بھارتی حکمران جماعت بی جے پی اندرونی خلفشار کا شکار اور دھڑوں میں تقسیم
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
بھارتی حکمران جماعت بی جے پی اندرونی خلفشار کا شکار اور دھڑوں میں تقسیم WhatsAppFacebookTwitter 0 13 June, 2025 سب نیوز
نئی دہلی (سب نیوز )بھارتی حکمران جماعت بی جے پی اس وقت ایک سنگین داخلی خلفشار کا شکار ہے، جو نہ صرف پارٹی کی اندرونی یکجہتی پر سوالات اٹھا رہا ہے بلکہ ملکی سیاست میں بھی غیریقینی کیفیت پیدا کر رہا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق پارٹی کے اندر نظریاتی اور تنظیمی سطح پر تقسیم واضح ہوتی جا رہی ہے، جو آنے والے دنوں میں پارٹی کی کارکردگی اور عوامی تاثر پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔بی جے پی اس وقت ایک قیادت کے بحران سے بھی دوچار ہے، کیونکہ موجودہ پارٹی صدر جے پی نڈا کی مدت صدارت اپنے اختتام کے قریب ہے۔ نڈا اس وقت صحت کی وزارت کا قلمدان بھی سنبھالے ہوئے ہیں، جس کے باعث وہ پارٹی کی تنظیمی امور پر پوری توجہ نہیں دے پا رہے۔
پارٹی میں قیادت کی تبدیلی کے معاملے پر جاری مشاورت نے اندرونی اختلافات کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ پارٹی کے مختلف گروہ اپنے اپنے مفادات اور نظریاتی وابستگیوں کے ساتھ سرگرم ہیں، اور بی جے پی کے اندرونی حلقوں میں بڑھتی ہوئی یہ تقسیم نظریاتی بنیادوں پر بھی دکھائی دے رہی ہے۔ ہندوتوا نظریے کے شدت پسند حامی سخت گیر قیادت کے متمنی ہیں، جو پارٹی کی پالیسیوں میں زیادہ جارحانہ انداز اپنانے کے خواہاں ہیں، جبکہ کچھ حلقے نسبتا معتدل اور ہم آہنگی پر مبنی قیادت کی تلاش میں ہیں۔اگرچہ قیادت کی تبدیلی سے متعلق حتمی فیصلہ تاحال سامنے نہیں آیا، لیکن بھارتی میڈیا کے مطابق بی جے پی جنوبی بھارت سے کسی مضبوط چہرے کو سامنے لانے پر غور کر رہی ہے تاکہ وہاں کے ووٹ بینک کو مزید مستحکم کیا جا سکے۔
اس تناظر میں مرکزی وزیر جی کشن ریڈی اور بی جے پی مہیلا مورچہ کی صدر و ناتھی سری نواسن کو ممکنہ امیدواروں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔۔اسی دوران پارٹی کے اندرونی حلقوں میں سنیل بنسل، ونود تاوڑے اور دشینت گوتم جیسے کئی دیگر نام بھی زیر غور ہیں، جنہیں تنظیمی تجربہ اور پارٹی کے مختلف طبقات میں اثر و رسوخ حاصل ہے۔ ان تمام امکانات کے درمیان بی جے پی کو اپنے اتحاد، نظریاتی ہم آہنگی اور عوامی تاثر کو برقرار رکھنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ قیادت کا بحران اور نظریاتی تقسیم بیک وقت کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہو سکتی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسندھ کا 34 کھرب 51 ارب روپے کا بجٹ پیش، تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ سندھ کا 34 کھرب 51 ارب روپے کا بجٹ پیش، تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ گردوں کے ڈائلیسس کی دوا بارے گمرہ کن دعوے ،، فارما کمپنی کو 20 لاکھ جرمانہ ،، کونسی کمپنی کو جرمانہ ہوا، کسی دوائی... ایران کے پاس وقت کم ہے، ورنہ کچھ نہیں بچے گا، ٹرمپ کی دھمکی خیبر پختونخوا میں بجٹ اجلاس کے معاملے پر حکومت اور گورنر آمنے سامنے آ گئے ایران پر اسرائیلی حملے: پی آئی اے نے فلائٹ پلان تبدیل کردیا گورنر خیبرپختونخوا کا بجٹ اجلاس بلانےکیلئے سمری پر دستخط کرنے سے انکار
