Daily Ausaf:
2025-06-18@12:57:31 GMT

تاریخ کی کروٹ،وقت کی کڑواہٹ

اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT

زمانہ کب کروٹ بدلتاہے،یہ اہلِ اقتدار جاننے سے قاصررہتے ہیں۔قومیں خوابوں میں جیتی ہیں،اورتاریخ ہوش کی گواہی میں لکھی جاتی ہے۔تاریخ کی رفتارتیزترہوچکی ہے۔ قوموں کی تقدیریں اب فقط معرکہ میدان میں نہیں،بلکہ عسکری بیانیے،سفارتی چالوں،اور جغرافیائی علامتوں میں لکھی جاتی ہیں۔قومیں صرف الفاظ سے نہیں، عمل سے پہچانی جاتی ہیں اورجب قومیں صرف نعرے سناتی ہیں،مگرجب عمل کامیدان سجے تودم سادھ لیتی ہیں،توتاریخ ان سے سوال کرتی ہے کیا تم صرف نعرہ فروش تھے؟یاکچھ کرنے کا بھی ہنر رکھتے تھے؟
برصغیرکی دوبڑی ریاستوںپاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ فضائی جھڑپ جہاں بظاہر ایک علاقائی تنائو تھا،وہیں ایک عالمی طاقت چین نے اس قضیے میں جس اندازسے خاموشی سے برتری حاصل کی،وہ بذاتِ خودایک تاریخی وجیو-اسٹریٹیجک مطالعے کا تقاضا کرتا ہے۔ ہندوپاک کے مابین حالیہ فضائی کشاکش بظاہردوریاستوں کے درمیان تھی،مگر اگر آنکھیں کھلی ہوں اوربصیرت موجود ہو، تویہ صرف برصغیرکے افق پرنہیں،بلکہ ایشیاکی جیو اسٹریٹجک تصویرپرکندہ ایک فیصلہ کن لمحہ تھا اور اس تصویرکااصل معمار بیجنگ تھایاپاکستان؟
یہ محض دوہمسایہ ایٹمی طاقتوں کی روایتی گرما گرمی نہ تھی،بلکہ یہ معرکہ چینی عسکری صنعت، نظریہِ پرجوش قوم پرستی،اور سفارتی ہنر کی کامیاب مشق تھی جس نے نہ صرف ایشیابلکہ دنیاکو بھی متوجہ کیاکہ اب سپرپاورزکی نئی صف بندی میں فولادی دوست کہاں کھڑاہے۔برصغیرمیں پاکستان کے خلاف طبلِ جنگ بجانے والی انڈین فوج جب چین کی برفیلی چوٹیوں پر خاموشی کی چادر اوڑھ لیتی ہے،توسوال یہ نہیں ہوتاکہ وہ کیوں خاموش ہے،سوال یہ ہوتاہے کہ کیایہ خاموشی دراصل شکست کاپردہ تونہیں؟
یہ مقالہ ان جھڑپوں کی روشنی میں یہ ثابت کرنے کی کوشش ہے کہ اصل فاتح چین رہا یا پاکستان نہ فقط عسکری صنعت کے اعتبار سے بلکہ نظریاتی اورسفارتی فضاپراپنی بالادستی کے ذریعہ ۔ میری کوشش ہوگی کہ آج کے آرٹیکل میں بھارت وپاکستان کی حالیہ فضائی جھڑپ کاتاریخی وعسکری تناظر،چین کاغیراعلانیہ مگرکلیدی کردار، چینی دفاعی صنعت کی عالمی مارکیٹ میں ساکھ ، اروناچل پردیش میں ناموں کی تبدیلی کاجغرافیائی مفہوم اورخاص وقت کے تعین اوربھارت کاسہ طرفہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ محاذ کھولنے کا تفصیلی ذکرکروں۔
