data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ٹھٹہ (صباح نیوز)وزیر داخلہ سندھ ضیاالحسن لنجار نے کہا ہے کہ آئی جی سندھ سے کوئی اختلاف نہیں ۔اختلاف برابری کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ آئی جی پولیس کی کمان سنبھالنے والے ملازم ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ٹھٹہ میں ماڈل تھانے کی افتتاحی تقریب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس ڈاکوں، جرائم پیشہ افراد اور امن دشمنوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، سندھ پولیس اسلحے سے اچھی طرح لیس ہے اور مہارت کے لحاظ سے بہت بڑی صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ پولیس میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، سندھ ماضی کی نسبت زیادہ پرامن ہے۔ اس موقع پر صوبائی وزیر اوقاف ریاض حسین شیرازی، ایم این اے صادق علی میمن، ڈی آئی جی طارق دھاریجو، ڈپٹی کمشنر منور عباس سومرو اوردیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

پنچایت، جرگہ اور غیرت کے نام پر قتل؛ ایک کڑوی حقیقت

بلوچستان میں حالیہ جرگہ کے غیر قانونی فیصلے پر عملدرآمد اور اس پر حکومت اور ریاست کی جانب سے مبینہ طور پر ’’کمزور ردعمل‘‘ ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو اجاگر کررہا ہے کہ پاکستان میں قبائلی و علاقائی رسم و رواج کی حمایت کرنے والے عناصر اس قدر مضبوط ہیں کہ ہمارے عدالتی نظام کی موجودگی کے باوجود بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا باعث بن رہے ہیں۔

اور ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ہونی چاہیے کہ پنچایت اور جرگہ جیسے ادارے، جنہیں روایتی انصاف کا پرچم بردار سمجھا جاتا رہا ہے اس قدر فرسودہ ہیں کہ یہ اپنے مبینہ روایتی اور فطری کردار سے ہٹ کر ہماری خواتین کے استحصال کا سب سے بڑا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔

آخر کیوں پنچایت اور جرگہ ہمیشہ خاص طور پر خواتین کے استحصال پر مبنی فیصلے کرتے ہیں؟ کیوں ان کے فیصلوں کا ہدف صرف خواتین ہوتی ہیں، چاہے وہ غیرت کے نام پر قتل ہوں، ونی ہو، سوارہ ہو، یا پھر پسند کی شادی کرنے پر سنگسار کرنے کا فیصلہ۔ کیا کبھی ہم نے سنا ہے کہ کسی پنچایت یا جرگہ نے بچوں کی تعلیم کے حق میں کوئی فیصلہ کیا ہو؟ یا صحت عامہ کی بہتری کے لیے کوئی اقدام اٹھایا ہو؟ یا پھر صاحبان اقتدار کی کرپشن کے خلاف کوئی سخت فیصلہ سنایا ہو؟ جواب نفی میں ہے۔ ان کے فیصلے صرف اور صرف اس وقت متحرک ہوتے ہیں جب بات خواتین کے ’’کردار‘‘ یا ’’عزت‘‘ کی ہو۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ادارے صدیوں پرانے پدری نظام (Patriarchy) پر مبنی ہیں، جہاں مرد کو برتر اور عورت کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ خواتین کو صرف مردوں کی ملکیت سمجھ کر ان کی عزت و ناموس کا بوجھ بھی انہی کے کاندھوں پر لاد دیا جاتا ہے۔ جب کوئی عورت اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ کرتی ہے، تو اسے ’’خاندان کی عزت‘‘ پر حملہ سمجھا جاتا ہے، اور اس حملے کا بدلہ لینے کے لیے یہ جرگے اور پنچایتیں فوراً متحرک ہوجاتی ہیں۔ ان کے نزدیک عورت کی آزادی، اس کی پسند، اس کا انتخاب، یہ سب گناہ ہے۔ وہ عورت کو جائیداد سمجھتے ہیں، جسے وہ اپنی مرضی سے بیچ سکتے ہیں، تبادلہ کر سکتے ہیں، یا مار سکتے ہیں۔ پنچایت اور جرگہ کا یہ نظام خواتین کو انسان نہیں بلکہ قابلِ دست اندازی مرد ’’ایک شے‘‘ تصور کرتا ہے۔

