تاریخ کی کروٹ،وقت کی کڑواہٹ
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
زمانہ کب کروٹ بدلتاہے،یہ اہلِ اقتدار جاننے سے قاصررہتے ہیں۔قومیں خوابوں میں جیتی ہیں،اورتاریخ ہوش کی گواہی میں لکھی جاتی ہے۔تاریخ کی رفتارتیزترہوچکی ہے۔ قوموں کی تقدیریں اب فقط معرکہ میدان میں نہیں،بلکہ عسکری بیانیے،سفارتی چالوں،اور جغرافیائی علامتوں میں لکھی جاتی ہیں۔قومیں صرف الفاظ سے نہیں، عمل سے پہچانی جاتی ہیں اورجب قومیں صرف نعرے سناتی ہیں،مگرجب عمل کامیدان سجے تودم سادھ لیتی ہیں،توتاریخ ان سے سوال کرتی ہے کیا تم صرف نعرہ فروش تھے؟یاکچھ کرنے کا بھی ہنر رکھتے تھے؟
برصغیرکی دوبڑی ریاستوںپاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ فضائی جھڑپ جہاں بظاہر ایک علاقائی تنائو تھا،وہیں ایک عالمی طاقت چین نے اس قضیے میں جس اندازسے خاموشی سے برتری حاصل کی،وہ بذاتِ خودایک تاریخی وجیو-اسٹریٹیجک مطالعے کا تقاضا کرتا ہے۔ ہندوپاک کے مابین حالیہ فضائی کشاکش بظاہردوریاستوں کے درمیان تھی،مگر اگر آنکھیں کھلی ہوں اوربصیرت موجود ہو، تویہ صرف برصغیرکے افق پرنہیں،بلکہ ایشیاکی جیو اسٹریٹجک تصویرپرکندہ ایک فیصلہ کن لمحہ تھا اور اس تصویرکااصل معمار بیجنگ تھایاپاکستان؟
یہ محض دوہمسایہ ایٹمی طاقتوں کی روایتی گرما گرمی نہ تھی،بلکہ یہ معرکہ چینی عسکری صنعت، نظریہِ پرجوش قوم پرستی،اور سفارتی ہنر کی کامیاب مشق تھی جس نے نہ صرف ایشیابلکہ دنیاکو بھی متوجہ کیاکہ اب سپرپاورزکی نئی صف بندی میں فولادی دوست کہاں کھڑاہے۔برصغیرمیں پاکستان کے خلاف طبلِ جنگ بجانے والی انڈین فوج جب چین کی برفیلی چوٹیوں پر خاموشی کی چادر اوڑھ لیتی ہے،توسوال یہ نہیں ہوتاکہ وہ کیوں خاموش ہے،سوال یہ ہوتاہے کہ کیایہ خاموشی دراصل شکست کاپردہ تونہیں؟
یہ مقالہ ان جھڑپوں کی روشنی میں یہ ثابت کرنے کی کوشش ہے کہ اصل فاتح چین رہا یا پاکستان نہ فقط عسکری صنعت کے اعتبار سے بلکہ نظریاتی اورسفارتی فضاپراپنی بالادستی کے ذریعہ ۔ میری کوشش ہوگی کہ آج کے آرٹیکل میں بھارت وپاکستان کی حالیہ فضائی جھڑپ کاتاریخی وعسکری تناظر،چین کاغیراعلانیہ مگرکلیدی کردار، چینی دفاعی صنعت کی عالمی مارکیٹ میں ساکھ ، اروناچل پردیش میں ناموں کی تبدیلی کاجغرافیائی مفہوم اورخاص وقت کے تعین اوربھارت کاسہ طرفہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ محاذ کھولنے کا تفصیلی ذکرکروں۔
معرکہ آسمان پرتھا،مگراس کی گونج بازارِدنیامیں سنی گئی۔پاکستان نے جب چین کے اشتراک سے تیارکردہ جے10 اور جے17 طیارے فضا میں بلند کیے،تویہ صرف لڑاکاپرندے نہ تھے، بلکہ یہ پاک چین کی دفاعی صنعت کے اعتماد کے پرتھے،جنہوں نے دنیاکوبتایاکہ ’’پاک فوج‘‘ اور ’’پیپلزلبریشن آرمی‘‘کی پیداواراب صرف پریڈ گراؤنڈکی زینت نہیں، بلکہ جنگی میدان کی تسخیر کا ہنربھی رکھتی ہے۔ چینی کرنل ژوبونے یہ بات یوں کہی،جیسے تاریخ کے کسی نئے صفحے پر دستخط ہورہے ہوں۔
یہ لڑائی چین کی دفاعی صنعت کیلئے ایک تشہیر تھی،ایسی تشہیرجوکتب خانوں میں نہیں،بلکہ پاک فوج نے میدانِ جنگ میں لکھی۔ واقعی،یہ پہلی بارتھاکہ چین کے لڑاکاطیارے حقیقی جنگی صورتِ حال میں آزمائے گئے،اوربقول مشرقی حکمت، پتھر پرلکیریں تبھی کھنچتی ہیں جب فولاد حرکت میں آئے۔