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: بی جے پی
پڑھیں:
بجٹ اور دولت کی تقسیم عدم مساوات
بجٹ 2025-26 پیش کردیا گیا۔ ایک بار پھر ترقی، استحکام، خودکفالت، مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کے گونج دار وعدوں نے قومی اسمبلی کی چھت پر ارتعاش پیدا کردیا، مگر عوام کی جیب میں خاموشی اداسی کا راج رہا نہ روٹی کی قیمت کم ہوئی نہ مہنگائی کا جن غائب ہوا، نہ ڈالرکی سینہ تانی میں کمی ہوئی نہ روپے کے خوف میں کمی ہوئی۔
بجٹ کے سنتے ہی تنخواہ دار طبقے کے چہرے پر اداسی تھی۔ دیہاڑی دار کے چہرے سے خوشی روٹھ گئی تھی۔ نجی اداروں سے تنخواہ لینے والے سہم کر سمٹ گئے تھے۔ ہاں! البتہ ایک طبقہ بہت خوش تھا، سنا ہے سینیٹروں کی تنخواہوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے، اگر حکومت اس اضافے کو روک کر اتنی رقم دفاعی بجٹ میں جمع کرا دیتی جس سے عوام خوش ہو جاتے۔
اس ماہ کی 10 تاریخ تھی جب بجٹ کا سفر طے ہوا۔ وزیر خزانہ زبانی اعداد بولتے رہے اور وزیروں کے چہرے چمکتے رہے۔ ادھر سینیٹرز کے دل باغ باغ ہوتے رہے اور تنخواہ دار ملازم کے لیے 10 فی صد اضافہ اور پنشنروں کے لیے محض 7 فی صد کا اضافہ ہوا۔ ایسے میں بجٹ آیا، تقریر ہوئی، میزوں پر ہاتھ پڑے اور وہ جوش میں بجتے رہے، تالیاں بجتی رہیں، ایسے میں اعلان ہوا پنشن میں محض 7 فی صد اضافہ ہوگیا ہے۔
ایسے میں ایک بوڑھا سوچتا ہے عمر بھر ملک کی خدمت کی، اب ریٹائر ہوا تو حکومت نے خیال کرنا ہی چھوڑ دیا۔ 7 فی صد کے اضافے سے مگر مکان کا کرایہ 10 فی صد بڑھ گیا، اس سے کیسے نمٹا جائے۔ اپنی اور بیگم کی ادویات کی قیمت بڑھ گئی ہے، کون سی دوا کتنی کم کرنی ہے، اس سوچ میں تھا کہ آواز آئی پیپلز پارٹی نے بھی بجٹ سے اختلاف ظاہر کردیا ہے۔ اب قومی اسمبلی میں ترامیم ہوں گی، اصلاحات کی جائیں گی یقینا تنخواہوں اور پنشن میں مزید اضافے کا بل پاس ہو جائے گا۔
اس بجٹ میں سب سے زیادہ اہم شرح نمو کو 2.7 فی صد سے بڑھا کر آیندہ سال4.2 فی صد تک لے کر آنا ہے۔ یہ عدد موجودہ معاشی حالات میں ایک امید ہے۔ ایک خواب ہے جسے حقیقت میں بدلنے کے لیے پوری قوم کو کمر کسنی ہوگی اور اشرافیہ کو قربانی دینی ہوگی۔
دفاعی بجٹ موجودہ علاقائی صورت حال میں جب دونوں اطراف کی سرحدیں انتہائی مخدوش حالات میں غیر محفوظ ہیں، اس دفاعی فنڈ کو بڑھانے کے لیے کچھ لوگ مالی قربانی دیں، چاہے ان کی تنخواہوں میں کیا گیا 500 فی صد اضافہ وہ حکومت سے کہہ کر دفاعی فنڈ میں جمع کرا دیں، پوری قوم میں ان کی دھوم مچ جائے گی۔ ترقی کے ہدف کا حصول ناممکن نہیں ہے، البتہ مشکل ضرور ہے۔ اس کے لیے زراعت کو جدید خطوط پر استوارکرلیں تاکہ غذائی تحفظ بھی حاصل ہو اور زرعی مصنوعات کی برآمد میں زیادہ اضافہ کرلیں صنعتوں کو 50 اور 60 کی دہائی کی طرح زبردست فروغ دینا ہوگا۔بجٹ کا کل حجم 17,573 ارب روپے کا ہے۔ ایف بی آر محصولات کا ہدف 14,131 ارب روپے ہے۔
