دنیا طاقت، سازشوں اور مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ انہی عوامل کی روشنی میں مئی اور جون 2025 ء کے مہینے دو بظاہر الگ لیکن حیرت انگیز طور پر مماثل تنازعات کی وجہ سے عالمی سیاسی تاریخ میں نقش ہو چکے ہیں۔ایک تنازع پاکستان اور بھارت کے درمیان، جبکہ دوسرا اسرائیل اور ایران کے مابین پیش آیا۔ اگرچہ ان دونوں محاذوں کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ تھا، لیکن ان کی نوعیت، طریقہ کار، اور پس پردہ کارفرما اتحاد ایک جیسے تھے۔ یہ محض اتفاقیہ جھڑپیں نہ تھیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دو مسلم ممالک کو نشانہ بنانے والی مربوط جارحیت تھی۔ ان دونوں میدانوں میں اسرائیل اور بھارت کے درمیان ایک مشترکہ اسٹریٹیجک فریم ورک نمایاں نظر آیا—طاقت کا ایک محور جو خطے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے اشتعال انگیزی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔
7 مئی 2025 ء کی صبح، پاکستان کو بھارتی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور خودمختاری پر حملے کے جواب میں فوجی کارروائی پر مجبور ہونا پڑا۔ معتبر عسکری رپورٹس کے مطابق، بھارتی ڈرونز نے آزاد جموں و کشمیر اور پاکستانی حدود میں گہرائی تک فضائی نگرانی کی کوشش کی، جسے انسداد دہشت گردی کی مشق کا نام دیا گیا۔ جواباً، پاکستان نے ان ڈرونز کو مار گرایا اور لائن آف کنٹرول کے قریب بھارتی فوجی چوکیوں پر محدود اور درست نشانہ بناتی کارروائیاں کیں۔
اس واقعے کو منفرد بنانے والی بات یہ تھی کہ گرائے گئے ڈرونز بھارتی نہیں بلکہ اسرائیلی ساختہ تھے۔ دفاعی تجزیہ نگاروں اور الیکٹرانک فرانزک ٹیموں نے ان ڈرونز کا سراغ اسرائیلی ادارے ’’ایل بٹ سسٹمز‘‘سے لگایا، جن میں ’’ہرمیس‘‘ 900 اور ’’ہاروپ‘‘ جیسے جدید جنگی ڈرون شامل تھے جو پہلے غزہ اور لبنان میں استعمال ہو چکے ہیں۔ مزید حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ان ڈرونز کو اسرائیل سے نہیں بلکہ بھارتی ریاست راجستھان کے علاقے جیسلمیر میں قائم ایک کنٹرول سینٹر سے چلایا جا رہا تھا، جہاں اسرائیلی دفاعی تکنیکی ماہرین بھارت اور اسرائیل کے درمیان 2023 ء میں دستخط شدہ دفاعی تعاون کے معاہدے کے تحت تعینات تھے۔ یہ اب قیاس آرائی نہیں بلکہ براہ راست اشتراک تھا۔
اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والا انکشاف یہ تھا کہ 1 سے 7 مئی کے درمیان اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان کم از کم چار بار رابطے ہوئے۔ یورپی انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک کیبل کے مطابق، نیتن یاہو نے بھارت کو ”حکمتِ عملی کی معلومات، تکنیکی مدد، اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی تحفظ” کی یقین دہانی کروائی۔ یہ پوری کارروائی نہ صرف پاکستان کو اکسانے کے لیے بلکہ مستقبل میں کسی بڑی جنگ کی صورت میں پاکستانی ردعمل کا اندازہ لگانے کے لیے کی گئی تھی۔
اس خفیہ ایجنڈے کی تصدیق نیتن یاہو کے ایک مبینہ انٹرویو میں بھی ہو چکی ہے جس میں انہوں نے گفتگو کے دوران واضح طور پاکستان اور ایران دونوں کو ’’ایسے بنیاد پرست اسلامی ریاستیں قرار دیا جو جوہری طاقت رکھتی ہیں یا اس کے قریب ہیں‘‘ اور مزید یہ بھی کہا کہ ’’عالمی برادری کو ان نظریاتی جوہری خطرات کے خلاف چوکنا رہنا ہوگا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اگرچہ ہم ایران پر توجہ دے رہے ہیں، ہمیں پاکستان کے اسٹریٹیجک مقام اور عسکری صلاحیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔خصوصاً جب وہ تہران کے ساتھ نظریاتی طور پر ہم آہنگ ہو۔‘‘ یہ بیانات اس نام نہاد ’’پیشگی دفاع‘‘ کے پردے میں خطے میں جارحیت کو جواز دینے کی کوشش تھے، جو مسلم دنیا کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 7 مئی کی کشیدگی سے پہلے امریکی نائب صدر نے عوامی سطح پر اعلان کیا کہ ’’امریکہ کا پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کوئی کردار نہیں۔‘‘ لیکن جب صورت حال بگڑنے لگی اور عالمی منڈیوں میں بے چینی پھیل گئی، تو امریکی صدر نے مداخلت کی اور دونوں فریقوں پر دباؤ ڈال کر پس پردہ مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی کروا دی۔ یہ امریکی رویہ،پہلے لاتعلقی، پھر مداخلت، یہ ظاہر کرتا ہے کہ مغرب کا فیصلہ کن کردار اصولی بنیاد پر نہیں بلکہ جغرافیائی سیاسی حساب کتاب پر مبنی ہوتا ہے۔ایک بار پھر بھارت سے ہم آہنگی واضح نظر آئی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حملے سے چند گھنٹے قبل نیتن یاہو اور مودی کے درمیان ایک اور رابطہ ہوا، جس کی تصدیق بین الاقوامی میڈیا نے تل ابیب اور نئی دہلی کے درمیان خفیہ پیغامات کی ترسیل سے کی۔ اس کے ساتھ ہی ایک سائبر حملہ بھی کیا گیا، جس سے ایران کے 40 فیصد فضائی ٹریفک کنٹرول نظام اور تیل کی برآمدات کی مواصلاتی تنصیبات متاثر ہوئیں۔ تہران میں سائبر سیکورٹی ماہرین نے اس میلویئر کا سراغ ’’ٹاٹا ایڈوانسڈ سسٹمز‘‘ اور ’’اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز‘‘ کے اشتراک سے تیار کیے گئے سافٹ ویئر سے لگایا۔ یہ ’’سٹکس نیٹ‘‘ اور’’فلیم‘‘ وائرسز کا امتزاج تھا، جو SCADA سسٹمز کو نشانہ بنانے کے لیے تیار کیا گیا تھا،یہ بھارت اور اسرائیل کی مشترکہ سائبر جنگی حکمت عملی کا ثبوت تھا۔
ایران نے، بالکل پاکستان کی طرح، اپنی خودمختاری کا بھرپور دفاع کیا۔ ’’باور-373‘‘ اور ’’خورداد 15‘‘ دفاعی نظاموں نے 19 میزائل فضا میں ہی ناکارہ بنا دیے۔ جواباً، ایران نے مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں میں موجود اسرائیلی انٹیلی جنس مراکز پر ’’فاتح-110‘‘ میزائلوں سے محدود جوابی حملہ کیا۔ ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے قوم سے ایک نادر خطاب میں ’’صہیونی-ہندو گٹھ جوڑ‘‘ کی مذمت کی اور عالمِ اسلام سے اتحاد کی اپیل کی۔
دونوں تنازعات میں ایک واضح قدر مشترک تھی؛ اسرائیل اور بھارت کا اشتراک، جس میں عسکری، تکنیکی اور سائبر مہارت کو یکجا کر کے مسلم طاقتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایران اور پاکستان ان کے نزدیک نظریاتی، اسٹریٹیجک اور جغرافیائی سیاسی رکاوٹیں ہیں۔ اسرائیل ایران کو جوہری میدان میں حریف سمجھتا ہے جبکہ بھارت پاکستان کو جنوبی ایشیا میں اپنی چودھراہٹ کی راہ میں رکاوٹ۔
لیکن اصل تشویش عالمی برادری کی خاموشی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے کسی ہنگامی اجلاس کی زحمت تک نہ کی۔ مغربی میڈیا نے پاکستان-بھارت تنازعے کو محض ’’سرحدی کشیدگی‘‘ اور اسرائیل-ایران جنگ کو ’’روک تھام کا حملہ‘‘ قرار دیا۔ ایک بھی مذمتی قرارداد منظور نہ ہوئی۔ یہ منافقانہ رویہ اس عالمی انصاف کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتا ہے جو صرف تب جاگتا ہے جب غیر مسلم مفادات خطرے میں ہوں۔
ایسے پیچیدہ حملوں کے مقابلے میں، پاکستان اور ایران کو محض ردعمل سے آگے بڑھ کر حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ انٹیلی جنس کا تبادلہ، سائبر دفاع میں اشتراک، مشترکہ فوجی مشقیں، اور سفارتی ہم آہنگی مستقبل میں ایک مضبوط اتحاد کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ تنہا ریاستیں گرتی ہیں، لیکن متحد قومیں قائم رہتی ہیں۔ دونوں ملکوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اب ان کی بقا اور عزت صرف مذہب یا ثقافت میں نہیں، بلکہ تقدیر میں بھی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔
مئی اور جون 2025 ء کی یہ جنگیں صرف ڈرونز اور میزائلوں کی قوت کی وجہ سے یاد نہیں رکھی جائیں گی، بلکہ اس شعور کے باعث بھی یاد رکھی جائیں گی جو انہوں نے مستقبل کی جنگوں کی نوعیت پر ڈالا۔ یہ ہائبرڈ جنگوں کا دور ہے، جہاں گولیاں اور بائٹس ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ مگر اس دور میں بھی ایک سچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے: جب ایک قوم متحد ہو، تو اسے شکست نہیں دی جا سکتی۔ ایران اور پاکستان نے ان حملوں سے صرف زندہ رہنا ہی نہیں سیکھا بلکہ مضبوط ہو کر ابھرے، ان کی عوام پُرعزم ہوئیں، اور ان کے دشمنوں کو انتباہ ملا۔ بالآخر، ظلم فولاد کے ساتھ چل سکتا ہے، مگر تاریخ ہمیشہ عدل کے ساتھ چلتی ہے اور عدل، اگرچہ تاخیر سے، کبھی مرتا نہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان اور نیتن یاہو کے درمیان اور بھارت نہیں بلکہ کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

سینیٹ اجلاس،اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور ایران سے اظہار یکجہتی کےلئے مسلمان ممالک کے مشترکہ بیان کی کاپی ایوان میں پیش

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 جون2025ء) نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے ایران کے خلاف اسرائیل کی جاری فوجی جارحیت کے خلاف اور ایران سے اظہار یکجہتی کےلئے مسلمان ممالک کی جانب سے متفقہ طور پر جاری کئے گئے مشترکہ بیان کی کاپی سینیٹ میں پیش کر دی۔ بدھ کو ایوان بالا کے اجلاس میں انہوں نے یہ کاپی ایوان میں پیش کی ۔

تیزی سے بدلتی علاقائی صورتحال اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں غیرمعمولی اضافے بالخصوص ایران کے خلاف اسرائیل کی جاری فوجی جارحیت کے پیش نظر الجزائر، بحرین، برونائی دارالسلام، چاڈ، کوموروس، جبوتی، مصر، عراق، اردن، کویت، لیبیا، موریطانیہ، پاکستان، قطر، سعودی عرب، صومالیہ، سوڈان، ترکیہ، اومان اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں 13 جون 2025 سے اسلامی جمہوریہ ایران پر اسرائیل کے حملوں اور کسی بھی ایسے اقدام کو جو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی خلاف ورزی کرے ، کی دوٹوک الفاظ میں مذمت کی۔

(جاری ہے)

وزرائے خارجہ نے ریاستوں کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام کے ساتھ ساتھ اچھی ہمسائیگی کے اصولوں پر عمل اور تنازعات کے پرامن تصفیے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے خلاف اسرائیلی مخامصت کو روکنے کی ضرورت ہے جو مشرق وسطی ٰمیں بڑھتی کشیدگی کے دوران سامنے آئی ۔ موجودہ خطرناک کشیدگی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے پورے خطے کے امن و استحکام پر سنگین نتائج برآمد ہونے کا خدشہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک جامع جنگ بندی اور امن کی بحالی کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وزرائے خارجہ نے کہا کہ جوہری اور بڑے پیمانے پر تباہی کے دیگر ہتھیاروں سے پاک مشرق وسطیٰ کے علاقے کے قیام کی فوری ضرورت ہے جو متعلقہ بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق خطے کی تمام ریاستوں پر بغیر کسی استثنیٰ کے لاگو ہوں، نیز مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کو جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلائو (این پی ٹی ) کے معاہدے میں شامل ہونے کی فوری ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی متعلقہ قراردادوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلوں کے مطابق جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے سے گریز کرنے کی انتہائی اہمیت ہے کیونکہ ایسی کارروائیاں بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی انسانی قانون بشمول 1949 کے جنیوا کنونشنز کی خلاف ورزی ہیں۔ انہوں نے مشترکہ بیان میں کہا کہ ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے پائیدار معاہدے تک پہنچنے کا واحد قابل عمل ذریعے کے طور پر مذاکرات کے راستے پر تیزی سے واپسی کی فوری ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قانون کے متعلقہ قواعد کے مطابق بین الاقوامی آبی گزرگاہوں میں نیویگیشن کی آزادی کے تحفظ کی اہمیت اور میری ٹائم سکیورٹی کو نقصان پہنچانے سے گریز کرنا ضروری ہے۔ مشترکہ بیان کے مطابق سفارت کاری، بات چیت اور اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کی پاسداری، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق خطے میں بحرانوں کے حل کا واحد قابل عمل راستہ ہے اور یہ کہ فوجی ذرائع جاری بحران کا دیرپا حل نہیں لاسکتے۔\932

متعلقہ مضامین

  • چین-وسطی ایشیا تعلقات کا نیا دور
  • سینیٹ اجلاس،اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور ایران سے اظہار یکجہتی کےلئے مسلمان ممالک کے مشترکہ بیان کی کاپی ایوان میں پیش
  • عالمی بحران کے مقابل یکجہتی کی پکار اور اپیل
  • ایران پر   اسرائیلی جارحیت ، مفتی تقی عثمانی  نے اہم بیان جاری کردیا
  • حکومت ہمارے ساتھ بیٹھ کر مشترکہ قومی ایجنڈا تیار کرے، اسد عمر
  • ایران کیخلاف اسرائیلی جارحیت پر مسلم ممالک کا اہم مشترکہ اعلامیہ جاری
  • ایران پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلم دنیا متحد، مشترکہ اعلامیہ میں جنگ بندی کا مطالبہ
  • ٹرمپ انتظامیہ بھارت میں مسلم دشمنی کا نوٹس لے،جسٹس فار آل