسپتال کیوں خالی ہیں،کوئی مزدور فریادکرے،روٹی کیوں مہنگی ہے؟ تو گودی میڈیاانہیں فورایاددلاتا ہے ملک خطرے میں ہے،ملک بچے گاتوسب کچھ ملے گا۔گویامودی اپنے اقتدارکے دوام کیلئے اپنی جنتاکوقربانی کانعرہ لگانے کیلئے مجبورکررہاہے لیکن عوام کی ٹھنڈے چولہے ابایسے اقتدارکوآگ لگانے کیلئے بلبلارہے ہیں۔قومی غیرت کانعرہ خوبصورت ہے،مگرجب اس کی آڑمیں بنیادی حقوق کوکچلاجائے،تویہ نعرہ ایک زنجیربن جاتا ہے۔
جب حکمران قوم کو نہ روٹی دے سکیں،نہ تحفظ،اورنہ سچ بولنے کی آزادی، تو وہ ’’حاکم‘‘ نہیں رہتے،بارِامانت کے خائن بن جاتے ہیں۔ سیاست اگرخدمت ہے،توسوالوں سے نہیں ڈرتی۔ اگرحکمرانی صداقت سے ہے،توسچ بولنے والوں کوقیدنہیں کیاجاتا۔گودی میڈیاکاسہارا لے کر حکومت کوچلایانہیں جاتا، یاد رکھیں! اگرحکومت نعرے سے چلتی ہے،توپھروہی قوم جھوٹ کاایندھن بن جاتی ہے۔عوام کومہنگائی کے ہاتھوں بھوکاپیاسارہنے پرمجبورکرکے جوحکومتیں اتراتی ہیں،انہیں تاریخ کانٹوں پرلٹادیتی ہے۔ گودی میڈیایہ جان لے کہ جہاں میڈیا اپنی جانبداری اورسچ بولنے کی قیمت وصول کرکے مصلحت کا،سیاست نعرے کا،اورعوام خاموشی کا شکار ہوچکی ہوتووقت کاکوڑہ میدان میں اپنا جوہر دکھانے پہنچ جاتاہے اوریہ مکافاتِ عمل ہے کہ جب غریب کابچہ بھوکاسوتاہے،تواس کے آنسو نظام کوبہالے جاتے ہیں۔پچھلی سات دہائیوں سے زائدبے گناہ کشمیریوں کے لاشے،جوان بیوائیں، معصوم یتیم بچے اوراجتماعی قبریں اپناحساب بے باق کرنے کیلئے ایساتاریخی میدان سجانے والے ہیں، جہاں سے کسی بھی ظالم کیلئے راہِ فرارنہیں ہوگا۔ مودی جان لے کہ سچ وہی ہے جوعوام کہہ رہی ہے،اوروہ سچ نہیں جوگودی میڈیاکہہ رہا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہم ا ہنگی جاتے ہیں سے نہیں چین کی ہیں کہ ہے اور کی طرح
پڑھیں:
بھارت بکھرنے کی راہ پر
مودی سرکار 2014 سے عالمی سطح پر ریاستی دہشت گردی کا جال بنتی آ رہی ہے، جو اب بے نقاب ہو گیا ہے ۔برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق امریکہ کے’’ فریمانٹ گوردوارے‘‘ نے ہندو امریکن فائونڈیشن کو مودی سرکار کا غیر ملکی ایجنٹ قرار دیتے ہوئے امریکی محکمہ انصاف سے تحقیقات کا مطالبہ کیاہے۔ مودی کی دہشت گردی اب الٹی پڑتی دکھائی دے رہی ہے ، نا صرف بیرون ملک اس پر تھو تھو ہو رہی ہے ، بلکہ اندرون ملک بھی عرصے سے سوئی ہوئی ، دبائی گئی علیحدگی کی تحریکیں ،فعال ہو چکی ہیں ۔ دیکھا جائے تو اس وقت وہاں کل علیحدگی کی 20 تحریکیں چل رہی ہیں اگر یہ تحریکیں کامیاب ہوجائیں تو انڈیا 20 ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے گا، یعنی مغلوں سے پہلے والا ہزاروں راجواڑوں کا خطہ ۔
شمال میں سب سے زیادہ نمایاں اور پُرانا محاذ جموں و کشمیر کا ہے، جہاں سات دہائیوں پر پھیلا فوجی راج اور 2019 میں آئینِ ہند کی شق 370 کی منسوخی نے حریت کی چنگاریوں کو مستقل شعلہ بنا دیا ہے۔ اسی شمالی خم میں مغربی پنجاب کے سکھ حلقوں کی پرانی امنگ ’’خالصتان‘‘ بھی ہے، یہ تحریک 1984میں آپریشن بلیو سٹار کے نام سے سکھوں کی نسل کشی کے بعد اگرچہ دب گئی تھی، مگر مغربی ممالک میں مقیم سکھ ڈائسپورا اور حالیہ کسان تحریکوں نے اسے نئی جان بخشی ہے۔ اس کے واقع ہماچل اور اتراکھنڈ میں بھی مقامی لوگ انڈیا سے علیحدہ ریاستیں چاہتے ہیں ۔