ایران پر اسرائیلی جارحیت ، مفتی تقی عثمانی نے اہم بیان جاری کردیا
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
معروف اسلامی اسکالر اور سابق جج مفتی تقی عثمانی نے امت مسلمہ کو ایک بار پھر اتحاد کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے مظالم اور جارحیت کے خلاف تمام مسلم ممالک کو متحد ہو کر مؤثر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر (اب ایکس) پر جاری بیان میں انہوں نے کہا کہا کہ ایران نے اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں بھاری جانی و مالی نقصان برداشت کیا، لیکن اس کے باوجود وہ اسرائیل کو بھرپور جواب دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلی بار اسرائیل کو خود پر بمباری کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اسے احساس ہو رہا ہے کہ تباہی کا مطلب کیا ہوتا ہے۔
مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ اسرائیل کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، وہ برسوں سے عالم اسلام کو تقسیم کرنے اور کمزور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ فلسطین، شام، لبنان اور اب ایران میں اس کی مداخلت اور مظالم سب کے سامنے ہیں۔ ایسے میں اگر مسلم ممالک اب بھی بیدار نہ ہوئے تو یہ موقع بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔
انہوںنے کہا کہ مسلم دنیا کے پاس وسائل بھی ہیں، طاقت بھی ہے، اور عوام کا جوش و جذبہ بھی موجود ہے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ قیادت مخلص ہو اور امت کے اجتماعی مفاد کو ذاتی مفادات پر ترجیح دی جائے۔ انہوں نے مسلم حکمرانوں سے اپیل کی کہ وہ وقتی سیاسی مفادات چھوڑ کر اسرائیل کے خلاف ایک متحدہ محاذ تشکیل دیں تاکہ امت مسلمہ کو درپیش اس سب سے بڑے خطرے کا تدارک کیا جا سکے۔
مفتی تقی عثمانی نےکہا کہ آج جو کچھ مشرق وسطیٰ میں ہو رہا ہے، وہ صرف ایک یا دو ممالک کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری مسلم امہ کا مسئلہ ہے اگر اسرائیلی جارحیت کو ابھی نہ روکا گیا تو آنے والے وقتوں میں اس کے اثرات مزید خطرناک ہوں گے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ
پڑھیں:
دو تنازعات، ایک ایجنڈا: مسلم خودمختاری پر مشترکہ جارحیت
دو تنازعات، ایک ایجنڈا: مسلم خودمختاری پر مشترکہ جارحیت WhatsAppFacebookTwitter 0 17 June, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
دنیا طاقت، سازشوں اور مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ انہی عوامل کی روشنی میں مئی اور جون 2025 کے مہینے دو بظاہر الگ لیکن حیرت انگیز طور پر مماثل تنازعات کی وجہ سے عالمی سیاسی تاریخ میں نقش ہو چکے ہیں—ایک تنازع پاکستان اور بھارت کے درمیان، جبکہ دوسرا اسرائیل اور ایران کے مابین پیش آیا۔ اگرچہ ان دونوں محاذوں کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ تھا، لیکن ان کی نوعیت، طریقہ کار، اور پس پردہ کارفرما اتحاد ایک جیسے تھے۔ یہ محض اتفاقیہ جھڑپیں نہ تھیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دو مسلم ممالک کو نشانہ بنانے والی مربوط جارحیت تھی۔ ان دونوں میدانوں میں اسرائیل اور بھارت کے درمیان ایک مشترکہ اسٹریٹیجک فریم ورک نمایاں نظر آیا—طاقت کا ایک محور جو خطے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے اشتعال انگیزی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔
7 مئی 2025 کی صبح، پاکستان کو بھارتی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور خودمختاری پر حملے کے جواب میں فوجی کارروائی پر مجبور ہونا پڑا۔ معتبر عسکری رپورٹس کے مطابق، بھارتی ڈرونز نے آزاد جموں و کشمیر اور پاکستانی حدود میں گہرائی تک فضائی نگرانی کی کوشش کی، جسے انسداد دہشت گردی کی مشق کا نام دیا گیا۔ جواباً، پاکستان نے ان ڈرونز کو مار گرایا اور لائن آف کنٹرول کے قریب بھارتی فوجی چوکیوں پر محدود اور درست نشانہ بناتی کارروائیاں کیں۔
