ججز ٹرانسفر کیس،درخواست پر دیے گئے دلائل آپس میں ٹکرا رہے ہیں،جسٹس مظہر
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (صباح نیوز) عدالت عظمیٰ نے ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی، بینچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ججز کی درخواست پر دیے گئے دلائل آپس میں ٹکرا رہے ہیں، ججز کو ڈیپوٹیشنسٹ کہنے پر افسوس کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ ججز تبادلہ کے لے ایڈوائز کابینہ کر سکتی ہے، مصطفی ایمپکس فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت کا مطلب کابینہ ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرٹیکل 48 میں وزیر اعظم کا لفظ بھی ہے، کیا مصطفی ایمپکس فیصلے سے آرٹیکل 48 میں لفظ وزیر اعظم غیر موثر ہوگیا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار وکلاء نے سنیارٹی اور حلف کے معاملے پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی ریپریزنٹیشن پر دلائل نہیں دیے۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں غیر قانونی پوائنٹ کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ججز اور درخواست گزاروں نے فیصلہ تو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کیا ہے۔ ججز اور درخواست گزار کے وکلاء کو فیصلے میں غیر قانونی پہلو کی نشاندہی کرنا چاہیے تھی۔ جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ چلیں، ایڈووکیٹ فیصل صدیقی جواب الجواب میں اس نقطہ پر دلائل دے لیں۔ ایڈووکیٹ حامد خان کے جواب الجواب دلائل مکمل ہوگئے۔ کراچی بار کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب الجواب دلائل کا آغاز کیا۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ٹرانسفر پر جج کو نیا حلف لینا پڑے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جج حلف لینے پر جونیئر جج ہو جائے گا۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ تبادلہ عارضی ہوتا ہے اس لیے حلف لینے سے پچھلی سروس پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، جج جب واپس جائے گا تو اپنی سنیارٹی پر جائے گا۔ جج کا تبادلہ نئی تقرری نہیں ہے اور جج کا تبادلہ مستقل نہیں ہو سکتا، صدارتی آرڈر کے مطابق مستقل نہیں صرف عارضی ٹرانسفر ہو سکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے تبادلے کے پراسس پر کوئی بات نہیں کی۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ چیف جسٹس کے روبرو ججز ریپریزنٹیشن میں صرف سنیارٹی کی بات کر سکتے تھے۔ سنیارٹی چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے فکس کی جس سے ججز متاثرہ ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ اگر ججز کی ریپریزنٹیشن منظور ہو جاتی تو کیا آپ پٹیشن دائر کرتے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بالکل ہم تبادلہ کے خلاف پٹیشن دائر کرتے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ متاثرہ فریق تو ججز ہیں، عدالتی کارروائی کے آغاز میں کہہ دیا تھا مرکزی کیس متاثرہ ججز کا ہے۔ ریپریزنٹیشن میں اسلام آباد ہائیکورٹ ججز نے تبادلہ پر آئے ججز کو ڈیپوٹیشنسٹ قرار دیا، ججز کو ڈیپوٹیشنسٹ کہنے پر افسوس کیا جا سکتا ہے۔ ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کے جواب الجواب دلائل بھی مکمل ہوگئے۔ بانی پی ٹی آئی کے وکیل ادریس اشرف جواب الجواب دلائل دیں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کو بھی سنیں گے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے تحریری جواب داخل کرایا ہے، یہ زیادہ مناسب ہوتا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اس وقت دلائل دے لیتے جب اٹارنی جنرل نے دلائل مکمل کیے تھے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ میں نے دلائل نہیں دینے، میں نے صرف ریکارڈ جمع کروایا ہے۔ منیر اے ملک نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے ریکارڈ پر میں جواب الجواب دلائل دوں گا۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو تو آرڈر 27 اے کا نوٹس ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ججز کی درخواست پر دیے گئے دلائل آپس میں ٹکرا رہے ہیں، ریپریزنٹیشن اور دیگر درخواستوں پر دیے گئے دلائل سب آپس میں ٹکرا رہے ہیں، ریپریزنٹیشن اور اس میں دیے گئے فیصلوں کے حوالے ڈیپوٹیشن سے متعلق ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سینیئر اور عقل مند ہیں، ٹرانسفر ہونے والے ججز کو ڈیپوٹیشن پر آئے ججز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ہماری پٹیشن میں ایسا نہیں کہا گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کو یاد ہوگا بے نظیر بھٹو کے دور میں سپریم کورٹ کے ایک جج عبدالحفیظ میمن ہوا کرتے تھے، انہیں سندھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا جہاں وہ ریٹائرمنٹ تک رہے۔ ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت آج (بدھ) ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: چیف جسٹس اسلام ا باد ہائیکورٹ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ا ا پس میں ٹکرا رہے ہیں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب جواب الجواب دلائل پر دیے گئے دلائل نے کہا کہ جج کہ ججز ججز کو
پڑھیں:
عمر ایوب کو چیف جسٹس سے ملاقات کیلئے فون آیا تھا، بیرسٹر گوہر علی خان
بیرسٹر گوہر علی خان(فائل فوٹو)۔چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ یہ بات درست ہے عمر ایوب کو چیف جسٹس سے ملاقات کیلئے فون آیا تھا۔
جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ عمر ایوب کو چیف جسٹس سے ملاقات کا کہا گیا تھا، عمر ایوب یہاں موجود نہیں تھے، ملاقات کے حوالے سے ابھی اندازہ نہیں کہ کیا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ عمر ایوب نے کوئی پیغام نہیں بھیجا، ان کی چیف جسٹس سے ملاقات کی کوئی خواہش نہیں تھی۔
بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب کی طرف سے پیغام آیا تھا، عمرایوب کا حق تھا انہوں نے خط لکھا تھا شاید وہ اس پر کچھ جاننا چاہ رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ یہ کچھ بعید نہیں ہے اس سے پہلے بھی چیف جسٹس ایسا کرچکے ہیں، عمر ایوب بڑی پارٹی کے اپوزیشن لیڈر ہیں، ان کو فون آجاتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔
یہ بھی پڑھیے کچھ لوگ ملک سے جمہوریت ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں: بیرسٹر گوہر 3 دن میں تین سزائیں ہوئیں اور 45 سال کی سزا سنائی گئی، بیرسٹر گوہر بیرسٹر گوہر نے الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کے حوالے سے متعصب قرار دے دیابیرسٹر گوہر علی نے کہا کہ چیف جسٹس کو خط ملا تھا وہ اِن پُٹ لینا چاہ رہے تھے، فوری سزائیں نہ ہوتیں تو کچھ ہو بھی جاتا، عمر ایوب آج بھی اپوزیشن لیڈر ہیں اور ان شاء اللّٰہ کل بھی ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ عمرایوب کو سزا بالکل غلط اور ناجائز ہوئی ہے، ایسا انصاف نہیں ہوتا، انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے، یہ جمہوریت اور انصاف کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی ہے۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ 9 مئی کی ہم مذمت کرچکے ہیں، 9 مئی نہیں ہونا چاہیے تھا اور آئندہ بھی نہ ہو، اس کی آڑ میں آپ ایک پارٹی کو سزا نہ دیں، پورے سسٹم کو ڈی ریل نہ کریں، سیاسی نظام کو ختم نہ کریں۔