معرکہ آسمان پرتھا،مگراس کی گونج بازارِدنیامیں سنی گئی۔پاکستان نے جب چین کے اشتراک سے تیارکردہ جے10 اور جے17 طیارے فضا میں بلند کیے،تویہ صرف لڑاکاپرندے نہ تھے، بلکہ یہ پاک چین کی دفاعی صنعت کے اعتماد کے پرتھے،جنہوں نے دنیاکوبتایاکہ ’’پاک فوج‘‘ اور ’’پیپلزلبریشن آرمی‘‘کی پیداواراب صرف پریڈ گراؤنڈکی زینت نہیں، بلکہ جنگی میدان کی تسخیر کا ہنربھی رکھتی ہے۔ چینی کرنل ژوبونے یہ بات یوں کہی،جیسے تاریخ کے کسی نئے صفحے پر دستخط ہورہے ہوں۔
یہ لڑائی چین کی دفاعی صنعت کیلئے ایک تشہیر تھی،ایسی تشہیرجوکتب خانوں میں نہیں،بلکہ پاک فوج نے میدانِ جنگ میں لکھی۔ واقعی،یہ پہلی بارتھاکہ چین کے لڑاکاطیارے حقیقی جنگی صورتِ حال میں آزمائے گئے،اوربقول مشرقی حکمت، پتھر پرلکیریں تبھی کھنچتی ہیں جب فولاد حرکت میں آئے۔
پاکستان اوربھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی اس وقت شدت اختیارکرگئی جب بھارت نے اپنے فضائی حملے کو’’آپریشن سندور‘‘ کا نام دیا۔دونوں جانب سے ڈرونز، میزائل، او ر لڑاکا طیارے استعمال ہوئے۔بھارت نے فرانسیسی ساختہ رافیل اورروسی طیاروں کوتعینات کیا جبکہ پاکستان نے چین کے تعاون سے تیارکردہ جے10اورجے17 طیاروںسے بھرپورجوابی کارروائی کی۔
پاکستانی فضائیہ نے سرحدپارکیے بغیر میزائل حملے کیے جن میں چھ بھارتی طیاروں کی تباہی کے دعوے شامل ہیں۔اگرچہ بھارت کی جانب سے باضابطہ تردیدکی گئی،لیکن رافیل کمپنی نے تین طیاروں کی تباہی کی تصدیق کردی،جوبذاتِ خودایک تاریخی موڑکی حیثیت رکھتاہے۔رافیل کمپنی کے سربراہ کواپنی کمپنی کی سبکی اورخفت مٹانے کیلئے یہ تسلیم کرناپڑاکہ ہم طیارے فروخت کرتے ہیں،لڑنے کیلئے حوصلہ نہیں لیکن اس کے باوجودعالمی مارکیٹ کے سٹاک ایکسچینج میں اپنی کمپنی کے حصص کی گرتی قیمتوں کو سہارا دینے میں ناکام رہے اوراس کے مقابلے میں رافیل کا شکار کرنے والے پاک چین کی مشترکہ کاوش جے ایف17تھنڈرکی حصص کی اچانک بڑھتی قیمت نے عالمی خریداروں تک یہ بھرپوراعتمادکاپیغام پہنچا دیا۔