اس واقعے کو منفرد بنانے والی بات یہ تھی کہ گرائے گئے ڈرونز بھارتی نہیں بلکہ اسرائیلی ساختہ تھے۔ دفاعی تجزیہ نگاروں اور الیکٹرانک فرانزک ٹیموں نے ان ڈرونز کا سراغ اسرائیلی ادارے “ایل بٹ سسٹمز” سے لگایا، جن میں “ہرمیس 900” اور “ہاروپ” جیسے جدید جنگی ڈرون شامل تھے جو پہلے غزہ اور لبنان میں استعمال ہو چکے ہیں۔ مزید حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ان ڈرونز کو اسرائیل سے نہیں بلکہ بھارتی ریاست راجستھان کے علاقے جیسلمیر میں قائم ایک کنٹرول سینٹر سے چلایا جا رہا تھا، جہاں اسرائیلی دفاعی تکنیکی ماہرین بھارت اور اسرائیل کے درمیان 2023 میں دستخط شدہ دفاعی تعاون کے معاہدے کے تحت تعینات تھے۔ یہ اب قیاس آرائی نہیں بلکہ براہ راست اشتراک تھا۔
اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والا انکشاف یہ تھا کہ 1 سے 7 مئی کے درمیان اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو اور بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کے درمیان کم از کم چار بار رابطے ہوئے۔ یورپی انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک کیبل کے مطابق، نیتن یاہو نے بھارت کو “حکمتِ عملی کی معلومات، تکنیکی مدد، اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی تحفظ” کی یقین دہانی کروائی۔ یہ پوری کارروائی نہ صرف پاکستان کو اکسانے کے لیے بلکہ مستقبل میں کسی بڑی جنگ کی صورت میں پاکستانی ردعمل کا اندازہ لگانے کے لیے کی گئی تھی۔
اس خفیہ ایجنڈے کی تصدیق نیتن یاہو کے ایک مبینہ انٹرویو میں بھی ہو چکی ہے جس میں انہوں نے گفتگو کے دوران واضح طور پاکستان اور ایران دونوں کو “ایسے بنیاد پرست اسلامی ریاستیں قرار دیا جو جوہری طاقت رکھتی ہیں یا اس کے قریب ہیں” اور مزید یہ بھی کہا کہ “عالمی برادری کو ان نظریاتی جوہری خطرات کے خلاف چوکنا رہنا ہوگا۔” انہوں نے مزید کہا کہ “اگرچہ ہم ایران پر توجہ دے رہے ہیں، ہمیں پاکستان کے اسٹریٹیجک مقام اور عسکری صلاحیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے—خصوصاً جب وہ تہران کے ساتھ نظریاتی طور پر ہم آہنگ ہو۔” یہ بیانات اس نام نہاد “پیشگی دفاع” کے پردے میں خطے میں جارحیت کو جواز دینے کی کوشش تھے، جو مسلم دنیا کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 7 مئی کی کشیدگی سے پہلے امریکی نائب صدر نے عوامی سطح پر اعلان کیا کہ “امریکہ کا پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کوئی کردار نہیں۔” لیکن جب صورت حال بگڑنے لگی اور عالمی منڈیوں میں بے چینی پھیل گئی، تو امریکی صدر نے مداخلت کی اور دونوں فریقوں پر دباؤ ڈال کر پس پردہ مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی کروا دی۔ یہ امریکی رویہ—پہلے لاتعلقی، پھر مداخلت—یہ ظاہر کرتا ہے کہ مغرب کا فیصلہ کن کردار اصولی بنیاد پر نہیں بلکہ جغرافیائی سیاسی حساب کتاب پر مبنی ہوتا ہے۔
13 جون 2025 کو اسرائیل نے ایران پر مکمل فوجی حملہ کر دیا، جس میں اصفہان، بوشہر اور خرم آباد میں اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ 36 سے زائد میزائل داغے گئے، جن میں دور مار “جریکو III” اور درست نشانہ لگانے والے “ڈیلیلا کروز میزائل” شامل تھے، ساتھ ہی اسرائیلی فضائیہ کے اسٹیلتھ ڈرونز بھی استعمال ہوئے۔ اہداف میں ایرانی جوہری ایندھن کی افزودگی کے مراکز، امام علی فوجی اڈہ، اور پاسدارانِ انقلاب کے سائبر یونٹس سے منسلک مواصلاتی مراکز شامل تھے۔
ایک بار پھر بھارت سے ہم آہنگی واضح نظر آئی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حملے سے چند گھنٹے قبل نیتن یاہو اور مودی کے درمیان ایک اور رابطہ ہوا، جس کی تصدیق بین الاقوامی میڈیا نے تل ابیب اور نئی دہلی کے درمیان خفیہ پیغامات کی ترسیل سے کی۔ اس کے ساتھ ہی ایک سائبر حملہ بھی کیا گیا، جس سے ایران کے 40 فیصد فضائی ٹریفک کنٹرول نظام اور تیل کی برآمدات کی مواصلاتی تنصیبات متاثر ہوئیں۔ تہران میں سائبر سیکیورٹی ماہرین نے اس میلویئر کا سراغ “ٹاٹا ایڈوانسڈ سسٹمز” اور “اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز” کے اشتراک سے تیار کیے گئے سافٹ ویئر سے لگایا۔ یہ “سٹکس نیٹ” اور “فلیم” وائرسز کا امتزاج تھا، جو SCADA سسٹمز کو نشانہ بنانے کے لیے تیار کیا گیا تھا—یہ بھارت اور اسرائیل کی مشترکہ سائبر جنگی حکمتِ عملی کا ثبوت تھا۔