مرکزِ ہند میں جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، اڈیشہ اور مدھیہ پردیش کی معدنی پٹی جسے ’’ریڈ کوریڈور‘‘ کہا جاتا ہے آدی واسی قبائل کی محرومیوں اور ماؤ نواز مسلح جدوجہد کی علامت ہے۔ یہاں ریاستی تحویل میں آنے والی کانوں نے مقامی آبادی کو بےدخل کیا، اور بدلے میں ترقی کے وعدے بدعنوان مقامی اشرافیہ کی جیبوں میں سمٹ گئے۔ نتیجہ یہ کہ نکسل گوریلوں اور نیم فوجی دستوں کے درمیان برسوں سے ایک ایسی آنچ سلگ رہی ہے جس میں سڑکیں، ریل کی پٹریاں اور انسانی زندگیاں پگھلتی رہتی ہیں۔ اسی خطے میں بہار اور اتر پردیش کی گنگا، جمنا تہذیب، غربت اور ذات پات کے گٹھ جوڑ میں پھنسی ہوئی ہے، جہاں کبھی ’’پوروانچل‘‘ اور کبھی ’’بندیل کھنڈ‘‘ کے نام سے چھوٹی ریاستوں کے مطالبے سر اٹھاتے رہتے ہیں۔
بھارت کا شمال مشرق جسے بعض مقامی باشندے طنزیہ انداز میں ’’بالانگما‘‘ یعنی دور افتادہ گھر کہتے ہیں نسلی، مذہبی اور لسانی رنگا رنگی سے بھرپور ہے، اور یہی تنوع شورش کا ایندھن بھی بن گیا ہے۔ ناگا پہاڑیاں ایک علیحدہ ’’ناگالِم‘‘ کا خواب دیکھتی ہیں، آسام میں اولفا کی بندوقیں کبھی تیل کی رائلٹی پر گرجتی ہیں تو کبھی ’آسام صرف آسام والوں کا‘ کے نعرے پر۔ منی پور میں مِیتئی اور قبائلی برادریوں کی کشمکش کو پی ایل اے اور یو این ایل ایف کی متوازی حکومتیں تقویت دیتی ہیں، جبکہ میزورام، تریپورہ اور میگھالیہ میں مقامی قوم پرستی نئے وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم پر سوال اٹھاتی ہے۔ ان ریاستوں میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) نے بغاوت کو دبانے کے بجائے فوج اورعوام میں خلیج کو اور گہرا کر دیا ہے۔
اب رخ کرتے ہیں دکن کے میدانی اور ساحلی علاقوں کا۔ تامل ناڈو میں دراوِڑی تحریک بیسویں صدی میں علیحدگی کے مطالبے سے واپس تو ہوئی، مگر اس نے ’’میں پہلے تامل، پھر ہندوستانی‘‘ کا بیانیہ شہری ووٹ بینک کی صورت میں ہمیشہ کے لیے پختہ کر دیا۔ کیرالا کی ملّحت زدہ فضا میں، کرناٹک کے ساحلوں اور آندھرا کے رائل سیما خطے میں کبھی کوڈاگُو، کبھی تولو ناڈو اور کبھی الگ رائل سیما ریاست کی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں۔ یہ سرگوشیاں شاید ابھی توپ کا گولہ نہ بنی ہوں، مگر تلنگانہ کی صورتِ حال بتاتی ہے کہ سرگوشی اگر دیر تک گونجے تو بالآخر آئین میں نئی ریاست کا نقشہ کھینچ دیتی ہے۔
انڈین حکومت کے پاس اس تمام اندرونی اُبال کا مقابلہ کرنے کے دو بڑے ہتھیار ہیں ایک ہاتھ میں ترقیاتی پیکج اور مخصوص مالی فنڈز، دوسرے ہاتھ میں سکیورٹی فورسز اور سخت گیر قوانین۔ جہاں میزورام اور ناگا لینڈ جیسے علاقوں میں طویل مذاکرات نے شورش کم کی، وہیں کشمیر یا ریڈ کوریڈور میں فوجی حل نے عارضی سکون کے بدلے محرومی کا احساس دوچند کر دیا۔ اسی کشمکش نے لداخ اور اروناچل میں سرحدی سڑکوں، سرنگوں اور ایئر بیسز کی تعمیر کی رفتار بڑھائی، لیکن ہر نئی سڑک کے ساتھ فوجی جوتوں کی چاپ بھی مقامی آبادی کے کانوں میں گونجتی ہے۔بیرونی محاذ پر حالات یوں ہیں کہ چین اروناچل پردیش کو ’جنوبی تبت‘ کہہ کر نقشوں اور ناموں کا کھیل کھیلتا ہے، پاکستان عالمی فورمز پر کشمیر کی متنازع حیثیت یاد دلاتا ہے، اور خالصتان کا جھنڈا لندن، ٹورنٹو اور میلبورن کی گلیوں میں لہرا کر بھارت کی سفارت کاری کو زچ کرتا رہتا ہے۔