بلوچستان بجٹ: 1028 ارب روپے کا سرپلس بجٹ پیش
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
صوبائی وزیر خزانہ اور دیگر وزراء نے آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ پر میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بجٹ کا مجموعی حجم 1028 ارب روپے ہے جس میں 51.1 ارب روپے سرپلس دکھایا گیا ہے۔
غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے 639 ارب روپے جبکہ ترقیاتی مد میں 249.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بجٹ میں 2550 نئی اسکیمات کے لیے 137.
وفاقی محصولات سے صوبے کو 801 ارب روپے، صوبائی محصولات سے 101 ارب، اور سوئی گیس لیز سے 24 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے۔
مزید برآں، بجٹ میں 6 ہزار نئی کنٹریکٹ اور ریگولر آسامیاں تخلیق کی گئی ہیں۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ، نوجوانوں اور تعلیم پر توجہکوئٹہ: صوبائی بجٹ 2025-26 میں گریڈ 1 سے 22 تک کے تمام سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے، جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 7 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس (ڈی آر اے) کو 20 فیصد تک بڑھانے کی تجویز بھی شامل ہے۔
بلوچستان پنشن فنڈ کے لیے 1 ارب، ہیلتھ کارڈ پروگرام کے لیے 4.5 ارب، اور ہنرمند نوجوانوں کو بیرون ملک بھیجنے کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
تعلیم کے شعبے میں، بلوچستان انڈومنٹ فنڈ کے لیے 4 ارب اور ایجوکیشن فنڈ کے لیے 1 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ بجٹ میں کسی نئے ٹیکس کا نفاذ نہیں کیا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ارب روپے گئے ہیں کے لیے 1
پڑھیں:
حکومت پشاور یونیورسٹی کی درپیش مالی مشکلات ترجیحی بنیادوں پر حل کرے. عبدالواسع
جماعت اسلامی کے صوبائی امیر کا کہنا تھا کہ ایک طرف وزیراعلیٰ سرپلس بجٹ اور وفاق کو قرضہ دینے کے دعوے کررہا ہے جبکہ عملاً صوبے کی جامعات بدترین مالی بحران سے دوچار ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا وسطی عبدالواسع نے سرپلس بجٹ اور وفاق کو قرضہ دینے کا دعویٰ کرنے والی صوبائی حکومت کی توجہ پشاور کی عظیم مادر علمی یونیورسٹی آف پشاور میں مسلسل مالی بحران کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے پشاور یونیورسٹی شدید مالی بحران کا شکار ہے جوکہ صوبائی حکومت کی مجرمانہ غفلت اور ناقص حکمرانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا خود پشاور یونیورسٹی کے چانسلر ہیں، مگر اس اہم ادارے کے زوال اور اساتذہ و ملازمین کی معاشی بدحالی پر ان کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے تعلیم کے بجٹ میں مسلسل کٹوتی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو بے اختیار کرنے کے بعد صوبائی حکومت پر لازم تھا کہ وہ اپنی جامعات کو سنبھالتی، لیکن افسوس کہ صوبائی حکومت نے نہ کوئی مالیاتی پیکیج دیا اور نہ کوئی اصلاحاتی پالیسی متعارف کرائی۔