پاکستان اوربھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی اس وقت شدت اختیارکرگئی جب بھارت نے اپنے فضائی حملے کو’’آپریشن سندور‘‘ کا نام دیا۔دونوں جانب سے ڈرونز، میزائل، او ر لڑاکا طیارے استعمال ہوئے۔بھارت نے فرانسیسی ساختہ رافیل اورروسی طیاروں کوتعینات کیا جبکہ پاکستان نے چین کے تعاون سے تیارکردہ جے10اورجے17 طیاروںسے بھرپورجوابی کارروائی کی۔
پاکستانی فضائیہ نے سرحدپارکیے بغیر میزائل حملے کیے جن میں چھ بھارتی طیاروں کی تباہی کے دعوے شامل ہیں۔اگرچہ بھارت کی جانب سے باضابطہ تردیدکی گئی،لیکن رافیل کمپنی نے تین طیاروں کی تباہی کی تصدیق کردی،جوبذاتِ خودایک تاریخی موڑکی حیثیت رکھتاہے۔رافیل کمپنی کے سربراہ کواپنی کمپنی کی سبکی اورخفت مٹانے کیلئے یہ تسلیم کرناپڑاکہ ہم طیارے فروخت کرتے ہیں،لڑنے کیلئے حوصلہ نہیں لیکن اس کے باوجودعالمی مارکیٹ کے سٹاک ایکسچینج میں اپنی کمپنی کے حصص کی گرتی قیمتوں کو سہارا دینے میں ناکام رہے اوراس کے مقابلے میں رافیل کا شکار کرنے والے پاک چین کی مشترکہ کاوش جے ایف17تھنڈرکی حصص کی اچانک بڑھتی قیمت نے عالمی خریداروں تک یہ بھرپوراعتمادکاپیغام پہنچا دیا۔
ہندوستانی میڈیااوراس کاعسکری بیانیہ جب پاکستان کے خلاف انگارے اگلتاہے،تویوں محسوس ہوتاہے کہ شایداگلے لمحے فتحِ کابل و اسلام آباد کااعلان کردیاجائے گالیکن جب یہی سپہ سالار مشرقی لداخ کی برف پوش وادیوں میں چینی سائے دیکھتے ہیں توزبانیں گنگ، توپیں خاموش، اور بیانات غائب ہوجاتے ہیں۔سابق سیکرٹری خارجہ شیام سرن کا یہ اعتراف،کہ انڈین فوج یاتو کارروائی کرنانہیں چاہتی یا پھراس کی سکت نہیں رکھتی، دراصل بزدلی کاسفارتی اعتراف ہے۔یہ وہی زبان ہے،جوپاکستان پرگرجتی تھی،اب چین کے سامنے لرزاں ہے،آخرکیوں؟
چینی پیپلزلبریشن آرمی کے سابق کرنل ژوبو نے عالمی میڈیاسے بات کرتے ہوئے کہاکہ یہ فضائی لڑائی چین کی دفاعی صنعت کیلئے بڑی تشہیر تھی۔اس سے قبل چین کوکبھی اپنے پلیٹ فارمزکوجنگی صورتحال میں آزمانے کاموقع نہیں ملا تھا۔ واقعی،جے-10کی میدانِ جنگ میں کامیاب آزمائش کے بعدچینی کمپنی ’’چنگڈو ایئر کرافٹ‘‘ کے حصص میں40فیصد اضافہ ہوا،اس تناظرمیں فتح وکامیابی کاسہرا پاکستان کے بہادراورجری کردار کیلائیوڈیمانسٹریشن کوجاتاہے جواس بات کاواضح ثبوت ہے کہ معرکہ صرف میدان میں نہیں،بلکہ عالمی اقتصادی منڈیوں میں بھی جیتاگیا۔ یہ کارکردگی چین کے ہتھیاروں کونہ صرف ایشیا بلکہ افریقا،مشرقِ وسطی اورلاطینی امریکا کی مارکیٹوں میں معتبربناسکتی ہے۔
انڈین فضائیہ کے ترجمان ایئرمارشل اے کے بھارتی کایہ اعتراف کہ جنگ میں نقصان معمول کی بات ہے دراصل خاموش اعترافِ شکست تھا۔بھارتی حکومت کااس معاملے میں محتاط رویہ،عالمی میڈیا کی رپورٹس،اوررافیل کمپنی کی تصدیق سب مل کر یہ اشارہ دیتے ہیں کہ حقائق اب بیانیے سے بڑے ہوگئے ہیں۔یہی وہ لمحہ ہے جہاں چین نے سفارتی محاذپر بھی بھارت کوپیچھے چھوڑا۔ نہ بیان،نہ تقاریر،نہ الزاماتفقط نتائج۔ اور یہی خاموشی چینی سفارت کاری کاخاصہ ہے۔
انڈین فضائیہ کے فرانسیسی ساختہ رافیل طیارے ، جن کی خریدپراربوں کے سودے کیے گئے،پاکستانی میزائلوں کے سامنے عاجز نکلے۔تین طیاروں کی تباہی کی تصدیق رافیل کمپنی کے ترجمان نے کردی،مگر دہلی کے ایوانِ اقتدارمیں سکوت ایساچھایا جیسے آگرہ کالال قلعہ ماتم کر رہا ہو۔ ایئرمارشل اے کے بھارتی کایہ کہناکہ جنگ میں نقصان معمول کی بات ہے،دراصل اعترافِ شکست کاایسا پردہ ہے جوقوم پرستی کے دبیزہالے میں لپیٹ دیاگیا۔یہ بیان چیخ چیخ کرکہتاہے کہ تم نے زخم چھپانے کی کوشش کی،مگرخون رستا رہا اور دنیا دیکھتی رہی۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: رافیل کمپنی دفاعی صنعت نہیں بلکہ یہ فضائی چین کے چین کی