ہندوستانی میڈیااوراس کاعسکری بیانیہ جب پاکستان کے خلاف انگارے اگلتاہے،تویوں محسوس ہوتاہے کہ شایداگلے لمحے فتحِ کابل و اسلام آباد کااعلان کردیاجائے گالیکن جب یہی سپہ سالار مشرقی لداخ کی برف پوش وادیوں میں چینی سائے دیکھتے ہیں توزبانیں گنگ، توپیں خاموش، اور بیانات غائب ہوجاتے ہیں۔سابق سیکرٹری خارجہ شیام سرن کا یہ اعتراف،کہ انڈین فوج یاتو کارروائی کرنانہیں چاہتی یا پھراس کی سکت نہیں رکھتی، دراصل بزدلی کاسفارتی اعتراف ہے۔یہ وہی زبان ہے،جوپاکستان پرگرجتی تھی،اب چین کے سامنے لرزاں ہے،آخرکیوں؟
چینی پیپلزلبریشن آرمی کے سابق کرنل ژوبو نے عالمی میڈیاسے بات کرتے ہوئے کہاکہ یہ فضائی لڑائی چین کی دفاعی صنعت کیلئے بڑی تشہیر تھی۔اس سے قبل چین کوکبھی اپنے پلیٹ فارمزکوجنگی صورتحال میں آزمانے کاموقع نہیں ملا تھا۔ واقعی،جے-10کی میدانِ جنگ میں کامیاب آزمائش کے بعدچینی کمپنی ’’چنگڈو ایئر کرافٹ‘‘ کے حصص میں40فیصد اضافہ ہوا،اس تناظرمیں فتح وکامیابی کاسہرا پاکستان کے بہادراورجری کردار کیلائیوڈیمانسٹریشن کوجاتاہے جواس بات کاواضح ثبوت ہے کہ معرکہ صرف میدان میں نہیں،بلکہ عالمی اقتصادی منڈیوں میں بھی جیتاگیا۔ یہ کارکردگی چین کے ہتھیاروں کونہ صرف ایشیا بلکہ افریقا،مشرقِ وسطی اورلاطینی امریکا کی مارکیٹوں میں معتبربناسکتی ہے۔
انڈین فضائیہ کے ترجمان ایئرمارشل اے کے بھارتی کایہ اعتراف کہ جنگ میں نقصان معمول کی بات ہے دراصل خاموش اعترافِ شکست تھا۔بھارتی حکومت کااس معاملے میں محتاط رویہ،عالمی میڈیا کی رپورٹس،اوررافیل کمپنی کی تصدیق سب مل کر یہ اشارہ دیتے ہیں کہ حقائق اب بیانیے سے بڑے ہوگئے ہیں۔یہی وہ لمحہ ہے جہاں چین نے سفارتی محاذپر بھی بھارت کوپیچھے چھوڑا۔ نہ بیان،نہ تقاریر،نہ الزاماتفقط نتائج۔ اور یہی خاموشی چینی سفارت کاری کاخاصہ ہے۔
انڈین فضائیہ کے فرانسیسی ساختہ رافیل طیارے ، جن کی خریدپراربوں کے سودے کیے گئے،پاکستانی میزائلوں کے سامنے عاجز نکلے۔تین طیاروں کی تباہی کی تصدیق رافیل کمپنی کے ترجمان نے کردی،مگر دہلی کے ایوانِ اقتدارمیں سکوت ایساچھایا جیسے آگرہ کالال قلعہ ماتم کر رہا ہو۔ ایئرمارشل اے کے بھارتی کایہ کہناکہ جنگ میں نقصان معمول کی بات ہے،دراصل اعترافِ شکست کاایسا پردہ ہے جوقوم پرستی کے دبیزہالے میں لپیٹ دیاگیا۔یہ بیان چیخ چیخ کرکہتاہے کہ تم نے زخم چھپانے کی کوشش کی،مگرخون رستا رہا اور دنیا دیکھتی رہی۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: رافیل کمپنی دفاعی صنعت نہیں بلکہ یہ فضائی چین کے چین کی