ایران نے، بالکل پاکستان کی طرح، اپنی خودمختاری کا بھرپور دفاع کیا۔ “باور-373” اور “خورداد-15” دفاعی نظاموں نے 19 میزائل فضا میں ہی ناکارہ بنا دیے۔ جواباً، ایران نے مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں میں موجود اسرائیلی انٹیلی جنس مراکز پر “فاتح-110” میزائلوں سے محدود جوابی حملہ کیا۔ ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے قوم سے ایک نادر خطاب میں “صہیونی-ہندو گٹھ جوڑ” کی مذمت کی اور عالمِ اسلام سے اتحاد کی اپیل کی۔
دونوں تنازعات میں ایک واضح قدر مشترک تھی؛ اسرائیل اور بھارت کا اشتراک، جس میں عسکری، تکنیکی اور سائبر مہارت کو یکجا کر کے مسلم طاقتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایران اور پاکستان ان کے نزدیک نظریاتی، اسٹریٹیجک اور جغرافیائی سیاسی رکاوٹیں ہیں۔ اسرائیل ایران کو جوہری میدان میں حریف سمجھتا ہے جبکہ بھارت پاکستان کو جنوبی ایشیا میں اپنی چودھراہٹ کی راہ میں رکاوٹ۔
لیکن اصل تشویش عالمی برادری کی خاموشی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے کسی ہنگامی اجلاس کی زحمت تک نہ کی۔ مغربی میڈیا نے پاکستان-بھارت تنازعے کو محض “سرحدی کشیدگی” اور اسرائیل-ایران جنگ کو “روک تھام کا حملہ” قرار دیا۔ ایک بھی مذمتی قرارداد منظور نہ ہوئی۔ یہ منافقانہ رویہ اس عالمی انصاف کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتا ہے جو صرف تب جاگتا ہے جب غیر مسلم مفادات خطرے میں ہوں۔
ایسے پیچیدہ حملوں کے مقابلے میں، پاکستان اور ایران کو محض ردعمل سے آگے بڑھ کر حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ انٹیلیجنس کا تبادلہ، سائبر دفاع میں اشتراک، مشترکہ فوجی مشقیں، اور سفارتی ہم آہنگی مستقبل میں ایک مضبوط اتحاد کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ تنہا ریاستیں گرتی ہیں، لیکن متحد قومیں قائم رہتی ہیں۔ دونوں ملکوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اب ان کی بقا اور عزت صرف مذہب یا ثقافت میں نہیں، بلکہ تقدیر میں بھی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔
مئی اور جون 2025 کی یہ جنگیں صرف ڈرونز اور میزائلوں کی قوت کی وجہ سے یاد نہیں رکھی جائیں گی، بلکہ اس شعور کے باعث بھی یاد رکھی جائیں گی جو انہوں نے مستقبل کی جنگوں کی نوعیت پر ڈالا۔ یہ ہائبرڈ جنگوں کا دور ہے، جہاں گولیاں اور بائٹس ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ مگر اس دور میں بھی ایک سچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے: جب ایک قوم متحد ہو، تو اسے شکست نہیں دی جا سکتی۔ ایران اور پاکستان نے ان حملوں سے صرف زندہ رہنا ہی نہیں سیکھا بلکہ مضبوط ہو کر ابھرے، ان کی عوام پُرعزم ہوئیں، اور ان کے دشمنوں کو انتباہ ملا۔ بالآخر، ظلم فولاد کے ساتھ چل سکتا ہے، مگر تاریخ ہمیشہ عدل کے ساتھ چلتی ہے۔ اور عدل، اگرچہ تاخیر سے، کبھی مرتا نہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچوہدری عدنان قتل کیس: ن لیگی رہنما چوہدری تنویر ہائیکورٹ سے گرفتار مذہبی جنونی رہبر دنیا کے امن کیلئے سنگین خطرہ بن گئے انصاف خطرے میں،اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی اور ایران پر جارحیت عالمی قانونی اقدامات کی متقاضی ہے ٹیکنالوجی جنگیں جیتتی ہے، انسانیت جانیں ہارتی ہے مسلم دنیا پر مربوط جارحیت عبدالرحمان پیشاوری__ ’عجب چیز ہے لذتِ آشنائی‘ غزہ اور فلسطین: مسلم دنیا کا امتحانCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم