ٹنڈو جام ، زرعی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کی تقریب تقسیم
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ٹنڈو جام (نمائندہ جسارت) سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام میں بورڈ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ کے 170ویں اجلاس کے دوران مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے 8 اسکالرز کو پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دیں گئیں اجلاس کی صدارت وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر الطاف علی سیال نے کی تفصیلات مطابق سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے مرکزی کمیٹی روم میں بورڈ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ کے 170 واں اجلاس یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر لطاف علی سیال کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں پی ایچ ڈی ڈگریاں اینیمل نیوٹریشن، ایگرانومی، انسیکٹولوجی، اریگیشن اینڈ ڈرینیج، پلانٹ پیتھالوجی، پلانٹ بریڈنگ اینڈ جینیٹکس اور ویٹرنری فزیالوجی و بایو کیمسٹری جیسے اہم زرعی شعبہ جات میں آٹھ اسکالرز کو پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دی گئیںجن کا براہِ راست تعلق پاکستان کے زرعی نظام کی بہتری اور کسانوں کے معاشی حالات سے ہے۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر ڈاکٹر الطاف علی سیال نے کہا کہ تحقیق اور اعلیٰ تعلیم کا اصل مقصد وہ علم پیدا کرنا ہے جو زمین پر کام کرنے والے کسان کے لیے فائدہ مند ہو انہوں نے کہا کہ آج کے یہ پی ایچ ڈی اسکالرز صرف ڈگری یافتہ محقق نہیں بلکہ وہ قابل فخر سپاہی ہیں جو اپنے علم اور تحقیق کے ذریعے ملکی زراعت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے انہوں نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری یونیورسٹی سے نکلنے والا ہر اسکالر دیہی ترقی، خوراک کی سیکیورٹی، اور زرعی پائیداری میں اپنا مثبت کردار ادا کرے اس موقع پر ڈگری حاصل کرنے والوں میں اسکالر عزیز احمد نے چکن میں لپیس اور ایمولسیفائر کی شمولیت سے چربی کے استعمال پر تحقیق کی، جبکہ نظیر علی پنہور نے آبی تناؤ میں گندم کی جینیاتی خصوصیات کا مطالعہ کیا مس صنم کمبھار نے مکئی میں آئرن اور زنک کی بائیو فورٹیفکیشن کے ذریعے غذائیت میں بہتری پر تحقیق مکمل کی مختار عمر نے کپاس کی فصل کے کیڑوں کے خلاف حیاتیاتی کنٹرول ایجنٹس کے مؤثر استعمال پر کام کیا۔
.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پی ایچ ڈی
پڑھیں:
مودی کی ناکام زرعی پالیسیاں
ریاض احمدچودھری
بھارت میں کسانوں کی خودکشیوں سے متعلق نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی تازہ رپورٹ نے مودی حکومت کی ناکام زرعی پالیسیوں کا پردہ چاک کر دیا۔اعداد و شمار کے مطابق 2014 سے 2023 کے درمیان بھارت میں ایک لاکھ گیارہ ہزار سے زائد کسان خودکشی کر چکے ہیں۔ صرف سال 2023 میں ریاست مہاراشٹرا میں سب سے زیادہ اموات ریکارڈ ہوئیں، جہاں 10 ہزار سے زائد کسانوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔بین الاقوامی تحقیقاتی جریدے انٹرنیشنل جرنل آف ٹرینڈ ان سائنٹیفک ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے مطابق بھارتی کسانوں کی خودکشیوں کی بنیادی وجوہات میں 38.7 فیصد قرض اور 19.5 فیصد زرعی مسائل شامل ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی کے نام نہاد ‘شائننگ انڈیا’ کے پیچھے دیہی علاقوں میں بڑھتی مایوسی، غربت اور ناانصافی نے کسانوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ زرعی بحران پر حکومت کی خاموشی اور ناکام پالیسیوں نے مودی کابینہ کو شدید تنقید کی زد میں لا دیا ہے۔