پڑھیں:

دیسی گھی کھا کے جی

اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے دلاور فگارکی، منفرد لب و لہجہ کے شاعر تھے اور ان جیسا شاعر مشکل ہی سے پیدا ہوگا۔ اس وقت ہمیں ان کا ایک زبردست شعر یاد آرہا ہے جو انھوں نے اس زمانہ میں کہا تھا جب برصغیر کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ پنجاب میل اس دورکی سب سے تیز میل ٹرین ہوا کرتی تھی۔ شعر یوں تھا۔

کھا کے دیسی گھی اگر غالبؔ جیئے تو کیا جیے

ہم کو دیکھو جی رہے ہیں سونگھ کر سرسوں کا تیل

اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ لوگوں کو سرسوں کا خالص تیل بھی میسر نہیں ہے۔ بیچارے بناسپتی گھی کھا کر جی رہے ہیں۔ برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ جب بناسپتی گھی آیا تھا تو اس کے بارے میں یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ بناسپتی گھی کھانے والوں کی چوتھی نسل اندھی ہوگی۔ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ یہ بات صد فیصد درست تھی۔

اس کا اندازہ اس بات سے باآسانی اور بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آج کے بچوں کو نظر کے چشمے لگے ہوئے ہیں۔ ان بیچاروں کو دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے اور ترس آتا ہے کہ یہ کم نظری کی بیماری میں مبتلا ہیں جس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ جا بجا چشمے کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں اور چشمہ فروشوں کا کاروبار زوروں پر ہے اور ان کے وارے نیارے ہو رہے ہیں۔

چشمہ فروشی کا بزنس دوسرے کاروباروں کے مقابلے میں بے حد منافع بخش ہے۔ ہماری صحت کا دار و مدار ہماری روزمرہ کی خوراک پر ہے۔ جیولن تھرو کے پرانے عالمی ریکارڈ کو توڑ کر نیا ریکارڈ قائم کرنے والے عظیم پاکستانی ارشد ندیم اپنے مدمقابل کو شکستِ فاش دے کر عالمی شہرت کے مالک بن گئے۔ ان کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ اپنی خوراک میں خالص دیسی گھی استعمال کرتے ہیں۔

خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنھیں دیسی گھی میسر ہے۔ اسی لیے تو بچوں کے مشہور شاعر اسماعیل میرٹھی نے اپنی خوبصورت نظم میں جس کا عنوان’’ ہماری گائے‘‘ ہے یہ کہا ہے کہ:

دودھ دہی اور مَٹّھا مسکا

دے نہ خدا تو کس کے بس کا

پاکستان کے عوام صرف آم، قوالی اور قورمے کی خوشبو تک ہی محدود نہیں بلکہ صبح سویرے نانی اماں کے کچن سے اٹھتی ہوئی دیسی گھی کی مہک کو بھی محسوس کرتے ہیں۔ دیسی گھی کوئی عام چکنائی نہیں بلکہ یہ ہر گھرکی لذت، یادوں اور جذبات سے جڑا ہوا ایک خزانہ ہے۔

ہمارے ہاں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، بجلی آنکھ مچولی کھیلتی رہتی ہے، انٹرنیٹ کا بھی کوئی بھروسہ نہیں لیکن جو چیز نسل در نسل چلی آ رہی ہے وہ ہے دیسی گھی۔ یہ وہ واحد چیز ہے جو نانی اماں سے لے کر ان کی نیوٹرشنسٹ نواسی تک سب کو ہر دلعزیز ہے بس استعمال کا طریقہ جدا جدا ہے۔ نانی اماں گھی چمچے سے ڈالتی تھیں اور نواسی ’’ اسپرے گھی‘‘ استعمال کرتی ہے، تاہم گھی کا چراغ آج بھی جل رہا ہے۔

گھی کا رشتہ پاکستانی دسترخوان سے ایسا ہی ہے جیسے کرکٹ کا موسم بہار سے۔ اگر صبح پراٹھا گھی کے بغیر ہو تو وہ ناشتہ نہیں بلکہ خالی پلیٹ کی بے بسی لگتی ہے۔ دیسی گھروں میں گھی صرف خوراک نہیں بلکہ ایک پیغام بھی ہوتا ہے:

’’محبت سے پکایا ہے، جی بھر کے کھاؤ۔‘‘

 دیسی گھی وہ نعمتِ غیر مترقبہ ہے جس کے بغیر نہ پراٹھا مکمل ہوتا ہے اور نہ کھچڑی میں روح اترتی ہے۔ یہ وہ جادو ہے جو نہ صرف کھانے کو کھانا بناتا ہے بلکہ رشتوں میں مٹھاس بھی گھولتا ہے۔