درآمدی سولر پینلز پر 18 فی صد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پرکاربن لیوی ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔ کراچی میں K-4 منصوبے کے لیے محض 3 ارب 20 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ایسا معلوم دے رہاہے کہ پیاسوں کی طلب کو ایک سال کے لیے موخر کردیا گیا ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ اسی سال کے۔فور پانی کے منصوبے کو بھاری رقم لگا کر مکمل کروا دیتے۔اعلان کردہ بجٹ کا جائزہ لینے سے قبل کچھ ایسی باتیں ہیں جن کی وجہ سے قلم کا نوحہ سامنے آتا ہے۔ کسی کی تنخواہ 2 سے21 لاکھ تک چلی جاتی ہے اور بہت سے خوش قسمت افراد کی تنخواہوں میں 500 فی صد کے لگ بھگ اضافہ ہو جاتا ہے اور بوڑھا، ضعیف، لاچار پنشنر کے لیے محض 7 فی صد کا اضافہ ہوتا ہے۔ بس یہ تضاد اتنا گہرا ہے کہ اس میں چھپا ظلم صاف نظر آ رہا ہے۔
بجٹ جس کے ذریعے اقوام مغرب غریب اور امیر کے درمیان فرق کو کم سے کم کرتے رہے، اشرافیہ سے وقتاً فوقتاً قربانی طلب کرتے رہے۔ محروم طبقات کے لیے حکومتی کوششوں کو اجاگر کرتے رہے۔ ہماری معیشت کی بنیاد عوام کا ہی پیسہ ہوتا ہے جو ٹیکس کی صورت میں اشیا خریدنے پر لگائے گئے ٹیکس کی ادائیگی کی صورت میں خزانے میں جمع ہو جاتا ہے، اس کا بڑا حصہ حکومتی اراکین پر خرچ نہیں ہونا چاہیے۔
معاشی ترقی کے لیے بجٹ وہ بنیاد فراہم کرتا ہے جس سے مضبوط انفرا اسٹرکچر مستحکم صنعت اور بہتر سرمایہ کاری ضروری ہوتی ہے، اگر معاشرے کا ایک بڑا حصہ بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہے تو معاشی ترقی کے ہدف 4.2 تک نہیں پہنچ سکتے۔پاکستان پیپلز پارٹی جس نے بجٹ اصلاحات کا بیڑا اٹھا لیا ہے اسے محروم طبقے کمزور، ناتواں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے جذبات اور محرومی کو ایوان اقتدار میں بیٹھے، ارباب اختیار تک پہنچا دینا چاہیے۔
دولت کی تقسیم عدم مساوات معاشی ترقی کی راہ میں اہم رکاوٹ ہے۔ صرف سرکاری ملازمین اور پنشنرزکی بات نہیں بلکہ ملک کے طول و عرض میں کام کرنے والے نجی ملازمین دفتروں کے ملازمین اخباری کارکن، دکانوں پر کام کرنے والے دیہاڑی دار حتیٰ کہ غریب کسان، مختلف چھوٹے چھوٹے پیشے اختیار کرنے والے لوگ وہ بے روزگار نوجوان جوکہ آئی ٹی کے میدان میں داخل ہو رہے ہیں۔ پورے ملک کی افرادی قوت کو دولت کی تقسیم میں ان کا جائز حصہ ملے گا، جب کہیں جا کر غریب اور امیرکا فرق کم ہوگا۔ ورنہ یہ بجٹ حسب سابق اشرافیہ کو مراعات دینے کا نام رہ جائے گا۔
بجٹ کا اہم مقصد دولت کی تقسیم میں عدم مساوات کو کم کرنا ہو، اس کے متعلق زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے عملی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں اور اس میں بتدریج کامیابی کا مطلب دولت کی تقسیم عدم مساوات کی خلیج میں کمی واقع ہو رہی ہے اور اسی لحاظ سے غربت میں کمی واقع ہوگی اور ملکی معیشت جتنی بھی زیادہ مضبوط ہو تو شرح نمو میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا بجٹ ایسا ہو جوکہ دولت کی تقسیم عدم مساوات میں زبردست کمی لے کر آئے۔