ایران نے پاسدارانِ انقلاب کے نئے انٹیلی جنس چیف کا اعلان کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
ایران نے اسرائیلی حملے میں شہید ہونے والے پاسدارانِ انقلاب کے انٹیلی جنس چیف جنرل محمد کاظمی کے بعد جنرل مجید خادمی کو نیا انٹیلی جنس سربراہ مقرر کر دیا ہے۔
ایرانی میڈیا کے مطابق جنرل خادمی پہلے وزارتِ دفاع میں انٹیلی جنس پروٹیکشن آرگنائزیشن کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں اور حساس سیکیورٹی امور میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
یہ تقرری ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل نے تہران پر حملے کیے تھے، جن میں پاسدارانِ انقلاب کے کئی سینئر افسران شہید ہوئے۔
#BREAKING
General Mohammad Pakpour, Commander-in-Chief of the IRGC, appointed General Majid Khademi as the head of the IRGC Intelligence Organization.
ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے مطابق اتوار کے روز کیے گئے اسرائیلی حملے میں انٹیلی جنس چیف جنرل محمد کاظمی، ان کے نائب جنرل حسن محقق اور ایک اور اعلیٰ افسر جنرل محسن باقری شہید ہوئے تھے۔
یہ پڑھیں: تہران پر اسرائیلی حملے میں پاسدارانِ انقلاب کے انٹیلی جنس چیف اور ڈپٹی چیف شہید
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنرل مجید خادمی کی تقرری ایران کے انٹیلی جنس نیٹ ورک کی فوری بحالی اور اسرائیلی خطرات کا مؤثر جواب دینے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
ایرانی حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ دشمن کی کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کے لیے پوری طرح تیار ہے اور اعلیٰ سطح پر انٹیلی جنس و دفاعی قیادت کی تبدیلی اسی عزم کا مظہر ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انٹیلی جنس چیف انقلاب کے
پڑھیں:
فرانس کا ایران پر دوبارہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کا اعلان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پیرس: فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے اعلان کیا ہے کہ ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد کی جائیں گی۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق میکرون نے کہا کہ یورپی طاقتوں کی مذاکراتی کوششوں کو ایران نے سنجیدگی سے نہیں لیا، اسی لیے رواں ماہ کے آخر تک پابندیاں بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق میکرون نے واضح کیا کہ ایران کی حالیہ تجاویز قابلِ عمل نہیں ہیں،ایران پر دوبارہ سے پابندیاں بحال ہو جائیں گی کیونکہ ایران نے ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔
خیال رہے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی (ای 3) نے اگست کے آخر میں 30 روزہ مذاکراتی عمل شروع کیا تھا۔ یورپی ممالک کی جانب سے ایران کو پیشکش کی گئی تھی کہ اگر وہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو دوبارہ رسائی فراہم کرے، افزودہ یورینیم کی تفصیلات سامنے لائے اور امریکا کے ساتھ براہِ راست مذاکرات پر آمادہ ہو جائے تو پابندیوں کے عمل کو مؤخر کیا جا سکتا ہے۔
واضح رہےکہ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نےکہا تھا کہ تہران نے یورپی یونین اور ای 3 کو ایک “عملی منصوبہ” فراہم کیا ہے تاکہ بحران سے بچا جا سکے، یورپی سفارت کاروں کے مطابق اس منصوبے پر کوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں آئی تھی۔
علاوہ ازیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد بھی پیش ہوئی تھی جس کے تحت ایران پر عائد پابندیاں مستقل طور پر ختم کی جا سکتی تھیں لیکن امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ امریکا، برطانیہ اور فرانس اس قرارداد کو ویٹو کر دیں گے۔
یاد رہے کہ رواں سال جون میں امریکا اور اسرائیل نے ایران کے یورینیم افزودگی پلانٹس پر حملے کیے تھے اور الزام لگایا تھا کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کے قریب ہے، حالانکہ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی نے واضح کیا تھا کہ اس دعوے کے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔
بعد ازاں صورتحال میں تبدیلی آئی اور امریکا نے ایران پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ واشنگٹن کے اس فیصلے کو بعض حلقوں نے خطے میں تناؤ کم کرنے کی کوشش قرار دیا، جبکہ ناقدین کے مطابق یہ اقدام مغربی پالیسیوں میں تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔
امریکی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے ایران نے پابندیوں کے خاتمے کو “درست اور مثبت قدم قرار دیا، امریکا نے بالآخر حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ دباؤ اور پابندیوں کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔
ایرانی حکام نے کہا کہ وہ اب بھی مذاکرات اور تعاون کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ مغربی ممالک سنجیدگی دکھائیں۔