دیسی گھی کی قیمت اب تقریباً اتنی ہو چکی ہے جتنی ایک نئے فون کی۔ پہلے لوگ گھی چمچے سے نکالتے تھے، اب قطرہ قطرہ گن کر استعمال کرتے ہیں جیسے آبِ زم زم ہو۔

مہنگائی کے اس دور میں گھی کی قیمت دیکھ کر دل کرتا ہے کہ اسے بینک لاکر میں رکھوا دیا جائے۔ ایسے حالات میں اگر کسی کے گھر میں گھی کی بڑی بوتل نظر آجائے تو لوگ رشک سے اسے کہتے ہیں۔

’’ بھائی صاحب کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں‘‘

اور دل میں جلتے ہیں جیسے بغیر گھی کے پراٹھا۔

لیکن پھر بھی جب کبھی گھر میں کوئی خوشی کا موقع ہو یا مہمان کی آمد ہو تو پہلا سوال یہی ہوتا ہے۔

’’ کیا گھی والے پراٹھے رکھے ہیں یا بسکُٹ سے کام چلانا پڑے گا؟‘‘

ایک وقت وہ تھا جب نانی اماں گھر میں بیٹھ کر گھی بنایا کرتی تھیں۔ اب بھلا نئی نسل کہاں اتنی محنت کرے؟ کبھی نہیں ! وہ تو ایپ سے’’ آرگینک دیسی گھی‘‘ آرڈرکرتے ہیں جو 3000 روپے فی کلو ہوتا ہے اور ذائقہ ایسا جیسے خالی پلاسٹک چبا رہے ہوں۔

 نوجوان نسل کے لیے توگھی ایک ایسا دشمن بن چکا ہے جو ان کے ’’سکس پیک‘‘ کا راستہ روکتا ہے۔ صبح سویرے جم جانے والے نوجوان جب کسی دعوت میں دیسی گھی والی پتیلی دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں۔

’’ یار! میں تو صرف بوائلڈ چکن پر ہوں۔‘‘

ایسے وقت میں دل کرتا ہے کہ ان کے منہ میں پراٹھا رکھ کر کہوں:

’’ یہ ہے وہ ذائقہ جو تم نے پروٹین بارزکے بدلے قربان کردیا ہے‘‘

نوجوان نسل کا المیہ: ’’ گھی؟ اوہ نو،کیلوریز!‘‘

آج کا نوجوان دو چیزوں سے سب سے زیادہ ڈرتا ہے۔ تعلق ختم ہونے سے اور گھی سے حاصل ہونے والی کیلوریز سے۔ اب جم جانے والے نوجوان کہتے ہیں۔ ’’ گھی؟ میں تو ایووکاڈو آئل میں ابلے انڈے کھاتا ہوں۔‘‘ ’’ ارے بیٹا ، اگر تم نے کبھی ناشتہ میں گھی والا پراٹھا ساتھ میں دہی اور آخر میں لسی نہیں پی تو تم کیا جیئے؟‘‘ یہ نوجوان بھول گئے ہیں کہ دیسی گھی وہ چیز ہے جس پر ہماری پوری قوم کی بھوک، محبت اور مزاج کا انحصار ہے۔