ان جرگوں اور پنچایتوں میں شامل افراد زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جو علاقائی طاقت کے مالک ہوتے ہیں۔ وڈیرے، سردار، جاگیردار اور بااثر شخصیات۔ ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور ان کے فیصلے انہی کے ذاتی مفادات کے گرد گھومتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ عورتیں تعلیم حاصل کریں، اپنے حقوق سے آگاہ ہوں، یا معاشی طور پر خود مختار بنیں۔ کیونکہ خواتین کی آزادی ان کے روایتی اقتدار کے لیے خطرہ ہے۔ یہ سردار اور وڈیرے، بجا طور پر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ تعلیم اور سماجی بیداری لوگوں میں شعور پیدا کرتی ہے اور انہیں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر اکساتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جرگے کبھی بھی تعلیمی پسماندگی یا صحت کے فقدان جیسے مسائل پر بات نہیں کرتے، کیونکہ ان کے حل سے ان کے اپنے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

صاحبان اقتدار کی کرپشن پر ان جرگوں کی خاموشی بھی قابل غور ہے۔ یہ لوگ خود بھی اکثر اسی کرپٹ نظام کا حصہ ہوتے ہیں یا پھر ان کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اپنے مفادات حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس موضوع پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ اس سے ان کے اپنے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ ان جرگوں کی ترجیحات میں غریب عوام کے مسائل، ان کے حقوق یا عدالتی نظام کی عملداری کبھی شامل نہیں ہوتی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے بارہا پنچایت اور جرگہ کے غیر قانونی ہونے اور ان کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہونے کا فیصلہ سنایا ہے۔ 2004 میں ’’مقدمہ سلیم اختر بمقابلہ ریاست‘‘ (PLD 2004 SC 676) میں سپریم کورٹ نے واضح طور پر قرار دیا کہ جرگے اور پنچایتیں غیر قانونی ادارے ہیں اور ان کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ انصاف فراہم کرنے کا واحد ادارہ عدلیہ ہے اور کوئی بھی متوازی نظام عدل غیر آئینی ہے۔

اسی طرح، 2016 میں ’’مقدمہ سندھ حکومت بمقابلہ اللہ بخش‘‘ (2016 SCMR 125) میں سپریم کورٹ نے ایک بار پھر اس بات کو دہرایا کہ جرگے اور پنچایتیں غیر آئینی ہیں اور کسی بھی شخص کو ان کے سامنے پیش ہونے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ 

عدالت نے واضح ہدایات جاری کیں کہ ریاستی ادارے ایسے جرگوں کے انعقاد اور ان کے فیصلوں پر عملدرآمد کو روکیں۔ خاص طور پر غیرت کے نام پر قتل جیسے جرائم کے حوالے سے، سپریم کورٹ نے کئی فیصلوں میں واضح طور پر کہا ہے کہ یہ قابل تعزیر جرائم ہیں اور ان میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہیے۔

عدالت نے حکومت کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرے۔۔ عدالت عظمیٰ نے واضح طور پر اپنے فیصلوں میں کہا ہے کہ انصاف فراہم کرنے کا واحد ادارہ عدلیہ ہے اور کوئی بھی متوازی نظام غیر آئینی ہے۔ اور حکومت اور ریاست کو ضروری قانون سازی کرنا ہوگی
... اور پھر نہ جانے کیوں؟ یہ جرگے اور پنچایتیں ... نہ صرف فعال ہیں بلکہ ان کے فیصلوں پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے، اور سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت اور ریاست اس پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

آخر سیاسی اور آمرانہ حکومتیں ، سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟

پہلی وجہ سیاسی مصلحت پسندی ہے: ہمارے سیاستدان اکثر ان علاقوں کے سرداروں اور وڈیروں کے محتاج ہوتے ہیں جو ان جرگوں کو چلاتے ہیں۔ انہیں ان کی ووٹ بینک کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرکے اپنا سیاسی کیریئر خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ اس طرح، قانون کی حکمرانی کی بجائے، سیاسی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔

دوسری وجہ انتظامی کمزوری ہے: ریاستی ادارے، خصوصاً پولیس اور انتظامیہ، اکثر ان بااثر قبائلی سرداروں کے دباؤ میں آجاتے ہیں۔ وہ ان کے خلاف کارروائی کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے کیریئر یا ذاتی تحفظ کا خوف ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، ایسے معاملات میں اکثر سیاسی مداخلت بھی ہوتی ہے جو اداروں کو غیر فعال کر دیتی ہے۔

تیسری وجہ قانونی سقم اور اس پر عملدرآمد کی کمی ہے: اگرچہ سپریم کورٹ نے ان جرگوں کو غیر قانونی قرار دیا ہے، لیکن اس کے باوجود ان کے خلاف کوئی موثر اور جامع قانون سازی نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کے فیصلوں پر عملدرآمد کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جاسکی ہیں۔ اورجو قوانین موجود ہیں، ان پر بھی عملدرآمد انتہائی کمزور ہے۔

