امریکی عدالت کا ٹرمپ کے انتخابی حکم پر بڑا فیصلہ، ایگزیکٹو آرڈر معطل
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
امریکا کی ریاست میساچوسٹس کی ایک وفاقی عدالت نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اُس ایگزیکٹو آرڈر کو معطل کر دیا ہے، جس کے تحت ووٹنگ کے طریقہ کار میں اہم تبدیلیاں تجویز کی گئی تھیں۔
عدالت نے اس حکم کو آئینی حدود سے تجاوز قرار دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ انتخابی ضوابط کا اختیار صرف کانگریس کو حاصل ہے، نہ کہ صدر کو۔
ٹرمپ کے حکم نامے میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ووٹروں کو رجسٹریشن کے وقت شہریت کے دستاویزی ثبوت فراہم کرنا ہوں گے اور صرف وہ ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹ قابل قبول ہوں گے جو انتخابی دن تک موصول ہو جائیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ریاستوں پر زور دیا گیا تھا کہ اگر وہ وفاقی مالی امداد چاہتی ہیں تو وہ ان نئے اصولوں کو لاگو کریں۔
عدالت کے جج ڈینیز کیپر نے قرار دیا کہ یہ حکم ریاستوں کے آئینی اختیارات پر مداخلت ہے اور صدر کو ایسا اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ملک بھر میں انتخابی طریقہ کار خود طے کرے۔
جج کے مطابق اس حکم سے ریاستوں پر غیر ضروری مالی بوجھ بھی پڑے گا اور ان کی خودمختاری متاثر ہو گی۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ عدالت نے ٹرمپ کے اس ایگزیکٹو آرڈر کو نشانہ بنایا ہو۔ اس سے قبل واشنگٹن ڈی سی اور دیگر عدالتوں میں بھی اس کے خلاف فیصلے دیے جا چکے ہیں، جن میں اس کے مختلف نکات کو معطل کیا گیا تھا۔
وائٹ ہاؤس نے عدالت کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کا حکم آزاد اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے تھا، لیکن عدالت نے اس مؤقف کو تسلیم نہیں کیا۔ ادھر کئی ریاستوں نے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے جمہوری اصولوں کی فتح قرار دیا ہے۔
یہ عدالتی فیصلہ امریکی انتخابی عمل میں صدر کے اختیار کی حدود کے بارے میں ایک اہم نظیر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ، چیئرمین پی ٹی اے کو ہٹانے کا فیصلہ معطل، عہدے پربحال
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 ستمبر2025ء)اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی اے کو عہدے سے ہٹانے کا جسٹس بابر ستار کا فیصلہ معطل کر دیا۔جمعرات کوچیئرمین پی ٹی اے کو عہدے سے ہٹانے کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت جسٹس محمد آصف اور جسٹس انعام امین منہاس پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی۔چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل(ر)حفیظ الرحمان کے وکیل قاسم ودود، ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور دیگر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔پی ٹی اے، وفاق اور برطرف چیئرمین کی جانب سے انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کی گئی تھیں۔دوران سماعت پی ٹی اے کے وکیل سلمان منصور نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست میں جو استدعا بھی نہیں کی گئی وہ ریلیف بھی دے دیا گیا۔ چیئرمین پی ٹی اے کو ہٹانے سے قبل نہ رولز کو چیلنج کیا گیا نہ ہی اٹارنی جنرل کو نوٹس ہوا، اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرنا ضروری تھا۔(جاری ہے)
وکیل سلمان منصور نے کہا کہ پٹیشن میں جو استدعا نہ کی گئی ہو، اس کو آرٹیکل 199 میں نہیں دیکھا جا سکتا، کورٹ نے خود لکھا کہ ساری بحث ابھی مکمل نہیں ہوئی۔جسٹس محمد آصف نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ کو تو کافی موقع دیا گیا تھا۔ وکیل نے کہاکہ اعتراضات پر مشتمل دو درخواستیں بھی دائر ہوئیں انہیں دیکھے بغیر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا، درخواست کے قابل سماعت ہونے کے اعتراضات پر تو دلائل ہونے باقی تھے، جب وکلاء چھٹی پر تھے تو اس روز سماعت مکمل کہہ کر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل راشد حفیظ ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ پورے پاکستان سے 64 افراد میں مقابلہ تھا، جس میں سے 24 امیدواروں نے کوالیفائی کیا، اہلیت کے معیار پر سختی سے عمل ہوا، کوئی امیدوار عدالت نہیں آیا، آسامی مشتہر ہونے سے پہلے وفاقی کابینہ کی منظوری سے رولز میں تبدیلی کی گئی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے میجر جنرل ریٹائرڈ حفیظ الرحمان کو عہدے پر بحال کر دیا۔