کچھ نوجوانوں کا حال یہ ہے کہ ایک طرف جم جا کر کیلوریز جلاتے ہیں اور دوسری طرف گھر آ کر چپکے سے گھی والا چپاتی لپک لیتے ہیں۔ پوچھو تو جواب ملتا ہے۔ ’’ امی نے زبردستی کھلا دیا ورنہ میں تو صرف اُبلی ہوئی بروکلی پر ہوں!‘‘ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ’’ گھی کھا کے مکرنا ہماری قومی روایت بن چکی ہے۔‘‘ شہر کے نوجوان چاہے لاکھ کیلوریزگنیں لیکن دیہات میں آج بھی ناشتہ وہی تندورکی روٹی، مکھن کی تہہ اور اوپر سے ایک چمچ دیسی گھی۔ وہاں گھی صحت کا دشمن نہیں بلکہ نظامِ ہاضمہ کا محافظ سمجھا جاتا ہے۔ گاؤں والے تو یہاں تک کہتے ہیں’’ گھی کھاؤ، بلڈ پریشر نیچے لاؤ!۔‘‘ اب سائنس کیا کہتی ہے وہ بعد کی بات ہے۔

دیہی علاقوں میں توگھی کا راج ابھی تک قائم و دائم ہے۔ وہاں نہ کیلوریز کا تصور ہے اور نہ دل کی بیماری کا ڈر۔ وہاں تو صبح گھی والا پراٹھا، دوپہرکو گھی والی دال اور رات کو گھی والا حلوہ کھا کر ہی زندگی گزرتی ہے، لہٰذا گھی کا اصل محافظ اب بھی وہی دیہاتی چچا ہیں جو کہتے ہیں ’’ گھی کھاؤ، صحت پاؤ، ڈاکٹر سے دور رہو۔‘‘

اگرچہ دیسی گھی کے مخالفین بڑھتے چلے جا رہے ہیں لیکن سچ یہی ہے کہ یہ وہ چکنائی ہے جو نسلوں کو جوڑتی ہے۔ مستقبل میں ہو سکتا ہے بازار میں ’’ زیرو فیٹ دیسی گھی، کولیسٹرول کنٹرول گھی یا اسمارٹ گھی جیسی بوتلیں آجائیں لیکن جو خوشبو چولہے سے اُٹھتی ہے وہ تب بھی وہی ہوگی۔ دیسی گھی کا مستقبل اسی وقت ختم ہوگا جب پاکستانیوں کا ذائقہ مرجائے گا اور وہ دن ابھی بہت دور ہے۔ جیسے ’’ بٹر بورڈز‘‘ کا فیشن آیا ہے کل کو ’’ گھی بورڈ‘‘ کا فیشن بھی آئے گا۔ لڑکیاں بوٹیاں گھی میں ڈبونے کی وڈیوز ڈالیں گی اورکیپشن ہوگا ’’ گھی سے زندگی۔‘‘

گھی پاکستان کا وہ ثقافتی ستون ہے جو نہ صرف کھانے بلکہ بول چال میں بھی جڑیں رکھتا ہے۔ یہ محض چکنائی نہیں بلکہ ایک ذائقہ، تعلق اور تہذیب ہے تو یاد رکھیں’’ اگر زندگی میں لذت چاہیے تو پراٹھا گھی سے اور بات نمک سے ہونی چاہیے۔‘‘

متعلقہ مضامین

  • آن لائن ٹیکسی’ ’کریم‘‘ کا پاکستان میں اپنی سروس بند کرنے کا اعلان
  • دو تنازعات، ایک ایجنڈا، مسلم خودمختاری پر مشترکہ جارحیت
  • عالمی بحران کے مقابل یکجہتی کی پکار اور اپیل
  • فوجی فرٹیلائزر کا پی آئی اے کے حصص کے حصول میں دلچسپی کا اظہار
  • ایران اور اسرائیل کی جنگ۔۔۔ یقین کیجئے فتح حق کی ہی ہوگی
  • دیسی گھی کھا کے جی
  • ایران پر حملوں کا مقصد مشرق وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کرنا ہے، اسرائیلی صدر
  • ارشد ندیم کو فوربز کا عالمی اعزاز، 30 سال بعد پاکستان کی تاریخ رقم
  • فوجی فرٹیلائزر کا پی آئی اے کے حصص خریدنے میں دلچسپی کا اظہار