ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے جج، متعلقہ چیف جسٹس صاحبان یا چیف جسٹس پاکستان میں سے کوئی انکار کردے تو ٹرانسفر کا عمل ختم ہوجاتا ہے، صدر کا اختیار اپنی جگہ لیکن درمیان میں پورا پراسس ہے۔ 

جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا عدالتی فیصلے موجود ہیں سنیارٹی تقرری کے دن سے شمار ہوگی۔

ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے متفرق درخواست دائر کردی اور کہا ہم اس کیس میں فریق نہیں تھے، 27 اے کا نوٹس ہوا تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یہ نوٹس فریق بننے کیلئے ہی ہوتا ہے، کیا آپ کو نہیں پتہ 27 اے کا نوٹس کتنا اہم ہوتا ہے؟ جب لاہور ہائیکورٹ رجسٹرار نے اپنے کمنٹس جمع کروائے ہیں تو آپ تو اس کیس میں مرکزی فریق ہیں۔

وکیل نے کہا آرٹیکل 48(1) میں وزیراعظم کی ایڈوائس کابینہ سے مشروط ہے، جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا آپ آرٹیکل 48 کو غلط انداز سے دیکھ رہے ہیں، صدر کے اختیارات اور امور کی انجام دہی میں فرق ہے۔

وکیل نے کہا دیکھنا ہے کہ کیا صدر کو وزیراعظم کی ایڈوانس پر عمل کرنا ہے، قاضی فائز عیسی کیس میں کہا کیا گیا کہ صدر کو اپنا مائینڈ اپلائی کرنا چاہیے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا سپریم جوڈیشل کونسل کسی جج کو برطرف کرنے کی سفارش کردے تو کیا صدر اپنا ذہن اپلائی کرے گا؟ جوڈیشل کمیشن کسی کو جج نامزد کرے تو کیا صدر تقرری سے انکار کرسکتا ہے؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا جج کی تبادلے کے عمل میں رضامندی نہ ہو تو سارا عمل وہیں ختم ہوجائے گا، جج رضامندی دے بھی دے اس ہائیکورٹ کا چیف جسٹس انکار کردے تب بھی تبادلہ نہیں ہوگا، جس ہائیکورٹ میں جانا ہے وہاں کا چیف جسٹس انکار کردے تب بھی تبادلہ نہیں ہوگا۔

چیف جسٹس پاکستان تبادلہ پر انکار کردے تب بھی جج کا تبادلہ نہیں ہوسکے گا، جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ایسا نہیں کرسکتے جس سے یہ کہنا شروع ہوجائیں کہ آئین میں سپریم کورٹ نے ترمیم کر ڈالی۔

آئین میں وزیراعظم یا کابینہ کے الفاظ تو 1985 سے شامل ہیں، ایسی مثال بھی ہے جہاں سپریم کورٹ نے ایک آرمی چیف کی توسیع کیس میں پارلیمنٹ کو چھ ماہ کیلئے قانون سازی کا وقت دیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے کہا انکار کردے چیف جسٹس کیس میں

پڑھیں:

سپریم کورٹ نے والد کی وفات کے بعد طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن نہ دینے کا امتیازی سرکلر کالعدم قرار دے دیا

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔30 جولائی ۔2025 )سپریم کورٹ نے والد کی وفات کے بعد طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن نہ دینے کا امتیازی سرکلر کالعدم قرار دے دیا ہے عدالت نے قراردیا کہ بیٹی کو پنشن شادی کی حیثیت پر نہیں، حق کی بنیاد پر دی جائے گی، پنشن سرکاری ملازم کا قانونی حق ہے، خیرات نہیں، سندھ حکومت کا 2022 کا امتیازی سرکلر غیر قانونی اور آئین کے خلاف ہے.

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ نے والد کی وفات کے بعد طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن نہ دینے کا امتیازی سرکلر کالعدم قرار دیتے ہوئے 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے جسے جسٹس عائشہ ملک نے تحریر کیا ہے عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ بیٹی کی پنشن کے لیے طلاق کا وقت (والد کی وفات سے پہلے یا بعد) غیر متعلقہ ہے، پنشن سرکاری ملازم کا قانونی حق ہے، خیرات نہیں، پنشن کا حق اہل خانہ کو منتقل ہوتا ہے اور اس میں تاخیر جرم ہے.

سپریم کورٹ نے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ خواتین کی پنشن کا انحصار شادی کی حیثیت پر نہیں صرف مالی ضرورت پر ہونا چاہیے عدالت نے والد کی وفات کے بعد طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن نہ دینے سے متعلق امتیازی سرکلر کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ سندھ حکومت کا 2022 کا امتیازی کا حامل سرکلر غیر قانونی اور آئین کے خلاف ہے. عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ پاکستان کا بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کے باوجود صنفی مساوات میں بدترین رینکنگ پر ہونا باعث افسوس ہے درخواست گزار سورة فاطمہ (طلاق یافتہ بیٹی) نے والد کی پنشن دوبارہ شروع کرنے کی درخواست دی تھی، سندھ ہائیکورٹ کے لاڑکانہ بینچ نے درخواست گزار سورة فاطمہ کی پنشن کی منظوری دی تھی، سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سندھ حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا.

سندھ حکومت نے درخواست میں موقف اپنایا تھا کہ پنشن صرف ایسی بیٹی کو مل سکتی ہے جو والد کی وفات کے وقت طلاق یافتہ ہو، سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا عدالت نے قرار دیا ہے کہ پنشن خیرات یا بخشش نہیں بلکہ آئینی اور قانونی حق ہے، بیٹی کی پنشن کو شادی کی حیثیت سے مشروط کرنا آئین کے آرٹیکل 9، 14، 25 اور 27 کی خلاف ورزی ہے سرکلر قانون کی تشریح نہیں بلکہ اس میں غیر قانونی شرط شامل کر رہا ہے.

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پنشن کا حق بنیادی آئینی حق ہے، سرکاری تاخیر جرم کے زمرے میں آتی ہے، عورتوں کو مالی طور پر خودمختار تصور نہ کرنا آئینی اصولوں کی خلاف ورزی ہے، سپریم کورٹ نے اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان خواتین کی برابری سے متعلق عالمی درجہ بندی میں آخری نمبر پر ہے. 

متعلقہ مضامین

  • چیف جسٹس سپریم کورٹ یحییٰ آفریدی کا عمرایوب سے رابطہ، ملاقات کیلئے بلالیا
  • سپریم کورٹ نے والد کی وفات کے بعد طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن نہ دینے کا امتیازی سرکلر کالعدم قرار دے دیا
  • طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن دینے کے حوالے سے سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ
  • سپریم کورٹ: طلاق یافتہ بیٹی کی پنشن پر اہم فیصلہ آگیا
  • سپریم کورٹ نے طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن دینے سےمتعلق فیصلہ جاری کر دیا
  • سپریم کورٹ کا طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن دینے کے حوالے سے بڑا فیصلہ 
  • سپریم کورٹ کا طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن دینے کے حوالے سے بڑا فیصلہ
  • سپریم کورٹ، عمران خان کی اپیلوں پر سماعت کرنے والے بینچ میں ایک رکن کا اضافہ
  • سپریم کورٹ، بانی پی ٹی آئی کا ضمانت کیس سننے والا بینچ تبدیل
  • سپریم کورٹ: 9 مئی کیسز میں ضمانت اپیلوں پر سماعت کے لیے بینچ تبدیل