اسرائیل اور ایران کے درمیان ویسا ہی معاہدہ ہوگا جیسا بھارت اورپاکستان کے درمیان کرایا، ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران اور اسرائیل کو معاہدہ کرنا چاہیے اور دونوں ممالک کے درمیان جلد ہی امن قائم ہو سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر جاری اپنے بیان میں ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کے لیے متعدد ملاقاتیں اور فون کالز ہو رہی ہیں، اور وہ پُرامید ہیں کہ یہ معاہدہ جلد ہو جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ ویسا ہی ہوگا جیسا انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کروایا تھا۔ ان کے مطابق اس معاہدے میں انہوں نے دونوں ممالک کو امریکا کے ساتھ تجارتی فوائد کی پیشکش کی، اور دو ایسے رہنماؤں سے رابطہ کیا جو فوری فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، جس کے نتیجے میں کشیدگی رک گئی۔
ٹرمپ نے شکوہ کیا کہ وہ بہت کچھ کرتے ہیں مگر انہیں کبھی اس کا کریڈٹ نہیں دیا جاتا، لیکن انہوں نے کہا کہ عوام سب کچھ جانتی ہے اور سمجھتی ہے۔
اپنے بیان میں انہوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ اپنی پہلی صدارت کے دوران انہوں نے سربیا اور کوسووو، اور مصر اور ایتھوپیا کے درمیان بھی معاہدے کروائے تھے۔
بیان کے اختتام پر انہوں نے اپنا مشہور نعرہ دہرایا: “مشرق وسطیٰ کو پھر سے عظیم بناؤ”۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
مودی کیلیے نئی مشکل؛ ٹرمپ نے بھارت کو ایرانی بندرگاہ پر دی گئی چُھوٹ واپس لے لی
امریکا نے ایرانی چابہار بندرگاہ پر عائد پابندیوں سے بھارت کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا جس سے براہِ راست بھارت کے منصوبوں اور سرمایہ کاری پر اثر پڑ سکتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی بندرگاہ چابہار، جسے خطے میں تجارتی روابط اور جغرافیائی حکمتِ عملی کے اعتبار سے کلیدی حیثیت حاصل ہے، ایک بار پھر غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہو گئی۔
بھارت نے 2016 میں ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے چابہار بندرگاہ کی ترقی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کی تھی۔
چابہار کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک بھارت کی رسائی کے لیے ٹریڈ کوریڈور کے طور پر دیکھا جاتا ہے تاکہ پاکستان کے راستے پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
بھارت نے اب تک بندرگاہ اور ریل لنک کے منصوبے پر اربوں ڈالر لگائے ہیں جو پابندیوں پر استثنیٰ ختم ہونے کے باعث متاثر ہوسکتے ہیں۔
چابہار کو بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان رابطے کے لیے متبادل راستہ سمجھا جاتا تھا۔ پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر چابہار میں پیش رفت رک گئی تو بھارت کو وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے دوبارہ پاکستان کے راستے یا دیگر مہنگے ذرائع اختیار کرنا پڑ سکتے ہیں۔
ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ پابندیوں کے بعد بھارتی کمپنیاں مالیاتی لین دین اور سامان کی ترسیل کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہوں گی۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت ممکنہ طور پر یورپی یونین یا روس کے ساتھ سہ فریقی تعاون کے ذریعے اس منصوبے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرے گا۔
امریکا نے ماضی میں اس منصوبے کو افغانستان کی تعمیرِ نو اور خطے میں استحکام کے لیے ضروری قرار دے کر ایران پر عائد بعض پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا تھا۔
تاہم اب امریکا نے اعلان کیا ہے کہ ایران پر سخت اقتصادی دباؤ برقرار رکھنے کے لیے چابہار منصوبے کا استثنیٰ ختم کیا جا رہا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی موجودہ پالیسیوں، خاص طور پر روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے کردار کے باعث نرمی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
ایرانی وزارتِ خارجہ نے امریکی اقدام کو "غیر قانونی" قرار دیتے ہوئے کہا کہ چابہار ایک علاقائی ترقیاتی منصوبہ ہے جسے سیاسی دباؤ کی نذر کرنا خطے کے استحکام کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
ایران نے اشارہ دیا ہے کہ وہ بھارت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے متبادل حکمتِ عملی اپنائے گا۔
تاحال بھارت کی جانب سے امریکی اقدام پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