ججز ٹرانسفر میں صدر کا اختیار اپنی جگہ لیکن درمیان میں پورا پراسس ہے، جج سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے جج، متعلقہ چیف جسٹس صاحبان یا چیف جسٹس پاکستان میں سے کوئی انکار کردے تو ٹرانسفر کا عمل ختم ہوجاتا ہے، صدر کا اختیار اپنی جگہ لیکن درمیان میں پورا پراسس ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا عدالتی فیصلے موجود ہیں سنیارٹی تقرری کے دن سے شمار ہوگی۔
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے متفرق درخواست دائر کردی اور کہا ہم اس کیس میں فریق نہیں تھے، 27 اے کا نوٹس ہوا تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یہ نوٹس فریق بننے کیلئے ہی ہوتا ہے، کیا آپ کو نہیں پتہ 27 اے کا نوٹس کتنا اہم ہوتا ہے؟ جب لاہور ہائیکورٹ رجسٹرار نے اپنے کمنٹس جمع کروائے ہیں تو آپ تو اس کیس میں مرکزی فریق ہیں۔
وکیل نے کہا آرٹیکل 48(1) میں وزیراعظم کی ایڈوائس کابینہ سے مشروط ہے، جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا آپ آرٹیکل 48 کو غلط انداز سے دیکھ رہے ہیں، صدر کے اختیارات اور امور کی انجام دہی میں فرق ہے۔
وکیل نے کہا دیکھنا ہے کہ کیا صدر کو وزیراعظم کی ایڈوانس پر عمل کرنا ہے، قاضی فائز عیسی کیس میں کہا کیا گیا کہ صدر کو اپنا مائینڈ اپلائی کرنا چاہیے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا سپریم جوڈیشل کونسل کسی جج کو برطرف کرنے کی سفارش کردے تو کیا صدر اپنا ذہن اپلائی کرے گا؟ جوڈیشل کمیشن کسی کو جج نامزد کرے تو کیا صدر تقرری سے انکار کرسکتا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا جج کی تبادلے کے عمل میں رضامندی نہ ہو تو سارا عمل وہیں ختم ہوجائے گا، جج رضامندی دے بھی دے اس ہائیکورٹ کا چیف جسٹس انکار کردے تب بھی تبادلہ نہیں ہوگا، جس ہائیکورٹ میں جانا ہے وہاں کا چیف جسٹس انکار کردے تب بھی تبادلہ نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس پاکستان تبادلہ پر انکار کردے تب بھی جج کا تبادلہ نہیں ہوسکے گا، جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ایسا نہیں کرسکتے جس سے یہ کہنا شروع ہوجائیں کہ آئین میں سپریم کورٹ نے ترمیم کر ڈالی۔
آئین میں وزیراعظم یا کابینہ کے الفاظ تو 1985 سے شامل ہیں، ایسی مثال بھی ہے جہاں سپریم کورٹ نے ایک آرمی چیف کی توسیع کیس میں پارلیمنٹ کو چھ ماہ کیلئے قانون سازی کا وقت دیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے کہا انکار کردے چیف جسٹس کیس میں
پڑھیں:
فیکٹری کے ایک ملازم کے اکاؤنٹ میں تمام ملازمین کی تنخواہ ٹرانسفر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماسکو: روس میں ایک فیکٹری ملازم کو غلطی سے تمام ملازمین کی تنخواہ ایک ساتھ وصول ہوگئی۔ تاہم جب کمپنی نے اس سے واپسی کا مطالبہ کیا تو اس نے انکار کردیا۔
خانٹی مانسیسک میں ایک فیکٹری نے اپنے ورکر ولادیمیر ریچاگوف پر 7 ملین روبلز (87,000 ڈالرز) واپس کرنے سے انکار پر مقدمہ دائر کیا ہے۔ یہ رقم سافٹ ویئر کی خرابی کی وجہ سے غلطی سے ملازم کو وصول ہوگئی تھی۔ جب اسے اپنی بینکنگ ایپ سے رقم کی اطلاع موصول ہوئی تو ولادیمیر ریچاگوف کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ اس نے 7,112,254 روبل (87,000 ڈالرز) کی رقم کو بونس سمجھا۔
ملازم کے ساتھیوں کے درمیان اگرچہ یہ افواہیں پھیلی ہوئی تھیں کہ ان کی فیکٹری ان کے لیے ایک نفع بخش سال کے بعد 13ویں تنخواہ تیار کر رہی ہے، لیکن اس نے کبھی بھی اس طرح کی توقع نہیں کی تھی۔
لیکن یہ کروڑ پتی بننے کی اس کی خوشی کچھ ہی دیر کے لیے رہی کیونکہ اسے جلد ہی محکمہ اکاؤنٹنگ سے فون کالز موصول ہونے لگیں کہ اسے غلطی سے 7 ملین روبل منتقل کر دیے گئے ہیں اور اسے واپس کرنا پڑے گا۔
لیکن آن لائن کچھ تحقیق کرنے کے بعد ولادیمیر نے ایک تکنیکی error کی نشاندہی کی بنا پر رقم واپس کرنے سے انکار کردیا اور اب کیس سپریم کورٹ میں داخل کرادیا گیا ہے جہاں اس کا حتمی فیصلہ ہوگا۔