سندھ لیبر کوڈ، مزدوروں کے ساتھ دھوکا
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
رحیم خان آفریدی
ہم سندھ لیبر کوڈ 2024 کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں اور اعلیٰ حکام کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کوڈ کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔
سندھ حکومت کی جانب سے متعارف کرایا جانے والا نیا قانون ’’سندھ لیبر کوڈ‘‘ 2024 مزدوروں کے بنیادی حقوق کو سلب کرنے، انہیں کنٹریکٹ سسٹم کے تحت غلام بنانے اور اجتماعی سودے بازی سے محروم کرنے کی ایک سنگین سازش ہے۔
یہ مجوزہ کوڈ نہ صرف آئین پاکستان کے آرٹیکل 17 (تنظیم سازی کی آزادی) کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ آئی ایل او کنونشنز 87 اور 98 کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔
سندھ لیبر کوڈ 2024 کیوں خطرناک ہے؟
-1 کنٹریکٹ سسٹم کو قانونی حیثیت دینا:
مزدوروں کو مستقل روزگار کے بجائے عارضی کنٹریکٹ پر رکھا جائے گا، جس سے ان کا روزگار غیر محفوظ ہو جائے گا اور انہیں سوشل سیکورٹی، ای او بی آئی، گریجویٹی اور دیگر بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جائے گا۔
-2 یونین سازی پر پابندیاں:
مزدوروں کو انجمن سازی کے حق سے محروم کیا جائے گا، جس سے وہ اپنے حقوق کے لیے اجتماعی طور پر آواز نہیں اٹھا سکیں گے۔ اور یونین کو ہڑتال کے حق سے بھی محروم کیا جا رہا ہے اور یونین سے ہڑتال کا حق بھی چھینا جا رہا ہے۔
-3 اجتماعی سودے بازی کا خاتمہ:
لیبر یونینز اور سی بی اے کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ مزدور اجرت، کام کے اوقات، سہولیات، اور کام کی شرائط پر مذاکرات نہ کر سکیں۔
-4 استحصال کو فروغ دینا:
سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کو مکمل آزادی دی جا رہی ہے کہ وہ مزدوروں سے کم اجرت پر کام لیں، انہیں طویل اوقات تک محنت پر مجبور کریں، اور ناقص حالاتِ کار میں رکھیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے اور سندھ لیبر کوڈ 2024 کی قانونی حیثیت
سپریم کورٹ آف پاکستان کے متعدد فیصلے موجود ہیں جن میں کنٹریکٹ سسٹم اور تھرڈ پارٹی کے ذریعے روزگار کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ یہ نظام مزدوروں کے استحصال کا ذریعہ ہے اور ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
اس کے باوجود سندھ لیبر کوڈ 2024 میں نہ صرف ٹھیکیداری نظام اور تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ سسٹم کو قانونی حیثیت دی جا رہی ہے بلکہ یونین سازی اور سی بی اے کے حق کو بھی سلب کیا جا رہا ہے۔ یہ نہ صرف ایک قانون ساز ناکامی ہے بلکہ مزدوروں کے ساتھ ایک سنگین دھوکہ اور ناانصافی ہے۔
ہمارے مطالبات:
سندھ لیبر کوڈ 2024 کو فی الفور منسوخ کیا جائے۔
ILO کنونشنز 87 اور 98 پر مکمل عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔
مزدور یونینز کے حقوق کو مکمل تحفظ دیا جائے۔
آئین پاکستان کے تحت مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزی بند کی جائے۔
موجودہ لیبر قوانین اور ایکٹس پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سندھ لیبر کوڈ 2024 کنٹریکٹ سسٹم مزدوروں کے خلاف ورزی جائے گا کیا جا
پڑھیں:
دریائے سندھ پر طویل ترین گھوٹکی-کندھ کوٹ پل منصوبے میں اہم پیش رفت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت دریائے سندھ پر گھوٹکی-کندھ کوٹ پل کے منصوبے پر ایک اہم اجلاس ہوا۔
اجلاس میں صوبائی وزرا ضیا الحسن لنجار، حسن علی زرداری، معاون خاص سید قاسم نوید، چیف سیکریٹری سید آصف حیدر شاہ، آئی جی غلام نبی میمن، سیکریٹری داخلہ اقبال میمن اور دیگر اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔
اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ گھوٹکی-کندھ کوٹ پل دریائے سندھ پر اب تک کا سب سے طویل برج ہوگا، جو نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک کی معیشت اور عوامی سہولت کے لیے ایک شاندار منصوبہ ہے۔ اس پل کی تعمیر سے سندھ اور پنجاب کے درمیان آمدورفت میں آسانی پیدا ہوگی، جبکہ سندھ اور بلوچستان کے درمیان بھی رابطے مضبوط ہوں گے۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ گھوٹکی-کندھ کوٹ پل کی کل لمبائی 12.15 کلومیٹر ہوگی۔ گھوٹکی کی طرف جانے والی سڑک 10.40 کلومیٹر جبکہ کندھ کوٹ کی طرف جانے والی سڑک 8.10 کلومیٹر پر محیط ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ 4.548 کلومیٹر طویل ٹھل لنک روڈ بھی منصوبے کا حصہ ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ دونوں اطراف کی سڑکیں مکمل ہو چکی ہیں جبکہ جاڑی واہ، گھوٹا فیڈر کینال اور ٹبی مائنر پر تین پل بھی تعمیر کیے جا چکے ہیں۔
مزید بتایا گیا کہ منصوبے کے تحت 38 پائپ کلورٹس مکمل ہو چکے ہیں اور 732 پائلز میں سے 379 پر کام مکمل کیا جا چکا ہے، تاہم حالیہ سیلاب کی وجہ سے تعمیراتی کام عارضی طور پر رکا ہوا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے ہدایت کی کہ نومبر میں پانی اترنے کے بعد تعمیراتی کام فوری طور پر دوبارہ شروع کیا جائے۔
سید مراد علی شاہ نے زور دیا کہ یہ پل ملکی معیشت اور ترقی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور اس پر سکیورٹی انتظامات بھی بہترین سطح پر یقینی بنائے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کو مزید قریب لانے کے ساتھ ساتھ تجارتی اور معاشی سرگرمیوں میں نئی روح پھونکے گا۔