مودی حکومت کی ناقص پالیسیوں کے نتیجے میں روزانہ تقریباً 31 بھارتی کسان خودکشی پر مجبور ہو رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کسانوں کو دگنی آمدنی کا وعدہ اور فصل بیمہ اسکیموں کی ناکامی نے لاکھوں کسانوں کو قرض کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔بھارت کے مختلف علاقوں میں زرعی بحران کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس بحران کا مرکزہ اجناس کی مسلسل گرتی ہوئی قیمتیں اور پھر بدحالی سے دل برداشتہ ہو کر خودکشی کرنے والے ہزارہا کسان بتائے جاتے ہیں۔بھارت کے زرعی بحران کے تناظر میں ایک بڑی پیش رفت مختلف علاقوں کے کسانوں کا ملکی دارالحکومت نئی دہلی کی جانب نومبر 2018 کے آخری ایام میں احتجاجی مارچ بھی تھا۔ اس احتجاج کے دوران ملک کے مختلف حصوں سے ایک لاکھ سے زائد غریب کسان نئی دہلی پہنچے اور حکومتی ایوانوں تک اپنی صدائے احتجاج پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔ مظاہرین وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت سے اپنی مشکلات کے ازالے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
وجیشری بھگت انتیس برس کی ایک خاتون کسان ہے اور اْس کا تعلق مغربی بھارتی ریاست مہاراشٹر سے ہے۔ وہ ایک بیوہ ہے کیونکہ اْس کے شوہر پرشانت نے بھی زرعی مفلوک الحالی کی وجہ سے خودکشی کر لی تھی۔ اس ریاست کے کسانوں کو بھی اپنی زیر کاشت زمین سے کافی فصل نصیب نہیں ہو رہی اور ان پر بینکوں سے حاصل کیے گئے قرضوں کا حجم مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ غربت کے بوجھ تلے انہیں مرنا آسان اور جینا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ مجموعی طور پر اس علاقے کے کسانوں کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے اور اسی باعث ان کے لیے زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ایسے حالات کا سامنا صرف وجے شری کو ہی نہیں، بلکہ خودکشی کرنے والے کسانوں کی لاکھوں بیواؤں کو بھی کم و بیش انہی حالات کا سامنا ہے۔ دو ماہ قبل اْس نے 80 دیگر بیواؤں کو لے کر مہاراشٹر کے ریاستی دارالحکومت ممبئی میں اختجاج بھی کیا تھا۔ وہ مثبت سماجی سکیورٹی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ اْن کے اس مظاہرے کو ایک سرگرم تنظیم مہیلا کسان ادھیکار منچ (MAKAAM) یا ‘مکام’ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس تنظیم کے مطابق یہ مظاہرہ حقیقت میں اْن کی ذات کی سلامتی کے حق میں بھی ہے۔ سرگرم کارکنوں کے مطابق ایسے مظاہروں سے یقینی طور پر حالات میں تبدیلی پیدا ہو گی۔
وجے شری بھگت جیسی کئی خواتین ہیں، جن کے شوہر خودکشیاں کر چکے ہیں اور اب انہیں شدید معاشی مشکلات اور معاشرتی بدحالی کا سامنا ہے۔ زرعی بحران کے حوالے سے آواز اٹھانے والے سرگرم کارکنوں کی ایک تنظیم سے تعلق رکھنے والی سوراجیہ مترا کا کہنا ہے کہ کھیتوں میں اسّی فیصد کام خواتین کرتی ہیں اور اس کے باوجود ریاست اْن کی مشقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ ان بیوہ خواتین کی حالت زار کا صحیح اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے۔ یہ تنظیم مہاراشٹر کے علاقے امراوتی میں فعال ہے اور اسی علاقے میں کسان سب سے زیادہ خودکشیاں کرتے ہیں۔
ڈھائی سال قبل بھی کسانوں کے احتجاج کے باعث دہلی میں خاصی ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔ ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں کا ایک بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ مختلف اہم فصلوں کی امدادی قیمتِ خرید بڑھائی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ فصلوں کی بیمہ کاری کا دائرہ وسیع کیا جائے تاکہ موسم کے ہاتھوں فصلیں تلف ہونے پر کسان کسی نہ کسی طور کام جاری رکھ سکیں۔مذاکرات کے دوران مودی حکومت نے کسانوں کو یقین دہانی کروائی تھی کہ حکومت 5 سالہ معاہدے کے تحت کسانوں سے اناج خریدے گی تاہم احتجاجی کسانوں کی طرف سے کہا گیا کہ حکومتی پیشکش ‘ہمارے مفاد میں نہیں۔’کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات پر اب بھی قائم ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت انھیں تمام 23 اناج ‘منیمم سپورٹ پروگرام’ کے تحت خریدنے کی ‘قانونی گارنٹی’ دے۔بھارتی کاشت کاروں نے 2021 میں بھی ایسا ہی احتجاج کیا تھا، کاشت کار یوم جمہوریہ کے موقعے پر رکاوٹیں توڑتے ہوئے شہر میں داخل ہو گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