چوتھی وجہ عوامی آگاہی کا فقدان ہے: دیہی علاقوں میں زیادہ تر لوگ اپنے قانونی حقوق سے ناواقف ہیں۔ انہیں عدالتی نظام پر اعتماد نہیں ہوتا یا پھر وہ اسے پیچیدہ اور مہنگا سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس، جرگہ کو وہ فوری اور سستا انصاف سمجھ کر اس کا رخ کرتے ہیں۔ 

یہ سوچ بھی غلط ہے کہ یہ جرگے سستا انصاف فراہم کرتے ہیں۔۔ یہ تو خواتین کی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر چند صاحب اقتدار یا قبیلے کے ’’طاقتور‘‘ مردوں کی انا کی تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں۔

پانچویں وجہ سماجی دباؤ اور خوف ہے: اکثر لوگ، خاص طور پر خواتین، ان جرگوں کے فیصلوں کے خلاف جانے کی ہمت نہیں کر پاتیں کیونکہ انہیں سماجی بائیکاٹ، تشدد یا غیرت کے نام پر قتل کیے جانے کا خوف ہوتا ہے۔ یہ خوف اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ ظلم سہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ایک کثیر جہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، حکومت کو سپریم کورٹ کے فیصلوں پر سختی سے عملدرآمد کروانا چاہیے اور جرگہ و پنچایت کے غیر قانونی فیصلوں پر عملدرآمد کرنے والوں کو سخت سزائیں دینی چاہئیں۔ اس کے لیے ایک جامع قانون سازی کی ضرورت ہے جو ان غیر آئینی اداروں پر مکمل پابندی لگائے۔

دوسرا، عوامی آگاہی کی مہم چلائی جائے تاکہ لوگ اپنے قانونی حقوق سے واقف ہو سکیں اور انہیں عدالتی نظام پر اعتماد ہوسکے۔ میڈیا، تعلیمی اداروں اور سول سوسائٹی کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

تیسرا، عدالتی نظام کو مزید موثر، سستا اور قابل رسائی بنایا جائے۔ اگر لوگوں کو فوری انصاف ملے گا تو وہ ان غیر قانونی اداروں کا رخ نہیں کریں گے۔
چوتھا، خواتین کو تعلیم، صحت اور معاشی خود مختاری کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ اپنے حقوق کے لیے لڑ سکیں اور ان پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔ جب تک خواتین خود بااختیار نہیں ہوں گی، یہ استحصال جاری رہے گا۔

ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ پنچایت اور جرگہ صرف علاقائی رسم و رواج نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک ایسا نظام بن چکے ہیں جو خواتین کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کرتا ہے۔ اس کے خلاف نہ صرف عدالتی اور حکومتی سطح پر سخت ردعمل کی ضرورت ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم ایک جدید، مہذب اور آئین و قانون کی حکمرانی والی ریاست بننا چاہتے ہیں یا پھر صدیوں پرانی فرسودہ روایات کے چنگل میں پھنسے رہنا چاہتے ہیں۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • بانی پی ٹی آئی کے بیٹوں کی کوئی ویزا درخواست زیر غور نہیں ،وزارت داخلہ
  • وزیر اعلی ٰمریم نواز کا رحیم یار خان پولیس چوکی پر حملے میں5 ایلیٹ فورس جوانوں کی شہادت پر افسوس کا اظہار
  • ایرانی صدر ڈاکٹر کا سرکاری دورہ پاکستان، اعلیٰ سطحی ملاقاتیں شیڈول
  • بھارت سے اختلاف صرف روسی تیل خریدنے پر نہیں ہے، امریکہ
  • ملک میں چینی کا کوئی بحران نہیں، قیمتوں میں اضافہ ذخیرہ اندوزی کا نتیجہ ہے، وفاقی وزیر صنعت و پیداوار
  • وفاقی کابینہ نے حج پالیسی 2026 اور پاکستان کا پہلا گرین بلڈنگ کوڈ منظور کر لیا
  • راولپنڈی میں انسانیت کو شرما دینے والاواقعہ، سرکاری ملازم مبینہ طور پر نوجوان بیٹی سے زیادتی کرتا رہا،مقدمہ درج
  • وفاقی کابینہ نے حج پالیسی 2026 کی منظوری دے دی
  • پنچایت، جرگہ اور غیرت کے نام پر قتل؛ ایک کڑوی حقیقت
  • سپرنٹنڈنٹ اڈیالا جیل یاد رکھیں کہ وہ سرکاری ملازم ہیں، بڑے بڑے افسران کو میں نے روتے دیکھا ہے: عمر ایوب