پڑھیں:
نشاط گروپ اور چیری انٹرنیشنل کا اشتراک، پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی نئی شروعات
پاکستان کے معروف کاروباری ادارے نشاط گروپ نے چین کی سب سے بڑی گاڑی برآمد کرنے والی کمپنی چیری انٹرنیشنل کے ساتھ اشتراک کرتے ہوئے اپنی عالمی شہرت یافتہ گاڑیوں ‘او موڈا’ اور ‘جی کو’ کو پاکستانی مارکیٹ میں متعارف کرا دیا ہے۔
جمعے کو ہونے والی افتتاحی تقریب کے دوران اعلان کیا گیا کہ فیصل آباد کے قریب ایک جدید کار مینوفیکچرنگ پلانٹ قائم کیا جائے گا جہاں نومبر سے الیکٹرک گاڑیوں کی مقامی اسمبلنگ کا آغاز کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے نشاط گروپ کی ذیلی کمپنی ‘نیکسجن آٹو’ کے ذریعے 10 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی جو پاکستان میں الیکٹرک وہیکلز کی تیاری اور مارکیٹنگ کو فروغ دے گی۔
یہ بھی پڑھیے: ہنڈائی نشاط نے کون سا اہم سنگ میل حاصل کیا ہے؟
اس شعبے میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر تقریب میں بیک وقت 5 ماڈلز متعارف کرائے گئے جو عام طور پر گاڑیوں کی لانچنگ تقریبات میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان ماڈلز میں 2 طویل فاصلے تک چلنے والی بیٹری الیکٹرک گاڑیاں ای5 اور جے6، 2 پلگ ان ہائبرڈ گاڑیاں جے7 اور سی7 اور ایک ہائبرڈ گاڑی جے5 شامل تھیں۔
اس تقریب میں سیاسی شخصیات، ماحولیاتی ماہرین اور گاڑیوں کے شوقین افراد کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
نشاط گروپ کے چیئرمین میاں محمد منشاء نے اس موقع پر حکومت کی جانب سے الیکٹرک گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ یہ قدم ماحولیاتی و معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے نہایت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیری انٹرنیشنل کے ساتھ شراکت داری کا فیصلہ کمپنی کی ماحولیاتی پائیداری سے وابستگی کے باعث کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: ہنڈائی نشاط کمپنی نے گاڑیوں کی قیمتوں میں 8 لاکھ روپے تک کمی کردی
انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی موجودہ آٹوموٹو کمپنی ‘ہیونڈائی’ پاکستان میں اب تک 50 ہزار سے زائد گاڑیاں فروخت کر چکی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا کہ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے مالی معاونت ‘ایم سی بی بینک’ کے ذریعے فراہم کی جائے گی جو نشاط گروپ کا ہی حصہ ہے۔
چیری انٹرنیشنل ساؤتھ ایشیا کے صدر مسٹر چی جو نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ شراکت داری ‘او موڈا’ اور ‘جی کو’ کو پاکستان کے نمایاں آٹو برانڈز میں شامل کرنے میں مدد دے گی۔
کمپنی کے بیان کے مطابق یہ لانچ نشاط گروپ کی جدت اور معیاری خدمات کے عزم کی عکاسی کرتی ہے۔ پاکستانی صارفین کی بدلتی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل کی ٹیکنالوجی پر مبنی ماڈلز کا اجراء، ملک کی آٹو انڈسٹری کے لیے ایک اسٹریٹیجک وژن کی علامت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الیکٹرک گاڑیاں چیری انٹرنشل نشاط ہیونڈائی